ایک دریا تو مرے سامنے رکھاہواہے

ایک دریا تو مرے سامنے رکھا ہوا ہے
ایک دریا مرے اندر سے گزرتا ہوا ہے

تم ہوئے جب سے زمانے کے، ہمیں چھوڑ گئے
تم سے بچھڑے ہوئے اب ہم کو زمانہ ہوا ہے

میں تو خوش تھاکہ ترے غم میں گزارونگا حیات!
غم یہی ہے کہ ترا غم ہی تو بھولا ہوا ہے

دل کے آئینے کا ہرعکس مری آنکھ میں ہے
اشک بھی شیشہ ہے بس یہ ہے کہ بہتا ہوا ہے

طنزکا، آنکھ کا، لفظوں کا، ادا کا اے دل!
اُس نے ہر تیر ترے واسطے رکھا ہوا ہے

کچھ وفا، کوئی مروّت، کوئی احساس نہیں
ہم نے محبوب کو ہر بات میں پرکھا ہوا ہے

وہ تری عمردرازی کی دعا کیوں مانگے؟
اے شبِ ہجر! تجھے جس نے بھی کاٹا ہوا ہے

یہ تری سرد مزاجی ہی رُلادے گی تجھے
برف کا تودہ بھی آخر کو تو دریا ہوا ہے

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین