اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

3جولائی 2016(یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)

\nمیں آج بھی’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کو مسلم نشاۃِ ثانیہ کے لیے اُمّید کی کرن تصور کرتاہوں۔کیونکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں یہ واحد ایسا ادارہ ہے جو فقط اپنی آئینی ساخت کی وجہ سے آج بھی فی الواقعہ اجتہاد کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ایران میں اگرچہ روحانی پیشوأ موجود ہیں جو ظاہر ہے اپنی کسی خاص مجلسِ شوریٰ سے رائے بھی لیتے ہونگے اور حکومت کو سفارشات بھی بھیجتے ہونگے لیکن ایران کی رُوحانی پیشوائیت میں ، جو کہ فقط فقہ جعفریہ کو منبعِ شریعت سمجھتی ہے، پوری مسلم اُمہ کو اجتہاد کے ذریعے ظلمت کی گہرائیوں سے نکالنے کی صلاحیت ہرگزنظر نہیں آتی۔لیکن پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ کام بآسانی لیا جاسکتاہےکیونکہ آئین کے مطابق یہ کونسل تمام مسالک کی یکساں نمائندہ ہے۔\nجب 73 کا آئین منظور ہوا تو اس میں ایک شق( نمبر 227) تھی کہ، ’’پاکستان میں کوئی قانون، قران وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائےگا‘‘ تب یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ آیا کوئی قانون قران و سنت کے خلاف ہے یا نہیں۔اس سوال کا جواب ماسوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ ایک کونسل بنائی جائے جو ’’اسلامی نظریات وافکار‘‘ پر نظر رکھے۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔پھر 73 کے آئین کی شق نمبر 228, 229, 230 بنائی گئیں جن کے مطابق نظریاتی کونسل ملک کے ’’بیس‘‘ بڑے علمائے کرام پر مشتمل ہوگی۔ یہ بیس لوگ نہایت احتیاط سے منتخب کیے جائینگے۔ شق نمبر 228 میں بتایا گیا کہ کونسل کے ممبران کے چناؤ کے وقت تمام مسالک کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔یہ بھی طے ہوا کہ ان بیس علمأ میں کم ازکم چار علمأ ایسے ہونگے جنہوں نے اسلامی شریعت کی تحقیق و تعلیم میں کم سے کم پندرہ سال صرف کیے ہوں اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو‘‘۔ جب سے پاکستان بنا تھا یہ پہلا ادارہ تھا جو اُن مقاصد کو مدنظر رکھنے کا اہل تھا جو تقسیم کے وقت پاکستان کے حامی مسلمانوں کے پیش ِ نظر تھے اور جن کا علامہ اقبال نے باقاعدہ خطبہ الہ آباد میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا۔پاکستان وجود میں آیا تو بعض لوگوں کو محسوس ہوا کہ ایک خالصتاً جمہوری ملک چند ہی سالوں میں خودبخود سیکولزم کے راستے پر چل پڑے گا جوکہ کسی بھی جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے، چنانچہ ان لوگوں نے کراچی میں ایک جگہ جمع ہوکر’’قرارِ مقاصد‘‘ کے نام سے ایک دستاویز تیار کی اور چونکہ وہ سب تحریک پاکستان کے بااعتماد لوگ تھے اس لیے قراردادِ مقاصد کو دستور کا حصہ بنادیاگیا۔قراردادِ مقاصد پر ہمیشہ یہی اعتراض سب سے پہلے کیا جاتاہے کہ یہ دستاویز بنیادی طور پر غیر جمہوری طریقے سے تیار کی گئی تھی اور اس نے ہی ملک میں اصل جمہوریت کو پنپنے سے روکے رکھا ہے۔یوں گویا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام، کونسل کے قیام سے پہلے قراردادِ مقاصد سے پورا کیا جاتارہا۔ لیکن جب اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں آگئی تو گویا ایک ایسا مستقل ادارہ وجود میں آگیا جو قانون ساز اداروں کو قران و سنت کے خلاف قانون سازی سے باز رکھ سکتا تھا اور اس وجہ سے قراردادِ مقاصد کی معنوی اور عملی طور پر ضرورت نہ رہ گئی تھی۔لیکن افسوس کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے روزِ اوّل سے ہی اپنا کام ٹھیک سے انجام نہ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک بدنام ادارہ بنتی چلی گئی۔\nاسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کا مقصد اسلام کے فقہی مسائل پرغوروفکرکرنااور ریاست و حکومت کو وقتاً فوقتاً تجاویز و سفارشات سے نوازتےرہناہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ کونسل کی مشاورت سے، مُلک کا دستورقران و سنت کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے اور کوئی بھی حکومت ، عین اسلامی قوانین کی روشنی میں کسی بھی قسم کی رہنمائی، کسی بھی وقت حاصل کرسکے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان جیسے ملک میں اہم ترین ادارہ ہے۔پاکستان ایسے لوگوں کا مُلک ہے جو روزِ اوّل سے نسبتاً زیادہ مذہبی طبیعت کے مالک ہیں۔ایسے مُلک میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ۔یہ واحد ادارہ ہے جو فی الحقیقت حکومتی سطح پر شرعی فتوے کی سب سے بڑی اتھارٹی ہے۔اگر کونسل فقط مسلسل کام ہی کرتی رہتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اب تک عام مولوی کی جانب سے جاری ہونے والے فتویٰ کی حیثیت خود بخود ختم ہوچکی ہوتی۔اگر کونسل تمام فرقوں کا اعتماد حاصل کرکے ’’مشترکہ فتوے‘‘ جاری کرتی رہتی تو ہرڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے کبھی’’کافرکافر‘‘ کے نعرے کامیابی کے ساتھ بلند نہ ہوپاتے۔\nدراصل اسلامی نظریاتی کونسل کو کبھی بھی غیرجانبداری کے ساتھ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ ہی کبھی تمام فرقوں کی مساوی نمائندگی ممکن ہوسکی۔گزشتہ دنوں جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک انٹرویو میں اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہاکہ،\n’’ اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘اُن ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے جید علما تیار کرنے سے قاصر ہے جو دور جدید کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں۔ یہ نظام تعلیم تقلیدِ جامدکے اصول پر قائم ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ان کے کام کی تفہیم اورشرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول و قوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق و اجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب پر فائز ہو سکے۔ ہمارے علما اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح ووضاحت کر سکیں یا جن معاملات میں شریعت خاموش ہے، ان کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں۔ یہی علما ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا حصہ ہیں، لہٰذا اس ادارے یا ایسے کسی دوسرے ادارے سے اس طرح کی توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکے جو مسلمانوں کے ذہین عناصر کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں اور ان شکوک وشبہات کو رفع کر سکے جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے‘‘۔\nغامدی صاحب کا سارا زور اس بات پر رہا کہ ہمارے پاس دراصل ایسے علمائے دین ہی موجود نہیں ہیں جن کے سپرد’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ جیسا ادارہ کیا جاسکے۔ اُن کے بقول ہمارے علمأ چونکہ اجتہاد کو عملاً تسلیم نہیں کرتے، اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل ہمیشہ ایک ناکام ادارہ رہے گی۔ میرا خیال ہے غامدی صاحب علمأ سے چونکہ بہت زیادہ نالاں ہیں اس لیے انہوں نے ایسا بیان جاری کیا۔ غامدی صاحب نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ جب ۱۹۷۳ میں یہ کونسل بنائی گئی تو اس وقت بھی علمأ یہی تھے یعنی اجتہاد کے بارے میں ایسے ہی خیالات کے مالک تھے جن کا ذکر غامدی صاحب نے فرمایا۔لیکن پھر بھی کونسل وجود میں آگئی۔ گویا اُس وقت کےعلمأ کونسل کے وجود پر متفق ہوگئے۔ اگر ہم ذرا ذہن پر زور دیں تو ۷۳ کے آئین کو ملک بھر کے طبقۂ علمأ سے جو تائید حاصل تھی، وہ دراصل پہلا اجتہاد تھا۔ ۷۳ کے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود میں آنا میری نظر میں اتنا بڑا اقدام ہے کہ بذاتِ خود ۷۳ کا آئین اتنا بڑا اقدام نہیں ہے۔یہی موقع تھا جب سب سے پہلے قراردادِ مقاصد پر نظرثانی کی جاتی اور قراردادِ مقاصد کے ماتھے سے ’’غیر جمہوری‘‘ ہونے کا داغ ہمیشہ کے لیے مٹایا جاتا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ قراردادِ مقاصد کی بیشتر اصطلاحات قطعی طور پر مبہم ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس ابہام کو ختم کرسکتی تھی۔ یہ کونسل اپنی نیچر میں ہی ایسا ادارہ تھی کہ اگر مسلسل کام کرتی رہتی تو ایک وقت آتا کہ ملک کے ہرشہری کو پتہ چل جاتا کہ انہوں نے دراصل کس کی بات کا یقین کرناہے۔ انہوں نے مسجد کے سپیکروں سے بلند ہونے والے فتووں پر کان دھرنے ہیں یا کونسل کی طرف اُمید کی نظروں سے دیکھنا ہے۔ بس شرط یہی تھی کہ کونسل مسلسل اور متواتر کام کرتی۔\nایک نہایت قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہمیشہ ’’وطنی قومیت‘‘ کے طریقے پر حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کبھی ٹھیک سے نہ جمہوری بن پایا اور نہ اسلامی۔ جب ملک بن رہا تھا تو کہاگیا کہ کوئی بنگالی، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی نہیں ، سب مسلمان ہیں لیکن اسمبلی میں نمائندگی کے وقت سندھی، بنگالی، پٹھان ، پنجابی اور بلوچ کی بنیاد پر کال دی گئی۔ایک عجیب سی بات کرتاہوں جو فی الاصل میرا مقصود نہیں، صرف کونسل سے متعلق اپنی رائے سمجھانے کے لیے عرض کررہاہوں کہ اگر ملک کو مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا تھا تو نمائندگی بھی مسالک کی بنا پر دی جاتی۔یعنی سندھ، پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان سے نمائندے لینے کی بجائے، شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث کی بنیاد پر الیکشنز کروائے جاتے تو ایسی صورت میں اسمبلی اُن اہداف کو ضرور حاصل کرپاتی جو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہوئے اقبال کے پیش نظر تھے۔ لیکن چونکہ یہ ایک احمقانہ فعل ہوتا اور پوری دنیا اس بنیاد پر قائم شدہ جمہوریت کو کبھی تسلیم نہ کرتی، اس لیے ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔\nفرض کریں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کا انتخاب جمہوری طریقے سے کیا جاتا تو منظر نامہ کیا ہوتا؟ سب سے پہلے ہرمسلک کی جماعت یہ کوشش کرتی کہ وہ کونسل میں آنے کے لیے اپنے علمأ کو اس قابل بنائے کہ وہ آئینی شقوں پر پورا اُترسکیں۔ پھر ہر مسلک کے علمأ اپنے اپنے معتقدین کو اپنے اپنے منشور سے آگاہ کرتے کہ وہ کونسل میں پہنچ کر کون کون سے اہم مسائل کو اُٹھائینگے۔ بالکل ویسے جیسے ایک جمہوری ادارے میں، سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں اور اپنا منشور عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ یوں مختلف مسالک کے علمأ کی طرف سے عوام کو ’’پیکج‘‘ ملتا۔ عوام اپنے مذہبی مسائل اپنے علمأ کے سامنے رکھتی اور علمأ ان کو انفرادی طور پر حل کرنے کی بجائے، اپنے پیکج کا حصہ مان کر اُن پر غوروفکر اور تدبر کرتے اور کونسل میں پہنچنے سے پہلے ہی بیشتر مسائل پر علمأ کے درمیان لازمی طور پر اتفاق پیدا ہوجاتا۔یوں چھوٹی چھوٹی لیکن بہت سی نظریاتی کونسلز خود بخود وجود میں آجاتیں۔ جلدی ہی چھوٹے چھوٹے مسالک ، بڑے مسالک میں مدغم ہونا شروع ہوجاتے۔ مثلاً اگر بریلویوں کے کئی گروہ ہیں یا دیوبندیوں کے کئی گروہ ہیں تو وہ کونسل میں پہنچنے کی غرض سے آپس میں ایکا کرلیتے اور یوں چھوٹے چھوٹے اختلافات خود بخود ختم ہونا شروع ہوجاتے۔اور سیاستدانوں کی طرح علمأ کا بنیادی مقصد بھی لوگوں کو ریلیف دینا ہوتا جوکہ ویسے بھی شریعتِ اسلامی کا بنیادی مقصد ہے۔\nمسلسل غور و فکر اور شریعت کی مسلسل تدوین کے عمل سے یہ کونسل اپنی عزت اور وقار خود بناسکتی تھی۔ اجتہاد، جسے ہمیشہ اجنبی نظروں سے دیکھا گیاہے، بہت جلد ٹھیک طریقے سے ممکن ہوجاتا۔ اقبالؒ کی تشکیل ِ جدید سے کتنے ہی مسائل میں اجتہاد کرتے وقت مدد لی جاتی۔ کتنے ہی مسائل کے لیے کونسل دوسرے اسلامی ممالک کے علمأ سے مشاورت کرتی تاکہ کوئی بھی شرعی مسئلہ باریک بینی سے رہ نہ جائے۔پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے فتووں کو نہ صرف پاکستان میں اہمیت حاصل ہوتی بلکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک یہاں سے رہنمائی لیتے۔\nآج بھی اگر اسلامی نظریاتی کونسل کو تھوڑے سے اجتہا د کے ساتھ ازسرنَو کام کا موقع دیاجائے تو مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔تھوڑے سے اجتہاد سے میری مراد ہے کہ،\n۱۔ کونسل میں اراکین کی تعداد بڑھادی جائے۔\n۲۔ کونسل کا عرصہ مختصر کردیا جائے۔\n۳۔ کونسل کے اراکین کو جمہوری طریقے سے منتخب کیا جائے۔\n۴۔ انتخاب میں نمائندگی متناسب ہو۔\nاس طرح کسی کی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے گی۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اُمیدیں جو اس کونسل سے وابستہ تھیں کسی حد پوری ہونا شروع ہوجائیں۔ ایک بار قوم کے علمأ اجتہاد کے راستے پر چل پڑے تو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب بہت جلد پورا ہوسکتاہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم میں اجتہاد کا عمل رُک جائے، وہاں ’’افترأ‘‘ کا عمل کئی گنا تیزی کے ساتھ شروع ہوجاتاہے کیونکہ تبدیلی کو روکنا ممکن ہی نہیں ۔ سو جب علمأ کی کونسل مل کر اجتہاد نہیں کرتی تو عوام خود افترأ پردازی سے کام لیتے ہیں اور نت نئے مسائل پر عجیب و غریب قسم کی جاہلانہ رسموں کا اجرأ ہوجاتاہے اور مسلسل ہوتا رہتاہے ۔ یہاں تک مذہب اپنے ہی لوگوں میں اپنی اہمیت کھودیتا اور عملاً فنا ہوجاتاہے۔