چاہت، مری مٹی میں عجب چھوڑ گیا ہے

چاہت، مری مٹی میں عجب چھوڑ گیا ہے
دل جل کے بھی خاشاک ِ طلب چھوڑ گیا ہے

جب چھوڑ گیا تھا تو کہاں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہے تو لگتا ہے کہ اب چھوڑ گیا ہے

میں تیرا پجاری تھا مگر اے مرے خورشید!
تو ڈھل کے مرے شہر میں شب چھوڑ گیا ہے

پہنچا ہے مسیحائی کو اِس رہ سے گزر کر
اس رہ کو مگر جان بلب چھوڑ گیا ہے

ہم لذتِ آشوب کے رسیا ،ترے غمدار
تو سینے میں جینے کا سبب چھوڑ گیا ہے

غم اُس کی جدائی کاتجھے مار نہ ڈالے
اب تو بھی اُسے چھوڑ، وہ جب چھوڑ گیا ہے

دانستہ یہیں چھوڑگیا ہے وہ مرا دل
جو اُس کا تھا اسباب وہ سب چھوڑ گیا ہے

کچھ دن سے مرے دل میں عبادت کی طلب ہے
کچھ دن سے مجھے لگتا ہے رب چھوڑگیا ہے

اک پھل کے روادار نہ تھے خلد ِ بریں میں
دل تیری بہشتوں کی طلب چھوڑ گیا ہے

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین