بدنصیب پرویز

۸۲ سے تو میں بھی دیکھتا اور سنتا آرہاہوں ۔ لوگ پرویز کا نام لیے بغیر اُن کے افکار و خیالات بیان کرتے اور محفل در محفل اپنی علمی دھاک بٹھاتے چلے آرہے ہیں۔ ایک مرتبہ 25 بی گلبرک ، دفتر طلوع اِسلام میں مینجیر طلوع ِ اسلام جناب حسین قیصرانی (جو خیر سے اب میرے فیس بک فرینڈ بھی ہیں)

اُن کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے مجھے ایک رجسٹر دکھایا ۔ یہ وہ رجسٹر تھا جس میں آؤٹ گوئنگ کتابوں کے اندراجات تھے۔ انہوں نے مجھے دکھایا کہ زیادہ تر کتب مسجدوں کے خطیبوں نے منگوائی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ پرویز کی مشہور کتاب ’’شاہکار رسالت‘‘ پڑھ پڑھ شان عمر بن خطابؓ پر تقریریں کرتے ہیں۔ یہی نہیں، ٹی وی پر درس دینے والے بڑے بڑے نامور مفکرین ِ اسلام پرویز کے سالن میں لقمہ ڈبو ڈبو کر کھاتے ہیں۔ اور تو اور علامہ طاہرالقادری جیسے جغادری مصنفین کی کتب اور بیانات اُن دلائل سے سرتاسر بھرے ہیں جو پرویز نے عمر بھر کی محنت شاقہ سے تلاش کیے۔

گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی میں (نام نہیں لونگا)۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبالیات پر لیکچرز سنتے ہوئے ایک بہت بڑے ماہر ِ اقبال کی ہر ہر اصطلاح پرویز کی اصطلاح تھی، ہر ہر لفظ پرویز کا لفظ تھا، ہر ہر بات پرویز کی بات تھی۔ لیکن انہوں نے ایک بار بھی پرویز کا نہ نام لیا نہ ان کی کسی کتاب کا ذکر کیا۔ اور مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آتارہا کہ،

ؔ ہرلفظ میں اُس کے مری باتوں کی جھلک تھی
اِک لفظ بھی اس کا مرے بارے میں نہیں تھا

مجھ سے انہوں نے کوئی سوال پوچھا تو میرے منہ سے نکل گیا کہ ، ’’جی! یہ بات میں پرویز کی کتاب ’اسباب زوال ِ امّت‘ میں پڑھ چکاہوں‘‘

بس پھر کیا تھا ، انہوں نے باقی پورا پیریڈ یہ ثابت کرنے میں صرف کردیا کہ پرویز تو منکر حدیث ہے۔

بڑی بڑی یونیورسٹیز کے نامور پروفیسرز کو میں نے دیکھا کہ پرویز کا نام لیے بغیر اس کی پوری فکر یوں پیش کردیتے ہیں جیسے اُس پر انہوں نے سالہا سال محنت کی ہو۔ غرض ہر جدت پسند سکالر پرویز سے بے دریغ استفادہ کرتاہے لیکن اُن کا نام کبھی نہیں لیتا۔ کیوں؟

کیونکہ پرویز کو ’’منکر ِ حدیث ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے اور اُن کی شہرت اہل اسلام کے نزدیک بہت خراب ہے۔ اگر آپ ان کی کوئی کتاب پڑھ کر اس سے کوئی بیان نقل کرنا چاہ رہے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ان کا نام لیے بغیر ایسا کریں ورنہ آپ پر ’’پرویزیت‘‘ کی چھاپ لگ جائیگی۔

پرویزیت کے نام پر ہمارے شہر کے ایک سائنس ٹیچر کافی لمبی جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ پرویز کی کیسیٹیں چلا کر طلبہ کو ان کا درس ِ قران سناتے ہیں۔ ایٹیز(80s) میں ایک مرتبہ جنرل ضیاالحق نے پرویز سے پی ٹی وی پر درس ِ قران دلوایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غلطی سے نام کے ساتھ یہ الفاظ لکھ دیے،

درس ِ قران :

مفکر قران جناب غلام احمد پرویز

اگلے دن ملک بھر میں احتجاج ہوا اور پھر غالباً پرویز صاحب دوسرا درس نہ دے سکے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی نفرت کیوں؟ یا تو پرویز کی کتب کو بالکل ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ بڑی بڑی تحریکوں کے بانیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ پرویز سے بے دریغ استفادہ کرتے ہیں۔ لوگوں نے ’’دو اسلام‘‘ اور ’’دوقران‘‘ کے رائٹر ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو معاف کردیا ہے تو پرویز کو ان کی کتاب ’’مقام ِ حدیث‘‘ کی وجہ سے معاف کرنا کیوں کر ممکن نہیں۔ اگرچہ مقام حدیث میں بھی پرویز نے گستاخی تو کہیں بھی نہیں کی۔ پوری کتاب کا خلاصہ دولفظوں میں یہ نکلتاہے کہ

’’یہ باتیں رسول اطھر صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ نے نہیں کہی ہونگی۔ یہ بعد کی روایات ہیں اور اِن میں ایسے سُقم ہیں کہ انہیں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تسلیم کرنے کو دل نہیں مانتا۔

واقعہ یہ ہے کہ کراچی کے مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے 1935 میں ایک فتویٰ جاری کیا کہ ’’سپیکر میں آذان دینا حرام ہے، کیونکہ اس میں آواز کا عکس ہوتاہے۔ اصل آواز نہیں ہوتی‘‘۔ اس پر پرویز نے ان کے خلاف ایک دو مضامین لکھ دیے۔ سات سال بعد یعنی 1942 میں مولانا مفتی شفیع نے دوبارہ ایک فتویٰ دیا کہ، ’’ میں نے ایک سائنس ٹیچر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سپیکر میں آواز کا عکس نہیں ہوتا، چنانچہ آذان دینا جائز ہے‘‘۔ اس رجوع پر پرویز صاحب نے اور بھی زیادہ مذاق اُڑانے والا آرٹیکل لکھ مارا۔ تب ان دونوں صاحبین کے درمیان خطوط کا سلسلہ شروع ہوا ۔ غالبا پچاس کے قریب خطوط ہیں۔ جن میں مولانا مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رویہ اور تخاطب بے پناہ سخت ہے، جبکہ پرویز کا معقول ہے۔ آخری خط میں مفتی صاحب نے گویا بہت ہی زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے تو پرویز نے جواب دینا بند کردیا اور بعد میں یہ خطوط شائع بھی کردیے۔

خطوط کے اس واقعہ اور ان کی اشاعت کے بعد مولانا مفتی شفیع رحمہ اللہ نے ایک کتابچہ لکھا۔ جس میں انہوں نے پرویز کی کتابوں سے چن چن کر مختلف نکات ایک جگہ جمع کردیے اور دنیا بھر کے ایک ہزار علمأ کو بھیج دیے تاکہ اُن سے کفر کا فتویٰ منگوایا جاسکے۔ میرے داد جان رحمہ اللہ علیہ بھی ان علمأ میں سے ایک تھے جن کے پاس وہ کتابچہ پہنچا۔ چنانچہ وہ کتابچہ اب تک میری لائبریری میں ہے۔ خیر تو اس میں جو نکات درج ہیں ، ان کا تعلق قطعاً پرویز کے عقائد کے ساتھ نہیں بنتا۔ زیادہ تر باتیں سیاق و سباق کے بغیر لی گئی ہیں، مثال کے طور،

۱۔ یہ شخص خانہ کعبہ کو مقام عبادت کی بجائے فقط مرکز ملت مانتاہے۔
۲۔ یہ شخص خدا کی ذات کو قانون ِ مشیتِ ایزدی کے ساتھ تبدیل کردیتاہے۔

وغیرہ وغیرہ۔ غرض سیاق و سباق سے بالکل الگ کرکے کچھ نکات علمائے اُمت کو بھیجے گئے اور جواب میں سب نے اپنے اپنے دستخط کرکے انہیں فتویٰ بھیج دیا۔

تب ایک اور کتابچہ شائع ہوا جس کا عنوان ہے، ’’ایک ہزار علمأ کا متفقہ فتویٰ’’ ۔ اور یہ متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ پرویز کافر ہے۔اور ہر وہ شخص جو اس کی باتوں کو مانتاہے وہ پرویزی فرقے سے تعلق رکھتاہے۔

اس فتوے کی شہرت کے ساتھ ہی پرویز صاحب سے لوگ ڈرنے لگے۔ یہاں تک کہ خود طلوع اسلام والے بھی ڈرنے لگے۔ ایک مرتبہ میں مجھے یاد ہے کہ طلوع اسلام کی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پرویز کی کتابیں تو شائع کی جائیں، لیکن کسی اور نام سے۔ اور پھر اس فیصلے پر عمل بھی ہوا۔ پرویز کی کتابیں کسی فرضی شخص کے نام سے شائع ہوتی رہیں۔ مدعا یہ تھا کہ پرویز کی باتیں تو بہت کام کی ہیں ، ان سے قوم کو محروم نہ رکھا جائے بس صرف ان کے نام سے سب کو بچایا جائے۔

یقیناً کوئی غلطی تو پرویز میں بھی تھی۔ ورنہ کسی کی تحریک سے اُس کا نام اتنی بے دردی کے ساتھ نہیں ہٹایا جاتا۔ پرویز کے ساتھ جتنے بھی لوگ اٹیچڈ تھے سب نے بڑے بڑے نام پائے۔ بطور خاص ڈاکٹر عبدالودود (مرحوم) جنہوں نے ایک عظیم کتاب ’’مظاہر فطرت اور قران‘‘ ہردو زبانوں اردو اور انگریزی میں لکھ کر قوم بلکہ اُمت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ ہمارے ہاں، یہاں جوہرآباد میں رہ کر گئے ہیں۔ اب تک ایک بڑے مفکر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح علامہ رحمت اللہ طارق، علامہ تمنا عمادی، ڈاکٹر غلام رسول ازہر وغیرہ۔

طاہرالقادری اور غامدی صاحب پرویز کے بعد نمودار ہوئے۔ ان لوگوں نے یہ سیانا کام کیا کہ حدیث پر اپنے خیالات فقط اپنے تک ہی محدود رکھے اور قدرے قابل ِ قبول زبان میں پھر وہی ساری باتیں کہہ دیں جو پرویز نے اتنی زیادہ کتابوں میں پہلے سے لکھ رکھی ہیں۔

میں جس گھرانے کا فرد ہوں وہاں پرویز کا نام لینا سلمان رشدی کا نام لینے کے برابر تھا اور اب بھی ہے۔ اسی طرح غامدی کا نام لینا بھی بہت بڑا جرم ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب سے انہیں پتہ چلا کہ عمار خان ناصر جو زاہد الراشدی کے فرزند ِ ارجمند ہیں اور مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے پوتے ہیں جبکہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفسرقران (معالم العرفان کے مدرس) مولانا عبدالحمید سواتیؒ کے بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میرے اہل ِ خاندان نے اب عمار خان ناصر کی وجہ سے غامدی کے بارے میں بھی بہت معمولی سا لیکن قدرے نرم گوشہ اختیار کرلیا ہے۔ گزشتہ دنوں نے میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ عمار خان ناصر پر آپ لوگ اعتراض کیوں نہیں کرتے تو فرمانے لگے،

’’اُن کے والد (زاہد الراشدی صاحب) نے تو اپنے بیٹے کی حمایت میں بیان دیے ہیں۔ ہم تو زاہدالراشدی صاحب کی بات مان رہے ہیں۔ ہم عمار کو نہیں جانتے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے یہ پوسٹ لگائی تو راجہ سمرہ (پیارے دوست) نے یہ کمنٹ کیا۔ میں سمجھتاہوں۔ اس کمنٹ کو بھی پوسٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم مسلمانوں کی من حیث القوم عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنے مکتبہِ فکر کی آغوش میں بے خبر رہ کر زندگی گذار دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر ہمارۓ اکابرین پر دوسرۓ مکاتبِ فکر کی شخصیات کی علمی برتری روزِ روشن کی طرح عیاں ہو، تو ہم اٹکل پچو سے کام چلا کر بھی اپنے اکابرین کو ان سے ارفع ثابت کرتے ہیں۔ یقین جانیے اسی کو علم دشمنی کہتے ہیں۔
میں قرانسٹ نہیں ہوں ، حدیث کے تشریعی حیثیت کا قائل ہوں، لیکن مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ برِ صغیر میں تمام اہل القرآن کے علماء کی فہرست بنا لیجیے، تمام ہی جینئس تھے۔
منکرینِ حدیث (جیسا کہ انکو سوادِ اعظم ںے نام دیا) میں میں نے پرویز کی کتب کو نہیں پڑھا ، البتہ نیاز فتح پوری اور غلام جیلانی برق کو بہت پڑھا ہے اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عظیم علمی شخصیات تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ برصغیر میں انکارِ حدیث کی راہ ہموار کرنے میں مدارس کے رجعی رویے کو بہت دخل ہے۔ مدراس نے انگریزی بشمول جدید سائنس ایسے علوم کو گناہِ کبیرہ کا ٹائٹل دۓ رکھا تھا، جدید تعلیم سے شغف رکھنے والا طبقہ جب مغرب میں حصولِ تعلیم کے لیے جاتا تو لا محالہ اسلام پر اعتراضات سن سن کر تذبذب کی کیفیت سے دوچار ہوتا، پھر جب انکو علماء کی طرف سے بھی راہبری نہ ملتی تو اشخاص خود تحقیق کرتے اور اعتراضات کا جواب تلاش کرتے ۔ عنائت اللہ مشرقی، غلام جیلانی برق ، سید امیر علی سب جدید تعلیم سے آراستہ ہوۓ، حتٰی کہ سر سید کا سفرِ یورپ ہی انکے افکار میں تبدیلی کا موجب بنا۔ انکی کوتاہیوں سے قطعِ نظر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ جو کام مدارس کا فرض تھا وہ ان حضرات نے نبھایا۔ چلیں اچھا ہی ہوا ان حضرات کی کاوشوں سے مولوی کو ” اسلام اور جدید سائنس ” پر بات کرنے کے لیے میٹیریل تو مل گیا۔ آپ نے صحیح نشاندہی کی کہ سرقہ بھی انہی کی کتب سے کرتے ہیں اور پھر انہی کو کفر کی مشین گن سے ہلاک بھی کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین