بیچارہ الحاد

اکیسویں صدی الحاد کے لیے نامساعد ترین صدی ہے۔ اگر یہ لوگ یہی باتیں نیوٹن کے فوراً بعد کرتے تو بہت مناسب وقت تھا۔ فی زمانہ تو الحاد کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ کوئی ایک بھی چیز۔ مثال کے طور پر اگر آج کوئی شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ مستقبل سے آیاہے تو خود فزکس کے پاس اس کی بات پر یقین کرنے کی ایک سو ایک وجوہات ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ فزکس کے ماہرین اس سے کہینگے ثابت کرو! اس پر وہ جواب دے سکتاہے کہ میں ثابت تو کرسکتاہوں لیکن آپ کی ذہنی صلاحیت ہی اتنی نہیں ہے کہ آ پ سمجھ سکو! اب اُس کے اس دوسرے دعوے کو جھٹلانے کی ہمّت پھر سائنس کے پاس نہیں کیونکہ خود بیالوجی اور خصوصاً ٹرانس جینک بیالوجی کے پاس ایک سو ایک وجوہات ہیں اُس کی اِس بات پر یقین کرنے کے لیے۔

اِسی طرح آج اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ اُسے آسمانوں سے پیغامات آتے ہیں تو خود فزکس کے پاس ایک سو ایک وجوہات ہیں اس کی اِس بات کو ماننے کی۔ فزکس زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتی ہے کہ ثابت کرو! اور اس سوال کے جواب میں وہ مکرر وہی پہلے والا عذر پیش کرسکتاہے کہ میں تو ثابت کردونگا لیکن آپ لوگوں کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ اس ثبوت کو دیکھ سکو۔ بہتر ہے کہ میری بات کا یقین کرلو!

الغرض الحاد جو کہ زیادہ تر مادہ پرستوں کا ہی حصہ رہا ہے، فی زمانہ سب سے نامناسب اور نامساعد حالات کا شکار ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ الحاد کی شمع اپنی موت سے پہلے قدرے زیادہ تیزی کے ساتھ بھڑکنے لگی ہے۔ ہاں البتہ وہ الحاد جو صوفیأ نے اختیار کیے رکھا جیسا کہ بلھے شاہؒ کا الحاد تو بلاشبہ اس الحاد کو ہم مادہ پرست الحاد نہیں کہہ سکتے لیکن کیا فی الواقعہ ہم اسے الحاد کہہ سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہہے کہ نہیں کہہ سکتے۔

دیکھیے! بہت سادہ سی بات ہے اور بہت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ عہدِ حاضر کی سائنس خود فالسفکیشن کے اُصول سے بہت آگے کھڑی ہے۔ اوّل تو آئن سٹائن کی فزکس نے ہی ٹائم اور سپیس کے دھاگے دریافت کرکے کائنات کی مادی شکل کو کسی خواب کی طرح عجیب و غریب بنادیا۔ یہ بھی بھلا کوئی بات ہے کہ ٹائم بھی کسی لچکدار دھاگے کی طرح سپیس کے ساتھ بُنا ہوا ہے اور ہم جب چاہیں کہیں سے توانائی کا بندوبست کرکے اِن دھاگوں کو سُکیڑ بھی سکتے ہیں پھیلا بھی سکتے ہیں۔ یہ چونکہ ٹائم کے دھاگے ہیں لحاظا سکُڑنے اور پھیلنے سے ہم ٹائم میں آگے پیچھے جاسکتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص آج یہ دعویٰ کرے کہ وہ ساری کائنات گھوم کر آیا ہے اور اُس کا اپنا وقت بالکل نہیں گزرا تو خودفزکس کے پاس ایک سو ایک وجوہات ہیں اس کی بات سے انکار نہ کرنے کی۔ مشہور ماہرِ طبیعات کارل ساگان نے اپنی زندگی میں ہالی وُوڈ کے لیے ایک فلم لکھی تھی، ’’دی کانٹیکٹ‘‘، اس کا بھی یہی موضوع ہے۔

اسی طرح بیسویں صدی کے پہلے عشرے سے لے کراب تک سوا صدی ہونے کو آئی ہے جب سے مادہ پرست فکر کو شدید ضربیں پڑرہی ہیں۔ اتنی شدید کہ کہیں کہیں تو الحاد کو پناہ لینے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔ سائنس میں سب سے زیادہ کارنامے فزکس نے سرانجام دیے ہیں اور اس لیے فزکس کو بجا طور پر ’’کُوئین آف سائنسز‘‘ کہا جاسکتاہے۔ 1920 سے فزکس مسلسل یہ بتارہی ہے کہ کائنات کا وجود مشکوک ہے یا کم ازکم بات وہ نہیں جو آج تک ہم سمجھتے آئے ہیں۔ کوپن ہیگن انٹرپریٹیشنز نے یہ کہا کہ رئیلٹی سپرپوزیشن پر ہے اور جو ہم دیکھ پاتے ہیں وہ فقط لامتناہی امکانات میں سے ایک ہے۔ ہم ویو فنکشن کو کولیپس کردیتے ہیں بطور ناظر، اور یہ ساری کائنات ہم نے دراصل کولیپس کررکھی ہے۔ شئے کی تعریف ممکن نہیں اور رفتار، فاصلہ،وقت، یہ سب فقط دھوکے ہیں۔ حقیقت کی حقیقت میں کوئی حقیقت نہیں (نیلز بوھر)۔

