کائنات حیات سے چھلک رہی ہے    

یہ بات کہ اور سیّاروں پر بھی زندگی ہوسکتی ہے اتنی ہی قرین ِ قیاس ہے جتنی آج سے پانچ سو سال پہلے تک یہ بات قرین ِ قیاس تھی کہ اور بر ہائے اعظم پر بھی زندگی ہوسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے براعظموں پر زندگی آہستہ آہستہ دریافت ہوئی اسی طرح اور سیّاروں پر بھی زندگی آہستہ آہستہ ہی دریافت ہوگی۔ البتہ وہ دن جب پہلی بار پتہ چلے گا کہ کسی اور سیّارے پر بھی حیات موجود ہے ہم اہل ِ زمین کے لیے بڑا پُرتجسس دن ہوگا۔ شاید ایک نئی تقویم (سَن) کا بھی آغاز ہو۔

صرف یہی نہیں کہ وہاں محض زندگی ہوسکتی ہے جو ہماری ہی کوئی کالونی بنے گی بلکہ یہ کہنا کہ کائنات میں اور انسان بھی ہوسکتے ہیں قطعاً بعید از قیاس نہیں۔ اگرچہ سائنس دانوں نے ہر طرح کی حیات کے امکانات پر غور کیا ہے،  جیسا کہ کارل ساگان ایک سیّارے پر نائٹروجن کی ہوا میں سانس لینے والے ’’زندہ غبارے‘‘ جو بڑی بڑی جیلی فش نما جاندار ہیں، تصور کرتاہے۔ یہ جیلی فش نما جاندار دُور سیّارے کی سطح سے بہت اُوپر بادلوں میں اُڑتے پھرتے ہیں کیونکہ اُس سیارے کی سطح ٹھوس نہیں ہے، بلکہ مائع اور گیسوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ غبارے نما مخلوق فضا میں ایسے اُڑ رہے ہیں جیسے سمندر میں مچھلیاں تیرتی ہیں، اور سمندر کی مچھلیوں کی طرح بڑے غبارے چھوٹے غباروں کو کھاکر زندہ رہتے ہیں۔

لیکن اس طرح کی حیات کے ساتھ ساتھ بعینہ ایسی زندگی جیسی ہماری زمین پر پروان چڑھی،  کے پائے جانے کے بھی قوی امکانات ہیں۔کسی اور سیّارے پر کسی ذہین مخلوق کا وجود کوئی اجنبی تصور نہیں۔ فکشن کی دنیا میں ہم انہیں ایلیئنز کہتے ہیں۔فرض کریں کسی اور سیّارے پر انسان  یا انسانوں جیسی مخلوق ہے۔ فرض کریں وہ سیّارہ ہماری کہکشاں میں بہت دُور یا کسی اور کہکشاں میں واقع ہے اور فرض کریں کہ وہ انسان ہم سے تاریخ میں بہت آگے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہم سے دس ہزار سال ایڈوانس یعنی ترقی یافتہ  ہیں، تو یقیناً ان کی ٹیکنالوجیز ہماری ٹیکنالوجیز سے بالکل مختلف اور بہت اعلیٰ ہونگی۔ ہوسکتاہے وہ مشینی زندگی کی بجائے کسی اور میٹریل سے کام لیتے ہوں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سیّارے کا سارا نظام بائیو میکینکل بنالیا ہو۔ چنانچہ اگر کسی اور سیّارے پر زندگی ہوئی اور وہ لوگ سچ مچ ہم سے بہت زیادہ ایڈوانس ہوئے تو  عین ممکن ہے انہوں نے ’’ڈارک میٹر‘‘ دریافت کرلیا ہو یا اُن کے پاس ’’اینٹی میٹر‘‘کی کافی ساری مقدار موجود ہو اور یوں توانائی کا مسئلہ ان کے ہاں وجود ہی نہ رکھتاہو یا وجود رکھتا ہو تو اس سے بھی زیادہ توانائی کا حصول ان کا مقصود ومطلوب ہو۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ انہوں نے اِس جسمانی ہییت میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کردی ہوں اور جسم کے اِس بھاری تھیلے کو کم سے کم کرکے خود کو ہلکا پھلکا بنا لیا ہو، یہ بھی ہوسکتاہے کہ اتنا ہلکاپھلکا بنا لیا ہوا جیسے کوئی چھوٹی سی کانچ کی گولی یا اس سے بھی چھوٹا، جیسے کوئی پارٹیکل ۔اس پر مستزاد کوانٹم فزکس کی یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ’’ایک الیکٹران  ہمیشہ اپنے مشاہدے سے باخبر ہوتاہے‘‘۔ یہ بھی ہوسکتاہے کہ وہ انسان خود کو ڈی میٹریلائز کرسکتے ہوں ،یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم سے اس قدر آگے ہونے کی وجہ سے انہوں نے دیگر سیّاروں پر موجود زندگی یا انسانوں کے ہونے کا کھوج پالیا ہو۔یا ہمیں پیغام بھیجتے ہوں جو ہم نہ سمجھ پاتے ہوں یا سرے سےانہوں نے زندگی یا انسانیت کے بیج ہی بعض سیّاروں پر خود پھینکے ہوں۔

امکانات سے انکار ہی اصل کفر ہے۔ امکانات ہمہ وقت ، ہر بات کے لیےموجود ہوتے ہیں۔ دور حاضر کی سائنس تو اسے امکان کہتی ہی نہیں بلکہ ’’پیرالل رئلٹی‘‘ کہتی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’متوازی حقیقت‘‘ بنتاہے۔ اسی طرح ماہرینِ طبیعات موجودہ کائنات کو یونیورس نہیں بلکہ آبزرویبل یونیورس (قابل ِ مشاہدہ کائنات) کا نام دیتےہیں۔ بقول کارل ساگان،

’’یہ کائنات، حیات سے چھلک رہی ہے۔‘‘

اگر ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن ہمیں ضرور معلوم ہوجائیگا۔ جس طرح ایک دن ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اگر زمین کو گول مان لیا جائے تو یورپ سے ایشیأ  تک کا سمندری سفر کرنے سے راستے میں ایک اجنبی اور بالکل نیا براعظم یعنی ’’امریکہ‘‘ آتاہے۔امریکہ کا نام بھی اُس شخص کے نام پر ہے جس نے اُسے پہلی بار نیا براعظم تسلیم کیا۔اُس شخص کا نام ’’امریگو‘‘ تھا۔ حالانکہ ہم سب جانتےہیں کہ امریکہ کولمبس نے دریافت کیا لیکن کولمبس نے آخری سانس تک یہ تسلیم نہ کیا کہ اُس نے ایک نیا براعظم دریافت کیا ہے۔ وہ یہی کہتا رہا کہ اس نے انڈیا کا نیا راستہ ڈھونڈا ہے اور جہاں وہ اُترا ہے وہ انڈیا ہی ہے۔ خیر! جب پتہ چلا کہ اُس نئےبراعظم پربھی  انسان آباد ہیں تواُس زمانے کے لوگ امریکہ سے واپس آنے والوں سے پوچھا کرتے، ’’کیا وہ ہمارے جیسے انسان ہیں؟ کیااُ ن کی دو ٹانگیں ہیں؟ ‘‘ یہ وہ زمانہ ہے جب زمین کو چپٹا سمجھا جاتا تھا اور سمندر کو آسمان کے نیچے پھیلا ہوا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا مکان سمجھا جاتا تھا۔  کئی صدیوں تک ہماری حیرت یہ سوچ سوچ کر فزوں ہوتی رہی کہ وہاں انسان کیسے پہنچے ہونگے؟ آخر گزشتہ صدی میں کھوج لگایا گیا کہ پچیس ہزار سال پہلے سائبیریا اور الاسکا کے درمیان جمی ہوئی برف تھی، تھرتھراتا ہوا پانی نہیں تھا۔ اور ایشیأ کے لوگ وہاں سے پیدل براعظم امریکہ پہنچے۔ یہ ایشیأ کے ’’آراواک‘‘ قبائل تھے۔ قدیم امریکی جنہیں ہم ریڈ انڈینز کہتے ہیں وہ نسلاً ہم ایشیایوں کے بھائی ہیں۔بالکل اسی طرح کبھی یہ بھی ہوسکتاہے کہ ہم کسی اور سیارے کے بچھڑے ہوئے بچے نکلیں۔ کسی بڑے مرکز کا ٹکڑا ۔ کسی بہت بڑی تقسیم کا حصہ۔ کسی کاسموپولیٹن سوسائٹی کا محض ایک  جزو۔      

اس بات کے امکانات کو بھی آج تک ماہرینِ طبیعات نے رد نہیں کیا کہ کسی اور سیّارے سے کوئی ذی شعور مخلوق اگرہمیں کچھ پیغامات بھیج رہی ہے تو ضروری نہیں کہ ہم ابھی انہیں سمجھ پائیں۔زمین تک پہنچنے والے متعدد قسم کے معلوم و نامعلوم پارٹیکلز کوئی مسیجز ہیں یا فقط لہریں؟ فزکس کے لوگ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا  نشریاتی  رابطہ کٹ جانے کے بعد ،سکرین پر جو مکھیاں سی آجایا کرتی تھیں اور بھنبھناہٹ جیسی جو آواز سنائی دیتی تھی ، یہ سگنلز  ہوتے تھے۔ یہ سنگلز ہروقت خلاسے زمین پر آرہے ہیں۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ کائنات میں بڑی مِسٹری ہے، بڑا جادُو ہے۔ رازوں سے لبریز یہ تاریک خلا بہت مہیب ہے۔ فلکیات میں بے پناہ اسرار ہے ۔ ہمارے سورج کے آٹھ سیّارے ہیں، جن میں سے زمین ایک ہے۔ ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے بھائی سیّاروں پر زندگی ہے یا نہیں۔ ہمارے سورج جیسے ایک کھرب سُورج صرف ہماری کہکشاں میں ہیں۔ اور تقریباً ہرایک کے ساتھ مختلف تعدادوں میں سیّارے ہیں۔اس پر مستزاد ہماری کہکشاں جیسی ایک کھرب کہکشاؤں کا اندازہ لگایا گیا  ہے اور یہ وہ کہکشائیں ہیں جو ’’آبزرویبل  یونیورس‘‘میں پائی جاتی ہیں۔فزکس تو یہ بھی ماننے کے لیے تیار ہے کہ وہ کائناتیں جو ابھی ہمارے مشاہدے میں نہیں آسکتیں، لامتناہی تعداد میں ممکن ہیں۔آبزرویبل کائنات میں  اگر ہرکہکشاں کے ہر ستارے کے ساتھ سیارے ہوں تو خدا کی پناہ! کُل کائنات میں کتنے سیّارے ہونگے؟ اگر ہرکہکشاں میں صرف  دس سیّارے  بھی زمین جیسے ہوں تو پوری کائنات میں دس کھرب سیّارے زمین جیسے ہونگے اور اگر ہرکہکشاں میں صرف ایک سیّارے پر بھی انسان ہوں تو ایک کھرب سیاروں پر انسان ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ستارے سیّارے گویا کائنات میں دھول کے ذرّات کی طرح ہیں اور بقول کارل ساگان ، ’’ہم دُھول کے ایک ذرّے پر آباد ہیں‘‘۔

فرض کریں کسی اور سیّارے پر  ہمیں پہلے سے موجود زندگی نہیں ملتی پھر بھی یہ بات تو یقینی ہے کہ اگر انسان نے خود کو اِن فضول اور بے مقصد لڑائیوں میں ختم نہ کرلیا تو مستقبل کا انسان دیگر سیّارے آباد کرنے کا اہل ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایک ’’ کاسموپولیٹن سوسائٹی‘‘ کے وجود میں آنے کے امکانات کو کوئی نہیں روک سکتا۔یعنی ایک ایسی سوسائٹی جس میں ایک نہیں کئی سیارے کسی مرکزی کابینہ کا حصہ ہوں گے اور سارے سیّاروں کے انسان ایک اُمت کی شکل میں رہ رہے ہوں گے۔ فرض کریں یہ سب آج سے پانچ سو سال بعد ہوجائیگا تو پھر ایسا سوچنا کہ آج سے پہلے ایسا  کسی اور سیّارے پر ہوابھی ہوگا ، اور ہم اسی کے پارچہ جات ہیں جو کبھی نہ کبھی جان جائینگے کہ ہم کیسے، کب اور کہاں بچھڑے تھے۔ تو ایسا سوچنے میں حرج ہی کیا ہے؟

زمین سے صرف پچاس میل  کی دوری پر خلا یعنی سپیس ہے۔ اس لیے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زندگی کے ابتدائی جرثومے خلا سے زمین پر وارد ہوئے ہوں گے، کیونکہ پچاس کلومیٹر تو بہت کم فاصلہ ہے۔ شاید لاہور سے شیخوپورہ جتنا۔اِس نظریہ کو سائنس کی زبان میں ’’پین سپرمیا‘‘ (Panspermia) کہتے ہیں۔  اِس نظریہ کے مطابق زندگی سیّارہ  دَر سیّارہ بارش کی طرح برستی رہتی ہے۔ جب کوئی بڑا شہابیہ کسی ایسے سیارے پر گرتاہے جہاں زندگی کے جرثومے پہلے سے موجود ہوں تو وہاں سے اُٹھنے والی دھول، مٹی، گرد اور پتھر وغیرہ واپس خلا میں نکل جاتے ہیں اور اپنے ساتھ زندگی کے اجزأ بھی لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کریں زمین پر ایک بڑا شہابیہ گرا اور پھر جب اس کا امپیکٹ زمین کے ساتھ ہوا تو زمین سے کئی ٹکڑے اُڑ کر خلا میں چلے گئے کیونکہ فاصلہ بہت کم یعنی کل پچاس میل ہے۔ یہ فاصلہ نارتھ اور ساؤتھ پولز یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی پر کم ہوکر صرف تیس میل رہ جاتاہے، سو جب زمین پر کوئی بڑا شہاب ِ ثاقت گِرتا ہے تو جو دھول اُڑتی ہے وہ واپس خلا تک چلی جاتی ہے اور یوں زندگی کے بے شمار جرثومے اپنے ساتھ خلأ کی وسعتوں میں لے جاتی ہے۔یہ شہابیے ہر سیّارے پر اسی طرح گرتے اور وہاں سے اِسی طرح دھول اُڑاتے رہتے ہیں۔آج سے ٹھیک ایک سو آٹھ سال پہلے یعنی تیس جون 1908 کو سائبیریا میں ایک اتنا بڑا شہابیہ گرا کہ بقول کارل ساگان کئی ہزار کلومیٹر دور لندن میں بھی رات کے دو بجے کھلے پارک میں بیٹھ کر اخبار پڑھا جاسکتا تھا۔لند ن میں رات کے دوبجے کھلے پارک میں اخبار کیوں پڑھا جاسکتا تھا؟ کیونکہ شہابیے کے ٹکرانے سے جو دُھول اُٹھی وہ پورے سیّارۂ زمین کے گرد چھا گئی۔ ایسا کسی بھی وقت ہوسکتاہے اور ہرسیّارے پر ہوتاہے۔یہ گردوغباراور پتھر اورسنگریزےوقت کے ساتھ خلاؤں میں تیرتے رہتے ہیں اور پھر کبھی نہ کبھی کسی اور سیارے پر گر جاتے ہیں  تو وہاں زندگی کا عمل شروع ہوجاتاہے۔پین کا مطلب ہوتا ہے ’’آل‘‘ یعنی تمام اور سپرم کا معنی تو ہر کسی کو معلوم ہے۔ پین سپرمیا کے مطابق زندگی کا بیج  کائنات میں ہرجگہ موجود ہے۔ جہاں اسے حالات مساعد نظر آتے ہیں وہاں ارتقأ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر ’’پین سپرمیا‘‘ درست ہے جو کہ معلوم ہوتاہے کہ درست ہے تو پھر زندگی  کا زمین کے علاوہ کسی اور سیّارے پر پایا جانا ذرا بھی بعید ازقیاس نہیں بلکہ یقینی ہے۔ اور اگر زندگی کا پایا جانا یقینی ہے تو پھر انسانوں کا پایا جانا یا انسانوں جیسی ذہین کسی اور مخلوق کا پایا جانا بھی کوئی مشکل خیال نہیں۔پین سپرمیا کے مطابق زندگی کو کائنات میں پھیلا دینے والی قوت یقیناً نیچر  ہے۔ اگر زندگی کو پوری کائنات میں نیچر نے خود پھیلا دیا ہے اور ایک نہ ایک دن ہماری ملاقات ایلیئنز سے بھی ہوجانے کی قوی اُمید ہے تو پھر یہ کیونکر کہا جاسکتاہے کہ ہم واحد ایسی مخلوق ہونگے جو ذہین فطین ہے۔

مشہور سائنسدان، نیل ڈی گراس ٹائسن کے بقول ہمارا  ڈی این اے، چمپنزی (بندروں کی ایک قسم) کے ڈی این اےسے 98.9  فیصد ملتاجلتاہے۔ہم چمپیانزی سے صرف ایک فیصد مختلف ہیں لیکن ہمارا اور ان کا فرق اتنا ہے جتنا کہ ایک گٹھنوں کے بل چلتے  آٹھ ماہ کے بچے  اور ایک  دانا انسان کا۔  نیل ڈی گراس ٹائسن کے الفاظ میں، ’’فرض کریں کسی اور سیارے پر ایک مخلوق ہے جو اگر ہم سے صرف ایک فیصد ہی زیادہ  ارتقأ یافتہ ہوئی تو ہمارے بڑے بڑے سائنسدان ان کے سامنے ایسے ہونگے جیسے ہمارے سامنے چمپانزی ہیں‘‘۔خود بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ ’’اگر زندگی اِس طرح وسیع و عریض اور عظیم و بسیط ہے تو کیا اِس بات کے امکانات موجود نہیں ہیں کہ کوئی مخلوقات ہم سے کئی گنا زیادہ ذہین فطین اور باشعور ہوں؟‘‘  اب اگر ایسا تصور کرنا عین سائنسی ہے تو پھر ایسا تصور کرنا کیوں غیر سائنسی ہوسکتاہے کہ کوئی ان سب سے بھی زیادہ ذہین ہوگا۔ یعنی سب سے بڑا دماغ؟ شاید وہی اس سارے بھنڈارکا خالق بھی ہو؟ وہ جس کے سامنے ساری کائناتیں کسی کھڑکی سے نظر آنے والے منظر کی طرح کھلی ہوں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ حقیر ہو، اس کے سامنے ، یہ سب لامتاہی کائناتوں کا سلسلہ؟

اہم بات یہ ہے کہ ہم اُس زمانے میں جی رہے ہیں جب مریخ پر پانی دریافت ہوچکاہے۔ یونیورسٹی آف کولوراڈو کے پروفیسر،  ڈاکٹرسٹیون موزیئر(Stephen Mosier ) ایک عرصہ سے ، سیّارہ زمین کی چوٹی یعنی’’گرین لینڈ‘‘ میں رہتے ہوئے، قدیم ترین چٹانوں  اور پرانے پتھروں میں زندگی کے اجزأ تلاش کررہے ہیں۔سیّارۂ زمین جب وجود میں آرہا تھا تو بالکل آغاز میں یہ ایک بہت بڑا  گرم،گولہ سا تھا۔ کسی پگھلے ہوئے مادے جیسے مواد کا گولہ۔ یہ مواد اتنا گرم تھا کہ کسی بھی قسم کے نامیاتی مادے کے لیے اتنے زیادہ درجہ حرارت میں زندہ رہنا ناممکن تھا۔ جب یہ مواد ٹھنڈا ہوا تو اس وقت زندگی کے جرثوموں سے خالی سمندر اور بنجر چٹانوں کے سوا یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ڈاکٹر سٹیون نے ایسی چٹانوں کو خود تلاش کیا جن میں کسی نامیاتی کیمیائی مواد کا وجود سرے سے ناپیدہے۔ اور یہ ایسی چٹانیں بھی ہیں جن میں زندگی کبھی بھی پیدا نہ ہوسکتی تھی، یعنی زمین کی قدیم ترین کیمیائی ساخت زندگی کے لیے نامناسب نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اسی مقدمہ کی بنیاد پر ڈاکٹر سٹیون کا خیال ہے کہ ’’زندگی زمین پر شروع نہیں ہوئی، بلکہ کہیں اور شروع ہوئی ہے‘‘۔ ڈاکٹرسٹیون کے الفاظ میں،

’’میری ذاتی رائے یہ ہے کہ چونکہ خلا   نامیاتی مواد سے بہت زیادہ مالامال ہے سو یقیناً زندگی خلاسے زمین پر وارد ہوئی ہے اور چونکہ زمین خلا سے فقط تیس سے پچاس میل کی دُوری پر ہے فلہذا یہ کہنا کہ زندگی کے جراثیم خلا سے نازل ہوئے کسی صورت غلط نہیں، بلکہ یہی درست ترین جواب ہوسکتاہے، اس سوال کا کہ زمین پر زندگی کہاں سے وارد ہوئی۔‘‘

مریخ ہمارے ساتھ والا پڑوسی سیارہ ہے جبکہ سائنسدان مریخ پر پانی دریافت کرچکے ہیں۔ یعنی زندگی کے امکانات تو ہمارے اپنے سُورج کے سیاروں میں بھی نمایاں  ہیں، پھر دیگر ستاروں کے سیّارے کیونکر بنجر ہونگے؟ ابھی ہم زمین سے باہر نکل ہی کتنا پائے ہیں؟ جب ناسا نے مریخ پر پانی دریافت ہونے کی خبر نشر کی تو  جہاں بہت سے لوگ چونک گئے وہاں کئی لوگوں نے اسے جھوٹی خبرقراردیا۔ میں سوچتاہوں کولمبس کے وقت بھی ایسا ہوا ہوگا۔امریکہ دریافت کرنے والے کولمبس (1492) سے لے کر چاند پر قدم رکھنے والے نیل آرمسٹرانگ (1969) تک نظر دوڑائیے! ہم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے۔آہستگی کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کو انسان محسوس نہیں کرتا لیکن تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والی کوئی بھی تبدیلی ، کوئی بھی بڑی خبر آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرتا۔آج کا انسان سائیکل اور موٹرسائیکل کے ساتھ بڑا ہوا ہے۔ اس کے لیے یہ ایجاد نہیں ہے، گھر کا آئٹم ہے۔ وہ بڑا ہوجاتاہے ، پوچھتا تک نہیں کہ یہ کیوں چلتی ہے کیسی چلتی ہے۔ وہ ٹی وی کے ساتھ بڑا ہوا ہے، اسے کیا ضرورت برقی مقناطیسی لہروں کے بارے میں متجسس ہونے کی۔خبریں آتی جاتی رہتی ہیں۔ ارتقأ  کا تقاضا ہی یہی ہے کہ سب کچھ غیر محسوس طریقے سے ہو۔ کوئی نہ چونکے، کوئی نہ اُچھلے۔ جو ہورہا ہے بس ’’روٹین‘‘ لگے۔ اور پتہ ہی نہ چلے،  یہاں تک کہ نسلوں کی نسلیں بدل جائیں۔ ایک نوع سے دوسری نوع کا ظہور ہوجائے۔ ہم نے اپنے آس پاس لاکھوں تبدیلیوں کا نوٹس کبھی نہیں لیا تو اس ایک خبر کا نوٹس خاک لینگے کہ مریخ پر پانی دریافت ہوچکاہے؟ ہم برائیلر چکن کھاتے ہیں۔ گھر لے جاتے ہیں۔ مہمانوں کو کھلاتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا تک نہیں ،’’بابا! یہ خدا  کی عطاکردہ صلاحتیوں کے بل پر انسان کی  ایجاد کی ہوئی مخلوق ہے‘‘۔ہمارے آس پاس ہزاروں قسم کی نئی نئی سبزیاں اور پھل روز پیدا ہورہے ہیں، ہم ان پر کبھی غور نہیں کرتے۔روز کا کام کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے ہم چپ چاپ کرتے چلے جاتےہیں۔ مثلاً آج ہرکسی کے ہاتھ میں موبائل ہے۔ مسلسل مسیجنگ، کالز، گیمز اور پتہ نہیں کیا کیا اَلا بَلا اُس کے ذریعے ممکن ہے۔ انٹرنیٹ اِسی موبائل پر چل جاتاہے اور پوری کائنات،  ہرشخص کے ہاتھ میں کسی کھلی کتاب کی طرح سماجاتی ہے۔ہمیں  کبھی خیال نہیں آتا کہ ’’یہ ارتقأ ہورہا ہے ‘‘۔ اسی کو تو ارتقا کہتے ہیں۔ جب پتہ تک نہ چلے کہ ’’میاں آپ بکری سے زرافہ بنتے جارہے ہو‘‘ ۔ نہیں، جب زرافہ بن جاتے ہیں تب بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم پہلے بکریاں تھے؟

بہرحال مریخ پر پانی دریافت ہو چکا ہے۔ مریخ پر 95.97 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ پودوں کی خوراک ہے۔ کارل ساگان نے اپنی کتاب کاسموس میں مریخ  پر آباد کاری کا ایک قابلِ عمل  منصوبہ پیش کیا ہے۔اس کے مطابق مریخ کے قطبین پر برف موجود ہے اور مریخ پر قدرتی نہروں کا نظام بھی ہے ۔ مریخ کے بڑے گڑھے سمندر بھی بن سکتے ہیں۔  اگر قطبین پر کسی طرح ’’گرین ہاؤس ایفکٹ‘‘ پیدا کرکے اس برف کو پگھلانا شروع کردیا جائے تو مریخ کے دریا اورنہریں پھر سے بہنے لگیں گی۔اور جلد ہی مریخ کے گڑھے بھر کر سمندر بن جائینگے۔ اگر مریخ پر ہرطرح کے پودوں کے بیج (سیڈز) شاور کردیے جائیں یعنی چھوٹے چھوٹے ڈرون ہیلی کاپٹرز کی مدد سے مریخ پر مختلف بیجوں کی بارش کردی جائے اور اگر کسی طرح وہاں ایک بھی پودا پیدا ہوجائے تو و ہ پودا کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بطور خوراک استعمال کرنا شروع کردے گا  جس کے نتیجے میں خود بخود آکسیجن پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ کوئی ایک بھی پودا اُگنے کی دیر ہے پھر تو جنگل کے جنگل اُگ جائینگے کیونکہ مریخ پر پانی اور وافر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے۔جنگل اُگ گئے تو مریخ کی فضا بدل جائیگی اور جلد ہی  ساری فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بجائے آکسیجن سے بھر جائیگی۔ تب اُن پودوں کی زندگی کے لیے مریخ پر ایسے جانداروں کا وجود ضروری ہوجائے گا جو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرسکیں ۔ کارل ساگان کا یہ منصوبہ تو خاصا پراناہے۔ اُس وقت ابھی صرف مریخ کے نہری نظام کی تصویرں ہمارے پاس تھیں۔اُس وقت پانی دریافت نہ ہوا تھا۔ اب تو مریخ پر پانی دریافت ہوچکاہے اور اس لیے سائنسدانوں کو ایک نئی اُمید پیدا ہوگئی کہ ممکن ہے مریخ پر پہلے سے زندگی موجود ہو یا کبھی موجود رہی ہو۔چونکہ وہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہے سو ہوسکتاہے کہ مریخ پر زندگی کی کوئی اور شکلیں ہوں۔

بعض سائنسدانوں کو تو مریخ پر بیکٹیریا کے فاسلز بھی نظر آگئے ہیں۔ ’’کیوریاسٹی‘‘ ایک روبوٹ کا نام ہے جو ہم انسانوں نے مریخ پر بھیجا تھا۔ اب وہ کئی سال سے مریخ کی سطح پر اکلوتے انسانی نمائندے کی حیثیت سے موجود ہے اور دن رات کام کررہاہے۔ کیوریاسٹی ایک ایسی مشین ہے جو مریخ کی سطح کے مختلف نمونوں (Samples) کا جائزہ لیتی ہے،  مریخ کی مختلف تصویریں زمین پر موجود سائنسدانوں کو مسلسل بھیجتی رہتی ہے۔ایسی ہی تصویروں میں ایک تصویر اُس عجیب و غریب شئے کی ہے، جسے بعض سائنسدان بیکٹیریا کا فاسل سمجھ رہے ہیں۔

مریخ پر زندگی نہ بھی ہو تو انسان وہاں زندگی پیدا کردینگے۔مریخ کے علاوہ اور بہت سے سیارے  ایسےہیں جہاں پانی کےہونے کی توقعات ہیں اور زندگی کے ہونے کی بھی۔ان میں زُحل کا  ایک چاند بہت معروف ہے جہاں برف کے سمندر ہیں۔اس برف کے نیچے کیا دنیا آباد ہے ابھی ہمارے لیے یہ جاننا ممکن ہیں ہوسکا۔

میں اکثر کہا کرتاہوں کہ اگر انسان آپس میں لڑنا بھڑنا بند کردے تو لڑائی کا جو سب سے بڑا سبب ہے یعنی ’’وسائل‘‘ کا مسئلہ وہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ باہَر کائنات میں وسائل کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ موجود ہے۔ بس ہمیں صرف اپنے کنویں سے سر نکال کر باہر جھانکنے کی ضرورت ہے۔

چاند کے بعد انسان نے کسی اور سیّارے کا سفر نہیں کیا۔ چاند پر انسان نے 1969  میں قدم رکھا تھا۔ آج سینتالیس سال ہوگئے ہیں۔ آج تک دوبارہ کوئی مِشن کسی اور سیّارے کے لیے روانہ نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کے بعد سب سے نزدیکی مریخ اور زہرہ (وینس) ہے۔ زہرہ سُورج کے نزدیک ہونے کی وجہ سے بے پناہ گرم ہے جبکہ مریخ پر جانے کی تیاری کرتے کرتے ہمیں پانچ دہائیاں گزرگئی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مریخ پر جانے والا کوئی بھی مِشن سات مہینے تک خلا میں سفر کریگا۔ یہی وجہ ہے کہ چاند کے بعد سے اب تک کوئی مِشن نہیں بھیجا جاسکا۔ سات ماہ تک بغیر گریوٹی (کششِ ثقل) کے رہنا انسانی جسم کے لیے ناممکن کی حدتک مشکل کام ہے۔ زمین پر کشش ِ ثقل ہے۔ ہمارے جسم کی ہڈیاں کششِ ثقل کی وجہ سے قائم رہتی ہیں۔اگر سات ماہ کے لیے نیچے سے کشش ِ ثقل کو ہٹادیاجائے تو ہماری ہڈیاں خود بخود اوپر سَر کی جانب اکھٹاہونا شروع ہوجائینگی اور انسان دوپاؤں والی مخلوق کی بجائے ہڈیوں اور گوشت کی ایک گھٹڑی بن جائیگا۔ اس کےعلاوہ مریخ پر اُترنا، پھر وہاں کچھ دن رہنا اور پھر واپس آنا ، یہ سب اتنے مشکل سوالات ہیں کہ انسان ان کے سامنے بے بس ہوجاتاہے۔ لیکن آفرین ہے انسان کی عظمت پر کہ اِس نے ہمّت نہیں ہاری۔

2022   میں مریخ پر پہلا انسانی مِشن جارہاہے۔آج 2016   ہے۔ گویا آج سے کل سات سال بعد مریخ  کی طرف پہلا انسانی مِشن روانہ کردیا جائیگا۔یہ یکطرفہ مِشن ہے یعنی وہ لوگ جو مریخ کے لیے روانہ ہونے والے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آئینگے۔ اسی لیے اِس مِشن کا ایک  نام  جہاں ’’مارس ون‘‘ ہے وہاں، ’’ون وے مارس مشن‘‘ بھی ہے۔ یہ لوگ سات ماہ تک خلا میں سفر کرکے مریخ پر اُترینگے۔ان کے جسموں کو زِیرو گریوٹی کے اثرات سے کس طرح بچایا جائے گا، اس کے لیے وہ دن رات مصنوعی زیروگریوٹی میں جسمانی مشقیں کررہے ہیں۔ ایسی مشقیں جو  دورانِ سفر زیرو گریوٹی میں کی جائینگی تاکہ ہڈیاں اپنی جگہ قائم رہیں۔یہ لوگ وہاں پہنچیں گے تو  وہاں باریک پلاسٹک شیشے کی ایسی عمارت بنائینگے جس میں پودے اُگائے جاسکیں تاکہ وہاں قیام کے لیے مستقل طور پر آکسیجن کا بندوبست ممکن بنایا جاسکے۔عمارت سے باہر نکلنے کے لیے اُنہیں ہمیشہ آکسیجن والا ماسک پہننا پڑیگا۔وہ ساری زندگی اسی طرح گزارینگے۔ پوری دنیا میں سے ایک سو لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کو تربیت دی جارہی ہے۔ ان میں سے صرف چار لوگوں کو بھیجاجائےگا۔ تربیت پانے والوں میں سے ایک لڑکی نے مختلف فورمز پر بتایاہے کہ وہ ’’مریخ پرپہنچ کر ماں بننا چاہتی ہے، مریخ پر پہلی ماں‘‘۔

حالانکہ  بعض ماہرین نے اس مِشن پر تبصرہ کرتے ہوئے شدید ترین خدشات کا اظہار کیا ہےاور کہا ہے کہ یہ ’’مشن امپاسبل‘‘ ہے۔ایک جرمن سائنسدان نے کہا ہے کہ مریخ پر ’’مارس ون ‘‘ کے قافلہ کےپہنچنے کے چانسز صرف تیس فیصد اور وہاں پہنچ کر زندہ رہنے کے ساٹھ فیصد ہیں۔ ایم آئی ٹی نے بھی  ایسے ہی ریسرچ پیپرز شائع کیے ہیں لیکن اس کے باوجود’’مارس ون‘‘ دن دُگنی رات چوگنی ترقی اور جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری ہے۔میں اکثر قرانِ پاک کی یہ آیت دیکھ کر ششدر رہ جاتاہوں کیونکہ میری دانست میں اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے سیّاروں پر انسانی نسلوں کی آبادکاری کا واضح ذکر کیاہے۔

  وَءَايَةٌ۬ لَّهُمۡ أَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَہُمۡ فِى ٱلۡفُلۡكِ ٱلۡمَشۡحُونِ (٤١) وَخَلَقۡنَا لَهُم مِّن مِّثۡلِهِۦ مَا يَرۡكَبُونَ (٤٢)    

اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ (۴۱) اور ہم نے ان کے لیے کشتی ہی جیسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں۔ (۴۲) ترجمہ: اشرف علی تھانویؒ

اس آیت کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سے پہلے یا بعد میں یعنی اِس آیت کے سیاق و سباق میں کسی کشتی، سمندر، دریا یا قصۂ نوح ؑ کا ذکر نہیں بلکہ خصوصی طور پر فلکیات کا ذکر ہے۔چونکہ بیسویں صدی سے پہلے تک خلا کے سفر کا امکان  ہی نہیں تھا اس لیے اِس آیت کا حقیقی مفہوم کھلنا اتنا آسان نہیں تھا۔ چنانچہ ترجمہ میں ہمیشہ مفسرین نے ’’فلک المشحون‘‘ کو سمجھنے کی کوشیں جاری رکھیں۔اس سے پچھلی یعنی آیت نمبر ۴۰، میں کہا گیاہے کہ، ’’نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور دونوں ایک دائرے میں تیر رہے ہیں(ترجمہ: اشرف علی تھانویؒ)‘‘۔جبکہ آیت نمبر اکتالیس میں کہاجارہاہے کہ ’’ اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ (۴۱) اور ہم نے ان کے لیے کشتی ہی جیسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں۔ (۴۲)‘‘۔ میں ذاتی طور پر سمجھتاہوں کہ ’’فلک المشحون‘‘ سے مُراد ’’تیرتاہوا سیّارہ‘‘ ہے۔اور پوری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ، ہم نے جس طرح اِنسانوں کو ایک تیرتی ہوئی کشتی یعنی زمین پر سوار کرایا ہے، اسی طرح کی اور بھی کشتیاں ہم نے بنائی ہیں جن پر ہم اِن کی نسلوں کو سوار کراتے ہیں یا کرائیں گے‘‘۔اور یوں میں سمجھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نہایت واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ زمین کے علاوہ بھی ایسے سیارے ہیں جہاں فقط زندگی ہی نہیں بلکہ انسانی نسلوں کا آباد ہونا لازمی امرہے۔

خلا کا سفر انسان کے لیے بے پناہ مشکل ہے۔ زمین پر کششِ ثقل ہے، جس کی وجہ سے خلا میں کسی بھی آبجیکٹ کو بھیجنے کے لیے بے پناہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ خلائی راکٹ کی تصویروں میں ہمیشہ نیچے سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ توانائی ہے جس کے ذریعے اب تک خلا میں راکٹ اور سیٹلائٹس کو بھیجا جاتارہا۔اسی طرح خلا میں پہنچ کر آگے کا سفر اور ایسا سفر جو سالہاسال جاری رہے، توانائی کی کمی کی وجہ سے قریب قریب ناممکن تھا۔ لیکن اکیسویں صدی بے پناہ انقلابی صدی ہے۔ اتنی زیادہ توانائی استعمال کرکے راکٹوں کو خلا میں بھیجنا اور پھر ان کا سفر سالہا سال تک جاری رکھناچونکہ نہایت مشکل تھا اِ س لیے سائنسدانوں نے خلا میں جانے کے کئی دیگر کامیاب طریقے ایجاد کرلیے ہیں۔ ان میں ’’شمسی کشتی‘‘  (Solar sail) سب سے دلچسپ ہے۔

شمسی کشتی بعینہ بادبانی کشتی کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ 2010 میں جاپان نے سب سے پہلی شمسی کشتی خلا میں بھیج دی تھی۔ ناسا نے ایک سال بعد 2011  میں اپنی شمسی کشتی روانہ کی۔ جس طرح بادبانی کشتی چلتی ہے یعنی بھاری کپڑے کے بڑے بڑے بادبان کھول دیے جاتے ہیں اور سمندر پر چلنے والی ہوا ان بادبانوں کو دھکیلتی ہے، جس سے سمندری جہازچلتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سُورج سے آنے والی روشنی کے ذرّات بھی جس چیز پر پڑتے ہیں، اُس کو تھوڑا سا دھکا دیتے ہیں۔ روشنی کا ہرذرّہ فوٹان کہلاتاہے۔ فوٹان میں مومینٹم ہوتاہے۔ مومینٹم کا مطلب ہی ایسی خفیہ توانائی ہے جو کسی شئے سے ٹکرانے کے بعد ظاہر ہو۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں سایہ ہوتاہے، وزن میں ہلکی ہوتی ہے، نسبتاً اس جگہ کے جہاں دھوپ ہوتی ہے۔خیر! تو بادبانی کشتی کی طرح سولر کشتی بھی اپنے بڑے ، بھاری اور چمکدار کپڑے پر روشنی کے ذرّات یعنی فوٹانز کی، سُورج سے چلنے والی ’’روشنی کی ہوا‘‘ کا دباؤ محسوس کریگی۔ روشنی کے دباؤ سے سولر کشتی حرکت میں آئے گی اور یہ حرکت مسلسل بڑھتی چلی جائے گی۔ یعنی محض فوٹانز کے دھکے سے چلنے والی سولر کشتی ہرگزرنے والے دن کے ساتھ رفتار میں کئی گنا تیز ہوچکی ہوگی۔سائنسدان سوچ رہے ہیں کہ ایسی کئی سولر کشتیاں بناکر دُور دراز کی کہکشاؤں اور ستاروں کی طرف بھیج دیں۔ ان کشتیوں پر کیمرے ، کمیپوٹرز، سیٹلائٹس اور دیگر بہت سے آلات نصب ہونگے۔ یہ کشتیاں ہمیں لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں اور ان میں موجود ستاروں اور سیّاروں کی خبردیں گی اور صدیوں تک دیتی رہیں گی۔

اسی طرح ناسا (NASA)بیس بائیس سال سے ایک پراجیکٹ پر کام کررہاہے  جس کا نام ہے، ’’سپیس ورپ ڈرائیو‘‘۔ یہ ایسی خلائی   گاڑی بنائی جارہی ہے جیسی  گاڑی کا ذکر ہم رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ وسلم کے  واقعۂ معراج میں پڑھتے ہیں اور جسے عربی میں ’’البرّاق‘‘ کہا جاتاہے۔ سپیس ٹائم ورپ ، زمان و مکاں کی موج پر سفر کرےگی اور اس لیے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ رفتار پر سفر کرے گی۔ سپیس ٹائم کی موج جسے گریوٹیشنل ویو کہا جاتاہے، اِسی سال گیارہ فروری 2016 کو دریافت ہوئی۔ تسلی ہوگئی کہ یہ موج فی الواقعہ وجود رکھتی ہے اور گیارہ فروری کے بعد سے اب یعنی جون  2016 تک یہ ویو لائیگو (LIGO)  نے دوتین بار ڈیٹیکٹ کی ہے۔کششِ ثقل کی اِس موج  کی پیش گوئی آئن سٹائن نے کی تھی۔تب سے اس کی تلاش کا سلسلہ جاری تھا۔یہ موج بھی کسی سمندر کی لہر کی طرح سے حرکت کرتی ہے۔ تصور کریں کہ سمندر کی ایک لہر دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک طرف کو جارہی ہے۔ اس لہر پر ایک سمندری جہاز موجود ہے تو وہ جہاز بھی اُسی رفتار کے ساتھ اُسی جانب سفر کرنے لگے گا جس سمت میں موج کا سفر ہے۔ سپیس ٹائم ورپ ایسی مشین ہوگی جو سپیسٹائم کی موج یعنی گریوٹیشنل ویو پر سوار ہوجائے گی جبکہ گریوٹیشنل ویو کی اپنی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہے۔ اب اگر گریوٹیشنل ویو کی رفتار پر  ایک ایسی ورپ ڈرائیو سوار کرائی جائے جو خود بھی کسی خاص رفتار سے چل رہی ہو تو ہم ایسی کائناتوں تک سفر کرنے کے قابل ہوجائیں گے جہاں تک جانا بہرصورت ناممکن ہے کیونکہ اگر سپیس ورپ ڈرائیو کامیاب نہیں ہوتی تو پھرفزکس کا کوئی اور قانون اجازت نہیں دیتاکہ ہم روشنی کی رفتا ر سے تیز رفتا رپر سفر کرسکیں۔

ادریس آزادؔ

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین