تنقدِ عقلِ محض کا یہ دعویٰ کہ مابعدالطبیات کا کوئی امکان نہیں، مشکوک بھی ہوسکتاہے

جن جن جانوروں اور پرندوں کی آنکھیں ہیں، ظاہر ہے وہ بھی کائنات کو دیکھ سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک کُتا کائنات کو کیسے دیکھتاہوگا؟ یا ایک بلی، یا چڑیا، چوہا، شکرا، عقاب، سانپ، شیر چیتا یا ہاتھی کائنات کا کیسا مشاہدہ کرتے ہونگے؟ کیا انہیں بھی یہ کائنات اور اس میں موجود اشیأ ہماری طرح نظر آتی ہونگی؟ کیا انہیں بھی سیب کا رنگ اور خوشبُو بعینہ وہی محسوس ہوتی ہوگی جو ہمیں ہوتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ہر شاہد کائنات کو اپنے قویٰ اور اعضأ کی حد تک دیکھنے کا اہل ہے۔ فرض کریں ایک کارٹون مووی میں بولنے والے جانور ہیں، اور انسان بھی ہیں۔ کیا اس کارٹون مووی میں کُتوں کا مشاہدۂ کائنات ویسا ہی دِکھانا چاہیے جیسا ہمارا مشاہدۂ کائنات ہے؟ اگرچہ عام طور پر دکھایا تو ویسا ہی جاتا ہے لیکن وہ تو انسان ناظرین کی وجہ سے ایسا دکھایا جاتاہے۔ کیا کُتوں کو بھی سارے رنگ، ساری خوشبوئیں، سارے لمس ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں جیسا کہ شیروں کو یا ہاتھیوں کو ہوتے ہونگے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ پھر انواع سے بحیثیتِ اجتماعی پوچھنے کا سوال تو تب پیدا ہوگا جب انواع کے افراد میں یہ مشاہدہ مختلف نہ پایا جاتاہو۔

ہرفرد ِ نوع کا مشاہدۂ کائنات مختلف ہے۔ ایک انسان کا مشاہدہ دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایک انسان کو سیب کی خُوشبُو جس طرح محسوس ہوتی ہے دوسرے انسان کو بھی بعینہ وہی محسوس ہوتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔

اس ساری بات سے مدعا یہ ہے کہ کائنات کے بارے میں بہرحال ہم انسان اپنے انسانی مشاہدے سے اب تک ایک رائے قائم کرچکے ہیں۔ مثلاً ہم یہ رائے قائم کرچکے ہیں کہ ہم ایک کرہ نما سیّارے پر آباد ہیں۔ ہم یہ رائے بھی قائم کرچکے ہیں کہ ہم ایک نظامِ شمسی کا حصہ ہیں۔ پھر ہماری کہکشاں کا نام ملکی وے ہے اور اِس طرح کی اربوں کہکشائیں ہیں۔ اسی طرح ہم رائے قائم کرچکے ہیں کہ سیب کا رنگ سرخ، سفید، پیلا، گولڈن اور سبز ہوسکتاہے۔ ہم رائے قائم کرچکے ہیں کہ روشنی کی ایک مخصوص رفتار ہے یا آسمان فقط بلندیوں کا نام ہے ۔ہم رائے قائم کرچکے ہیں کہ ہم باقی حیوانات سے برترشعور کے مالک ہیں یا یہ کہ ہم دوپاؤں پر چلتے ہیں اور پاؤں کا دو ہونا سے مُراد ہے پاؤں کا دس مائنس آٹھ ہونا۔

کیا ہم نے کائنات کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے، بعینہ یہی رائے کائنات کے دوسرے شاہدین کی بھی ہے؟ کیا چوہوں کی رائے بھی یہی ہوگی؟ کیا وہ بھی دو کو دو اور چار کو چار سمجھ کر ڈیل کرنے کے اہل ہونگے؟