اس پر شروڈنگر نے اعتراض کیا تو مینی ورلڈز کی تھیوری سامنے آگئی۔ کچھ وقت گزرا تو ’’ہِیو ایورِٹ‘‘ نے تمام رئیلٹیز کے سچا ہونے کا اعلان کردیا اور بتایا کہ رئیلٹی کولیپس نہیں ہوتی بلکہ ہمارے وجود کے لامتناہی ورژنز ہیں۔ ہماری لامتناہی نقول ہیں۔ ہر امکان حقیقی ہے اور بہت سی کائناتیں ہیں جو ایک جیسی ہیں اور ہم ہرایک کائنات میں موجود ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ایسی ہی تھیوریز فزکس میں داخل ہوتی چلی گئیں اور اکیسویں صدی کی فزکس یعنی سٹرنگ تھیوری تک پہنچنے سے پہلے پہلےتک حال یہ ہوگیا سپیس کی دس ڈائمینشنز ہیں اور دسویں ڈائمینشنز اتنی نیچے ہے کہ اگر ہم وہاں تک اُتر جائیں تو ہم کائنات کی ساری ٹِیوننگ کو نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسے تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ سٹرنگ تھیوری اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ اب کون کیا سمجھے؟ یہ سب مادی دنیا جو ہمارے آس پاس ہے یہ حقیقی ہے بھی کہ نہیں؟ یہ خواب ہے؟ کیا بہت سارے خواب ہیں؟ کیا ہم ماضی میں واپس چلے جائیں؟ دوبارہ سے زندگی شروع کردیں؟ کسی اور رئیلٹی میں گھُس جائیں یا ٹرانس ہیومینز بن جائیں؟

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ کمپیوٹروں سے نکل کر موبائلوں میں اور ٹچ سسٹم کے بعد اب آرٹفیشیل انٹیلجنس کے ساتھ یوں پھیل گیا ہے جیسے کوئی چاہے تو ایک ہی ساعت میں تمام کے تمام انسانوں کو ایک ساتھ میسج بھیج دے، کال کرلے یا کوئی اعلان پہنچادے۔

کتنی کائناتیں ہیں؟ کیا ہم خواب کی طرح کی حالت میں ہے؟ کیا ہم کل کلاں ٹیلی پورٹ ہوپائینگے؟ اگر ہم ڈی میٹیرلائز ہوکر ری میٹیریلائز ہوسکتے ہیں تو پھر ہم ہیں کیا؟ یہ نظام ِ انہضام کہاں سے آگیا؟ ہمارے وجود کو آپس میں جوڑ کررکھنے والی قوت سپرپوزیشن کی قوت ہے تو پھر ہمارے باقی وجودوں کو کون دیکھ رہاہے؟ کس امکان کو ہم خود چُن سکتے ہیں؟ کیا ہم کچھ بھی خود چُن سکتے ہیں؟ ہم سب کچھ خود چُن سکتے ہیں لیکن ہم ہوتے تو تب ناں۔ ہم تو ہیں ہی نہیں۔ نہیں نہیں، ہم ہیں لیکن کسی اور شکل میں ہیں۔ جیسا ہم خود کو سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں اصل میں ہم ایسے نہیں ہیں۔

گریوٹی کے بھی ذرّات ہوتے ہیں؟ ہوسکتاہے ٹائم کے بھی ذرّا ت ہوں۔ کیا ٹائم کے ذرّات کا تجربہ بھی ویسا ہوگا جیسے مادے کے ذرّات کا ہوتاہے؟ ہم ’’ایچ ٹُو او‘‘ کے ایک مالیکیول کو ہتھیلی پر رکھیں تو کیا وہ گیلا ہوگا؟ کیونکہ ایچ ٹُو او کے بہت سارے مالیکیول مل کر تو پانی کہلاتے ہیں؟ کیا ٹائم کے مالیکیول ہوسکتے ہیں؟ اگر ٹائم کے ذرّات کل کلاں ثابت ہوگئے تو کیا وہ بھی ہتھیلی پر رکھے جاسکینگے؟
ڈائمینشنز کیا ہوتی ہیں؟ یہ سپیس کی دس ڈائمینشنز کیا ہونگی؟ کیا ہم کسی اور ڈائمینشن میں جاسکتے ہیں؟

خدا کی پناہ! الحاد کہاں پناہ لے گا؟ ہے کوئی جگہ؟ پرانا مذہب نہ سہی نیا مذہب ہی سہی لیکن یہ تو سب کا سب مذہب ہے۔ وہی باتیں، وہی انداز، وہی لب و لہجہ۔ مذہب اور کیا ہوتاہے؟

اب لے دے کے ایک ہی بات بچتی ہے کہ الحاد بیچارہ دراصل مذہب کے خلاف ہے ہی نہیں کیونکہ اس کے لیے مذہب کی مخالفت کا امکان ہی باقی نہیں رہا۔ الحاد خلاف ہے تو مذہب کے جعلی نمائندوں کے ، کیونکہ انہوں نے مولویوں، پنڈتوں اور پادریوں کے رُوپ میں زمین پر ظلم کا بازارگرم کیا اور اہلِ زمین کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن پھر اگر ایسی بات ہے تو پھر وہ الحاد تو نہ ہوا خود اصلی مذہب کا ہی کوئی نمائندہ ہوا کیونکہ مذہب کے اصلی نمائندے بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ اب بہرحال ’’میروپیروفقیر‘‘ کی گھات سے خلقِ خدا کو بچالیا جائے۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: سعد خان نے شائع کیا۔

سعد خان رشتے میں ادریس آزاد کے بھتیجے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ عربی صرف و نحو اور علومِ دینیہ کے طالب علم بھی ہیں۔حافظِ قران ہیں۔ گرافکس ڈیزائنر ہیں۔ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ادریس آزاد ڈاٹ کام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