کرونا وائرس "فما فوقھا” ………..ادریس آزاد

کرونا وائرس  "فما فوقھا” ………..ادریس آزاد

12 مارچ 2020

جراثیم کی کئی اقسام ہماری دشمن ہیں اور روزِازل سے ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ آج تک زمین پر پائی جانے والی بلاؤں میں سب سے بڑی بَلا مچھر کو تسلیم کیا گیاہے۔ یہ اعدادوشمار کی بات ہے، محض استعارۃً استعمال کیا گیا نام نہیں۔ مچھر نے اعدادوشمار کے لحاظ سے اب تک زمین پر پائی جانے والی ہر بُری، موذی اورخوفناک بَلا سے بڑھ کر انسان دشمنی کی ہے۔ جب کبھی مجھے اس بات کا خیال آتا ہے تو مجھے قرانِ پاک کی ایک آیت یونہی بس یاد آجاتی ہے، حالانکہ اُس آیت کا کوئی خاص تعلق اس بات سے نہیں بنتا۔ آیت یہ ہے،

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

ترجمہ:

الله اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال بیان فرمائے۔ جو مومن ہیں، وہ یقین کرتے ہیں وہ ان کے پروردگار کی طرف سے سچ ہے اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس مثال سے خدا کی مراد ہی کیا ہے۔ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا تو نافرمانوں ہی کو (۲۶)

جالندھری

خیر! کرونا وائرس کا تو مچھر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، لیکن فما فوقہا کے ساتھ بہت تعلق ہے۔ مچھر سے بڑھ کر کس چیز کی مثال دی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے مچھر سے بڑھ کر کے الفاظ سے مُراد مچھر سے جسمانی طورپر بڑی ہونا ضروری تو نہیں کیونکہ مچھر کو یہاں حقارت کے ایک درجے میں بیان کیا گیا ہے، سو مچھر سے بڑھ کر حقیر کیا چیز ہوسکتی ہے؟ بالفاظِ دیگر مچھر سے بڑھ کر معمولی؟

بہرحال آمدم برسرمطلب کہ انسان اِس کائنات میں آفتات و آلام میں گھرا ہوا ہے اور ہمیشہ سے گھرا ہوا ہی رہا ہے۔ گزشتہ زمانوں کی آفات رُک نہیں گئیں، اب بھی جاری ہیں اور پہلے سے بڑھ کر جاری ہیں لیکن ہم نے ان کے ساتھ معاملہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہم نے دشمن کی کمزور رگوں کو پکڑ لیا ہے اور اس لیے ہم اب ان آفات سے اتنے پریشان نہیں ہوتے بلکہ ان کی موجودگی میں بھی آرام سے جیتے چلے جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد ابھی تک بعض ایسی آفات بھی موجود ہیں جن کا ہم مقابلہ کرنے یا ان کے ساتھ نمٹنے کے بھی اہل نہیں ہیں، جیسا کہ زلزلہ یا سونامی، لیکن پھر بھی ہم ان کے بیچوں بیچ خوش خوش رہتے چلے جاتے ہیں۔ ہم انسان ہیں۔ اقبال کے بقول اگرہمارے راستے میں پہاڑ آجاتا ہے تو ہم پہاڑ کورکاوٹ نہیں سمجھ لیتے بلکہ اسے تسخیر کرلیتے ہیں، اس کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، اسے تبدیل کردیتے ہیں۔

فلسفیوں اور صوفیوں کے دوطرح کے نظریات رہے ہیں۔ نمبرایک ’’یہ کائنات تمہاری دوست ہے، اس کی ہرشئے کو دوست بناؤ! اس سے محبت کرو! کیونکہ دوستوں سے محبت کی جاتی ہے۔ دنیا میں رہنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایک درخت سے لے کر ایک پہاڑ تک سب تمہارے دوست ہیں سو ان سے محبت کرو!‘‘

دوسرا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے، ’’یہ کائنات تمہاری دشمن ہے۔ اسے تسخیر کرو! اگر اسے تسخیر نہیں کروگے تو یہ تمہیں تسخیر کرلے گی اور فنا کردے گی۔ کائنات کی ہر شئے کو تسخیر کرو! البتہ تسخیر کرنے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ دنیا کی ہرشئے کو فنا کردو! فنا کردیا تو دشمن باقی ہی نہ رہے گا سو فتح بیکار اور بے ذائقہ رہے گی۔ دشمن کو ختم یا فنا نہیں کیا جاتا۔ دشمن کو تسخیر کیا جاتاہے۔ وہ تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ دے اور تمہاری مرضی سے موجود رہے۔ یہ ہوتا ہے دشمن۔ سو تمہارے سامنے پہاڑ آئے تو اسے مسخر کرو! دریا آئے تو اس کا رخ موڑ دو! ضرورت پڑے تو کسی ویران سیارے کو دوٹکڑوں میں کاٹ دو اور دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ استعمال میں لاؤ!‘‘

ان دونوں نظریات میں پہلا نظریہ تصوف میں وحدت الوجود کہلاتاہے۔ بدھ مت میں ایسے بھی فرقے پائے جاتے ہیں جو ہمیشہ ہی ماسک پہن کر رکھتے ہیں کہ خدا کی کوئی مخلوق ان سے نادانستگی میں نِگلی نہ جائے اور کہیں مر نہ جائے۔ کائنات کی ہرشئے ہماری دوست ہے اور اس لیے زندگی کی ہرشکل ہمارے لیے مقدس و محترم ہے۔ انقلابِ چین کے بعد شہنشاہ پھوہی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تو ساتھ ہی چیرمین ماؤ کا حکم آیا کہ مُلک میں مکھیاں مارو! مکھیوں کی اتنی زیادتی ہوگئی تھی کہ بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ بڑھ گیا تھا۔ پھوہی اپنی آب بیتی میں لکھتا ہے کہ مجھے بھی جیل میں ایک مکھی مار ’’پنکھی‘‘ سی پکڑادی گئی۔ لیکن میں مکھی کو کیسے مارتا؟ مکھی تو جاندار تھی۔ کسی جاندار کو کیسے مارا جاسکتاہے؟ ایک زندگی کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟

لیکن پھوہی کو مکھیاں بالآخر مارنا پڑیں کیونکہ حکمِ حاکم تھا اورساتھی قیدی غصہ کرتے یا مذاق اُڑاتے یا شکایت لگاتے تھے کہ یہ مکھیاں نہیں مارتا۔ پھوہی بدھ مت کا ماننے والا تھا۔ ہندومت میں بھی ایسے فرقے ہیں۔ اسلام سمیت دیگر کئی بڑے مذاہب میں بھی یہی وحدت الوجودی طرز کی محبتِ کائنات کا تصورپایا جاتاہے۔ فی زمانہ تو کچھ زیادہ ہی اس تصورکے چاہنے والے موجود ہیں ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فی زمانہ عملی لحاظ سے دنیا پر بدھ مت کے تصورات کا غلبہ ہے۔

لیکن اس کے برعکس کائنات کو تسخیر کرنے کا نظریہ بھی ہمیشہ موجود رہا ہے۔علامہ اقبال اس نظریہ کے بہت بڑے مبلغ ہیں۔ یہ قران کا نظریہ ہے۔ تسخیرِ کائنات کا حکم قران نے ہی دیا ہے۔ ڈاکٹرسیدعابدعلی عابد کے بقول اقبال کائنات کو انسان کا ایسا دشمن تصورکرتے ہیں جسے تسخیر کرنا شرَفِ انسانیت ہے۔

ادریس آزاد