سانولی شام۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

سانولی شام۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

22 مارچ 2020

آسماں کو دیکھو تو

سانولے سے بادل ہیں

مجھ کو ایسا لگتا ہے

موسموں کے خالق نے

بادلوں کی رنگت میں

شام گھول ڈالی ہے

یاد ہے تجھے سورج!

ایسے بادلوں پرجب

تیرا عکس پڑتا تھا

اُن میں ایک یاقوتی

رنگ پھیل جاتا تھا

ہائے وہ حیا داری

ہائے وہ وفا داری

اور وہ سانولے بادل

روز شام ہوتے ہی

گھر کو لوٹ جاتے تھے

جب ہمیں محبت تھی

اور ابھی ترا مجھ سے

جی نہیں بھرا تھا جب

شاد باد شاموں کی

ہم لڑی بناتے تھے

ہر ہلال کو تم نے

انگلیوں سے چھو چھو کر

بارہا ٹٹولا تھا

اب بھی شام ہوتی ہے

اب بھی سانولے بادل

گھر کو لوٹ جاتے ہیں

ہاں مگر وہ دیکھو تو

ایک فرق ہے جاناں!

اب وہ سانولے بادل

مجھ کو دیکھتے ہیں تو

اشک بھی بہاتے ہیں

خود بھی خوب روتے ہیں

مجھ کو بھی رُلاتے ہیں

ادریس آزاد