سائنس کا تخلیقی مطالعہ، ہماری اہم ضرورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

سائنس کا تخلیقی مطالعہ، ہماری اہم ضرورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

12 جنوری 2020

یہ ترکیب یعنی ’’تخلیقی مطالعہ‘‘، یہ مجھے اپنے استادِ محترم جناب جلیل عالی کے اسباق کے دوران سیکھنے کو ملی۔ تخلیقی مطالعہ اُس مطالعے کو کہتے ہیں جس میں آپ کا ذہن سیکھنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی عمل سے بھی گزررہا ہو۔ سیکھنے کے دوران کوئی طالب علم تخلیقی عمل سے کیسے گزرتاہے؟ یعنی وہ جب کوئی نکتۂ علمی جانتاہے تو اس کے اپنے ذہن میں اُس نکتۂ علمی سے نئے نئے نکات اور نئے نئے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایسے خیالات کو اگر وہ مطالعہ کے بعد بھی یاد رکھے تو وقت کے ساتھ ساتھ اُن پر گاہے بگاہے سوچتا رہتا اور اُنہیں مزید صاف کرتا یا اُن میں اضافہ کرتارہتا ہے۔

ایسا طالب علم اپنے مطالعہ سے حقیقی فائدہ اُٹھاتاہے۔ وہ علم کے تسلسل، وسعت اور بہاؤ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جب کوئی طالب علم یا محقق علم کے تسلسل، وسعت یا بہاؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہو تو ہم کہتے ہیں کہ وہ علم کے بنیادی دھارے میں حصہ لے رہا ہے اور وہ نیا علم پیدا (Generate) کررہاہے۔

سائنس کی تمام تر ترقی ایسے ہی تخلیقی مطالعات کی مرہونِ منت ہے۔ گزشتہ سائنسدان کے کام کا تخلیقی مطالعہ کرنے والا شخص آئندہ کا سائنسدان کہلاتاہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتاہے کہ تخلیقی مطالعہ کے دوران طالب علم کو ایسے آئیڈیاز آتے ہیں جو گزشتہ علم سے بہتر،زیادہ واضح اور اُسے ترقی دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتاہے کہ تخلیقی مطالعہ کے دوران کسی طالب علم کی متخیلہ اسے کم بہتر، کم بامعنی اور کم درست خیالات کی طرف لے چلتی ہے۔ ایسا کرنے والا بھی علم کی خدمت ہی کررہاہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایتھر(Aether) کا تصور ہے۔ مائیکل سن اور مورلے کا خدا بھلا کرے، اُن کے تجربہ سے پہلے سائنسدانوں نے ایتھر کا جو تصورقائم کررکھاتھا وہ ایسے ہی کسی تخلیقی مطالعے کا نتیجہ تھا ۔ کتنی بڑی غلط فہمی تھی جو کتنے بڑے بڑے سائنسدانوں کے دماغوں میں کئی صدیوں تک سمائی رہی۔

الغرض اگر تخلیقی مطالعہ نہیں ہورہا تو اس کا مطلب ہے کہ سوچنے کے عمل پر پہرے بڑھ چکے ہیں۔ کھل کر سوچنا، ذہن بڑا کرنا، روشن خیال ہوجانا، سوچوں کو وسیع کرنا، جرأت سے سوچنا، سوال اُٹھانا، شک کرنا، اعتراض کرنا، ہرقسم کے خیال کا اظہار بے جھجک کرنا، یہ سارے اسباق جدید عہد کے جدید ترین اسباق ہیں۔یہ اسباق کسی ایک طبقہ کے لیے نہیں بنائےگئے۔ تمام انسانوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ایک سائنس کے طالب علم کے لیے بھی۔ اُسے بھی کھل کر سوچناچاہیے! اسے بھی اپنے دماغ کا کینوس تھوڑا بڑاکرنا چاہیے! ذہن کے تالے کھول کر امکانات کی وسعت پر غورکرنا چاہیے! اس کا تو یہ فریضہ تھا۔ باقیوں کے لیے تو یہ ایک نصیحت تھی۔ لیکن افسوس کہ اسی نے اس فریضے کو نہ صرف بھلا دیا بلکہ متشدد ہوکر دوسرے کے سوچنے پر بھی انگشت نمائی شروع کردی۔

میری دانست میں تو امکانات کے لیے ذہن کے دروازے کھلے رکھنا ہی ایمان بالغیب ہے۔ جتنا بڑا ذہن ہوگا اتنے زیادہ امکانات کو خوش آمدید کہے گا۔ جتنا چھوٹا ذہن ہوگا اُتنے کم امکانات کی گنجائش ہوگی اس کے پاس۔ یہ امکانات والی بات کیسے ہے بھلا؟ مثلاً ۱۹۲۰ میں آپ ہوتے اور آپ سے کوئی کہتا کہ، آنے والے دور میں ایک چھوٹی سی چیز ہوگی جس میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ ویڈیو کال ملا کر براہِ راست بات کرسکینگے تو اس وقت اگر آپ اُسے جواب دیتے کہ، ’’نہیں ایسا نہیں ہوسکتا‘‘، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امکانات کے لیے آپ کے پاس گنجائش کم ہے۔ اور اگر آپ نے کہہ دیا، ہاں ایسا ہوسکتاہے، تو اس کا مطلب ہوا کہ امکانات کے لیے آپ کے ذہن میں زیادہ گنجائش ہے۔

ادریس آزاد