جانور تو پھر بھی جاندار ہیں۔ ہم نے مختلف طاقت کے کیمروں، خوردبینوں اور دُور بینوں سے جب کائنات کو دیکھا تو ہمارا مشاہدہ پہلے والے مشاہدے سے یکسر بدل گیا۔ ہمارے پیمائش کرنے والے آلات نے ہماری سابقہ انفارمیشن کو غلط قرار دے دیا اور ہم نے بالکل ہی نئی آرأ قائم کرنا شروع کردیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ کائنات کا شاہد اگر کوئی بے جان آلہ یعنی کیمرہ بھی ہو تو اس کی رائے تک ہماری اپنی رائے سے نہیں ملتی۔ یہ الگ بات ہے کہ کیمرے کی رائے بالآخر ہماری رائے بن جاتی ہے۔

ایک بات طے ہوگئی۔ کائنات کو جو کوئی بھی دیکھتاہے ، کائنات اُسے بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔ جس سے لازمی طور پر ثابت ہوتاہے کہ کائنات ویسی نہیں ہے جیسی ہم سب شاہدین و ناظرین کو دکھائی دیتی ہے اور کائنات کے بارے میں ہماری تمام تر آرأ ہمیشہ ہمارے نااِہل مشاہدے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ تو پھر اصل کائنات کیسی ہوگی؟

اصل کائنات کیسی ہوگی؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ جو کوئی بھی کائنات کا مشاہدہ کریگا وہ کائنات کے اندر رہ کر کرے گا۔ وہ کائنات کے مواد اور مصالحے سے بنا ہوا ہوگا اور اس لیے ممکن نہیں کہ کوئی وہ اپنے اصلی مواد کے بار ے میں درست رائے قائم کرسکے۔ ہمیں ہمیشہ اُس رائے پر اکتفا کرنے پڑے گا جو ہمارے محدود اور معذور مشاہدے کی بنا پر ہم نے اختیار کررکھی ہے۔

یہ بات کہ کائنات حقیقت میں کیسی ہوگی، جاننا ممکن نہیں اسی لیے اِسے ’’ناقابلِ معلوم‘‘ کہا جاتاہے۔ اور یہ بات کہ جو جان لیا ہے اُسی کو تمام ترحقیقت مان لیا جائے غیر منطقی اور طفلانہ حرکت ہوگی۔ چنانچہ کائنات کے بارے میں کوئی بھی رائے دراصل درست رائے نہیں بس اتنا ہے کہ وہ ہماری رائے ہے اور فقط ہمارے لیے درست ہے۔ یہاں تک کہ یہ حقیقت بھی کہ دو جمع دو چار ہوتے ہیں فقط ہماری رائے اور فقط ہمارے لیے درست ہے۔

اگر یہ سچ ہے کہ دو جمع دو چار جیسی حتمی سچائی بھی فقط ہماری رائے ہے اور فقط ہمارے لیے درست ہے تو پھر یونیورسل کچھ بھی نہ ہوا۔ جب یونیورسل کچھ بھی نہ ہوا تو پھر کسی ’’اے پری آری‘‘ حقیقت کا وجود نہیں۔ اگر کسی اے پری آری حقیقت کا وجود ممکن نہیں تو پھر کسی سنتھیٹک اے پری آری کا وجود کیونکر ممکن ہے؟

کیٹاگری کوئی بھی ہو سب کی سب بہرحال اس لحاظ سے آبجیکٹو ہیں کہ ہمارا ذہن خود آبجیکٹو حقیقت ہے۔ اب اگر ذہن کے اندر کچھ بھی مواد آجائے وہ ہمیشہ بنفسہ آبجیکٹ رہے گا اس لیے کسی بھی قسم کے سبجیکٹو تصور کا وجود کیونکر ممکن ہے؟ جبکہ ہرآبجیکٹ چاہے ہمارا دماغ ہی کیوں نہ ہو، صرف اور صرف ہماری اپنی ذاتی رائے کی وجہ سے آبجیکٹ ہے اور ویسا ہے جیسا ہم نے اس کا مشاہدہ کیا، وہ حقیقت میں کیسا ہے، یہ ہمارے بس سے باہر ہے جاننا۔اب چونکہ کوئی بھی آبجیکٹ دراصل اس لیے ایک آبجیکٹ ہے کہ ہم نے اسے اپنے مشاہدے کی بنا پر آبجیکٹ کہا ، لیکن حقیقت میں وہ آبجیکٹ نہیں کوئی اور شئے ہے جس کا جاننا ہمارے لیے ناممکن ہے اس لیے یوں کہنا کہ دنیا آبجیکٹو ہے کیونکہ درست رائے ہوسکتی ہے؟ آخرالامر یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوسکتا کہ حقیقت نہ آبجیکٹو ہے اور نہ ہی سبجیکٹو بلکہ حقیقت فقط ناقابلِ معلوم ہے۔ہماری دنیا دراصل محض اعتبار کی دنیا ہے، جو دیکھا، اُسی پر اعتبار کرلیا۔

