پارٹیکل سپِن کی دریافت کا قصہ اورسپِن کو سمجھنے کی ایک کوشش

کوانٹم فزکس میں پارٹیکل سپِن کا تصور بہت دیر سے داخل ہوا۔ یہاں تک کہ شروڈنگر کی ویو اِکویشن بھی آچکی تھی۔شروڈنگر کی مساوات کے بعد یہ سمجھا جارہاتھا کہ کوانٹم فزکس کے لیے شروڈنگر کے نتائج کافی ہونگے اور لگ بھگ ہرمظہرِ فطرت کی ٹھیک ٹھیک وضاحت ہوسکے گی۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ لوگوں کو محسوس ہوا جیسے بعض پارٹیکلز میں سپِن (Spin) یعنی اپنے محور کے گرد ، گردش سی پائی جاتی ہے۔لیکن حقیقت میں یہ محوری گردش نہیں تھی۔ زیادہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ کچھ ایسی خصوصیات ہیں جنہیں کم سے کم محوری گردش کہا جاسکتاہے۔ کیونکہ پارٹیکل میں کسی شئے کی محوری گردش والی دو خصوصیات موجود تھیں،

نمبر۱۔ پارٹیکل میں اینگُولر مومینٹم پایا جاتاہے۔

نمبر۲۔پارٹیکل ، سپیس میں اورینٹیشن کا حامل ہوتاہے۔

تجربات ایٹموں پر کیے گئے۔سب سے پہلے سِلور کے ایٹم استعمال کیے گئے۔1922 میں ایک جرمن ماہرِ طبیعات ’’اوٹوسٹرن‘‘  (Otto Stern)اور ’’والتھر گرلاک‘‘ ( Walther Gerlach)  نے مشاہدہ کیاکہ سلورکے ایٹموں کی ایک بِیم (Beam) مقناطیس کی موجودگی میں دو شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ سلور کے ایٹم میں سینتالیس الیکٹران ہوتے ہیں۔اِ س تجربے سے معلوم ہوا  کہ ایٹم کے اندر موجود الیکٹرانوں میں  محوری گردش بھی پائی جاتی ہے۔

یہ تجربہ کیا تھا؟ سلور کے ایٹموں کی ایک بیم دو مقناطیسوں کے بیچوں بیچ سے گزاری گئی۔

سٹرن  اورگرلاک کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کرنے سے کیا واقعہ پیش آئے گا۔ اُنہیں اُس وقت حیرت ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ دومقناطیسوں کے بیچوں بیچ سے گزرنے والی بیم دوشاخوں میں تقسیم ہوگئی۔

یہ  مظہر حیران کن تھا۔ چنانچہ سٹرن اور گرلاک نے جاننے کی کوشش کی کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ تب انہوں نے ایک اندازہ لگایا کہ ضرور ایٹموں میں بھی کسی قسم کا مقناطیسی فیلڈ پایا جاتاہے۔کیونکہ اس وقت تک سب لوگ یہ بات جانتے تھے کہ اگر دومقناطیسوں کے بیچوں بیچ سے ایک تیسرا مقناطیس گزارا جائے تو مقناطیس اپنے دونوں قطبین کو اُن مقناطیسوں کے قطبین کے مطابق الائن کرلیتاہے۔اس کے لیے ایسا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کیونکہ  کسی بھی چارج والے ذرّے کو گھمایا یعنی روٹیٹ کیا جائے تو مقناطیسی فیلڈ پیدا ہوجاتاہے۔ چنانچہ یہ سمجھا گیا کہ سلور کے ایٹم بھی دراصل ایک چھوٹا سا مقناطیس ہیں جو اِن دو مقناطیسوں کے بیچوں بیچ میں سے گزرتے وقت اپنے رُخ  اپنے ڈائی پولز کے مطابق متعین کرتے کرتے دو مخالف سمتوں میں نکل جاتے ہیں۔ یعنی سب سے پہلے جو منظر تصور میں لایا گیا وہ مندرجہ تصویر کے مطابق تھا،

لیکن پھر ایک سوال نے سٹرن اور گرلاک کو پریشان کردیا کہ اگر ایٹم مقناطیس کی وجہ سے اپنا رخ متعین کرتے ہیں تو پھر ایسے ایٹم جن کا قطب نہ اَپ تھا نہ ڈاؤن بلکہ سامنے کی طرف تھا یا کسی اور طرف کو تھا،  انہوں نے بھی ایٹموں کی نئی بیم (Beam) کیوں نہ بنا دی اور دو بیمز کی بجائے زیادہ بیمز کیوں نہ وجود میں آگئیں؟ یعنی درج ذیل تصویر کی طرح کیوں نہ ہوگیا؟

تب سٹرن  اور گرلاک کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ ضرور ایٹم گھوم رہے ہیں یعنی محوری گردش کررہے ہیں۔

اور اس طرح پہلی بار پارٹیکل کی سپن کا تصور متعارف ہوا۔اس کے بعد یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ سپن کا عمل ایٹم میں الیکٹرانوں کی محوری گردش کی وجہ سے وقوع پذیر ہورہاتھا۔سلور کا پورے کا پورا ایٹم ہی کیوں گھومتا ہوا  آرہا تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ سلور کے کُل الیکٹران سینتالیس تھے۔ چھیالیس الیکٹران کے جوڑے اسے معتدل رکھ سکتے تھے لیکن سینتالیسواں الیکٹران جو اکیلا تھااور اس کی سپن کو مخالف سمت میں برقرار رکھنے کے لیے اس کا جوڑا نہیں تھا چنانچہ اسی ایک الیکٹران کی وجہ سے سلور کا پورا ایٹم محوری گردش کررہا تھا اور یہی ایک الیکٹران پورے ایٹم کو اینگولر مومینٹم دے رہاتھا۔

لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایٹم میں خود پراپرٹی آف سپن ہوتی ہے۔خیر ! جب سٹرن اور گرلاک  کا تجربہ آگے بڑھتاہے تو دو شاخہ سلور کے ایٹموں کو مزید مقناطیسی فیلڈز میں سے گزارا جاتاہے۔ جب پہلی بار مقناطیسوں کا جوڑا رکھا گیا تو اُسے عمودی انداز میں نصب کیاگیا  تھایعنی ورٹیکل،  اور ایٹموں کی دوبیمز برآمد ہوئیں تھیں، جن میں سے ایک کے ایٹم سپن اَپ کا مظاہرہ کررہے تھے اور دوسری بیم کے ایٹمز سپن ڈاؤن کا، جیسا کہ ابھی اوپر ایک تصویر میں دکھایا گیا۔ ان دوبیموں میں سے ایک بیم کو ضائع جانے دیا گیا اور دوسری بیم جس کے تمام ایٹم فقط سپن اَپ کا مظاہرہ کررہے تھے، کے سامنے پھر دو مقناطیس رکھ دیے گئے لیکن اِس بار یہ مقناطیس عمودی کی بجائے افقی یعنی ہاریزنٹل انداز میں نصب کیے گئے۔

اب چونکہ ہمیں پہلے سے معلوم تھا کہ ہم نے جس بیم کا چناؤ کیا وہ بیم وجود میں ہی اس وجہ سے آئی تھی کہ اس کے تمام ایٹم سپن اپ کا مظاہر کررہے تھے۔اِس سے پہلی تصویر دوبارہ ملاحظہ کیجے اور اوپر والی بیم کے ایٹموں کا سپن دیکھیے!

سوجب ہم نے سپن اپ والے ایٹموں کی بیم کے سامنے ہاریزنٹل انداز میں دو مقناطیس رکھے تو ایک حیران کن منظر نظر آیا۔ وہ بیم دوبارہ دو شاخوں میں تقسیم ہوگئی۔

اور اس بار چونکہ مقناطیس(دوسراسیٹ) ہاریزنٹلی رکھے گئے تھے چنانچہ دونوں بیموں کے ایٹموں نے سپن رائٹ اور سپن لیفٹ کا مظاہرہ کیا۔ہم چونکہ جانتے تھے کہ یہ بیم جب پیچھے سے آرہی تھی تو اس کے تمام ایٹمز سپن اپ تھے ، سو ہمیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ اب نئی دوشاخوں کے تمام ایٹمز دراصل اسی سپن اپ والی بیم کی اولاد ہیں۔

چنانچہ اس سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ایٹم کسی بھی جانب سپن کرسکتے ہیں نہ کہ صرف اپ اور ڈاؤن البتہ یہ طے ہے کہ وہ ہمیشہ دو خاص قدریں رکھتے ہیں۔ یعنی سپن اپ یا سپن ڈاؤن ہے تو اسی طرح سپن لیفٹ اور سپن رائٹ بھی ہے۔یہ دراصل  ایک جیسی مقدار کی ایک پازیٹو اور دوسری نیگاٹِو ویلیو ہے۔

اب ہم کیا کرتے ہیں کہ اب ہم ایک بار پھر دو  میں سے ایک بیم کا انتخاب کرتے ہیں۔پہلے ہم نے سپن اپ کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن جب وہی بیم ہاریزنٹل سیٹ آف مقناطیس میں سے گزری تو وہ سپن بدل گئی اور اب وہ سپن لیفٹ اور سپن رائٹ بن گئی۔ چلو ہم نے اس مقام پر پھر ایک بیم کا انتخاب کیا۔ فرض کریں ہم نے سپن رائٹ کا انتخاب کیا۔ اب ہمارے پاس پچھلی معلوما ت میں سے کیا کیا ہے؟

نمبرایک۔ ہم نے پہلے جس بیم کا انتخاب کیا تھا۔ وہ سپن اَپ والے ایٹموں پر مشتمل تھی۔

نمبردو۔ اب ہم نے جس بیم کا انتخاب کیا ہے، وہ سپن رائٹ والے ایٹموں پر مشتمل ہے۔

چنانچہ ہم جب تیسری بار اس کے سامنے ورٹیکل سیٹ آف مقناطیس رکھتے ہیں تو ہمیں توقع ہونی چاہیے کہ ہم نے سپن اپ والی بیم چنی  ہوئی ہے۔ چنانچہ اب دوبارہ ورٹیکل ہوگیا ہے تو سپن اپ کے ہی سارے ایٹمز ظاہر  ہونے چاہییں۔ بے شک اب وہ سپن رائٹ کی شکل میں آرہے ہیں لیکن اس سے پہلے تو سپن اپ ہی تھے ، سو دوبارہ ورٹیکل مقناطیسوں میں سے گزرتے ہوئے وہ اپنی پچھلی معلومات کو برقرار رکھیں گے۔

لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہوتایہ ہے کہ بیم دوبارہ دو شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اوپر والی شاخ میں سپن اپ کے ایٹم ہوتے ہیں جبکہ نیچے والی شاخ میں سپن ڈاؤن کے۔ بالکل پہلے کی طرح۔ تو پھر اب کی بار سپن ڈاؤن والے ایٹم کہاں سے آگئے؟ہِیو ایورٹ نے اس مظہر کو بیان کرنے کے لیے چار مفروضے قائم کیے۔

نمبر۱۔جب ہم کسی پارٹیکل کو اعداد یا نمبرز سے ظاہر کرتے ہیں تو دراصل وہ عدد یا نمبر اس پارٹیکل کی بنیادی پراپرٹی ہوتاہے۔ فرض کریں ہم نے ورٹیکل مقناطیسوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے پارٹیکلز کی سپن کو اگر پلس اَ ہاف پلانک کانسٹینٹ کہا ہے تو یہ مقدار اس پارٹیکل کی بنیادی پراپرٹی کہلائے گی۔

نمبر۲۔ ہم ایک خاص دیے گئے لمحے میں ہرپارٹیکل کو ایک ویلیو اسائن کرسکتے ہیں۔مثلاً ہم سلور کے ایٹمز کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سپن اپ اور سپن لیفٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

نمبر۳۔ پیمائش کرنے والا آلہ یہ فیصلہ کرتاہے کہ  کس پارٹیکل کو کس لمحے میں کس قسم کی ویلیو اسائن کی جاسکتی ہے۔

نمبر۴۔جب ایسا ہوتاہے تو سسٹم کی باقی پراپرٹیز غیر مبدل رہتی ہیں۔

چنانچہ جب تک ہم دوسیٹس آف مقناطیس میں رہتے ہیں، یہ چاروں مفروضے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جونہی ہم تیسرے سیٹ کو نصب کرتے ہیں تو چوتھا مفروضہ قائم نہیں رہ سکتا۔چوتھا مفروضہ  ہے کہ ایک سسٹم کی پیمائش کے دوران کسی ایک پراپرٹی کی پیمائش کا عمل باقی ماندہ پراپرٹیز کو تبدیل نہیں کرتا۔

لیکن ہم نے تجربے میں دیکھا کہ جب مقناطیسوں کا دوسرا ہاریزنٹل سیٹ نصب کیا گیا تو اس نے ہماری سابقہ پیمائش کے نتائج کو تبدیل کردیا۔بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فقط پیمائش کے عمل نے سابقہ معلومات کو تباہ کردیا۔اسی طرح تیسرا سیٹ لگانے پر پھر سے  ہماری سابقہ معلومات تباہ ہوگئیں۔

یعنی اس نے ہماری ورٹیکل کمپونینٹ آف سپن والی معلومات کو ختم کردیاہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم ہرفزیکل کوانٹٹی کو ویلیو اسائن کریں تو مفروضہ نمبردو بھی اب اعتراض  کی زد میں آسکتاہے۔ یعنی ثابت ہوگیا ہے کہ ہم کسی دیے گئے سسٹم میں ہر فزیکل کوانٹٹی کو ویلیو اسائن کرہی نہیں سکتے، کسی خاص لمحے میں۔اور ضرور کچھ ایسی فزیکل کوانٹٹیز ہونگی جو ایک دوسرے سے  مطابقت نہ رکھتی  ہونگی۔ یہ ان سرٹینٹی پرنسپل کی مثال ہوگی۔

اگر یہ بات ہے تو پھر مفروضہ نمبر تین بھی غلط ہوجاتاہے۔کہ پیمائش کرنے والا آلہ فقط  یہ بتاتاہے کہ کس لمحے میں کس پارٹیکل کو کس قسم کی ویلیو اسائن کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہاں یہ معلوم پڑرہاہے کہ پیمائش کرنے والا خود ایک کردار ادا کررہاہے، پارٹیکل کی پراپرٹیز طے کرنے میں۔

تب کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مسئلہ آنٹولوجیکل مسئلہ نہیں ہے۔یعنی انہوں نے ان سرٹینٹی پرنسپل کے بارے میں بھی کہہ دیا کہ چونکہ ہم ابھی نہیں جان سکتے کہ کسی پارٹیکل کا مومینٹم اور لوکیشن ایک ہی وقت میں کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ یہ دراصل ہمارے آلات کا مسئلہ ہے۔ ضرور کوئی اور طریقہ ہوگا جس سے یہ دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں جانی جاسکیں گی۔اس خیال کا بانی خود آئن سٹائن تھا کیونکہ اس تھیوری کو ’’ہِڈن ویری ایبل‘‘ (Hidden Variable Theory)کہتے ہیں جو کہ بنیادی طور پر آئن سٹائن کا ہی خیال تھا۔

 

چنانچہ طے ہوگیا کہ سپن کسی پارٹیکل کی ایک لازمی خصوصیت ہے کیونکہ یہ پارٹیکل کے اینگولر مومینٹم کی ایک صورت ہے۔ہم ایک پارٹیکل کو ایک سفیئر کے طور پر تصور میں لائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اگر کوئی چارجڈ (Charged) پارٹیکل محوری گردش کررہاہو تو وہ خود مقناطیسی فیلڈپیدا کررہا ہوتاہے اور ہم کہنے کو کہہ سکتے ہیں کہ اس کی مقناطیسی فیلڈ سے پیدا ہونے والے اس کے دونوں پولز ہی سپن کا موجب بنتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ  ایک پارٹیکل کسی سفیئر کی شکل کا ہوتاہی نہیں ہے۔اور نہ ہی کسی چارجڈ (Charged)پارٹیکل پر ہی مقناطیسی فیلڈ یا سپن کا اطلاق ہوتاہے کیونکہ سپن تو نیوٹران کی بھی ہوتی ہے جبکہ وہ جارچڈ پارٹیکل نہیں ہے۔

اگر ہم ایک الیکٹرک ڈائی پول کو دیکھیں تو وہ کیا ہوتاہے؟ فقط دو چارجز کا مظاہرہ، جن میں سے ایک کو منفی اور دوسرے کو مثبت چارج کہتے ہیں۔جیسا کہ مندرجہ زیل شکل میں دکھایا گیاہے۔

بالکل اسی طرح مقناطیسی  ڈائی پول بھی ہوتاہے۔ فقط اس فرق کے ساتھ کہ اب اس کو منفی اور مثبت چارج سے ظاہر کرنے کی بجائے، ساؤتھ اور نارتھ سے ظاہر کرتے ہیں۔

سپن کا لفظ دراصل ایک تاریخی مس فارچون ہے۔یہ ثبو ت کہ سپن ایک غلط اصطلاح ، نیوٹران  کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

 

دراصل ہمیں پہلے یہ جاننا چاہیے کہ ان سرٹینٹی پرنسپل کی اصل رُوح کیا ہے؟

اوپردی گئی ویوز کی تصویروں میں پہلی ویو میں ہمیں مومینٹم معلوم ہے جبکہ دوسری میں لوکیشن۔پہلی ویو کا ہرکرسٹ اور ہر ٹرف برابرہے جس کا مطلب ہے کہ پارٹیکل ویو  میں کہیں بھی ہوسکتاہے لیکن دوسری ویو میں پارٹیکل کا امکان واضح ہے کہ وہ کہاں ہوسکتاہے۔ چنانچہ ہمیں ان سرٹینٹی پرنسپل کی حقیقت کا علم حاصل ہوتاہے تو پتہ چلتاہے کہ آلات کا مسئلہ نہیں  ہے۔ بلکہ یہی کوانٹم رئیلٹی ہے ۔

خیر! اس تمام تر تفصیل کے بعد اب ہم پارٹیکل کی سپن کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔کسی بھی پارٹیکل کی سپن کا کلاسیکل تصور یہ ہے کہ ہم اس پارٹیکل کی سپیس میں اورینٹیشن معلوم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہم ہمیشہ ویکٹرائزیشن کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔لیکن یاد رہے کہ یہ کلاسیکل فزکس کا تصور ہے۔ فرض کریں ریت کے ایک ذرے کی اورینٹیشن معلوم کرنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

کلاسیکل فزکس میں اگر ایک آبجیکٹ کی سپن ایکس ایکسز کے ساتھ الائنڈ ہے تو اس کا مطلب ہے وائی اور زیڈ پر زیرو ہے۔لیکن کوانٹم میں ایسا نہیں ہوتا۔کوانٹم میں کسی پارٹیکل کو کسی ایک ایکسز کے ساتھ الائن کرنے سے بھی باقی ایکسز زیرو نہیں ہوجاتے۔اگر ہم ایک الیکٹران کی سپن کو ایک ایکسز میں نوٹ کرلیں تو باقی دو میں اس کی پرابیبلٹی ففٹی پرسینٹ ہوجاتی ہے۔

اگر الیکٹران کسی اور الیکٹران کے ساتھ انٹنگلڈ ہے تو پھر ان تینوں سمیت کسی بھی ڈائریکشن میں اس کی سپن نہیں جانی جاسکتی۔لیکن اگر پارٹیکل اکیلا ہے توپھر صرف ایک ڈائریکشن یقین کے ساتھ جانی جاسکتی ہے۔میتھ میں کوانٹم سپن کی پیمائش دو نمبروں سے کی جاسکتی ہے۔ ایک رئیل نمبر اور ایک امیجنری نمبر۔ فرض کریں ایکس اور وائی کا امیجنری نمبر زیرو ہے ۔اور زیڈ کا کمپلیس نمبرہے۔

عالم ِ مشہودات میں کوانٹم اِنٹینگلمنٹ سے زیادہ پراسرار کوئی مظہرِ فطرت نہیں۔کوانٹم اِنٹینگلمنٹ  کو دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ پارٹیکلز ایک دوسرے کی طرف آنِ واحد میں پیغامات بھیج سکتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر دو اِنٹینگلڈ پارٹیکلز کائنات کے دو مخالف کناروں پر موجودہوں تب بھی وہ ایک دوسرے کو پیغامات بھیج سکتے ہیں۔تاہم آئن سٹائن کے نظریۂ  خصوصی اضافیت یعنی تھیوری آف سپیشل ریلٹوٹی کے مطابق کوئی انفارمیشن روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی۔آئن سٹائن کے نظریۂ خصوصی اضافیت کے رُو سے اگر کوئی پیغام روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ سفر کرسکتاہوتا تو ہمارے لیے ماضی میں پیغامات بھیجنا بھی ممکن ہوتا۔

تاہم معلوم ہوتاہے کہ کوانٹم اِنٹینگلمنٹ میں پیغامات کا آنِ واحد میں سفرکرنے کا مظہرفی الاصل دو اِنٹینگلڈ فوٹانوں کی  پولرائزیشن کی پیمائش سے ممکن ہوپاتاہے۔

اس کے علاوہ یا دو اِنٹینگلڈ پارٹیکلز مثلاً الیکٹران اور پازیٹران کی سپِن  کی پیمائش کرنے سے  بھی اس مظہر کا مشاہدہ ممکن ہے۔کوانٹم اِنٹینگلمنٹ کی پیمائش کا اُصول دونوں طریقوں میں ایک ہی ہے لیکن ہم پہلے جڑواں پارٹیکلز کی سپن کے طریقہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کلاسیکل فزکس میں کسی پارٹیکل کی سپن   کو ایک تیر کے نشان سے ظاہر کیاجاتاہے جو محوری گردش یعنی روٹیشن  کے رُخ پر ہوتی ہے۔اگر کوئی پارٹیکل اُلٹی سمت میں محوری گردش کررہاہے تو تیر کا نشان بھی الٹ جاتاہے۔

ہم ایک خاص قسم کے ڈیٹیکٹر (Detector)  کی مدد سے کسی پارٹیکل کی سپِن کو مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

لیکن کوانٹم فزکس میں  ڈیٹیکٹر ہمیں دو پیمائشوں میں سے صرف ایک بتاسکتاہے۔ یعنی ایک پارٹیکل  کی سپن میں تیر کا نشان یا تو سُرخ پلیٹ کی طرف رُخ کرے گا  اور یا نیلی پلیٹ کی طرف۔ ہم ڈیٹیکٹر کو بدل بدل کر مختلف رُخوں پر رکھ سکتے ہیں لیکن ہم ہمیشہ صرف ایک ہی پیمائش حاصل کرسکتے ہیں۔ہمارے پاس یہ صلاحیت بھی ہے کہ ہم پارٹیکلز کے جوڑے پیدا کرسکتے ہیں، جنہیں ہم اِنٹینگلڈ پارٹیکلز کہتے ہیں۔ہم ان دونوں اِن ٹینگلڈ پارٹیکلز کی پیمائش الگ الگ ڈیٹیکٹرز کی مدد سے کرسکتے ہیں۔

اگرہم دو ڈیٹیکٹرز کو ایک ہی سمت میں رکھیں تو ہم ہمیشہ  یعنی سوفیصد اوقات (100 % of the time)  دونوں پارٹیکلز کو ایک دوسرے کے الٹ سپن کرتاہوا پائینگے۔یہاں تک تو پارٹیکل سپن کو سمجھناآسان ہے کیونکہ یہاں تک جو کچھ ہم نے دیکھا وہ کلاسیکل فزکس اور کوانٹم میکانیکس دونوں کی رُو سے ایسا ہی ہونا چاہیے تھاجیسا ہمارے مشاہدے میں آیا۔ اِسی طرح اگر ہم دونوں ڈیٹیکٹرز کو ایک دوسرے کے ساتھ نوے درجے کے زاویے پر جوڑ کررکھتے ہیں تو ہم پارٹیکلز کی سپن کو پچاس فیصداوقات  (50% of the time)میں ایک دوسرے کے مخالف پائینگے۔یہ مظہر بھی دونوں کی طرف سے درست سمجھا جاتاہے یعنی کلاسیکل فزکس کی طرف سے بھی اور کوانٹم میکانکس کی طرف سے۔

لیکن اگر ہم دونوں ڈیٹیکٹرز کو اِن دو صورتوں کے درمیان کہیں جوڑ کررکھتے ہیں تو کوانٹم میکانکس ، کلاسیکل فزکس کی نسبت خاصی مختلف پیش گوئیاں کرتی ہیں۔

کلاسیکل فزکس کے مطابق ، اگر پارٹیکلز کی سمتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں تو  وقت کی فیصدی میں دونوں ڈیٹیکٹرز کے زاویوں کے درمیان ’’لِنیئر‘‘ (Linear) رشتہ ہونا چاہیے ۔

لیکن کوانٹم میکانکس کی رُو سے یہ رشتہ ایک سائن ویو ہے،

جب ہم تجربات کی مدد سے نتائج کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ نتائج ہمیشہ کوانٹم میکانکس کی پیش گوئیوں کے مطابق برآمد ہوتے ہیں نہ کہ کلاسیکل فزکس کی پیش گوئیوں کے مطابق۔ فرض کریں ہم نے دونوں ڈیٹیکٹرز کو ایک دوسرے کے ساتھ پینتالیس درجے (45 degrees) کے زاویے پر رکھاہے۔تو کلاسیکل فزکس پیش گوئی کرتی ہے کہ دونوں پارٹیکلز کی سپن  پچھتر (75) فیصداوقات میں ایک دوسرے کے مخالف ہونی چاہیے۔جبکہ کوانٹم میکانکس پیش گوئی کرتی ہے کہ ایسی صورت میں دونوں پارٹیکلز کی سپن پچاسی فیصد اوقات میں ایک دوسرے کے مخالف ہونی چاہیے۔اور جب ہم پیمائش کرتے ہیں تو کوانٹم کی پیشگوئی درست ثابت ہوتی ہے۔یہ فرق ہمیں سوچنے پر مجبور کردیتاہے کہ آیا پارٹیکلز ایک دوسرے کی جانب پیغامات بھیج رہے ہیں؟ اسی طرح یہ ماننے پر بھی مجبور ہونا پڑتاہے کہ شاید پیغامات ماضی میں بھیجے جارہے ہیں۔

دراصل کوانٹم سپرپوزیشن کو سمجھنا کسی بھی ذہین انسان کے منطقی فہم کے لیے ایک چیلنج ہے۔ کیونکہ عام طور پر اس مظہرِ فطرت کو سمجھنے میں ایک ایسی غلطی کا ارتکاب کیا جاتاہے جو بظاہر غلطی محسوس نہیں ہوتی۔ فرض کریں ہمارے پاس دو ڈبے ہیں۔ ایک ڈبے میں دائیں ہاتھ کا دستانہ بندہے اور دوسرے ڈبے میں بائیں ہاتھ کا دستانہ بند ہے۔ہم نہیں جانتے کہ کون سے ڈبے میں کون سا دستانہ بندہے۔ لیکن جب ہم ڈبہ کھولتے ہیں تو ایک دستانے کے بارے میں جان جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی دوسرے دستانے کے بارے میں بھی جان جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ڈبہ کھول کر دیکھنے کا ہمارا عمل دراصل دوسرے ڈبے میں موجود دستانے کا رخ بدلنے کا موجب بناہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ڈبے میں دستانہ پہلے سے ہی طے شدہ پوزیشن میں تھا۔ ہم نے دیکھا تو فقط یہ کہ اگر ایک ڈبہ زیرو ہے تو دوسرا ون ہوگا اور ااگر ایک ڈبہ ون ہے تو دوسرا زیرو ہوگا۔ ہمارا دیکھنے کا عمل میں اس میں کوئی دخل نہیں دیتا۔

یہ وہ غلطی ہے جو کوانٹم سپرپوزیشن کو سمجھتے وقت آئن سٹائن جیسے دماغ سے بھی سرزد ہوئی۔ آئن سٹائن نے اسے چھپے ہوئے متغیرات یعنی ہِڈن ویری ایبلز (Hidden variables) کا نام دیا۔ڈبوں میں جو کچھ تھا ، پہلے سے طے تھا۔ بعد کے کسی عمل نے اُس طے شدہ پوزیشن کو نہیں بدلا۔ لیکن کوانٹم میں ایسا نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر اگر ہم ایک سکہ اچھالیں تو ہم نہیں جانتے کہ ہیڈ زمین پر آئے گا یا ٹیل۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہے کہ کیا زمین پر آئے گا۔ اگر ہم کلاسیکل فزکس کے تمام قوانین کو اپلائی کرکے دیکھیں تو ہم پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ پہلے زمین پر کیا آئے گا۔ لیکن کوانٹم سپرپوزیشن میں کسی پارٹیکل کا سپن اَپ ہونا یا سپن ڈاؤن ہونا پہلے سے طے شدہ عمل نہیں ہے۔ بلکہ یہ اسی وقت طے ہوتاہے جب کسی ایک پارٹیکل کا سپن  مشاہدے میں آتاہے۔

فرض کریں ہمارے پاس  روشنی کا ایک بہت ہی توانا پارٹیکل ہے۔تب ہم آئن سٹائن کا مشہور فامولا استعمال کرتے ہوئے اس توانا پارٹیکل کو مادے میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ فوٹان پر کوئی چارج نہیں ہوتا لیکن ہم نے جب اس توانا فوٹان کو مادے میں تبدیل کیا تو دو پارٹیکلز پیدا ہونگے۔ ایک الیکٹران پیدا ہوا ہے تو ضرور دوسرا  پازیٹران ہونا چاہیے تاکہ کائنات کی توانائی کا قانون پورا ہوسکے۔

یہ تو چارج کی بات ہے۔ ہم اسی بات کو کنزویشن آف سپن کی زبان میں بھی کرسکتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے ہم کلاسیکل فزکس سے پوچھتے ہیں۔اگر ہمارے پاس دوپارٹیکلز ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ لازمی طور پر دونوں کا سپن ایک دوسرے کے مخالف ہوگا تو ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک سپن اپ ہوگا تو دوسرا لازمی سپن ڈاؤن ہوگا۔

فرض کریں   دو بند ڈبوں میں ماریہ اور علی پارٹیکلز کے جوڑوں کو لے کر چلے جاتے ہیں۔ مثلاًماریہ  الیکٹران کو لے کر چلی جاتی ہے اور  علی  پازیٹران کو۔اب ماریہ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا الیکٹران اپ ہے یا ڈاؤن ۔ چنانچہ کوانٹم سپرپوزیشن کی رُو سے اس کا الیکٹران اپ بھی ہے او رڈاؤن بھی ہے۔ اسی طرح علی بھی نہیں جانتا اس لیے اس کے پازیٹران پر بھی یہی قانون لاگو ہوتاہے۔

فرض کریں ماریہ اپنا ڈبہ پہلے کھولتی ہے اور مشاہدہ کرتی ہے کہ اس کا الیکٹران اپ سٹیٹ میں ہے یعنی وہ اپنے ڈبے میں پارٹیکل کی سپر پوزیشن کو کولیپس کردیتی ہے تو علی کے ڈبے میں کیا ہونا چاہیے؟ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ علی کا پازیٹران ابھی تک سپرپوزیشن پر ہے اور ہم کوانٹم کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ممکنات پر غور کرتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ دیکھتاہے اور اس کاپارٹیکل بھی اپ سٹیٹ میں ہے تو اس کا کیا مطلب ہوا؟اس  کامطلب ہے کہ انہوں نےکنزوریشن آف سپن کے اصول کو توڑدیا۔

 

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین