اگریہ سچ ہے کہ تم چاہتے ہو جی سے مجھے۔۔۔۔ادریس آزاد

اگریہ سچ ہے کہ تم چاہتے ہو جی سے مجھے۔۔۔۔ادریس آزاد

2 مارچ 2020

اگریہ سچ ہے کہ تم چاہتے ہو جی سے مجھے

تو کیوں نکال رکھا ہے برادری سے مجھے

میں اپنے کمرے کی بتّی جلا کے سوتا ہوں

بڑی شدید محبت ہے روشنی سے مجھے

ذرا سا پاؤں پھسلنے پہ گر گیا تھا میں

اجل نکال کے لائی ہے زندگی سے مجھے

نہ سنگ زَن، نہ کوئی سنگ، دشت چھوڑآیا

جُنوں میں عشق ہوا ہے گلی گلی سے مجھے

تو پھر دماغ میں وہ مستقل ہی رہنےلگے

لگے تھے پہلی نظر میں جو سرسری سے مجھے

میں منطقی تھا بہت دیر تک الجھتا رہا

بچا نہ پایا کوئی پنجۂ پَر ی سے مجھے

وہ فرش ِ ذہن پہ چُپکے سے پاؤں دھرتی ہے

کوئی عجیب تعلق ہے آگہی سے مجھے

یہ کس کی قبر میں ، مَیں آگِرا ہوں جیتے جی

یہ کون سانپ ڈرانے لگے ابھی سے مجھے

ملوں جو تجھ سے تو کچھ کہہ سکوں، سو مشق ِ سخن۔

مگر اِک اور بھی مطلب ہے شاعری سے مجھے

مزید ہم نہ گزاریں دنوں کو گِن گِن کے

بس اتنا کہنا ہے اکیسویں صدی سے مجھے

ادریس آزاد