لے دے کے ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچتاہے اور وہ یہ کہ اگر ہم کبوتر ہوتے اور کائنات کا مشاہدہ ایک کبوتر کی حیثیت سے کرتے تو جیسی کائنات ہمیں دکھائی دیتی، وہی ہماری حقیقی کائنات ہوتی نہ کہ فی الاصل حقیقی کائنات۔اس لیے ہرلحاظ سے ہماری مجبوری بن جاتی ہے کہ اپنے مشاہدے کو درست مانتے ہوئے طوھاً کرھاً اپنی زندگی کو اُسی مشاہدے کی بنا پر استوار کریں۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم مرجاتے ہیں اور پھر زندہ نہیں ہوتے۔ اس لیے اُصولِ بالا کی روشنی میں ہماری مجبوری ہے کہ ہم یہی درست تسلیم کرلیں کہ جب کوئی جاندار مرجاتاہے تو دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔

لیکن مذکورہ بالا تمام تر اینالوجی اگر کسی واحد امکان کو ثابت کرتی ہے تو وہ یہ ہے کہ کائنات میں شاہدین کی تعداد لامتناہی ہے اور انسان اُن ان گنت شاہدین میں سےفقط ایک شاہد ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہمیں بتاتاہے کہ ہمارے علاوہ باقی تمام شاہدین فقط وہی ہیں جن کا ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ چاہے وہ ایک کیمرہ ہو یا ایک کبوتر۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا کوئی شاہد نہیں ہوتا جس کا ہم نے مشاہدہ نہیں کررکھا۔یعنی ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم جیسا یا ہم سے بڑھ کر کوئی شاہد نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم نے کبھی ایسا کوئی شاہد نہیں دیکھا۔اگر فقط اِس مغالطے کی بنا پر ہم کسی ایسے شاہد کے امکان کو رد کردیں تو یہ یقیناً بالکل ویسی ہی بات ہوگی جیسے کوئی کہے کہ،

’’ہم نے چونکہ کبھی کسی دوسرے سیّارے پر زندگی کی موجودگی کا مشاہدہ نہیں کیا اس لیے ایسا کوئی دوسرا سیّأرہ ممکن نہیں‘‘

تو کیا کسی دوسرے سیّارے پر زندگی کی موجودگی کا مشاہدہ نہ کرسکنے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہماری قوتِ مشاہدہ ابھی کمزور ہے اور ہمیں مزید آلات کی ضرورت ہے؟ جب اینالوجی درست ہے۔ جب یہ بات بالکل اُس بات جیسی ہے جو کسی ان دیکھے شاہدین یا ناظرین کے امکانی وجود سے متعلق کہی گئی تو پھر کیونکر حتمی طور پر طے کرلیا جائے کہ ایسا کوئی شاہد وجود ہی نہیں رکھتا؟ یقیناً اس معاملے میں بھی ابھی ہماری قوتِ مشاہدہ کمزور ہے اور ہمارے پاس ابھی تک وہ آلات نہیں جو اس امکان کی تصدیق کرسکیں۔ بعینہ ویسے جیسے کسی سیارے پر موجود زندگی کے امکان کی تصدیق کے لیے ابھی ہماری قوتِ مشاہدہ کمزور ہے۔ لیکن چونکہ سیّارے کے امکان کا علم ہمیں فقط اینالوجیز کی بنا پر ہے، اور ایسے کسی شاہد کے امکان کا علم بھی ہمیں اینالوجیز کی بناپر ہے اس لیے دونوں امکانات کو برابر درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا جوکہ نہیں ہے۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: سعد خان نے شائع کیا۔

سعد خان رشتے میں ادریس آزاد کے بھتیجے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ عربی صرف و نحو اور علومِ دینیہ کے طالب علم بھی ہیں۔حافظِ قران ہیں۔ گرافکس ڈیزائنر ہیں۔ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ادریس آزاد ڈاٹ کام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