کوانٹم ٹنلنگ (tunneling)ایفکٹ، عجائباتِ کوانٹم میں سے ایک ثابت شدہ حقیقت

اگر آپ سے کوئی کہے کہ اُس نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دیواروں سے آر پار ہوجاتاہے جیسے کوئی بھوت۔ تو ظاہر ہے آپ اُس کی بات کا یقین نہیں کریں گے کیونکہ ایسی مافوق الفطرت باتوں کے لیے عقل میں کوئی گنجائش نہیں۔لیکن کوانٹم میکانکس ، جو بہت ہی باریک ذرّات کی سائنس ہے، میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ مادے کا ایک باریک ذرّہ کسی دیوار کے پار بھی جاسکتاہے۔اسے کوانٹم ٹنلنگ کہتے ہیں۔

کسی باریک ذرّے کے لیے دیواروں سے پار چلا جانا کئی قسم کا ہوسکتاہے۔ چونکہ ہمیں کوانٹم ٹنلنگ کے طریقے پر ذرّات کے آر پار ہوجانے کا مطالعہ کرناہے اِس لیے ضروری ہے کہ ہم باقی قسموں سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔ لیکن اس مضمون میں اتنی گنجائش نہیں کہ کسی ایک میڈیم سے کسی دوسرے میڈیم میں پارٹیکلز کے سفرکی ہر مثال پیش کی جاسکے۔البتہ ایک طریقے سے ہم کوانٹم ٹنلنگ اور پارٹیکلز کے دیواروں یا رُکاوٹوں کے آرپار ہوجانے کوالگ الگ کرسکتے ہیں۔ کوانٹم ٹنلنگ میں جب کوئی پارٹیکل دیوار یارُکاوٹ کی ایک سمت سے دوسری سمت منتقل ہوتاہے تو اسے ٹَنل ہوناکہتے ہیں۔وہ دیوار کے اندر سے ہوکر گزرتاہے لیکن اس کے باوجود اُس کے انتقال کو ماہرینِ فزکس اِنسٹینٹینیَس (Instantaneous) کہہ کرپکارتے ہیں۔اِنس ٹین ٹینیَس کا مطلب ہے، ایک ہی وقت میں پیش آنے والا۔بالفاظِ دگر یوں کہاجارہاہے جیسے پارٹیکل کا کوئی وقت صرف نہ ہوا ہو، اِس راہداری سے گزرنے کے عرصہ میں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اور زیادہ آسان الفاظ میں، پارٹیکل دیوار میں سے گزرا لیکن ایسے جیسے گزرا ہی نہ ہو، جیسے ایک سمت سے دوسری سمت میں ٹیلی پورٹ کردیا گیاہو۔ اس کے برعکس دوسری قسموں کا گزر اور طرح کا گزرہے۔

فرض کریں ہمارے سامنے گتے یا کارڈ بورڈ کی ایک دیوار ہے جس میں سینکڑوں سوراخ ہیں۔اب ہم اگر اپنے کچن میں سے چینی اپنی مُٹھی میں بھر کرلائیں اور زور سے اُس دیوار پر ماریں تو کیا ہوگا؟ چینی کے کچھ ذرّات اُن سوراخوں سے پار چلے جائیں گے اور کچھ ذرّات دیوار کے ساتھ ٹکرا کر گرجائیں گے۔دیوار سے اِس طرح پار چلے جانا کوانٹم ٹنلنگ نہیں ہے۔یہ کلاسیکل گزرگاہ ہے، جیسے کسی پہاڑی درّے میں سے کسی گاڑی کا پارنکل جانا۔کوانٹم کا جادُو اِس سے بہت مختلف ہے۔

اِسی طرح دوسری قسموں میں دیوار سے آرپارہوجانے والے پارٹیکل کا وقت کلاسیکل طریقے سے ہی خرچ ہوتاہے۔مثلاً ایک باریک ذرّہ اِس وجہ سے بھی کسی دیوار سے پار جاسکتاہے کہ ممکن ہے وہ بہت باریک ذرّہ ہو اور دیوار کے ایٹمز اس کے مقابلے میں بہت موٹے ذرّات ہوں اور اِس وجہ سے اُس باریک ترین ذرّے کودیوار کے بڑے بڑے ایٹموں کے بیچوں بیچ خلا سا میسر آجائےجس میں سے وہ آرام کے ساتھ گزرسکے۔مزید برآں مائع کا ٹھوس میں سے گزرجانا بھی ذرّات کے آرپار ہوجانے کی ہی مثال ہے لیکن اِن تمام مثالوں میں پارٹیکل ٹیلی پورٹ نہیں ہوا۔ اسے دیوار پار کرتے ہوئے وقت لگاہے۔جبکہ کوانٹم ٹنلنگ میں پارٹیکل ایک ہی وقت میں آرپارہوگیا۔ اِسی مظہرِ فطرت کی وجہ سے یہ بھی مانا جاتاہے کہ دراصل رکاوٹ میں سے گزرنے والا پارٹیکل روشنی کی رفتار سے بھی تیزرفتار کے ساتھ سفرکرتاہے۔ کیونکہ جب لائیگوکے طریقے پر دو مختلف سمتوں میں دو جڑواں پارٹیکلز روانہ کیے جاتے ہیں اور جب ایک پارٹیکل کے راستے میں رکاوٹ ہوتی ہے تو اُصولاً اُسے اپنے آخری حدف تک دیر سے پہنچنا چاہیے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنے جڑواں پارٹیکل کی نسبت اپنے حدف تک پہلے پہنچ جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹنل ہوجانے والے پارٹیکلز کو روشنی کی رفتار سے تیز تر مانا جاتاہے لیکن ساتھ یہ بھی کہاجاتاہے کہ بعض دیگر وجوہات کی بنا پر یہ عمل آئن سٹائن کے روشنی کی رفتاروالے قانون کی پامالی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ معلوم نہیں اہل فزکس کے دلوں میں اِس آیت کی بلاسفیمی کا خوف کب تک رہے گا؟

دیوار سے پار چلے جانے کی ایک اور قسم کرنٹ یا چارج ہےجو دراصل توانائی کی منتقلی کا عمل ہے اور فی الحقیقت کسی ذرّے کے پار جانے کا عمل نہیں ہے۔مثلاً ایک لوہے کی دیوار ہے اور ہم اس کی ایک سمت کوبجلی کی ننگی تار سے چھُوتےہیں تو کیا ہوگا کہ دوسری سمت تک بھی کرنٹ کا بہاؤ پہنچے گا۔ اس بہاؤ کو ہم الیکٹرانوں کا بہاؤ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ بہاؤ بھی کوانٹم ٹنلنگ نہیں ہے۔توپھر کوانٹم ٹنلنگ کیا ہے؟

دراصل،

’’ کلاسیکل فزکس کے مطابق ایسا ہونا ناممکن ہے کہ زیادہ انرجی کے بنڈل میں سے کم انرجی کا بنڈل گزرجائے‘‘

بالفاظ دِگر ایک دیوار میں سے ایک گیند آر پار نہیں ہوسکتی کیونکہ دیوار کی انرجی زیادہ ہے اور گیند کی انرجی کم ہے۔ لیکن اگرکسی بندوق کی گولی کسی دیوار میں سوراخ کرکے پار چلی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بندوق کی گولی کی انرجی دیوار کی انرجی سے زیادہ ہوگئی تھی۔یعنی کلاسیکل فزکس کا قانون نہیں ٹوٹا۔

کلاسیکل فزکس کے اس اُصول کو دیکھاجائے تو کہا جاسکتاہے کہ ایک الفا پارٹیکل ہمیشہ نیوکلیس کے اندر قید رہے گا کیونکہ اس کی انرجی ہمیشہ نیوکلیس کی سٹرانگ نیوکلیئر انرجی سے کم رہے گی۔یاد رہے کہ الفا پارٹیکل بھاری ایٹموں کے نیوکلیسوں میں سے برآمد ہوتاہے اور فزکس میں اس عمل کو’’ریڈیو ایکٹِو ڈِی کے‘‘ کہتے ہیں۔

مزید تفصیل کےلیے یہ مضمون پڑھا جاسکتاہے،
https://www.facebook.com/idreesazaad/posts/10209626597208628

دراصل کوانٹم ٹنلنگ کا پہلا پاسچوُلیٹ ہی یہی ہے کہ ،

Quantum tunnelling or tunneling refers to the quantum mechanical phenomenon where a particle tunnels through a barrier that it classically could not surmount.

لیکن اصل بات یہ ہے کہ کوانٹم سطح پر اشیأ یعنی آبجیکٹس کسی گیند اور بال کی مثال جیسے نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے کوانٹم کو عجیب و غریب سمجھا جاتاہے کہ کوانٹم کی دنیا میں کلاسیکی دنیا کے اصول لاگو نہیں ہوتے۔کوانٹم کی دنیا میں آبجیکٹس گیندوں جیسے نہیں ہیں بلکہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ وہ دِکھنے میں کیسے ہیں۔ کوانٹم سطح پر آبجیکٹس فقط انرجی کی ایک لہر ہیں۔انرجی کی ایک لہر۔چنانچہ کیسے کہاجائے کہ الیکٹران کیسا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران کسی ایٹم کے نیوکلیس کے گرد گردش کرنے والے ذرّات ہیں لیکن کیا الیکٹران واقعی ذرّات ہیں اور ذرّات کی طرح ہی گردش کررہے ہیں؟ جیسے مثلاً زمین یا دیگر سیّارے سُورج کے گرد گردش کررہے ہیں؟ ڈی براگلی کے بعد جب بھی ایٹم کی شکل بنائی جاتی ہے الیکٹرانوں کو پارٹیکل کی صورت ظاہر نہیں کیاجاتابلکہ ایک موج کی صورت ظاہر کیاجاتاہے۔ ایک موج جو کسی سانپ کی طرح لہریے دار ہے۔

کوانٹم آبجیکٹس کی شکل کسی ذرّے جیسی نہیں ہے کیونکہ وہ سِرے سے کوئی ذرّہ نہیں ہیں۔ کوانٹم آبجیکٹس ایک موج کی شکل پر تصور میں لائے جاسکتے ہیں۔ ایک رسّی لے کر اُس کا ایک سرا دیوار کے ساتھ باندھ دیں اور دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ کر رسّی کو اوپر نیچے جھُلائیں تو رسی میں موجیں پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ الیکٹران ایک کوانٹم آبجیکٹ ہے اس لیے اُس کی شکل کا تصور ایسی رسّی میں بننے والی موج (ویو) جیسا ہے۔دیوار کے ساتھ بندھی رسی میں پیدا ہونے والی موج جیسی شکل والی توانائی کو ذرّہ کہنا کس قدر غیر عقلی تصور ہوسکتاہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔الیکٹران اگر رسی کی موج جیسی شکل میں ہے تو پھر وہ ذرّہ ہے ہی نہیں فقط ایک موج ہے۔اور چونکہ یہ موج نیوکلیس کے گرد گردش کررہی ہے اس لیے ہم الیکٹران کی گردش کو کسی سیّارے کی گردش جیسا نہیں سمجھ سکتے بلکہ ہم اِس گردش کو کسی سانپ کی حرکت جیسا تصور کرسکتے ہیں ۔ ایسا لمبا سانپ جو کسی ستون کے گرد لپٹاہو اورستون کا مسلسل طواف کررہاہو۔سانپ کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف لہریں، اس کے بَل، ہی الیکٹران کی موجودگی کے امکانات ہیں۔ جہاں سے سانپ کا ایک بَل باہر کو زیادہ پھُولا ہوا ہے وہاں الیکٹران کے بطور ذرّہ موجود ہونے کا امکان زیادہ ہے اور جہاں سے کم پھُولا ہوا ہے وہاں الیکٹران کے موجود ہونے کا امکان کم ہے۔لیکن کیا فی الحقیقت الیکٹران ایک ذرّہ بھی ہے؟ نہیں! دراصل وہ ایک ذرّے جیسا رویّہ فقط اس وقت دکھاتاہے جب اسے کوئی دیکھنا چاہے۔جب کوئی اس کا مشاہدہ کرنا چاہے۔یعنی جب کوئی اُس کی پیمائش کرنے لگے تو الیکٹران کسی ایک جگہ موجود ہونے کا مظاہرہ کرتاہے۔گویا ہم الیکٹران کی پوزیشن جا ن تو سکتے ہیں لیکن ہربار پیمائش کرنے والے آلے کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی الیکٹران اپنا رویّہ نہایت تیزی کے ساتھ بدل دے گا۔وہ پیمائش کرنے والے آلے تک پہنچنے سے پہلے پہلے موج بن کر رہے گا۔ لیکن جونہی وہ کسی آلے سے ٹکرائے گا وہ ذرّہ بن کرخود کو ظاہر کرے گا۔ وہ ایک موج کی طرح زندگی گزار رہا تھا لیکن وہ فوری طور پر ایک ہی جگہ موجود ہونے کا اظہار کرکے ایک ذرّہ ہونے کا ثبوت پیش کرنے لگے گا۔چنانچہ ہم اُسے ذرّہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

