یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ تنہائ۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ تنہائ۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

12 فروری 2020

اُس کے والدین پلین کریش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جہاز جہاں گرا تھا وہاں دور دور تک جنگل تھا۔ جہاز میں موجود سب لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ صرف وہ بچ گیا تھا۔ تب اس کی عمر صرف ایک ماہ تھی۔ لیکن نہ جانے کیسے معجزاتی طور پر وہ زندہ رہا اور بڑا ہوتا گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس نے کسی بکری کا دودھ پیا ہوگا۔ اُسے اپنے بچپن کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا۔ جہاز کا ملبہ تک اس نے نہیں دیکھا تھا۔ سب کچھ ایسا جل کر راکھ ہوا کہ نشان تک باقی نہ رہا۔ ستم بالائے ستم وقت کی دھول نے بچے کھچے نشانات بھی مٹا دیے تھے۔ نہ جانے کیسے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح بڑا ہوگیا۔ اب اس کی عمر پچیس سال تھی۔

جب وہ بچہ تھا تو وہ ایک نہایت ذہین بچہ تھا۔ نہایت تجسس پسند طبیعت کا واقع ہوا تھا۔ شروع دن سے وہ ہر ہر شئے پر غور کرتا اور اس پر گھنٹوں سوچتا رہتا۔ بچپن میں وہ سورج کو دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ طرح طرح سے اس کا مشاہدہ کرتا۔ اس کی آنکھیں دُکھنے لگ جاتیں بلکہ سُوج جایا کرتی تھیں لیکن وہ نظریں نہ ہٹاتا تھا۔ وہ رات کے آسمان کو دیکھتے دیکھتے جانے کب اُس کا دوست بن گیا پتہ ہی نہ چلا۔ بچپن سے ہی وہ تاروں کے ساتھ باتیں کیا کرتا تھا۔ اس نے کوئی زبان، کوئی بولی نہ سیکھی تھی۔ اس کی اپنی ہی بولی تھی۔ وہ اپنے حَلق سے مختلف آوازیں نکالنے کا ماہر تھا۔ کئی آوزوں میں تو وہ زبان کو ایسی ایسی حرکتیں دیتا کہ منہ سے نکلنے والی اصوات سن کر خود بھی حیران رہ جاتا۔ یہ سب اس نے جنگل کے پرندوں اور جانوروں کو دیکھ دیکھ کر سیکھا تھا۔ وہ آسمان کے ساتھ باتیں کیا کرتا۔ دیر تک جاگتا۔ ستاروں کی ایک ایک حرکت پر غور کرتا۔ روز نئے ستارے ڈھونڈتا، ان کے مقامات یاد رکھتا اور پھرآنے والے دنوں میں اُن کی حرکت نوٹ کرتا رہتا۔ستارے ٹوٹتے تھے۔ نئے نئے پیدا ہوجاتے تھے۔ کچھ زمین پر گرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ وہ جو کچھ دیکھتا اُسے ہمیشہ زبانی یاد رکھتا تھا۔ کبھی کبھار زمین پر کسی تنکے سے لکیروں کے ذریعے ستاروں کے راستے بناتا بھی تو وہ بعد میں خود بخود مٹ جاتے۔

اسے ابھی سمندر کا پتہ نہیں تھا۔ اس نے پہاڑوں کو بھی دور سے دیکھا ہوا تھا۔ وہ کسی میدان کے گھنے جنگل میں بڑا ہوا تھا۔ جہاں اس کے پیروں تلے زمین بالکل ہموار تھی۔ بچپن سے وہ دیکھتا آرہا تھا کہ دور، بہت دور جاکر زمین اور آسمان آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسے بڑی آرزو تھی وہاں تک جانے کی۔ اس نے اپنا سارا لڑکپن یہی سوچتے ہوئے گزارا تھا کہ وہ وہاں تک کبھی نہ کبھی ضرور جائیگا جہاں سے سُورج نکلتاہے۔ وہ سورج کے راستے پر بہت غور کیا کرتا تھا۔ اس نے زمین پر لکیریں کھینچ کھینچ کر سورج کے نیم دائروی راستے کا کھوج پا لیا تھا۔ وہ بہت چھوٹا تھا جب اس نے یہ بات محسوس کرلی تھی کہ سورج جب نکلتاہے تو بہت نیچے ہوتا ہے۔ اور وہاں سے نکلتا ہے جہاں زمین اور آسمان آپس میں مل رہے ہیں۔ پھر سورج آہستہ آہستہ اوپر کو اُٹھتا ہے اور دوپہر کے وقت سورج جب اس کے سر کے عین اُوپر آجاتا ہے تو سب سے اونچا ہوجاتاہے۔ پھر شام تک سورج دوبارہ نیچے کی طرف جھکتا چلا جاتاہے یہاں تک کہ غروب ہوجاتاہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ سورج شام کو اُس مقام کے عین مقابل غروب ہوتا ہے جہاں سے صبح کے وقت طلوع ہوا تھا۔ وہ سورج کا راستہ زمین پر بنایا کرتا تھا۔ یہ ایک نیم دائرہ سا تھا جیسے قوس۔

آسمان کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ بھی گنبد کی شکل کی کوئی چھت سی ہے۔ سُورج اس گنبد کے اندرونی طرف چھت کے بالکل ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتاہے۔ اسی لیے سورج کی حرکت نیم دائروی ہے۔ وہ بہت سوچنے والی طبیعت کا تھا۔ پچیس سال کی عمر کو پہچنتے پہنچتے وہ بے شمار نتائج اخذ کرچکا تھا۔ جو اس کے ذہن میں نقش تھے۔ سب کے سب اُسے زبانی یاد تھے۔ وہ جانتا تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتاہے۔ زمین فرش کی طرح سے ہموار ہے۔ جیسے کسی گبند کے نیچے کوئی تختہ سا رکھا ہوا۔ وہ زمین اور آسمان کو اپنے تصور میں اس طرح لاتا تھا جیسے کسی نے تربوز کو درمیان سے کاٹ کر اور الٹا کر ہموار سطح پر رکھ دیا ہو۔ وہ سبزیوں اور پھلوں سے اس طرح کے ماڈلز روز بنایا کرتا تھا۔

پچیس سال کا ہوا تو وہ پریشان ہونا شروع ہوگیا۔ اب تک وہ زیادہ تر فکر کرتا تو مفکروں والی فکر کیا کرتا تھا کہ اشیأ اور کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ لیکن اب وہ اپنے مستقبل کی فکر کرنے لگ گیا تھا۔ اسے قید کا سا احساس ہونے لگا۔ سب سےزیادہ جو بات اسے تکلیف دیتی تھی وہ تھی تنہائی۔ اس کے جیسا اُس پورے جنگل میں کوئی نہیں تھا۔ وہ بہت سوچتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا ہوگا؟ آخر وہ کیسے پیدا ہوا؟ کہاں سےآیا؟ کیا اس جیسے اور لوگ ہوسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو اتنے عرصہ میں کبھی تو کوئی نظر آیا ہوتا۔ تو پھر وہ کیسے پیدا ہوا ہوگا؟ دوسرے جانور تو جوڑا جوڑا ہیں۔ نر اور مادہ کے ملاپ سے بچے جنتے ہیں۔ مجھے کس نے جنا؟ میں کہاں سے آیا؟ میں اکیلا کیوں ہوں؟ میرے جیسا کوئی اور کیوں نہیں؟

راتوں میں اس نے ہزاروں شہاب ِ ثاقب گرتے دیکھے تھے۔ اپنے بارے میں اس کا یہی مفروضہ سا بن گیا تھا کہ وہ بھی کسی شہاب ِ ثاقت کےساتھ زمین پر آیا ہوگا۔ وہ آسمان سے گرا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا یقین نہیں تھا۔ تجسس کی یہ کیفیت زیادہ شدت اختیار کرتی تو اسے اینگزائٹی ہونے لگتی۔ وہ اپنے آپ کو اِس نیلے گنبد تلے قید محسوس کرتا تھا۔ جیسے اسے کسی نے سزا کے طور پر کسی غار میں بالکل اکیلا پھینک دیا ہو۔ وہ اکثر سوچا کرتا کہ اگر کسی طرح وہ اس گنبد سے نکل جائے! اگر وہ سفر کرے اور دور افق تک چلا جائے۔ جہاں آسمان اور زمین آپس میں ملتے ہیں تو ضرور وہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہوگا۔ باہر نکلنے کا راستہ نہ ہوا تو آسمان پر چڑھنے کا راستہ ہوگا۔ وہ آسمان پر چڑھ کر اپنا گھر ڈھونڈ سکتاہے۔ وہ بھاگ سکتاہے۔ وہ طاقتور ہے۔ وہ جوان ہے۔ اسے بھاگ جانا چاہیے۔ اسے اس قید سے نکل جانا چاہیے۔ پہلے پہل جب اسے اس طرح خیالات آتے تو وہ نکل کھڑا ہوتا۔ دور دور تک چلا جاتا۔ کئی بار تو وہ دو دو دن سفر کرتا رہا، اور پھر واپس لوٹ آیا۔ کیونکہ افق اُس کے اندازے سے زیادہ دور تھا اور وہ پوری تیاری سے روانہ ہونا چاہتاتھا۔

