تم جو روٹھے تو قیامت نے کہانی کردی

تم جو رُوٹھے تو قیامت نے کہانی کردی
لازوالی مری اِک آن میں فانی کردی

راز کا رشتہ بجُز درد نہیں، محرم ِ راز!
تُو نے ہر ہر رَگِ بے تاب سیانی کردی

کتنا روشن تھا وہ مَن موہنا لہجہ تیرا
وقت کی دُھول نے تصویر پرانی کردی

تُو نے تنہائی اُچھالی کہ کِیا بزم کو دَشت
چشم ِ جاں ہم نے جَلائی ہے کہ پانی کردی

میں تو خوش بخت بنا پھرتا تھا لیکن تُونے
ایک ناخن سے مری زائچہ خوانی کردی

اِس تری بے خبری نے مری خوشیوں کی بجائے
مری تقدیر فقط آئینہ دانی کردی

اتنی لمبی تو نہیں تھی وہ بہت چھوٹی سی بات
تُربتِ عشق پہ تُو نے جو نشانی کردی

میں کمر خم چلا جاتا بخوشی سُوئے عدم
شوقِ تہمت نے مرے ساتھ جوانی کردی

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین