کیا اسلام نے غلامی کا خاتمہ کیا؟ یا یہ سہرا اہل ِ مغرب کے سرہے؟

اسلام نے جب حکم دیا کہ غلاموں کو اپنے جیسی غذا اور لباس دو اور شرعاً غلاموں کا جائیدادا میں حصہ رکھ دیا تو کیا قیامت خیز قسم کا انقلاب برپا ہونا شروع ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ انسان جن کی گردنوں میں لوہے کا کڑا ڈالنا مالک نسل کے انسانوں کا حق ہوتا تھا، یکایک نئے مقام سے آشنا ہوئے۔ بس پھر کیا تھا؟ آنے والی چند ہی صدیوں میں زمین سے غلامی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ کبھی سوچتاہوں اگر اسلام نہ آیا ہوتا تو افلاطون کی مثالی ریاست کے غلام آج بھی گردنوں میں طوق لٹکائے گھوم رہے ہوتے‘‘
فیس بک کی عادت ہے کہ یہ آپ سے بار بار پوچھتی رہتی ہے، وٹس آن یُور مائینڈ؟ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی کئی بار وہ خیالات ضبطِ تحریر میں لانا پڑجاتے ہیں جو اُس وقت ہمارے ذہن میں ہوتے ہیں۔ یوں گویا فیس بک نے ہمیں اپنے خیالات کو بار بار لکھنے کے لیے ایک مستقل اور باقاعدہ ڈائرہ فراہم کرکے ہماری بھی عادت بنادی ہے کہ ہم ڈائری لکھاکریں۔
میں نے جب یہ اقتباس پوسٹ کیا تو دوستوں نے نیچے کمنٹس میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار شروع کردیا۔ جس سے موضوع کے مختلف پہلُو سامنے آئے۔ سو میں نے سوچا کہ اس مکالمے کو محفوظ کرلیاجائے۔
مثلاً میرے اس جملے پر کہ ’’ کبھی سوچتاہوں اگر اسلام نہ آیا ہوتا تو افلاطون کی مثالی ریاست کے غلام آج بھی گردنوں میں طوق لٹکائے گھوم رہے ہوتے‘‘ سہیب صاحب نے لکھا،
’’اگراسلام نہ آیا ہوتا تو خود افلاطون بھی تاریخ کا ایک گمشدہ باب ہوتا‘‘
کیسی زبردست حقیقت کا اظہارفقط ایک جملے میں کردیا جناب ِ سہیب نے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ عہد کے جدید مغرب کے پاس اگر اُن کا اپنا گمشدہ علم بھی پہنچ پایا ہے تو فقط مسلمانوں کی کوششوں سے۔ مسلمان وہ درمیانی کڑی بن پائے جو موجودہ عظیم انسانی علوم اور ماضی کے قدیم انسانی علوم کو آپس میں ملانے کا باعث بنی۔
ایک دوست محمد الماس صاحب نے اپنے اِشکالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا،
’’اسلام نے غلاموں کی زندگی آسان کرنے میں تو کردار ادا کیا ہو گا، مگر تیرہ سو صدیوں تک تو کہیں بھی خاتمے کی صورتحال نظر نہیں آتی۔ بلکہ فقہا و علماء تو غلام کو ٹٹولنے اور اس کے ستر کے احکامات کی باتیں کرتے ہی نظر آئے ہیں۔ یہ تو پچھلی صدی کا قصہ ہی لگتا ہے جب علمی، سائنسی اور صنعتی انقلاب رونما ہوا اور غلامی ایک ضلالت قرار پائی۔ مگر بدقسمتی سے اس عمل میں ایک بھی مسلمان ملک، اور کسی بھی نامی گرامی عالم کا کہیں بھی کوئی نام دور دور تک نظر نہیں آتا‘‘
میں نے جواباً عرض کی،
’’ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی اسلامی ملک میں غلامی کی وہ شکل باقی نہ رہی تھی۔ ہندوستان میں ایک بھی غلام نہ تھا سوائے بادشاہوں کے محلات کے۔ عرب میں کسی غلام کی گردن میں طوق ڈالنا، زنجیر ڈالنا کچھ روا نہ تھا۔
یہ جو نقشہ آپ نے کھینچا یہ یورپ کاحال تھا۔
رہ گئی فقہا کے مسائل کی بات تو شاید آپ کے علم میں نہیں کہ فتاوے اور مسائل کا تعلق’ فی الواقعہ ‘سے زیادہ مفروضوں پر ہوتا تھا۔ مثلاً یہ بھی ایک شرعی مسئلہ ہے کہ اگر کسی جنگل میں بہت سے لوگ ہوں، سب برہنہ ہوں تو نماز کیسے ادا کرینگے؟ ہمیں مناسب طریقے سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ بطور ِ خاص ابن ِ خلدون جیسا مطالعہ ‘‘
الماس صاحب نے میرے کمنٹ کے جواب میں لکھا کہ،
’’ ادریس صاحب، میں نے نقشہ تو کوئی بھی نہیں کھینچا۔ شاید آپ نے کسی اور کا کمنٹ یا پوسٹ دیکھی ہو گی۔ ہاں البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ فقہا غلاموں کے ستر و خریداری کے احکامات طے کرتے نظر آتے ہیں۔ جسے آپ نے ایک "مفروضہ” قرار دے کر ایک سائڈ پر کر دیا۔
جو بات آپ نے کہی کہ اسلامی ملکوں مین غلامی کی وہ شکل نہ رہی، تو اس سلسلے میں اپنے کمنٹ میں یہی کہا تھا کہ اسلام نے غلاموں کی زندگی آسان ضرور کی، تاہم غلامی کے خاتمے میں اسلام تیرہ سو صدیوں تک تو کچھ نہیں کر سکا۔ اگر پچھلی صدی سائنسی و صنعتی انقلاب کی حامل نہ ہوتی تو آج بھی غلامی اسی طرح قائم ہی نظر آتی جیسے پہلے تھی‘‘
میں مختصراً عرض کی،
’’ لیکن غلامی تو پچھلی صدی میں ممنوع قرار نہیں دی گئی۔ فرانس سے لے کر امریکہ تک سب قوانین دو سے تین صدیاں پرانی بات ہیں۔اور ہندوستان میں تو کبھی رہے ہی نہیں۔ داسیاں وغیرہ بھی بکتی نہیں تھیں۔ ایک طرح کی خادمائیں ہوتی ہے‘‘
ابھی ہمارے درمیان بات ہورہی تھی کہ ایک دوست سعد صاحب نے گفتگو میں حصہ لیا،
’’ غلامی ضلالت نہیں قرار پائی بلکہ اس کواپنے مفاد کے لیے اک نئی شکل میں قبول کروادیا گیا ۔ اس غلامی کی ہزاروں شکلیں ہیں ۔ انسانیت اپنی مرضی سے اس غلامی کو قبول کیے ہوئے ہے ۔ جدید دور کی لونڈی سیکس ورکر کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے مسلمانوں کے دور کی لونڈی کو تو دوسرے درجے کی شہری ہوکر بھی کھانے پینے ، رہنے، نسب تک کے حقوق حاصل تھے ، یہ پہلے درجے کی شہری ہوکر بھی سو روپے کے پیچھے روز ذہنی و جسمانی اذیت اٹھاتی ہے‘‘
اپنےکمنٹ کے بعد سعد صاحب نے ایک لنک عنایت فرمایا اور لکھا کہ اس لنک پر ’’غلاموں اور لونڈیوں سے متلق اچھے مضامین جمع ہیں‘‘
سعد صاحب کے کمنٹ پر الماس صاحب نے جواباً لکھا،
’’سعد صاحب، اس لنک کو پہلے ہی دیکھ چکا ہوں۔ میرا سوال غلامی کے جائز، ناجائز ہونے، یا اسلام کے غلاموں کے متعلق بقیہ احکامات کے حوالے سے نہیں ہے۔ میرا سوال ادریس صاحب کے اس دعوی کے حوالے سے ہے کہ غلامی اسلام کی بدولت "ختم” ہوئی۔
غلاموں کی زندگیوں میں آسانی لانے میں اسلام کے کردار کی بات ہو سکتی ہے، تاہم خاتمہ کا اعزاز اسلام کو دینا کچھ تاریخ سے ناانصافی لگتی ہے۔ ادریس صاحب سے اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے‘‘
پھر براہِ راست مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے،
’’ ادریس صاحب! بات تو اسلام کے غلامی کے خاتمے کی ہے۔ ہندوستان نے اپنے مخصوص علاقائی کلچر کی بدولت اگر غلامی کو پنپنے نہیں دیا تو اس پر اس کی تعریف بنتی ہے۔ تاہم سردست عرب و دیگر جغرافیائی علاقوں میں اقوام متحدہ کے منع کرنے کے باوجود کچھ عرصہ تک غلامی اور اس سے متعلقہ قوانین موجود رہے۔ حال ہی میں ان سب نے اقوام متحدہ کے قوانین سے مطابقت کی ہے۔
اسلام اگر شراب کو بیک جنبش قلم ختم کر سکتا ہے، یا دوسری علتوں کو ختم کرنے کا کہہ سکتا ہے تو اگر وہ غلامی کے خاتمے میں دلچسپی رکھتا تو اس کا حکم بھی دے سکتا تھا‘‘
ابھی میں الماس صاحب کی بات پرکوئی اظہارِ خیال نہ کرپایا تھا کہ ایک دوست احمد خلیق صاحب نے، الماس صاحب کی بات پرلکھا،
’’ سوال ادریس صاحب سے ہے اور وہی بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں لیکن یہ بات عجیب لگ رہی ہے کہ اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔جہاں زندگیاں آسان کیں وہاں آپ کے علم میں بخوبی ہو گا کہ کہیں حکما ً تو کہیں ترغیباً آیا کہ ‘غلام آزاد کرو’۔ جیسے قسم یا کسی اور حکم عدولی پر کفارہ کی صورت میں اِتنے اِتنے غلام آزاد کرنا۔ یا دوسری صورت میں غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرنے پر بشارتیں اور اجر۔ آپ کے نزدیک کیا یہ غلامی کو بتدریج ختم یا کم کرنے کی طرف کوئی قدم نہیں تھا؟ حضرت عثمانؓ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓاور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں کہ انہوں نے ہزار ہا غلام آزد کیے، کئی دفعہ تو ایک ہی بار میں سو سو بھی کیے۔ اس زمانے میں اور پھر کافی بعد تک کفار کے ساتھ جنگیں ہوتی رہیں۔ فتح کی صورت میں قید کیے جانے والوں کے ساتھ غلاموں کے احکام پر ہی عملدرآمد ہی ہو سکتا تھا۔ اور کیا صورت ہو سکتی تھی؟؟ مسلمانوں کا طرزعمل پچھلی چند صدیوں میں گوری اقوام کا افریقی باشندوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے بد رجہا بہتر اور احسن تھا۔ واللہ اعلم‘‘
جناب احمدخلیق صاحب نے بہت مناسب استدلال سے کام لیا۔ اُن کی بات کو اِس لحاظ سے دیکھاجانا اہم تھا کہ اسلام نے غلامی کو ختم کرنے کا گویا منصوبہ بنا رکھا تھا اور گویا اسلام اس حقیقت سے واقف تھا کہ غلامی کوئی ’’چیز‘‘ نہیں جسے بیک جنبشِ قلم ختم کیا جاسکنا ممکن ہوتا۔ میں دل ہی دل میں احمد خلیق صاحب کو داد دے رہا تھا کہ محمد سعد نے الماس صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا،
’’الماس صاحب !آپ اسلامی تناظر میں اک بنیادی نقطے کو نظر انداز کررہے ہیں وہ یہ کہ اسلام نے غلامی کے باقی سب سورسز پر تو پابندی لگادی تھی مثلا کسی راہ چلتے کو پکڑ کے غلام بنا لینا ، یا قرض دار کو قرضہ نہ دا کرسکنے پر غلام بنا لینا اور پھر بیچ دینا ، ایسے بیسیوں طریقے غلام بنانے کے پہلے رائج تھے ، ایک سورس جو اسلامی ریاست کے اک ایور ایسپنڈنگ (ہمیشہ پھیلتے رہنے) اور جہادی ریاست ہونے کی بنا پر کچھ عرصہ کھلارہا ، وہ جنگ میں قید ہونے والوں کا تھا ، انکو قتل کرنے کے بجائے اس طریقے سے کچھ عرصہ معاشرے میں انویسٹ کیا جاتا رہا ، یہ اک مجبوری تھی لیکن بنیادی انسانی حقوق سے انہیں مرحوم نہیں رکھا گیا ، یہی حقوق ہی تھے کہ آپ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی سلطنت غلامان بھی دیکھیں گے ، باقی قوموں کے ہاں بھی غلامی ماضی قریب تک رائج تھی لیکن غلام بہت بری حالت میں تھے ، آپ جس صنعتی انقلاب کی بات کررہے اس کے حاملین امریکہ یورپ والے ڈیڑھ سو سال پہلے تک عرب کے دورِ جاہلیت کی طرز کی غلامی کو جاری رکھے ہوئے تھے ، امریکہ کی زرعی ترقی کے پیچھے ہزاروں حبشی غلاموں کا خون ہے جنہیں پکڑ پکڑکے زرعی فارموں میں جوت دیا جاتا تھا ، اس پر کئی ایک فلمیں بھی بن چکی ہیں ، حال ہی میں ایک فلم کو ایوارڈ بھی ملا ۔ جب مشینی دور آگیا اور اسکی ضرورت نہ رہی تو انہوں نے پابندی لگا کے انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن ہونے کا ایوارڈ بھی اپنے نام کروا لیا‘‘
سعد صاحب کا آرگومنٹ خاصا مضبوط تھا۔ ان کی بات میں خاصا وزن تھا۔ اس پر الماس صاحب نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا،
’’سعد صاحب، کیا یہ بات بھی قابل غور نہیں کہ اسلام کے متعدد دَر بند کرنے کے باوجود تیرہ صدیوں تک غلامی جاری و ساری رہی۔ حتی کہ اسے اقوام متحدہ کی جانب سے مکمل طور غیر قانونی و غیر اخلاقی قرار دے دیا گیا۔ بلکہ اقوام متحدہ کے کہنے کے باوجود سعودیہ یمن وغیرہ میں ۱۹۶۰ تک غلامی چلتی رہی۔
اسلام نے جو انسانی حقوق دیے، یا مغرب نے اپنے غلاموں سے جو غیر انسانی سلوک کیا، مجھے ان دونوں سے انکار نہیں۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ مسلمان غلاموں کو نسبتاً آسانی کے حقوق دے کر آرام سے بیٹھ گئے، جبکہ مغرب نے بلاشبہ غلاموں سے بدسلوکی کی مگراس کے ضمیر کی ملامت کی بدولت اس نے ہی غلامی کے اختتام کا سہرا بھی اپنے سر سجا لیا۔ بہتر انسانی حقوق کی بدولت اسلام کو اس دوڑ میں کہیں آگے ہونا چاہیے تھا، مگر ہم اس دوڑ میں دور دور تک بھی نظر نہیں آئے‘‘
تب میں نے تھوڑا سا دخل دینا مناسب جانا اور عرض گزاری کہ،
’’ الماس صاحب! غلامی ایک پراسیس کے تحت ہی ختم ہوسکتی تھی اور وہ پراسیس اسلام نے شروع کیا۔ اگر بغیر پراسیس کے ختم ہوسکتی ہوتی تو اسلام شراب کی طرح کا حکم جاری کرتا (جیسا کہ آپ نے فرمایا)۔ اگر بغیر پراسیس کے ختم ہوسکتی تو بڑے بڑے فلسفیوں کے افکار میں اس طرح کے ایک دو ہی سہی، اشارے ضرور موجود ہوتے۔ ارتقأ کا عمل تھا لیکن اس کو اگنائٹ کرنے والا اسلام ہی تھا۔ بہت عمدہ دلائل دیے سعد صاحب نے اور احمد خلیق صاحب نے‘‘
تب الماس صاحب نے لکھا،
’’ادریس صاحب، اختلاف کے لیے معذرت! مگر اس پراسس میں اسلام کا کردار ہے کہاں ؟ عربوں کی شقاوتِ قلبی کو دیکھتے، حضور پاک نے بہتر سلوک کی تلقین تو کی، مگر غلامی کو یکسر ختم کرنے، یا ایک مدت کے بعد ختم کر دینے کی کوئی ہداہت نہ کی۔ شراب کو بھی اگر ایک ‘پراسس’ کے تحت ہی حضور پاک کی زندگی میں ہی ممنوع قرار دیا گیا، تو ایسا ہی عمل غلامی کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ غلامی کے ختم نہ کرنے کی ہی وجہ ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے اوریا مقبول جان جیسے لوگ اب بھی غلامی کو نہ صرف جائز مانتے ہیں بلکہ اس کے احیاء کے بھی شوقین نظر آتے ہیں۔
یہ بھی کیا عجب نہیں کہ اسلام اور برائیوں کے لیے تو مختصر پراسس پر انحصار کرتا ہے اور حضور پاک اپنی زندگی میں ہی درست اور غلط واضح فرما جاتے ہیں، مگر غلامی ایک ایسی چیز رہ جاتی ہے جس کے "غلط” ثابت ہونے کے لیے اسلام کو نہ صرف تیرہ سو سال انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مغرب کے غیر مسلم ہی اس سلسلے میں اقدام اٹھاتے ہیں اور بالآخر ہم مسلمان یہ کہنے کے قابل ہوتے ہیں کہ یہی تو ہمارا اسلام چاہتا تھا کہ غلامی ختم ہو؟‘‘
تب میں نے عرض کی،
’’ اب یہ حصہ تو ارتقأ کے ڈومین میں داخل ہوجاتاہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ انسان کا منطقی فہم کتنے عرصہ میں ارتقأ اور پھر ارتفا ع سے گزرتاہے ہمیں بہت کچھ بیالوجی اور آرکیالوجی سے پوچھنا ہوگا۔ غلامی کوئی چیز نہ تھی کہ ختم کردی جاتی، غلامی کوئی ادارہ بھی نہ تھا کہ ختم کردیا جاتا۔ غلاموں کی ایک پوری نسل تھی۔ ایک نوع تھی۔ ایک ایسی نوع جسے کچھ بھی کہنا انسانی منطقی فہم کے مطابق برا سمجھا ہی نہ جاتا تھا۔
اس کی مثال یوں لیں۔ مثال کےطور پر جانوروں کو درد ہوتاہے یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہے۔ اس سوال کا سبب ہے گوشت خوری اور سبزی خوری کے مختلف نظریات کا اختلاف۔ فرض کریں کہ جانوروں کو درد ہوتاہے اور ویسے ہی محسوس ہوتاہے جیسے انسانوں کو ہوتاہے اور اس خیال کو عام سے عام کیا جاتاہے تو کیا ایسا نہ ہوگا کہ ایک طویل عرصہ کے بعد انسان گوشت خوری سے اجتناب شروع کردینگے؟
یہ اس طرح کا پراسیس تھا‘‘
میری اس بات پر الماس صاحب نے جوابا ًلکھا،
’’ادریس صاحب،! میری ناقص رائے میں ارتقاء کی ڈومین میں شائد یہ مسئلہ شامل نہ ہو۔ اس کا تعلق زیادہ سوشل طرز عمل سے ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ مثبت سوچ کے تحت یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور پاک اسے ایک بتدریج سوشل تبدیلی کے عمل سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس سلسلے میں پہلی رکاوٹ تو یہ نظر آتی ہے کہ آخر ایسی بتدریج سوشل تبدیلی کے لئے کتنی نسلیں درکار تھیں؟ نہ صرف غلامی قائم تو دائم رہی، بلکہ فقہا ٔنے غلاموں کے بچوں کو بھی غلام ہی قرار دیا غیر مسلم ہونے کی صورت میں۔ حتی کہ مزید عجب بات یہ لگتی ہے کہ خاندانِ غلاماں کی حکومت بھی ہوئی، کئی اور خلفاء کے لونڈیوں سے بچے سرابراہان مملکت بھی بنے، مگر کسی میں یہ ہمت یا جرات نہ آ سکی کہ وہ غلامی کا یکسر خاتمہ کر دیں۔
اسی بات کو ایک دوسرے زاویے سے اگر دیکھوں تو سوال اٹھتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کو اگر جنگ عظیم میں شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور وہ خلافت آج بھی قائم و دائم ہوتی تو کیا آج ہم غلامی کے خاتمے کا سہرا اسلام کے سر سجانے کی بحث کر رہے ہوتے ؟ کیا غلامی اس طرح قائم و دائم نہ ہوتی۔ کیونکہ اس سلسلے میں نہ تو جرمنی سے توقع تھی اور نہ خلافت والوں سے کہ وہ غلامی کو ختم کریں گے‘‘
میں نے الماس صاحب کی بات پڑھی تو مجھے محسوس ہوا کہ اب معاملہ اسلام کی بجائے مسلمانوں کے حوالے سے دیکھاجارہاہے اور الماس صاحب وقت کے اُس دورانیے کو بہت مختصر دیکھناچاہتے ہیں جو غلامی کے خاتمے کے لیے درکار تھا۔تب میں نے سوچا کہ چلو ! اس پر کل بات کرینگے۔ لیکن کچھ وقت کے بعد ایک دوست جناب ناصر محمود اعوان صاحب نے غالباً کسی ویب سائیٹ سے یا کسی آن لائن کتاب سے کچھ مواد بطور کمنٹ پوسٹ کیا جو میری نظر میں خاصا اہم تھا۔ چنانچہ میں نے اور بعض دیگر دوستوں نے لائیک کا بٹن دبا کر پسندیدگی کا اظہار کیا۔وہ کمنٹ یہ تھا،
’’ اسلام نے غلامی کو کبھی پسندیدہ نہیں قرار دیا ۔ مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں تو عنداللہ وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ.“
(البقرہ:۱۷۷)
بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبر وں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ۔نماز قائم کرے اور زکوة دے۔
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
”فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَمَا أَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَةُ. فَکُّ رَقَبَةٍ. أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ. یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَةٍ. أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَةٍ.“(البلد:۱۱-۱۶)
مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا،یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھاناکھلانا۔
غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔اس لیے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ اللہ کے رسول نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انہیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا ۔آپ نے فرمایا:’جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا۔‘(۵)اسی جذبہ کے تحت صحابہ کرام نے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا۔بلکہ صحابہ کرام آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسول سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سارے ہیں اور ان میں ہر قسم کے غلام ہیں ،کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پرزیاد ہ ثواب ملے گا۔صحابہ کرام کے اس جوش آزادی کو دیکھ کر آپ فرماتے:’ جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جوغلاموں میں سب سے اچھا ہو۔‘(۶)
از: ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی
شعبہٴ سنی دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ‘‘
اسی طرح ایک دوست مدثرعباس صاحب نے اعتراض کیا کہ،
’’ مطلقا ًخاتمہ کیوں نہیں کیا؟؟ اور کنیزوں سے بغیر نکاح کے جنسی عمل کی اجازت کیا تھی؟‘‘
میں نے عرض کی،
’’مطلقاً ہی خاتمہ کیا تبھی تو خاتمہ ہوگیا۔ طریقِ کار نرالا اور زیادہ مناسب تھا، ورنہ خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ بعض کاموں کے لیے عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘‘
مدثر صاحب نے پھرلکھا،
’’مطلقا ًخاتمہ کیا تو جائیدادوں کا حصہ کس لئے رکھا گیا؟ اور تمام مسلم حکمرانوں کے ہاں غلام تھے بلکہ کچھ مسلم حکمران تو کنیزوں کی اولاد تھے جن سے مباشرت بغیر کسی نکاح سے کی گئی‘‘
میں نے عرض کی،
’’جائیداد میں حصہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ غلام نہ رہیں، اولادوں میں بدل جائیں۔ ویسے بھی عربی میں غلام کا تصور مختلف تھا اور لفظ غلام کا معنی ’’بیٹا‘‘ تھا۔ بادشاہوں کی بات نہیں کی جانی چاہیے، عملی اجماع کی بات کی جانی چاہیے! ابن خلدون کو پڑھنا چاہیے! غلامی کو مشرق و مغرب میں دیکھاجاناچاہیے! اسلام نے جو کردکھایا وہ کوئی بڑا فلسفی بھی نہ کرپایا‘‘
اس پر مدثر صاحب نے فرمایا،
’’ (اسلام نے) کیا کیا ہے؟؟ میں عبد کی بات کر رہا ہوں مرشدی مجھے علم ہے غلام بیٹے کو کہتے ہیں۔عرب میں غلام کے کے لئے عبد کی اصطلاح استعمال ہوئی۔اور یہ اجماع کسی اسلامی حکومت میں نظر نہیں آیا۔ اسلامی حکومتوں میں جنگی قیدی بطور غلام(اردو والا) تقسیم ہوتے اور ان کی عورتوں کو کنیز بنایا جاتا‘‘
اس پر ایک دوست شہزاد نیّر کا کمنٹ آیا،
’’ 24 اکتوبر 1945 سے پہلے غلامی غیرقانونی نہیں تھی‘‘
شہزاد نیّر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ملک کی بات کررہے ہیں کیونکہ امریکہ میں تو غلامی تیرھویں ترمیم کے وقت ختم کی گئی، یعنی ابراہم لنکن کے دور میں۔ میں نے خود قیاس کرلیا کہ انہوں نے ضرور عرب کی بات کی ہوگی۔ البتہ میں نے ابھی تک اس کی خود تحقیق نہیں کی کہ یہ سن کس ملک میں غلامی کے خاتمے کی تاریخ ہے؟ البتہ مدثر عباس صاحب نے شہزاد نیّر صاحب سے یہ پوچھے بغیر کہ یہ سن کس ملک میں غلامی سے آزادی کا سن ہے، اپنا کمنٹ اُن کی تاریخ کو درست مان کر لکھا،
’’1945 تک انسان کا شعوری ارتقا بنسبت ماضی ،آگے تھا۔ جس کی وجہ سے ایسے فیصلے لیے گئے۔ اس میں کسی مذہب کا کریڈٹ لینا عجیب ہے۔ جو مذہب اپنی حکومتوں میں اس کا خاتمہ نہ کر سکا وہ پورے اُفق پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ نبی سے لے کر صحابہ تک کے غلام رکھے تھے۔ اگر غلامی کی نفی مطلوب ہوتی تو سب سے پہلے نبی اور اُن کے فالورز کو اس پہ عمل کرنا چاہیے تھا‘‘
تب میں نے مختصراً عرض کی،
’’سب سے پہلے فالورز نے عمل کیا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی غلام نہیں رکھا ہوا تھا۔ حضرت زیدؓ متنبیٰ تھے اور ماریہؓ زوجہ تھیں‘‘
خیر! ایک دوست سیّد ظفرعباس صاحب نے گفتگو میں حصہ لیا اور فرمایا،
’’ اسلام سے پہلے ‘ انسانی مساوات کا تصور ‘ رائج مذہبی و غیر مذہبی’ عقائد ‘ میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اسلام کا نعرہ مساوات اور حریت ‘ آج تک گونج رہا ہے اور یہی اسلام کا حسن ہے‘‘
پوسٹ میں موجود میرے الفاظ، ’’ بس پھر کیا تھا؟ آنے والی چند ہی صدیوں میں زمین سے غلامی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا‘‘ پر شہزاد نیّر صاحب نے طنزاً فرمایا،
’’حیرت ہے !!!
یہ چند صدیاں 24 اکتوبر 1945 تک چلتی رہیں !!‘‘
پروفیسریوسف حسن صاحب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اظہارِ خیال فرمایا کہ،
’’ غلامی کو سماجی موت بھی کہا گیا ہے۔غلا م ایک شے ہوتا ہے اور اس کی حفاظت اس کے مالک کی غیرت کا مسئلہ ہوتا ہے‘‘
پروفیسر یوسف حسن صاحب کے کمنٹ کے بعد شہزاد نیّر صاحب کا کمنٹ آیا کہ،
’’ اردو کا پہلا سفر نامہ ، عجائبات فرنگ از یوسف کمبل پوش ، حجاز کے واقعات پڑھ لیں ۔ غلامی 1861 تک کس حال میں تھی ارضِ حجاز میں؟‘‘
یہ ایک نئی بات تھی۔ میں نے ارادہ کیا کہ یہ کتاب ضرور پڑھونگا۔ کچھ یہ بھی لگا کہ ’’عجائباتِ فرنگ‘‘ ضرور دلچسپ کتاب ہوگی۔کچھ ہی دیر میں محمد الماس صاحب نے کتاب ڈھونڈ نکالی اور اس کا آن لائن لنک بھی فراہم کردیا۔مجھے لگا یہ انٹرنیٹ نہیں کوئی جنت ہے، دِل میں خواہش کرو اور چیز اگلے لمحے حاضر۔ میں نے کتاب سیوکرکے مطالعہ کی فہرست کا حصہ بنالی۔البتہ میں نے شہزاد نیّر صاحب کے کمنٹ پر بہت ہی مختصر لکھا،
’’سوعربوں کا عمل اسلام کا عمل ٹھہرا؟ عجب منطق ہے‘‘
ایک اور دوست اصغرعلی شاہ صاحب نے اعتراض کیا کہ،
’’ اسلام یہ بھی حکم دے سکتا تھا غلام اور لونڈی رکھنا حرام ہے۔۔ تو اس وقت ہی غلامی ختم ہوجاتی ۔ اتنا وقت ہی نہ لگتا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کے غلامی اسلام کی وجہ سے ختم ہوئی یا معاشرے کے ذہنی ارتقا کی وجہ سے‘‘
شہزاد نیّر نے اخترعلی شاہ کی بات سے اتفاق کیا البتہ میں نے لکھا،
’’ یہ بے عقلی کی بات ہے۔ آپ آج ایسا سوچ رہے ہیں۔ اُس وقت ایسا سوچنا ممکن ہوتا تو افلاطون کی مثالی ریاست غلاموں سے پُر نہ ہوتی‘‘
استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی (سر) نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے فرمایا،
’’ آپ سے بصد ادب اختلاف کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غلامی ختم کرنے میں اسلام یا مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ جب دنیا غلامی ختم کر رہی تھی اس وقت علمائے حجاز فتاوی جاری کر رہے تھے کہ غلامی ختم کرنا غیر اسلامی فعل ہے‘‘
اس پر میں نے عرض کی،
’’ لاجیکلی ہم اٹھارویں صدی کے علمائے حجاز کے فتاویٰ کی مثال سے قران میں موجود انسدادِ غلامی کی حکیمانہ مہم کو رد نہیں کرسکتے۔ ’مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں‘‘ اس کے ساتھ اتفاق کیا جاسکتاہے۔ ’’اسلام‘‘ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کے ساتھ اتفاق مشکل ہے‘‘
تب استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹرساجدعلی (سر) نے اپنے مؤقف کی قدرے وضاحت فرمادی اورمیرے لیے آسانی ہوگئی۔انہوں نے لکھا،
’’فقہائے اسلام نے غلامی کے خاتمے کا سہرا اسلام کے سر نہیں آنے دیا۔ اگر مکاتبت کے قانون کی پیروی کی جاتی تو ایک دو نسلوں میں اس رسم بد کا خاتمہ ہو جاتا۔ قرآن کے جنگی قیدیوں کے واضح حکم کے باوجود سبھی غلام بنانے کے آپشن پر اصرار کرتے ہیں۔ جو لوگ فقہا سے ہٹ کر نئی تعبیر کریں گے وہ متجددین کہلائیں گے‘‘
سَرکے اِس کمنٹ کے ساتھ میں نے مکمل اتفاق کرتے ہوئے لکھا،
’’مکمل اتفاق‘‘
تب الماس صاحب نے بھی لکھا،
’’اپنے کمنٹ میں اور اس کے جوابات میں جو بات میں کہنا چاہتا تھا، وہ ساجد صاحب نے یہاں اختصار کے ساتھ عمدگی سے بیان کر دی ہے۔ ہمارے خلفاء، فقہا یا علماء کسی کی جانب سے بھی غلامی کے خاتمے کی کوئی کاوش نہیں ہوئی۔ بلکہ باالعموم سبھی نے اس کو جاری رکھنے میں حصہ ڈالا۔ اب ایسے حالات میں یہی زیادہ سے زیادہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے تو خاتمے کا کہا مگر ان لوگون نے نہیں ہونے دیا‘‘
اس پر ایک فیس بک قاری جناب عبدالمجید صاحب نے گفتگو میں حصہ لیا اور لکھا کہ،
’’اسلام نے جو بھی کہا، مسلمانوں نے اس کے برعکس عمل کیا۔ انیسویں صدی میں امریکہ میں غلامی کے مسئلے پر خانہ جنگی چھڑ گئی تھی لیکن مسلمان ممالک میں غلامی کا عمل شد و مد سے جاری تھا۔ اب بھی پنجاب کے دیہی علاقوں اور سندھ میں غلامی مختلف اشکال میں موجود ہے۔ اس کے برعکس غیر اسلامی دنیا میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غلاموں کے متعلق احکامات میں کیا آپ لونڈیوں کا ذکر بھی کریں گے؟‘‘
ایک دوست محسن رائے صاحب نے اعتراض کیا کہ،
’’آج کا سعودی عرب جا کر دیکھیں! غلامی کی جدید شکل ملے گی ۔اب وہاں آقا کو کفیل کے نام سے جانا جاتا ہے اور کفیلوں کے انسانیت سوز کارنامے !!!توبہ!! ویسے آپ کی پوسٹ جوک اچھا ہے مدنی چینل پہ ہٹ ہو سکتا ہے‘‘
محسن رائے صاحب کی بات اگرچہ سچ تھی لیکن ’’جوک اچھا ہے، مدنی چینل پر پہ ہٹ ہوسکتاہے‘‘ کے الفاظ نے ذاتی طور پر میری طبیعت میں تکدر سا پیدا کیا اور لگا کہ اس سے اچھے انداز میں بھی بات کی جاسکتی تھی۔
پروفیسر یوسف حسن صاحب نے پوسٹ کے متن پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا،
’’یہ تاریخ نہیں خطابت ہے‘‘
اس پر میں نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا،
’’ہاں کچھ رنگ خطیبانہ ہوگیا ہے۔ لیکن ’مدعا‘ کو اس بات سے بھی رَد نہیں کیا جاسکتا‘‘
ایک دوست محمد عمر نے کمنٹ کیا،
’’اقبال کس کے عشق کا یہ فیض ِ عام ہے
رومی فنا ہوا حبشیؓ کو دوام ہے
نسل پرستی کے خلاف اس سے بہتر مثال کیا دی جاسکتی ہے کہ اسلام نے سیاہ فام حضرت بلالؓ کو سفید فام رومیوں پر ترجیح دی؟‘‘
جناب حنیف نیازی صاحب نے بتایا کہ،
’’جناب! اس وقت عرب اپنے سٹاف کو غلام اور گھریلو نوکرانیوں کو لونڈیاں سمجھتے ہیں۔ وہی ظلم و ستم ہے، صرف طوق نہیں ہیں‘‘
نیازی صاحب کی بات کتنی سچی ہے۔ دل کو لگی۔ عرب کے موجودہ حال پر افسوس ہوا۔ میں خاموش رہا۔ البتہ محمد عمر صاحب نے انہیں جواب دیا کہ،
’’تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟اسلام نے تو اِن کو خطبۂ حجۃ الوداع میں صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں اور کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں‘ ۔ اب کوئی نہ مانے تو موج کرے!‘‘
البتہ پروفیسر یوسف حسن صاحب نے ایک بات بتاکر گویا میرے علم میں اضافہ فرمایا ۔ انہوں نے لکھا،
’’اسلام سےپہلے صرف یونان ہی نہیں تھاغلام ادارانہ ۔مغربی رومن ریاست بھی تھی ۔جس کو جب جرمن قبیلوں نے فتح کیا تو سارے غلاموں کو آزاد کر دیا تھا‘‘
اسی طرح ایک دوست ابوبکر صاحب نے اعتراض کیا کہ،
’’اسلام نے غربا کی مدد اور احسان کا درس دیا لیکن کیا وجہ ہے کہ غربت یا غربت کی وجہ یعنی طبقاتی ملکیتِ مال ختم نہیں ہو سکی ؟ غلامی والے مسئلے میں تو محض اخلاق سے بنیادی ادارہ ختم کیا گیا جیسا کہ آپ نے فرمایا‘‘
اس پر میں نے عرض کی،
’’نہیں پوسٹ میں میں نے لفظ ’’حکم‘‘ استعمال کیا ہے اور ’’شرعاً‘‘ جائداد میں حصہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چنانچہ غربت کے ساتھ اینالوجی درست نہیں‘‘
ایک دوست سجاد خالد صاحب نے گفتگو میں حصہ لیا اور پوسٹ کے بنیادی متن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار فرماتے ہوئے لکھا،
’’ درست فرمایا! جب پیغمبر علیہ السلام نے اس تفاخر ہی پر ضرب لگا دی جو غلام رکھنے والے کو ممتاز کرتا تھا تو کون غلام رکھتا؟ اس کے مقابلے میں برابری کا درجہ دینے اور آزاد کر دینے والوں کو بلند مرتبوں کی نوید سُنا دی‘‘
اب سوچتاہوں ایک چھوٹی سی بات پر گفتگو ہوئی اور اتنی اہم باتیں سامنے آگئیں۔ اتنی معلومات تازہ ہوئیں اور علم میں اضافہ ہوا۔ ہم روز فیس بک پر ایسی ہی باتیں ایک دوسرےسے شیئر کرتے ہیں جن میں بعض اوقات اساتذہ بھی شریک ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بعض مکالموں میں مخصوص شعبوں کے ماہرین اور اربابِ دانش حصہ لیتے ہیں تو نایاب باتیں سننے کو اور نایاب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگر ہمارے بعض نوجوان طلبہ و طالبات ایسے مکالموں کو ہی اکھٹا کرکے مرتب یا مدون کرنا شروع کردیں تو کتنا بڑا کام ہوگا۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ایسے سنجیدہ مباحث اپنے طلبہ کو بطور اسائنمنٹ سونپا کریں تاکہ طلبہ منطقی اور تحقیقی انداز تکلم و تحریر نہ صرف سیکھیں بلکہ اپنے علاوہ دیگر طلبہ اورعلمی ذوق رکھنے والے احباب کے کام آئیں۔میں سمجھتاہوں آج کل اردو ویب سائیٹس کا جو رواج چل نکلا ہے اور وہ آئے روز مضامین کے لیے لکھاریوں سے کہتے اور اُن کی بے جا خوشامدیں کرتے رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ کسی صاحب ذوق کو تھوڑا معاوضہ دے کر، اس طرح کے علمی مکالموں کو اچھے مکالماتی مضامین میں ڈھال کر اپنی ویب سائیٹس پر لگادیں۔ یقیناً یہ مباحث بڑے بڑے رائٹرز کے مواد سے زیادہ رِچ، مضبوط، علم سے بھرپور اور دلچسپ ہونگے۔
والسلام

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: سعد خان نے شائع کیا۔

سعد خان رشتے میں ادریس آزاد کے بھتیجے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ عربی صرف و نحو اور علومِ دینیہ کے طالب علم بھی ہیں۔حافظِ قران ہیں۔ گرافکس ڈیزائنر ہیں۔ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ادریس آزاد ڈاٹ کام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