اب چونکہ الیکٹران ایک مادی ذرّہ بھی ہے اور ہم سب کے جسم بھی انہیں الیکٹرانوں ، پروٹانوں ، نیوٹرانوں کا ہی مجموعہ ہیں۔ اس لیے یہ کہنا قطعاً غیر درست نہیں کہ ہم سب کا وجود بھی دراصل اسی اُصول کی بنیاد پر قائم ودائم ہے یعنی جب ہمیں کوئی دیکھتاہے تو ہم مشہود ہوجاتے ہیں ورنہ ہم ہرجگہ موجود ہیں۔ جیسے ایک ذرّہ پیمائشی آلے کی زد میں آنے سے پہلے ہرجگہ موجود ہے۔اسی طرح ہمارے وجود کے مقام کا تعیّن ہمارے بس میں نہیں بلکہ ہمارے شاہدِین کے بس میں ہے۔ہمارے شاہد ، ہمارے ناظر کا انسان ہونا ضروری نہیں۔ وہ ایک آلہ بھی ہوسکتاہے اور ایک جانور بھی۔یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے جسم کے ساتھ ٹکرائے گا چاہے وہ ہوا کے ذرّات ہی کیوں نہ ہوں، وہ ہمارے جسم کے الیکٹرانوں ، پروٹانوں اور نیوٹرانوں کی پوزیشن متعین کردے گا یعنی اُن کے ویوفنکشن کو کولیپس کردے گا ۔

اب ہم پھرکوانٹم ٹنلنگ کی طرف واپس آتے ہیں۔کسی نیوکلیس کے اندر ایک الفا پارٹیکل جو کہ دوپروٹانوں اور دو نیوٹرانوں کا مجموعہ ہوتاہے، اپنی ذاتی توانائی کے زور پر نیوکلیس کے اندر سے نہیں نکل سکتا کیونکہ ایسا کلاسیکل فزکس کہتی ہے۔اور کلاسیکل فزکس وہ فزکس ہے جس کے ساتھ اب ہمارے ذہن مناسبت اختیار کرچکے ہیں۔ ہماری مینٹل فیکلٹیز وجود میں آچکی ہیں جو کلاسیکل فزکس کے اصولوں کے مطابق ہی کائنات کی ہرشئے کو دیکھناچاہتی ہیں۔ لیکن الفا ڈِیکے میں ہم جانتے ہیں کہ ایک الفا پارٹیکل نیوکلیس سے باہر نکل آتاہے۔

ہم نے دیکھا کہ دوپروٹانوں اور دونیوٹرانوں کا ایک گروپ جو ہیلیم کا نیوکلیس کہلاتاہےاورجسے ہم فزکس کی زبان میں الفا پارٹیکل کہتے ہیں،کیونکہ وہ ابھی فقط ہیلیم کا نیوکلیس ہے نہ کہ مکمل ہیلیم ایٹم، کبھی کبھار خود ہی نیوکلیس سے باہر نکل آتاہے۔اس عمل کو الفا ڈی کےکہتے ہیں۔ ہم الفاڈیکے کے تجربات کی مددسے جانتے ہیں کہ بھاری ایٹموں کے نیوکلیس میں الفاپارٹیکلز موجود ہوتے ہیں جو الفاڈیکے کے وقت ان نیوکلیسوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔

کسی بھاری ایٹم کے نیوکلیس میں موجود الفا پارٹیکلز دراصل سٹرانگ نیوکلیئر فورس کی وجہ سے نیوکلیس کے اندر پھنسے رہتے ہیں۔ہم اگر اپنی سادہ مزاجی کو سامنے رکھتے ہوئے آسان تصورات کی مدد سے اس بات کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں فرض کرلینا چاہیے کہ الفا پارٹیکل دراصل ایک نیوکلیس کے اندر ایسے موجود ہے جیسے کسی کنویں میں پھنسی ایسی گیند جو رُک نہ رہی ہو اور بہت زیادہ تیز رفتار کے ساتھ کنویں کی دیواروں سے ٹکرارہی ہو یا جیسے سکواش کورٹ میں پھنسی ہوئی بال جو دیواروں سے ٹکراٹکرا واپس آتی ہے۔

خودکوانٹم ٹنلنگ کے اساتذہ جو مثال دیتے ہیں وہ ایک وادی کی مثال ہے۔ ایک ایسی وادی جس کے دونوں اطراف میں بلند ہوتے ہوئے پہاڑ ہوں اور درمیان میں موجود وادی کسی آدھی قوس یا نیم دائروی شکل میں زمین پر بچھی ہو۔ایسی ہی کسی وادی میں اگرالفا پارٹیکل پھنس جائے اور اپنی حرکت بھی نہ روک سکے تو وہ فقط وادی کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آتا رہیگا اور کبھی وادی سے باہر نہ نکل سکے گا۔ لیکن کوانٹم ٹنلنگ کی رُو سے وہ پارٹیکل اپنے ویوفنکشن کی وجہ سے کبھی کبھار وادی سے باہر بھی نکل جائے گا۔ گویاسکواش کی گیند کسی طرح سکواش کورٹ سے باہر نکل جائےگی۔

دراصل جب ایک الفا پارٹیکل اُس سرحد تک پہنچتاہے جو سٹرانگ نیوکلیئر فورس کی وجہ سے قائم ہے یا یوں کہاجائے کہ جب وہ نیوکلیس کی دیوار تک پہنچتاہے تو اس کا’’ویو پیکٹ‘‘ دیوار سے ٹکرا کر واپس منعکس ہوتاہے۔چونکہ ایک الفا پارٹیکل ایک موج ہے اور کوانٹم سطح پر موج زیادہ ترموج ہی رہتی ہے، پارٹیکل بن کر ظاہر نہیں ہوتی تو ہم اس الفا پارٹیکل کو اُس رسّی جیسا تصور کرسکتے ہیں جس کا ایک سرا دیوار کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور دوسرا ہمارے ہاتھ میں تھا اور ہم اسے اُوپر نیچے جھلاتے تھے تو رسی میں لہریں پیدا ہوتی تھیں۔ نیوکلیس کے اندر قید الفا پارٹیکل بھی ایسی ہی ایک رسی کی طرح ہے کیونکہ وہ ایک موج ہے نہ کہ ذرّہ۔اور یہ رسی نیوکلیس کے اندر ہی، نیوکلیس کی ایک دیوار سے دوسری دیوار تک بندھی ہوئی ہے اور اس میں سانپ کے بَلوں جیسی لہریں پیدا ہورہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس محدود سے علاقہ میں الفاپارٹیکل بذاتِ خود کہاں موجود ہے؟ اس کا تعلق ظاہر ہے اُن اُبھاروں کے ساتھ ہےجو کسی سانپ کے بَلوں جیسے ہیں اور کسی رسی میں پیدا ہونے والی موج کی طرح نیوکلیس کے اندر ہی اندر ایک دیوار سے دوسری دیوار تک پھیلے ہوئے ہیں۔ایک موج کے ہرفراز کو ٹرف اور ہر نشیب کو کرسٹ کہاجاتاہے۔ جہاں جہاں موج کا ٹرف یا کرسٹ ہوگا وہاں وہاں الفا پارٹیکل کے موجود ہونے کے امکانات زیادہ ہونگے۔

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا نیوکلیس کی دیواروں کے اندر قید الفا پارٹیکل کی موج فقط اتنی ہی چھوٹی ہے؟ یعنی کیا اس الفا پارٹیکل کا کنواں واقعی اُتنا ہی محدود ہے جتنا کہ ایک نیوکلیس کا ڈایا میٹر یعنی قُطر ہوتاہے؟ کلاسیکل فزکس کے مطابق اِس سوال کا جوا ب ہے، یس!

لیکن کوانٹم فزکس کے مطابق اس سوال کا جواب ہے کہ ، نہیں! الفا پارٹیکل کے امکانات کی موج دراصل نیوکلیس سے باہر تک موجود ہے۔بلکہ اس کے امکان کی موج ہرکہیں موجود ہے۔الفاپارٹیکل نیوکلیس کی دیوار سے نکل بھی آتاہے۔ اسی عمل کو تو الفا ڈِیکے کہتے ہیں۔یہ پارٹیکل نکل آتاہے تو کیسے نکل آتاہے؟ یہ تو ایک موج ہے، ایک پارٹیکل تو ہے ہی نہیں؟ جواب یہ ہےکہ، دراصل پارٹیکل نہیں نکلا، ہوا یہ ہے کہ موج کے امکانات نیوکلیس سے باہر تک موجود ہیں اور چونکہ کسی موج کا طول ِ موج یعنی ویولینتھ ہی تعین کرتی ہے کہ پارٹیکل کہاں کہاں واقع ہوسکتاہے چنانچہ نیوکلیس سے باہر بھی الفا پارٹیکل کے ہونے کا امکان ہوسکتاہے کیونکہ امکانات کی موج بذاتِ خود نیوکلیس سے باہر تک موجود ہے۔ عناصر کی ہالف لائف (نصف حیات) کی ساری ریاضی کوانٹم کے اسی عجیب و غریب مظہر کی بنا پروجود میں آئی ہے۔

اصل حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کوانٹم ٹنلنگ کوئی تھیوری نہیں، ثابت شدہ سائنس ہے۔ آج ہماری کتنی ہی ڈیوائسز فقط کوانٹم ٹنلنگ کی وجہ سے کام کررہی ہیں۔چنانچہ یہ اب تجرباتی سائنس کا حصہ ہے نہ کہ فقط نظریاتی سائنس کا۔ سو جب یہ ثابت ہوگیا کہ زیادہ انرجی میں سے کم انرجی گزر بھی جاتی ہے تو پہلی بات یہ طے کی گئی کہ کوئی بھی دیوار یارکاوٹ کسی موج میں، شئے کی موجودگی کے امکان کو صفر نہیں کرسکتی۔چونکہ اشیأ امواج ہیں اس لیے اشیأ دیواروں میں گزرنے کی اہل ہیں۔ کسی ذرّے کے لیے دیواروں میں سے گزرجانے کےامکانات کہاں زیادہ ہیں کہاں کم ہیں یہ تو طے کیا جاسکتاہے لیکن امکان کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا۔یوں نہیں کہاجاسکتا کہ کم توانائی کو زیادہ توانائی میں سے نہیں گزارا جاسکتا۔ توانائی موج کی شکل میں ہے تو پھر اس کے ہرجگہ موجود ہونے کا امکان ہمیشہ موجود رہیگا۔

الفا پارٹیکل کا یوں باہر نکل جانا یعنی سٹرانگ نیوکلیس فورس کے علاقہ سے بھی باہر نکل جانا عجب مظہرِ فطرت ہے۔جن ذرّات سے الفا پارٹیکل بناہے، انہی ذرّات سے کائنات کی ہر مادی شئے بنی ہے۔الفا پارٹیکل کا نیوکلیس کی دیوار میں سے اس طرح گزر جانا دراصل ٹیلی پورٹ ہوجاناہی ہے۔ایک بات کا خیال رہے کہ ’’نیوکلیس کی دیوار‘‘ کا لفظ فقط سٹرانگ نیوکلیئر فورس کے ’’فورس بیریئر‘‘ کی جگہ استعمال کیا جارہاہے۔خیر! اسی عمل کو کوانٹم ٹنلنگ کہاجاتاہے۔

یہی کوانٹم ٹنلنگ ہی ’’ ریڈیو ایکٹو ڈِی کے‘‘ کی نہایت اہم میکانیات ہے۔کوانٹم ٹنلنگ میں ’’الفا ڈِی کے‘‘ جیسے عمل کے بالکل برعکس عمل بھی پایا جاتاہے۔ یعنی الفا پارٹیکل تو نیوکلیس سے باہر نکل آیا تھا۔ کوانٹم ٹنلنگ میں چھوٹے ذرّات نیوکلیس کے اندر بھی چلے جاتے ہیں۔الیکٹران، پروٹان، نیوٹران یا الفا پارٹیکلز یعنی ہیلیم کا نیوکلیس وغیرہ ، یہ سب نیوکلیس کے اندر گُھس بھی جاتے ہیں۔ نیوکلیس کے اندر گُھس جانے کے اس عمل کوبھی ’’کسی ذرّے کا کوانٹم ٹنل ہوجانا‘‘ کہتے ہیں۔فیوژن کی کتنی ہی قسموں میں یہی ٹنلنگ جاری ہے۔دراصل کوانٹم ٹنلنگ کے بغیرستارے اپنی زندگی کا سفر کرہی نہیں سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ستاروں میں ہائیڈروجن کے ’’نیوکلی آئی‘‘ مسلسل ہیلیم کے نسبتاً بھاری نیوکلی آئیوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔اِسی طرح جدید الیکٹرانکس میں طرح طرح کی ایجادات کا ساراانحصار بھی اِسی کوانٹم ٹنلنگ کے مظہرِ فطرت پر ہے۔یہ سوال کہ الفا پارٹیکل ایسی کسی دیوار سے کتنی تیزی کے ساتھ پار ہوسکتاہے؟ نہایت ہی حیران کُن جواب کاحامل ہے۔ایک الفاپارٹیکل ایسی کسی دیوار سے اُسی وقت پار ہوجاتاہے جس وقت وہ اندر موجود ہے۔ یعنی وہ بغیر کوئی وقت صرف کیے ہی پارہوجاتاہے۔ جب کبھی بھی کسی پارٹیکل کی رفتار کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ بغیر کسی وقت کو خرچ کیے سفر کرتاہے تو ہمیشہ سوال اُٹھتاہے کہ کیا وہ فی الواقعہ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کررہاہے؟ لیکن فوری طور پر اس سوال کا جواب یہ ہےکہ دراصل الفاپارٹیکل کی سطح پر ابھی تک اتنے تیز رفتار حادثہ کے لیے پیمائشی آلات موجود نہیں ہیں، جو اتنے مختصر اور باریک حادثہ کے دو الگ الگ اوقات کا تعین کرسکیں۔البتہ ایک طریقہ ہے جس سےہم کسی حدتک یعنی تھوڑا بہت اس عمل کو ٹیسٹ کرسکتے ہیں۔

ہم لائیگو سے واقف ہیں۔ یہ ایک لیبارٹری کا نام ہے۔ لائیگو دراصل ایل، آئی، جی اور او کا مجموعہ ہے جو کہ ’’لیزرانفرامیٹرگریوٹیشنل ویوآبزرویٹری‘‘کا مخفف ہے۔لائیگو نے ہی گیارہ فروری دوہزارسولہ کے روز اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دوبلیک ہولز کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی گریوٹیشنل ویو کو ڈیٹیکٹ کرلیاہے۔لائیگو کس طرح کام کرتی ہے؟

لائیگو دراصل مائیکلسن کا انفرامیٹر ہی ہے۔ ایک جگہ سے فوٹانز جو کہ روشنی کے پیکٹس ہیں، روانہ کیے جاتے ہیں۔ وہ دو بڑے پائپوں میں سے گزرتے ہوئے جاتے ہیں۔ دونوں پائپ لمبائی میں ایک دوسرے کے بالکل برابر ہیں ۔ دونوں پائپ ایک دوسرے کے متوازی نہیں ہیں بلکہ اس طرح رکھے ہوئے ہیں کہ ان کا ایک ایک سرا آپس میں ملا ہوا ہے اور وہ ایک دوسرے کے عمود میں واقع ہیں یعنی وہ انگریزی کے حرف ایل کی سی شکل بنارہے ہیں۔ فوٹانز جب پائپوں کے دوسرے سروں پر پہنچتے ہیں تو وہاں بہت شفاف آئینے لگے ہیں۔ فوٹان ان آئینوں سے ٹکرا کر واپس آتے ہیں ۔ واپسی پر بھی وہ انہیں دو پائپوں میں سے گزرکرواپس آتے ہیں۔ دونوں پائپ انگریزی کے حرف ایل کی شکل میں جس مقام پر جُڑے ہوئے ہیں، وہ مقام دونوں طرف سے آتی ہوئی شعاعوں کو پھر ایک اور آئینے پر ایک ساتھ منعکس کرنے کا مقام ہے۔ یہاں سے دونوں شعاعیں منعکس ہوکر ایک حدف (ڈِیٹیکٹر) پر جاپڑتی ہیں۔ لیکن اگردونوں پائپ بالکل برابر ہونگے تو عام حالات میں یہ دونوں شعاعیں حدف پر نہیں پڑینگی کیونکہ جونہی یہ مقام اتصال والے آئینے کے پاس پہنچیں گی ان کی ویولینتھوں کے درمیان ڈسٹرکٹِو اِنٹرفیئرنس پیٹرن پیداہوجائے گا اور دونوں شعاعیں ایک دوسرے کو کینسل کردیں گی۔البتہ جب کبھی کسی وجہ سے ایک پائپ دوسرے پائپ سے اچانک چھوٹا یا بڑا ہوگیا تو شعاعوں کے ٹرف ، ٹرف کے سامنے ٹھیک ٹھیک نہ آسکیں گے اور کنسٹرکٹِو انٹرفئرنس پیٹرن پیدا ہوجائےگا جو آئینے کی وجہ سے منعکس ہوکر حدف تک چلا جائےگا۔ لائیگو نے ایسا ہی پیٹرن دیکھنے کے بعد اعلان کیا کہ یقیناً اُس وقت ایک پائپ ، دوسرے پائپ سے یکدم چھوٹا یا بڑا ہوگیا ہوگا کیونکہ عین اسی وقت گریوٹیشنل ویو گزری ہوگی جو زمین کو بھی لمحے بھر کے لیے کسی لچکدار شئے کی طرح پچکا دیتی ہے۔

اب اگر ہم نے لائیگو کے کام کرنے کے طریقے کو ذہن نشین کرلیا ہے تو ہم آسانی کے ساتھ کوانٹم ٹنلنگ کا تجربہ بھی کرسکتے ہیں اور یہ بھی جان سکتے ہیں کہ آیا پارٹیکل نے روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا یا وہ ہمارا وہم تھا۔

لائیگو کو ہی استعمال کیا جائے اور اس بار اُس میں فوٹانز کی شعاع یعنی روشنی کی شعاع بھیجنے کی بجائے، اکیلا اکیلا فوٹان فائر کیاجائے۔ جبکہ دونوں میں سے ایک پائپ میں ایک رکاوٹ نصب کردی جائے یعنی ایک ٹھوس دیوارسی فوٹانوں کے راستے میں پائپ کے اندر ہی کھڑی کردی جائے۔اگرکوانٹم ٹنلنگ واقعی پیش آتی ہے تو پھر کسی نہ کسی وقت ایسا بھی ہونا چاہیے کہ فوٹانز اُس ٹھوس دیوار سے پار نکل جائیں اور پھر اپنا سفر پائپ کے اندر جاری رکھیں۔ اگر کوانٹم ٹنلنگ غلط تصور ہے تو فوٹان ہمیشہ اُس رکاوٹ سے ٹکرا کرواپس پلٹے گا نہ کہ اُسے پار کرسکے گااور کلاسیکل فزکس کی رُو سے ایسا سو میں سے سو مرتبہ ہوگا یعنی سوفیصد ۔لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ الفا پارٹیکلز کے طریقے پر ہی یہ واقعہ بھی پیش آتاہے۔ فوٹان کا ویو پیکٹ دیوار کے پاس اپنی لوکیشن کو قطعی طور پر طے نہیں کردیتا بلکہ کسی کسی وقت یہ ویوپیکٹ دیوار سے پار تک بھی اپنی موجودگی کے امکان کو حقیقت میں بدل کر پیش کرتا رہتاہے،یعنی دیوار سے پار ہوتا رہتاہے۔نناوے فیصد اوقات میں فوٹان دیوار سے ٹکرا کر منعکس ہوجاتاہے اور ایک فیصد اوقات میں یہ دیوار سے پار نکل جاتاہے۔ چنانچہ جب ایسے تجربات کیے گئے تو یہ مشاہدہ بھی ممکن ہوگیا کہ رکاوٹ والا فوٹان ، بغیر رکاوٹ والے فوٹان کی نسبت قدرے جلدی حدف تک پہنچا تھاجس سے پارٹیکل کی ٹیلی پورٹیشن کا ثبوت مل گیا۔
کوانٹم ٹنلنگ بہت سے اہم کوانٹم مظاہر کاباعث ہے، مثلاً ’’الفا ڈِی کے‘‘ یا مختلف قسم کے ڈائیوڈز(Diodes)۔جبکہ کوانٹم ٹنلنگ بھی کوانٹم کے دیگر مظاہر کی طرح ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ہم کائنات کی فزکس کو جس منطقی فہم کی مدد سے سمجھتے ہیں کوانٹم ٹنلنگ اس فہم کے مطابق ہماری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یہ کوانٹم کے دیگر مظاہر کی طرح عجیب و غریب ہے جہاں کلاسیکل فزکس کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ کلاسیکل فزکس میں کوانٹم ٹنلنگ کے لیے مطلقاً کوئی اینالوجی نہیں ہے۔کوانٹم ٹنلنگ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم کوانٹم فزکس کی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ جب تک پارٹیکلز کو کسی پیمائشی آلے کی مدد سے آبزرو نہ کرلیا جائے وہ کسی خاص طے شدہ مقام کے حامل نہیں ہوتے۔جب اُنہیں آبزرو کرلیا جاتاہے تو تب اُن کا مقام طے ہوجاتاہے کہ کوئی پارٹیکل کہاں موجود تھا۔اس مظہرکو کوانٹم کی کوپن ہیگن انٹرپریٹیشنز کے مطابق ’’ویوفنکشن کا کولیپس‘‘ ہونا کہاجاتاہے۔ویوفنکشن کا اطلاق کسی پارٹیکل کی مختلف خصوصیات پر ہوتاہے جن میں پارٹیکل سپِن یا پارٹیکل کی انرجی وغیرہ سرفہرست ہیں۔

کسی ویو میں ایک پارٹیکل کہاں واقع ہے، ہم دیے گئے ویوفنکشن کے ایمپلی ٹیوڈ کے مربع سے معلوم کرسکتے ہیں۔فرض کریں کہ ایک پارٹیکل کے راستے میں ایک دیوار ہے اور وہ اُس دیوار کے ساتھ ٹکرا کر واپس آتاہےتو کلاسیکل فزکس کی رُو سے اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیوار کی انرجی پارٹیکل کی انرجی سے زیادہ ہے اس لیے پارٹیکل دیوار کے اندر سے نہیں گزرسکتا بلکہ واپس آجاتاہے۔اس مظہرِ فطرت کو ظاہر کرنے کے لیے اُس ویوفنکشن کو لیاجاتاہے جو دیوار کے بالکل پاس منعکس ہورہاہے۔لیکن کیا یہ ویوفنکشن دیوار کے اندر بھی گُھس چکاہے؟ کیا یہ ویودیوار کے اندر بھی پیدا ہورہی ہے؟ جی ہاں! دیوار کے اندر بھی ویوفنکشن پیدا ہورہاہے۔ جوں جوں دیوارکی موٹائی بڑھتی جاتی ہے، دیوار کے اندر ویوفنکشن کا ایمپلی ٹیوڈ کم ہوتاجاتاہے اور جوں جوں دیوار کے اندر فاصلہ کم ہوتا جاتاہے یا یوں کہنا چاہیے کہ جوں جوں دیوار کی موٹائی کم ہوتی جاتی ہے ویوفنکشن کا ایمپلی ٹیوڈ بڑھتاچلاجاتاہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دیوار کے اندر بھی اُسی پارٹیکل کا ویو فنکشن موجود ہے جو پارٹیکل دیوار سے ٹکرایا۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ویوفنکشن کبھی بھی ’’زیروایمپلی ٹیوڈ‘‘ تک نہیں پہنچتا اور یہی عجیب بات ہے۔ کلاسیکل فزکس کے مطابق تو یہ طے ہے کہ جب کوئی گیند دیوار سے ٹکرائے گی تو سیدھی سیدھی واپس لوٹے گی، جیسا کہ ہم نیوٹن کے تیسرے قانون کی رُو سے جانتے ہیں۔ کلاسیکل فزکس میں ایک ذرّے پر بھی گیند والا قانون ہی لاگو کیا جائےگا کہ جب ایک ذرّہ دیوار سے ٹکرائے گا تو سوفیصد مواقع پر ہی وہ ٹکرا کر واپس لوٹے گا۔ اِسی طرح جب پانی کی ایک موج دیوار سے ٹکرائے گی تو وہ بھی ٹکراکر واپس لوٹے گی۔ لیکن کوانٹم ٹنلنگ میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ایک پارٹیکل جو پانی کی موج کی طرح دراصل ایک ویو بھی ہے جب دیوار سے ٹکرائے گا تو اس کا ویوفنکشن دیوار کے اندر بھی پیدا ہوگا جیسے وہ دیوار کے اندر گُھس گیا ہو۔

ہم اس سارے مظہر کو ’’ویو فنکشن کےایمپلی ٹیوڈکا ڈِی کے‘‘ کہہ کرپکاریں گے۔ہم کہیں گے کہ ’’ ویوفنکشن کا ایمپلی ٹیوڈ دیوار یا رُکاوٹ کے اندر ڈِی کے کرگیا‘‘۔فرض کریں دیوار زیادہ موٹی نہ ہو تو کیا ہوگا؟ چونکہ ویوفنکشن دیوار کے اندر بھی پیدا ہورہا تھا اور کبھی زیرو ہوا ہی نہیں تھا اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ دیوار سے پار ہوجائے اور پارٹیکل کی ویو، دیوار یا رُکاوٹ کے دوسری طرف بھی جاری رہے۔جب ویوفنکشن رکاوٹ کو عبور کرلیتاہے تو اُس کا ایمپلی ٹیوڈ مزید ’’ڈِی کے‘‘ نہیں کرتا۔البتہ دیوار میں سے گزرتے وقت ویوفنکشن کا ایک حصہ دیوار کی دونوں سرحدات سے گزرتاہے۔ یعنی دیوار کی موٹائی کے اندرہی رہتے ہوئے ایک سرحد جس سے داخل ہوتاہے اور دوسری سرحد جس سے پرلی طرف کو خارج ہوجاتاہے۔بعینہ اسی طرح کسی پارٹیکل کا ویو فنکشن کسی دیوار یا رکاوٹ کی دونوں سرحدات سے ہی سےمنعکس (ریفلیکٹ) بھی ہوتاہے۔ یعنی جب وہ دیوار سے ٹکرا رہا تھا تو ایک وہ سرحد جس کے ساتھ ٹکرایا اور واپس پلٹا اور دوسری وہ سرحد جو دیوار کے اندر تھی او رموٹائی کو عبور کرنے کے بعد آتی تھی اور جہاں سے ویو کو دیوار پارکرجانی تھی، ویوفنکشن کا کچھ حصہ وہاں سے بھی ٹکرا کر واپس پلٹے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یقیناً امکانات موجود ہیں کہ ایک پارٹیکل دیوار کے پار دوسری طرف بھی ویسا ہی پیدا ہورہاہو اور یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ پارٹیکل دیوار کی دونوں سرحدات سے ٹکرا کر واپس لوٹے۔
اگر ہم بہت سے پارٹیکلز کو ایک رکاوٹ کی طرف بھیجیں تو اُن میں سے کچھ ٹکرا کر واپس آجائینگے اور کچھ دیوار سے پار ہوجائیں گے۔فرض کریں رکاوٹ یا دیوار بہت پتلی ہے تو اس بات کے مواقع بڑھ جائیں گے کہ ویوفنکشن کے ڈِی کے کرنے کے لیے دیوار کے اندر کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ایسی صورت میں یقیناً دیوار سے پار گزرجانے والے پارٹیکلز کے ویوفنکشن کا ایمپلی ٹیوڈ زیادہ ہوگا۔گویا پتلی دیوار یا رکاوٹ سے گزرنے کے امکانات زیادہ ہونگے۔اس کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ پتلی دیوار کی صورت میں ٹکرا کر واپس آنے والے ویوفنکشن کے امکانات نسبتاً کم ہوجائیں گےجسے منعکس ہونے والی ویو کے قدرے چھوٹے ایمپلی ٹیوڈ کی صورت میں دیکھاجاسکےگا۔اِسی طرح دیوار کی موٹائی بڑھاتے جانے سے کسی پارٹیکل کے پارہوجانے کے امکانات کم ہوتے چلے جائیں گےاور ٹکرا کر پلٹ آنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔لیکن اس کے باوجود بھی کہ موٹی دیوار کی وجہ سے پارٹیکل کے ویوفنکشن کے آر پار ہوجانے کے امکانات کم ہیں پھر بھی اگر پارٹیکلز کی تعداد بڑھادی جائے گی تو اُن کے دیوار سے پار ہوجانے کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔کلاسیکل فزکس کی رُو سے اگر رکاوٹ کی توانائی پارٹیکلز کی توانائی سے زیادہ ہے تو پارٹیکل کے آرپار ہوجانے کے امکانات صفر ہیں جبکہ کوانٹم فزکس میں ایسا نہیں ہے۔

لوئی ڈی برائے(ڈی براگلی) نے جب یہ طے کردیا کہ دراصل ہرمادی شئے بنیادی طور پر ایک موج یعنی ویو ہے، ہرمادی شئے کومتعین امکان کے’’ویو پیکٹس‘‘ کی شکل میں بیان کیا جاسکتاہے تو ساتھ ہی یہ بھی طے ہوگیا کہ ہم بھی تو فقط ایک موج ہی ہیں۔ڈی برائےنے ہی بتایا کہ ہرمادی شئے کی بھی بالکل اُسی طرح ایک ویولینتھ ہوتی ہے جیسی کہ شعاعوں یا امواج کی ہوتی ہے۔اسے ڈی برائے ویولینتھ کہتے ہیں جس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ کسی مادی شئے کی بہترین پوزیشن کیا ہے۔لمبی ویولینتھ سے مُراد ، بہت زیادہ غیریقینی مقام(پوزیشن) ہے جبکہ چھوٹی ویولینتھ سے مراد ایک بہترین طے شدہ مقام ہے۔یہ بات ایٹم کے چھوٹے ذرّات کے لیے بھی درست ہے اور یہ کسی بھی مادی شئے مثلاً بڑے آبجیکٹس کے بارے میں بھی درست ہے۔مثلاً اِس وقت آپ جس جگہ بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں، یہ مقام دراصل آپ کی بہت ہی مختصر ویولینتھ نے طے کیا ہے ورنہ فی الحقیقت جہاں آپ کھڑے ہیں، اس مقام کے ہرطرف آپ کے موجود ہونے کے مختصرسا امکان ہمیشہ موجود رہتاہے۔یہاں تک کہ ایک بہت ہی مختصر سا امکان یہ بھی موجود رہے گا کہ آپ اِس وقت چاند پر موجود ہیں۔ لیکن آپ کو جب کوئی یہاں دیکھ رہاہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عدد آبزرور نے آپ کو یہاں آبزرو کیا ہے اور یوں آپ کو ایک مخصوص مقام پر مشہود کردیا ہے۔بالفاظ دِگر ہم نے یہ طے نہیں کیا کہ ہم اِس وقت کہاں موجود تھے بلکہ ہمیں دیکھنے والے یعنی آبزرور نے طے کیا کہ ہم اس وقت کہاں موجود ہیں۔دراصل ڈی برائے کی ویولینتھ کا تعلق کسی شئے کے مومینٹم کے ساتھ ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ریاضیاتی طور پر مومینٹم کومعلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ مومینٹم ہمیشہ کسی آبجیکٹ کے ماس اور ولاسٹی کا حاصل ضرب ہوتاہے۔ایک ہاتھی بہت بھاری جاندار ہے، جس کا مطلب ہے ہاتھی کا ماس زیادہ ہے۔ جب کسی آبجیکٹ کا ماس زیادہ ہو، بھلے اُس کی ولاسٹی کم ہی کیوں نہ ہو، اس کا مومینٹم بہرحال بہت زیادہ ہوجاتاہے۔جبکہ اونچے درجے کے مومینٹم کا دوسرا مطلب ہوتاہے، بہت چھوٹی ویولینتھ۔ چنانچہ ہاتھی بھی فی الحقیقت ایک ’’ویو(Wave)‘‘ ہے لیکن اس کی ویولینتھ بے پناہ چھوٹی ہے۔دراصل ویولینتھ کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ’’پلانک کانسٹینٹ‘‘ کو مومینٹم کے ساتھ تقسیم کردیتے ہیں۔چونکہ ہاتھی کا مومینٹم بہت زیادہ ہے اس لیے ہم جب پلانک کانسٹینٹ کے ساتھ ہاتھی کے مومینٹم کو تقسیم کرتے ہیں تو بہت ہی باریک ویولینتھ برآمد ہوتی ہے۔

انسان، کئی کلوگرام وزن کا حامل ہوتاہے اور بنیادی طور پر ہرشئے ہی ایٹموں سے مل کر بنی ہوئی ہے۔چنانچہ انسان بھی ڈی براگلی کی ویو لینتھ کا حامل ہے۔ ہم اگر پلانک کانسٹینٹ

6.62607004 × 10-34 m2 kg / s
کو اپنے مومینٹم کے ساتھ تقسیم کردیں تو ہماری ویولینتھ ہمیں معلوم ہوسکتی ہے۔اگرچہ ہم ویسے بھی ایک بلیک باڈی ہیں اور بلیک باڈی اس آبجیکٹ کو کہا جاتاہے جس سے ریڈی ایشن خارج ہورہی ہو لیکن ڈی براگلی کی طے شدہ ویو لینتھ کے بعد تو ہم بہرصورت ایک موج ہی ہیں۔ فقط ایک موج۔صرف ایک شعاع۔ ہم انسان ایک شعاع ہیں۔ ہاتھی بھی ایک شعاع ہے، حتیٰ کہ ایک پہاڑ یا سیّارہ ٔز مین بھی شعاع ہی ہے۔ کیونکہ ہر شئے ایٹموں سے بنی ہے اور ایٹم مزید چھوٹے ذرّات سے بنے ہوئے ہیں اور ہر ہر ذرّہ دراصل ویو کی شکل میں ہی اپنا وجود رکھتاہے ، اس کے علاوہ اس کے وجود کی کوئی دوسری صورت نہیں۔

چنانچہ ہم بھی کائنات میں ہرجگہ موجود ہیں لیکن اس بات کے امکانات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ مطلب ہم ویولینتھ کا حامل ہونے کی وجہ سے ایک ویو ہیں اور ویوفنکشن کی مساوات کے مطابق ہم ہرجگہ موجود ہیں لیکن ہمارے ہونے کا امکان کسی جگہ زیادہ اور کسی جگہ کم ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہونے کا امکان یہاں اس زمین پر بہت زیادہ اور چاند پر بہت کم ہے۔اور اس بات کا انحصار بھی کہ ہمارے ہونے کا امکان کہاں زیادہ ہے اور کہاں کم ہے فقط مشاہدہ کرنے والے پر منحصر ہے۔
چنانچہ ڈی براگلی کی مساوات کے بعد یہ سوال پیدا ہوجاتاہے کہ آیا انسانوں اور ہاتھیوں جیسے بڑے بڑے آبجیکٹس بھی کوانٹم ٹنلنگ کامظاہرہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ یہ کوانٹم آبجیکٹس تو نہیں ہیں لیکن یہ طے ہے کہ یہ آبجیکٹس بھی ڈی براگلی کے اصول کے مطابق ویوز ہی ہیں اور ایک ویو کسی رکاوٹ سے کبھی کبھار گزر بھی جاتی ہے۔لیکن یہ سوال ہمیشہ فکشن فلموں تک ہی محدود رہا۔دیواروں سے آر پار ہوتے ہوئے سائنس فکشن فلموں کے کردار دراصل اِسی کوانٹم ٹنلنگ کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں۔سائنس کی طرف سے اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ، ’’نہیں! ایسا کوئی مظہر تجربے میں نہیں لایا جاسکتا ۔انسان بھُوت پریت کی طرح دیواروں سے آر پار نہیں ہوسکتےاور یہ کہ کوانٹم ٹنلنگ کا اطلاق فقط کوانٹم آبجیکٹس پر ہی کیا جاسکتاہے۔ بڑے آبجیکٹس پرنہیں کیاجاسکتا‘‘۔چنانچہ کوانٹم کا یہ فیچر یعنی کوانٹم ٹنلنگ بڑے آبجیکٹس کے حوالے سے اتنا زیادہ زیربحث نہیں لایا جاتا بلکہ ہمیشہ بہت چھوٹے آبجیکٹس کے حوالے سے ہی سائنس کا موضوع رہتاہے۔

 

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: سعد خان نے شائع کیا۔

سعد خان رشتے میں ادریس آزاد کے بھتیجے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ عربی صرف و نحو اور علومِ دینیہ کے طالب علم بھی ہیں۔حافظِ قران ہیں۔ گرافکس ڈیزائنر ہیں۔ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ادریس آزاد ڈاٹ کام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