وجدان، علت و معلول سے ماوراہے

برگسان اور پھر برگسان کےتتع ،لیکن اسلامی روایت میں اقبال، اس خیال کے مبلغ ہیں کہ وجدان علت و معلول سے ماورا ہے۔ جہاں تک میں اس بات کو سمجھ سکا ہوں۔ یوں ہے کہ وجدان جسے انگریزی میں اِنٹیوشن کہتے ہیں ایک کُلیتِ فہم ہے۔ ایک پرندہ اپنے گھر کا راستہ کیسے یاد رکھتا ہے؟ بقول برگسان ہم انسان اپنے گھر کا راستہ تو یوں یاد رکھتے ہیں کہ راستے کی تمام ترتصاویر بالترتیب یعنی علت و معلول کے حساب سے ہماری یاداشت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ ہماری یاداشت میں ان کا ترتیب سے محفوظ ہونا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری یاداشت میں بھی ترتیب کا فہم یعنی علت و معلول کا فہم موجود ہے۔ اگرایک دن ہم کہیں جائیں اور پیچھے سے ہمارے شہر کا تمام نقشہ بدل جائے توہماری یاداشت میں موجود ترتیب، خارجی تبدیلی کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ہماری مددگار نہیں ہوسکتی اورہم اپنے گھر نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اگر ایک پرندہ کہیں جائے اورپیچھے سے جنگل کے درخت اور ندی نالوں کی جگہیں بدل جائیں تو پھر بھی پرندہ اپنے گھر کا راستہ نہیں بھول سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرندے کی یاداشت انسانی یاداشت جیسی نہیں ہے بلکہ اس کی یاداشت ایک کُلیّتِ فہم ہے۔
حیاتِ ارضی کا وجدان ایک کلیتِ فہم ہے لیکن یہ فہمِ غیرشعوری ہے اور اس لیے ایک پرندہ بے منتِ عقل اپنی منزل ِ مقصود تک پہنچ سکتاہے۔ عقل کا زمانہ چونکہ زمانِ متسلسل (Serial Time) ہے اس لیے کسی عملِ واحد کے اجزا زمانے کے لمحات میں مکان کے مخصوص نقاط پر ہی موجود ہوسکتے ہیں۔ انسانی یاداشت انہی اجزا یا لمحات و نقاط کا دستاویزی نظام ہے۔ عقل یاداشت کی محتاج ہے جبکہ کلیتِ فہم کےلیے چونکہ اجزا کی الگ الگ ضرورت نہیں اس لیے یاداشت کی بھی ضرورت نہیں۔
برگسان کے مطابق زمانِ متسلسل فی الاصل زمانِ خالص کی ایمرجنٹ پراپرٹی ہے۔ زمانِ خالص وجدان کا زمانہ ہے۔ ایک کُلیت جو وجدان میں موجود ہوتی ہے، لامتناہی امکانات کاایسا منبع ہے جن تک عقل کی رسائی ہو تواُن میں سے فقط ایک امکان عقل پر کھل سکتاہے۔ وجدان کے زمانے کو برگسان نے استدام (Pure duration ) کا نام دیاہے۔ وجدان کا زمانہ بھی تغیر تو ہے لیکن تواترکے بغیر۔ وجدان میں دوواقعات اس طرح موجود نہیں ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا وارد ہو بلکہ وجدان میں واقعات اس طرح موجود ہیں کہ کسی ایک دورانیے کا تمام ترسلسلۂ علت و معلول ’’یکجاویک وقت‘‘ گویا منجمد ہے۔ زمان متسلسل کاوجود اپنی کُنہ میں اصل حقیقت نہیں بلکہ کسی اوراصل حقیقت یعنی زمانِ خالص کی ایمرجنٹ پراپرٹی ہے۔ کائنات کی اشیأ کثرت میں اس لیے دکھائی دیتی ہیں کہ انہیں عقل دیکھ رہی ہے اورعقل کسی شئے کو دیکھنے کے لیے اجزا میں تقسیم کرکے ہی دیکھ سکتی ہے ورنہ فی الاصل وہ شئے اُس وقت اجزا میں تقسیم شدہ نہیں ہے جب عقل نے اسے دیکھ لیا ۔ یوں گویا یہ کوئی ایسا تصورنہیں جیسا ہم جدید فزکس میں جانتے ہیں کہ ناظر کسی موج کی سپرپوزیشن کو کولیپس کردیتاہے، بلکہ جدید فزکس کی اصطلاحات استعمال کرنی ہی ہیں تو یہ ایک ایسا تصورہے جس میں عقل کسی عظیم کُل کی سپرپوزیشن کو کولیپس نہیں کرتی، وہ شئے اپنی سپرپوزیشن پر ہی موجود رہتی ہے جبکہ عقل فقط اسے دیکھتی ہی اس طرح ہے جیسے کوئی بھینگا شخص کسی واحد شئے کو دیکھے تو وہ شئے اُسے ایک سے زیادہ تعداد میں دکھائی دے۔ یوں گویا ایک لحاظ سے ہماری آنکھوں کا بھینگا پن ہمیں کائنات کو اس کی کلیت میں دیکھنے سے مانع ہے۔ کائنات اپنی کلیت کبھی نہیں کھوتی یعنی اس کی سپرپوزیشن کولیپس نہیں ہوتی بلکہ شاہد کی قابلیتِ دید کسی بھینگے شخص جیسی ہے۔
فزکس سے ایک اور مثال میری مدد کرسکتی ہے۔ دواِنٹینگلڈ فوٹان جو اپنی ذاتی حیثیت میں روشنی کی رفتار پرہونے کی وجہ سے مکانی فاصلوں سے ماورا ہیں اور اس لیے وہ ایک دوسرے سے دُور وجود نہیں رکھتے۔ چونکہ روشنی کی رفتار پر عرض سُکڑکر صفررہ جاتاہے اس لیے ان ذرات کے درمیان کوئی مکانی فاصلہ نہیں اور وہ ایک دوسرے پر گویا سُپر اِمپوزڈ ہیں۔ لیکن ایک سائنسدان دو اِنٹینگلڈ فوٹانوں کے بارے میں یہ رائے رکھتاہے کہ وہ ایک دوسرے سے فاصلے پر موجود ہیں اور ان کے درمیان انفارمیشن کے تبادلے کا سوال پیدا ہوجاتاہے کہ آیا ان دونوں کے درمیان مکانی فاصلہ بے پناہ ہونے کی صورت میں انفارمیشن کا تبادلہ روشنی کی رفتار کی مطلقیت کا اصول توڑتاہےیانہیں۔ یہ اینالوجی وجدان کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ جس طرح دواِنٹینگلڈ فوٹانوں کے اپنے ذاتی حوالے سے ان کے درمیان کوئی فاصلہ موجود ہی نہیں ہے لیکن دیکھنے والے کو وہ فاصلے پر محسوس ہوتے ہیں اور یوں دیکھنے والی آنکھ کا بھینگا پن (ایک معنوں میں) عیاں ہوجاتاہے۔ بالکل ایسے پرندے کا شعور چونکہ زمانِ استدام کا شعورہے اس لیے اُسے تو اپنے گھر کے تمام ممکنہ راستوں کا وجدانی شعور ہے جبکہ عقل استعمال کرنے والا انسان ان تمام لامتناہی امکانا ت میں سے کسی ایک امکان کا شعورکھتاہے اور وہ بھی اجزا میں تقسیم کرکے۔
پرندوں پر کیے جانے والے تجربات میں ’’کوانٹم رابن‘‘ کے متعدد تجربات کےبعد کئی مقالوں میں بیک وقت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ زمین کے مقناطیسی میدان کے فوٹانوں کے ساتھ پرندے کی آنکھ کے پرندے یعنی ریٹِنا کے ایٹموں میں دودوالیکٹران سومائیکروسیکنڈ کے لیے اِنٹینگلڈ ہوتے رہتے ہیں جن سے وہ نیوی گیشن کا کام لیتاہے۔ اس تجربے میں یہ نہیں معلوم کیا جاسکا کہ پرندے اپنے گھر کا راستہ کس طرح جانتے ہیں کیونکہ نیوی گیشن سے معلوم ہوتاہے تو فقط اتنا کہ وہ مقناطیسی میدان میں گھومنا پھرنا جانتے ہیں ، یہ نہیں کہ اُن کا گھر کہاں ہے؟ یہ بات اس طرح سے سمجھ میں آئےگی کہ پرندہ جب سومائیکروسیکنڈ تک آبزرو کرنے کےببعد ایک سپرپوزیشن کو کولیپس کردیتاہےتو اس سے وہ اپنا نیا مُووو(Move) درست سمت میں لے لیتاہے، لیکن اس کے تمام موووز (Moves) کی مجموعی ریاضیاتی جمع تفریق (کیلکولیشن) بالآکر اس کے گھر کا مقام کیسے جانتی ہے۔ کیا پرندوں میں یاداشت کی کوئی ایسی قسم بھی موجود ہے جوغیرشعوری ہو، جیسی کہ فرائیڈ نے انسانوں میں بتائی یعنی لاشعور کی موجودگی؟ اگر پرندوں میں یاداشت کی کوئی ایسی قسم موجود ہے پھر تو اِس نیوی گیشن کا عمل واضح ہوجاتاہے۔ لیکن ابھی تک ایسی کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی۔ اور اگر فقط ایک ایک سپرپوزیشن کو کولیپس کرکے وہ الیکٹرانوں کے ایک ایک جوڑے سے نیوی گیشن کررہے ہیں تو پھر انہیں کبھی کبھار اپنے گھر کی بجائے کہیں اور بھی چلے جانا چاہیے کیونکہ نیوی گیشن مقناطیسی میدان کی وجہ سے ہے اور پارٹیکلز کا اَپ ڈاؤن سپِن ہی اس کا موجب ہے۔ سو اگر تمام تر کولیپسز کا ریکارڈ پہلے سے موجود نہیں تو فقط کولیپس کردینے کا عمل اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ کس طرح اپنے مقام کو بھی بازیاب کرلیتے ہیں۔
دراصل وجدان اپنی ماہیت میں کوئی سٹورروم (یعنی فرائیڈ کے لاشعور) جیسی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ وجدان سرے سے یاداشت کا کوئی متبادل نظام ہے ہی نہیں۔ نہ عقل کی طرح وجدان کا عمل جمع تفریق (کیلکولیشن) پر مبنی ہے بلکہ وجدان کا عمل بذات خود فعلیتِ محض ہے۔ یعنی جب ہم اختیارات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں تو اِنتخاب کرنے کا یہ عمل وجدان کا عمل ہے اور دو اختیارات کے جائزے کا عمل عقل کا عمل ہے۔ اس کی ایک مثال بنالیتے ہیں۔ مثال کے طورپر میڈیکل کے ایک طالب علم کو دو مختلف کالجوں میں داخلہ مل جانے کے لیٹرز ایک ساتھ موصول ہوتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک کا چناؤ کرنا چاہتاہے تو ایک طویل وقت تک اس کی عقل جمع تفریق کا کام انجام دیتی رہے گی۔ لیکن جب بھی وہ ایک کالج کے حق میں آخری فیصلہ کرے گا تو یہ فیصلہ وجدان کی فعلیتِ محض ہوگی یا سادہ الفاظ میں یہ فیصلہ وجدان کا ہوگا۔ بالفاظ دگر اگروجدان کسی معذور عضو کی طرح کبھی بیکار ہوجائے تو عقل ہمیشہ صرف اعدادوشمار کرتی رہےگی اورکبھی کوئی فیصلہ نہ ہوپائےگا کیونکہ فیصلہ کرنا عقل کا منصب ہی نہیں ہے۔عقل فقط اعدادوشمار تک کیوں محدود ہے اور فعلیت عمل سے کیوں محروم ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ عقل کا کام ہے کُلیتِ فہم کو زمانِ متسلسل پر یوں پھیلا کر یا بِچھا کر دیکھنا جیسے ہم کسی لپٹے ہوئے کپڑے کو کھولتے چلے جاتے ہیں۔ کھولنے اور کھولتے چلے جانے کا یہ کام ہی عقل کا کام ہے اور عقل ہمیشہ اسی تک محدود رہے گی۔
لیکن پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ کمپیوٹر تو جب جمع تفریق کے عمل سے گزرتا ہے تو بہت سے ایسے فیصلے ہیں جو کمپیوٹرخود انجام دیتاہے۔ یعنی بہت سی ایسی ہائپوتھیٹکل (Hypothetical) یا ڈِسجنکٹِو(Disjunctive) سٹیٹمنٹس ہوتی ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی بائنری سسٹم کسی ایک ون یا زیرو کا چناؤ کرکے سٹیٹمنٹس کے سلسلے کو مزید آگے بڑھنے دیتاہے۔ اِسی آگے بڑھنے کو ہم کمپیوٹرکا فیصلہ کرنا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن آخرالامرجب بے شمار موازنے کرلینے کے بعد کمپیوٹرہمارے سامنے کوئی حتمی نتیجہ پیش کرتاہے تو اس سےآگے پھر ایک باشعورہستی کے لیے دواختیارات میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ آجاتاہے۔ اور تاحال مصنوعی ذہانت بھی اسی اصول پر کام کرتی ہے۔
لیکن کوانٹم کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد یہ منظرنامہ بدل جائےگا۔ کوانٹم کوہیرینس کے مطابق ایک موج جہا ں جہاں تک پھیلتی ہے وہاں وہاں تک ایک ہی انفارمیشن پھیل سکتی ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال قدرت میں موجود ہے یعنی فوٹوسینتھی سز کے عمل میں لیکن یہ مضمون اس تفصیل کا متحمل نہیں۔ البتہ اتنا کہہ دینا اہم ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر کسی حدتک وجدان کو عقل سے بالاترہوکر پڑھ لینے کی قدرت کا حامل ہوگا لیکن بہت ہی کم درجے پر رہتے ہوئے۔ یوں کہہ لیں کہ ابتدائی عہد کا کوانٹم کمپیوٹر جو فقط آٹھ بِٹ تک کوانٹم کوہیریسن کے مظاہرے کی وجہ سے سپرپوزیشن کا مشاہدہ کرسکے گا، اس وجدان کے مقابلے میں جس میں منجمد امکانات لامتناہی ہیں درجے میں بے حد کم ہوگا۔
ادریس آزاد