زمام ِ لمحۂ موجود بس میں رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

زمام ِ لمحۂ موجود بس میں رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

14 مارچ 2020

زمام ِ لمحۂ موجود بس میں رہتی ہے

یہ کائنات مری دسترس میں رہتی ہے

حصار ِ جسم سے نکلے تو خودکوپہچانے

خدا کی رُوح ابھی خاروخس میں رہتی ہے

عروس ِ دہر کے اُترے ہوئے لباس سے عقل

حواس میں نہیں رہتی ہوس میں رہتی ہے

تمام عمر زباں سے نکل نہیں پاتی

وہ دل کی بات جو سولہ برس میں رہتی ہے

کھُلا یہ راز دھڑکتے، پھڑکتے دل کی طرح

یہ کائنات کی چڑیا قفس میں رہتی ہے

ہرایک سانس سفر کی نقیب ہے جیسے

صدائے کُوچ ہمیشہ جرس میں رہتی ہے

جو ماں کی چھاتی پہ کھلتے ہیں دو گلاب کے پھول

تمام عمر وہ خُوشبُو نفس میں رہتی ہے

ادریس آزاد