کئی سال پہلے اسے آگ کا پتہ چلا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ ایک دن آسمان پر بہت سے بادل تھے۔ بادلوں کو وہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔ اس دن بھی وہ بادلوں کو مسکراتی ہوئی نگاہوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہا تھا کہ آسمان پر زور سے بجلی کڑکی۔ اور آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ زمین کی طرف لپکا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ آسمان سے آگ گری تھی اور زمین پر بڑے بڑے شعلے پیدا ہورہے تھے۔ وہ ڈرتے ڈرتے آگ کے نزدیک گیا۔ وہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ اس نے دیکھا کہ یہ آسمانی ستاروں کا کوئی ٹکڑا تھا۔ جو بہت زیادہ چمک رہا تھا۔ یہ جاندار تھا اور اُسے دیکھ کر اور زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت کرنے لگ گیا تھا۔ اُس نے وہاں سے بھاگ جانا چاہا لیکن پھر یہ دیکھ کر کہ آگ زمین پر نہ دوڑ سکتی تھی، وہ رک گیا۔ اس نے دیکھا تھا کہ آگ زمین پر موجود آس پاس کی چیزوں کو بھی روشن کرنے لگ گئی تھی۔ وہ بجائے خوف کھانے کے نہایت متجسس نگاہوں کے ساتھ اس حسین منظر کا نظارہ کرنے میں محو ہوگیا۔ جتنے خشک پتے تھے۔ آگ نے انہیں نور بنا دیا تھا۔ اب وہ غائب ہوچکے تھے، اُس نے غور کیا کہ وہ دھواں بن کر آسمانوں کی طرف جارہے تھے۔ آگ آہستہ آہستہ ایک ایک شئے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اُس نے ایک خیال کے تحت اپنے ہاتھ میں تھامی چھڑی کا سرا آگے کیا۔ وہ چھڑی کے سرے سے آگ کو چھو کردیکھنا چاہتا تھا۔ آگ لپک کر چھڑی کے سرے کے ساتھ چپک گئی۔ وہ بہت حیران اور خوفزدہ ہوا۔ آگ اپنے باقی وجود سے الگ ہوگئی تھی۔ ایک ٹکڑا سا چھڑی کے ساتھ چپک گیا تھا۔ چھڑی کا سرا اتنا روشن ہوگیا تھا کہ ندی کی تہہ میں سے ملنے والے لال پتھر جیسا روشن۔ اُس کی چھڑی خوبصورت ہوگئی۔ لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ جہاں جہاں سے آگ کا شعلہ چھڑی کو خوبصورت کرتا جاتا تھا وہاں وہاں سے اُسے چھڑی کا سرا غائب ہوتا اوردھواں بن کر آسمانوں کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا۔ آگ سارے چیزوں کو آسمانوں کی طرف بھیجتی بھی تھی اور وہاں سے لاتی بھی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ آسمانوں سے آیا ہے اور اگر واپس آسمانوں پر جانا چاہتا ہے تو اسے آگ کی سواری کرنا ہوگی۔

بس پھر کیا تھا۔ اس نے اسی نقطے پر سوچنا شروع کردیا۔ اس نے اپنی چھڑی والی آگ اپنی ذہانت کی وجہ سے محفوظ کرلی تھی۔ وہ اسے ہمیشہ اپنے نزدیک جلا دیا کرتا تھا۔ اس طرح وہ خود کو آسمانوں کے نزدیک محسوس کرتا اور اسے لگتا کہ وہ اپنے گھر کے آس پاس ہی ہے۔ رات کو بھی وہ آگ روشن کرنے لگ گیا تھا۔ وہ مسلسل یہی فیصلہ کرنے میں لگا ہوا تھا کہ کسی طرح ہمّت کرکے وہ خود کو آگ میں ڈالے۔ اس کے خوف کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس نے ایک دو مرتبہ آگ میں اپنا ہاتھ ڈال کر یہ دیکھنے کی کوشش کی تھی کہ کیا ہوتاہے؟ اور اس کا ہاتھ بہت بری طرح جل گیا تھا۔ اس درد کے خوف سے وہ جلد فیصلہ نہ کرپا رہا تھا کہ آگ کی سواری کرکے آسمانوں پر لوٹ جائے یا مزید کچھ عرصہ یہیں زمین پر رہتا رہے۔

وہ خواب دیکھتا تھا۔ وہ بچپن سے خواب دیکھتا آرہا تھا۔ بچپن میں اسے اپنے خوابوں میں کھانے پینے کی چیزیں نظر آتی تھی۔ پھر جانور بھی نظر آنے لگے۔ جب وہ بڑا ہوگیا تو اسے اپنے خواب میں ایک شخص دکھائی دینے لگا تھا۔ شروع شروع کے خوابوں میں اسے بڑا عجیب محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ اِس شخص کو اس نے کہیں دیکھا ہوا ہے۔ وہ کتنے کتنے دن اُس جیسے خوابوں کا انتظار کیا کرتا تھا۔ جس میں ایک مخصوص شکل کا شخص اسے دکھائی دیتا تھا۔ کئی سال بعد اسے احساس ہوا کہ اس نے اس شخص کو کہیں اور نہیں دیکھا بلکہ جب وہ ندی میں نہانے لگتاہے تو یہ شخص وہاں ہوتاہے۔ ندی میں۔ یہ بھی ندی میں نہاتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جسے وہ ندی کے پانی میں دیکھتا آرہا ہے اور جو ہر بات میں اس کی نقل کرتا تھا۔ اُس نے ہزاروں مرتبہ اس کے ساتھ باتیں کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ ہر بات میں اُسے چڑانے لگتا تھا۔ بندروں کی طرح کا تھا وہ شخص۔ محض نقالی کرتا تھا۔ اس کی اسی عادت سے تنگ آکر اُس نے اس کا نام “نقال بندر” رکھ چھوڑا تھا۔ اپنے خواب میں جب علی نے نقال بندر کی شکل پہچاننا شروع کردی تو اسے دکھ ہوا۔ یہ نقال کیوں آیا اس کے خواب میں؟ اس نے خواب کا انتظار کرنا چھوڑدیا۔

آگ کی سواری خوفناک تھی، جلاتی تھی۔ اس لیے گزشتہ کچھ مہینوں سے وہ دن رات فرار کے دوسرے طریقوں پر غور کررہا تھا۔ اور پھر آخر ایک دن بھرپور تیاری کے ساتھ وہ اپنے لمبے سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ افق تک جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جہاں سے اسے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنا تھا۔ وہ کائنات کا سارا راز پا چکا تھا۔ یہ کسی ہموار سطح پر اُلٹے رکھے ہوئے پیالے کی شکل جیسی ایک جیل تھی۔ جس میں اسے کسی دشمن نے قید کردیا تھا۔ وہ وہاں جانا چاہتا تھا جہاں شاید اس جیسے لوگ ہونگے۔ وہ جیل سے باہر کی دنیا ہی ہوسکتی ہے۔ وہ سوچتا جاتا تھا کہ ممکن ہے اسے راستے میں کبھی اپنے جیسا کوئی مل جائے۔ کوئی ایسا جسے اس کی طرح کسی نے اسی جیل میں ڈال رکھا ہو۔ یا جب وہ آسمان پرچڑھنا شروع کرے تو وہاں کوئی اپنے جیسا مل جائے؟

کئی دن کے سفر کے بعد آخر اسے سوچنا پڑا کہ افق ہر روز اتنا ہی زیادہ دور کیوں ہوتا جاتاہے جتنا کہ پہلے روز تھا۔ وہ تو مسلسل سفر کرتا ہوا افق کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ آخر یہ فاصلہ کب کم ہونا شروع ہوگا؟ وہ کب وہاں پہنچ پائے گا جہاں آسمان اور زمین ملتے ہیں؟ اگلے دن سے اس نے حساب رکھنا شروع کردیا۔ پہلے اس نے اپنے مخصوص طریقوں سے افق تک کے فاصلے کو اندازے سے زمین پر بنایا۔ پھر اپنے طے کردہ فاصلے کی لکیر کھینچی۔ اور فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ روز حساب رکھا کرے گا۔ تب سے اس نے کئی کئی طریقوں سے جمع تفریق کرکے دیکھنا شروع کردیا۔ لیکن اسے بری طرح سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کے تمام اعدادو شمار ناکام ہورہے تھے۔ وہ سفر کرتا جاتا تھا لیکن افق تھا کہ قریب آنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔

کئی ماہ کے سفر کے بعد آخر ایک دن وہ ایک گھنے جنگل میں پہنچا۔ یہ جنگل بھی اُس کے اپنے جنگل کی طرح بہت خوبصورت تھا۔ اُس نے کسی قدر مایوس دل کے ساتھ وہاں کچھ دن رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے پھر سے اپنے لیے ایک جھونپڑی بنائی اور پہلے کی طرح رہنا شروع کردیا۔ ابھی بھی اس کے دل سے سفر کا خیال نکلا نہیں تھا۔ لیکن اب وہ کچھ دن سوچنا چاہتا تھا۔ وہ ہر صبح اٹھتا تو سورج کے سامنے بیٹھ جاتا اور افق پر غور کرتا۔ وہ ہر وقت آفاق پر غور کرنے لگ گیا تھا۔ آخر ایک دن،

وہ حسب ِ معمول صبح سویرے اُٹھا۔ اور نہانے کے لیے ندی میں اترا تو نقال بندر پھر ندی میں گھس آیا۔ اُس نے منہ بسور کر نقال بندر کی طرف دیکھا تو اس نے بھی آگے سے منہ بسور دیا۔ اُس نے منہ دوسری طرف پھیرنا چاہا تو معاً اسے لگا جیسے نقال بندر نے آنکھ کے اشارے سے اسے سامنے کی طرف نظر ڈالنے کو کہا ہو۔ نقال بندر نے سر ہی اس طرح گھمایا کہ وہ چونک گیا۔ اُس نے سامنے کی طرف نظردوڑائی تو سامنے کچھ نہیں تھا۔ دور تک ندی ہی ندی تھی۔ جو بالکل سیدھی سامنے جارہی تھی۔ وہ دیر تک، دور تک دیکھتا رہا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔ معاً اسے لگا جیسے ندی کے دونوں کناے دور جاکر آپس میں مل رہے ہیں۔ وہ بری طرح سے چونکا۔ اس نے گھور گھور کر ندی پر غور کرنا شروع کردیا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ندی تو ہمیشہ سے اسی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس کے کنارے آگے جاکر آپس ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ یہ کہیں ملتی نہیں ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔ “تو کیا افق کوئی نہیں ہوگا؟ آسمان اور زمین دور سے دیکھنے کی وجہ سے آپس میں ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میں بیکار میں سفر کررہاہوں۔اس پر مسرت اور مایوسی ایک ساتھ حاوی ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ مسرت اس لیے کہ اس نے گنبدِ مینائی کا راز پا لیا تھا اور مایوسی اس لیے کہ زمین اور آسمان آپس میں کہیں نہیں مل رہے تھے اور اسے یقین ہوگیا تھا کہ آگ میں جلے بغیر آسمان تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں۔

دوچار دن وہ بہت چپ چپ رہا۔ کھانے پینے میں بھی خاصی سستی کی اور پھر ایک دن صبح اُٹھا۔ نہا دھوکر خود کو صاف ستھرا کیا۔ پھر اپنی جھونپڑی کے سامنے آگ جلائی۔ اپنی پسندیدہ چیزوں کو پہلے آسمان کی طرف بھیجا تاکہ جب خود وہاں جائے تو سب چیزیں وہاں پہلے سے موجود ہوں۔ ان پسندیدہ چیزوں میں لکڑی، ہڈی، پتوں اور تنکوں سے بنی ہوئی چیزیں تھیں۔ سب چیزیں بخوشی آسمانوں پرچلی گئیں۔ پتھر کی چیزوں کو آگ نے قبول نہ کیا۔ اس نے معذرت خواہانہ نظروں سے اپنی پتھر کی چیزوں کی طرف دیکھا۔ پھر آگ کی طرف دیکھنے لگا۔ اب بڑے بڑے شعلے بھڑک رہے تھے۔ اب وہ تیار تھا۔ اس نے مسکراتی ہوئی نظروں سے کائنات پر ایک آخری لیکن پہلی بار دوستانہ نگاہ ڈالی۔ سورج،زمین، درخت، پہاڑ، سب چیزوں کو الوداع کہا۔ اور ہاتھ ہاتھ ہلاتا ہوا آگ کے بڑے بڑے شعلوں میں کود گیا۔ درد اور تکلیف کے بے پناہ عذاب میں وہ خود کو تسلی دے رہا تھا کہ، “بس تھوڑی سی تکلیف ہے۔ ابھی کچھ ہی دیر بعد تم اپنے گھر ہوگے۔ بہت لمبی جدائی، بہت لمبی تنہائی بھُگتا لی ہے۔ یہ تو تھوڑی دیر کی آگ ہے۔ تھوڑا حوصلہ کرو! بس چند ثانیے اور۔

ادریس آزاد