مذہب کے خلاف الحاد کا بلند بانگ مقدمہ، ایک رواں تبصرہ

سچ تو یہ ہے کہ جتنا آرگومنٹ تھا عیسائیت کے خلاف، سارے کا سارا اُٹھا کر اسلام کے خلاف جڑدیاگیا۔ مذہبِ اسلام کے خلاف آرگومنٹ کی ضرورت تھی تو نیا آرگومنٹ ڈیولپ کیا جاتا۔ پرانا آرگومنٹ کیوں استعمال کیا گیا اور وہ بھی جُوں کا تُوں؟ پھر اسلام اورعیسائیت میں بہت کچھ فرق تھا۔ مذہب ِ عیسائیت کے خلاف جو آرگومنٹ یورپ کے مذہب مخالفوں نے صدیوں کی محنت سے تیار کیاتھا، وہ فقط مذہبِ عیسائیت کی مخالفت کا کام ہی ٹھیک سے انجام دے سکتا تھا، نہ کہ مذہبِ اسلام کی مخالفت کا۔ دورحاضر سے پہلے اسلام کے خلاف کسی بھی بیانیہ ساز کو کبھی کسی آرگومنٹ کی ضرورت پیش ہی نہ آئی تھی چنانچہ تاریخ میں ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی نہیں ہے۔

عیسائیت کے خلاف تو ایسے کسی آرگومنٹ کی یورپ کے لوگوں کو شدید ضرورت رہی تھی۔ کوئی چیز یا کوئی تصور وہیں پیدا ہوگا جہاں اُس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ کے لوگ اپنے مذہب کی شدت اور نارروا سلوک سے تنگ تھے۔ یورپ میں مذہب کے دور کو ڈارک ایجز کیوں کہاجاتاہے؟ فقط اِس لیے کہ وہاں مذہب کے نمائندوں نے طوفان مچا رکھاتھا۔ کتنی صدیوں تک یورپ میں مذہب کے نمائندوں نے باقاعدہ حکومت کی۔ چرچ جس کسی کو چاہتا بادشاہ بنادیتا اور جس کسی کو چاہتا آگ کے الاؤ میں جھونک دیتا۔ چرچ نے یورپ میں پورے ہزار سال تک ظلم و استبداد کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جنہیں پڑھ کر آج بھی انسانیت شرمندہ ہوکر منہ چھپانے لگتی ہے۔ چنانچہ یورپ میں مذہب کے خلاف فضا پیدا ہوجانا ضروری ہوگیاتھا۔ یورپ کے لگ بھگ سارے فلسفے مذہب کے ری ایکشن کے طورپر پیدا ہوئے۔اسلامی ممالک کی تاریخ بالکل بھی یورپ جیسی نہیں ہے۔

یورپ میں چرچ نے پورے ایک ہزار تک لوگوں کو زندہ جلایا۔ بڑے بڑے نامور سائنسدانوں کو زندہ جلایا گیا۔ برونوایک بڑا سائنسدان تھا جسے کیتھولک چرچ نے فقط یہ کہنے کی پاداش میں زندہ جلادیا تھا کہ زمین سُورج کے گرد گھومتی ہے۔ برونواورگیلیلو نے مل کر ہی کائنات کے’’ہیلیوسینٹرک‘‘ ہونے کی بات کی تھی۔ چرچ کو یہ بات کفریہ کلمہ(بلاسفیمی) محسوس ہوئی اور برونوکوجلتی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر پر باندھ کر بھُون دیاگیا۔ اسلام میں تو بلاسفیمی کا تصور تک موجود نہیں ہے۔ صدیوں سے عرب، فارسی اور اُردوشعرأ خدا کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے تھے۔ اگر ایسا ایک بھی جملہ ڈارک ایجز کے دوران عیسائیوں نے سن لیا ہوتا تو اُن شعرأ کو زندہ جلادیا جاتا۔ اسلام میں تو ایسے خیالات کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتاہے۔

برونو کے بعد گیلیلو بھی مارا جاتا لیکن وہ اس لیے بچ گیا تھا کہ اس نے چرچ سے معافی مانگ لی تھی۔ڈاکٹرڈریپر اور بریفالٹ نے بے شمار واقعات رقم کیے ہیں جنہیں پڑھ کر رُوح کانپ جاتی ہے۔ جون آف آرک پندرہویں صدی کے ابتدائی نصف میں ایک لڑکی تھی جس نے چرچ کے ظلم و ستم کےخلاف آواز اُٹھائی۔جون آف کو بھی زندہ جلا دیاگیا۔ ڈاکٹر ڈریپر نے لکھاہے کہ ۱۰۳۰ تک فرانس کے دریائے ساؤن کے کنارے انسانی گوشت بیچنے کی کتنی ہی دکانیں تھیں۔ فرانس کے فلپ نامی ایک بادشاہ کو جب چرچ نے سزا سنائی تو فرد جرم میں ایک یہ جرم بھی لکھا تھا کہ ’’یہ مسلمانوں کی طرح بار بار ہاتھ منہ دھوتاہے‘‘۔ کنٹربری کا لاٹ پادری جب چرچ سے نکلتا تو اس کی قبا پر سینکڑوں جوئیں چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ لندن میں لوگوں کو مکان بنانے کا ڈھنگ تک نہیں آتا تھا۔ بے ترتیب اور ایک دوسرے کے آگے پیچھے مکانات بنالیتے۔راستے نہ بنائے جاتے اور بارش میں اُن کے لیے چلنا محال ہوجاتا۔ گھروں کے آگے رفع حاجت (یعنی واش روم) کےلیے بیٹھ جاتے تھے۔ برتن میں پانی ڈال کر اسی میں کُلیاں کرتے اسی میں ناک صاف کرتے اور اسی پانی سے منہ دھوتے۔ ۔ کتنی لائبریریاں جلائی گئیں، کتنے لاکھ کتابیں جلادی گئیں، کتنے لوگوں کولکڑیوں کے الاؤ پر باندھ کر بھُون دیاگیا، اس کا کچھ حساب ہی نہیں۔ صرف پندرھویں صدی کے پہلے نصف میں چرچ نے سترہزار انسانوں کو زندہ جلانے کی سزا دی۔ ہالی وُڈ نے ڈارک ایجز میں مسیحیت کے مظالم پر بے شمار فلمیں بنائی ہیں، جن میں یہ سب کچھ دکھایا گیاہے۔

یورپ تو مذہب کی زیادتیوں سے ڈسا ہواتھا۔ وہاں مذہب کے خلاف اتنا بڑا ری ایکشن پیدا ہوجانا قدرتی امر تھا۔ جونہی مارٹر لوتھر کی پروٹیسٹنٹ تحریک کے بعد یورپ کے لوگوں کو ذرا کھل کر سانس لینے کا موقع ملا اُنہوں نے پوری قوت سے اپنے ری ایکشن کا اظہارکیا۔ بڑےبڑے فلسفی پیدا ہوئے جو مذہب کے خلاف لکھتے تھے۔ ڈیوڈ ہیوم سے کسی نے اس کی آخری خواہش پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ’’میں اپنی آنکھوں سے چرچ کا زوال دیکھنا چاہتاہوں‘‘۔ یورپ کاکون سا ایسا ملحد فلسفی ہے جس نے ری ایکشن میں آکر نہیں لکھا؟ کوئی ایک نام بھی نہیں لیا جاسکتا۔ ڈیوڈہیوم سے برٹرینڈ رسل تک، سب فلسفیوں نے بنیادی طور ’’ری ایکشنری‘‘ فلاسفی ہی لکھی۔ جان سٹورٹ مِل جس کے نظریۂ آزادی، فریڈم آف سپیچ یا فیمنسٹ تصورات کو آج اتنا عروج حاصل ہے اور جس کے انسانی حقوق کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل کیاگیا ہے، مکمل طور پر ری ایکشنری فلسفی تھا۔ اِسی طرح جرمن کا نیٹشے کہا کرتاتھا’’خدا قتل ہوگیا ہے‘‘۔ایک بار کسی پادری نے نہایت غصےمیں اس سے پوچھاکہ ’’خدا کو کس نےقتل کیا ہے؟‘‘ تو نیٹشے نے اسی پادری کی طرف اُنگلی اُٹھا کر کہا، ’’تم نے‘‘۔ پھر اس نے کہا، ’’کیا تم نے اُسے خود اپنے ہاتھوں سے سُولی پر نہیں لٹکایا تھا؟‘‘ یوں گویا نیٹشے مسیحی تصورِ خدا کو نشانہ بنارہاتھا۔

غرض یورپ کا مذہب مخالف آرگومنٹ سارے کا سارا نہ صرف ری ایکشنری ہے بلکہ فقط عیسائیت کے خلاف ہے۔ جب یہ آرگومنٹ ہے ہی فقط عیسائیت کے خلاف تو اسلام کے خلاف کیسے استعمال کیا جاسکتاہے؟ آج تک جتنے بھی مسلمان، عہدِ حاضر کے ملحدین کے آرگومنٹ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وہ بنیادی طورپر عیسائیت کا دفاع کررہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن دلائل سے اسلامی عقائد کا رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ تمام کے تمام دلائل بنیادی طورپر عیسائی عقائد کے خلاف دیے گئےتھے۔ اسلامی عقائد کے خلاف تو آج تک ایک بھی آرگومنٹ نہیں دیا گیا۔ مثال کے طورپر وجودِ خدا یا پیغمبرِ خدا یا پیغامِ خدا کے خلاف جتنے آرگومنٹ سامنے آتے ہیں وہ سب کے سب مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ یہاں مشرق میں تو یہ آرگومنٹ موجود نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہیں۔ حیات بعدازممات، قبر، عذابِ قبر، آخرت، جنت جہنم، اِن سب عقائد کےخلاف آنے والے دلائل فی الاصل عیسائی عقائد کے خلاف لائےگئے دلائل ہیں نہ کہ اسلامی عقائد کے خلاف۔

یعنی کیا خُدا اپنی مثیل پیدا کرسکتاہے؟ کیا خُدا اپنی نقل پیدا کرسکتاہے؟ اگر وہ اپنی نقل پیدا کرسکتاہے تو کیا اُس کی نقل دوسرا خدا نہ ہوگی؟ اور اگر وہ اپنی نقل پیدا نہیں کرسکتا تو پھر اس کی قدرت کمزور ٹھہرے گی۔

اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو پھر وہ بُرائی کو کیوں نہیں روکتا۔ ایسا شخص جو بُرائی کو روک سکتاہو لیکن نہ روکے وہ یا تو برائی میں شریک ہے یا پھر بُرائی کو فی الاصل روک ہی نہیں سکتا۔

خدا علیم و خبیر ہے تو پھر اس کے علم میں ہمارے مستقبل کا علم بھی ہے ۔ اگر اس کے علم میں ہمارے مستقبل کا علم بھی ہے توپھر ہمارے اختیار کا کیا مطلب ہوا؟

خدا کا علم محدود ہے؟ یا لامحدود؟ اگر لامحدود ہے تو کیا خدا کو اپنے علم کی حد معلوم ہے ؟اگر نہیں معلوم تو کیا یہ جہالت نہیں کہ خدا کو اپنے علم کی حد معلوم نہیں؟

کیا خدا اتنا بھاری پتھر بناسکتاہے جسے وہ خود نہ اُٹھا سکتاہوں؟

اس قسم کے کتنے ہی سوالات ہیں جو یورپ کے مذہب مخالف آرگومنٹ کا حصہ ہیں۔ ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تمام آرگومنٹ فقط مذہبِ عیسائیت کے عقائد پر تنقید تھا نہ کہ اسلامی عقائد پر۔ ذرا سا غورکریں تو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ تمام اعتراضات خدا کی ذات پر نہیں ہیں بلکہ خدا کی صفات پر ہیں۔ قدرت، خدا کی ایک صفت ہے۔ علم خدا کی ایک او رصفت ہے۔ رحمت، ربوبیت، رحیمیت، قہر، جباریت وغیرہ یہ سب تو خدا کی صفات ہیں نہ کہ ذات۔ اسلام کے مطابق یہ تو اسمائے حسنیٰ ہیں نہ کہ اسمائے ذات۔اسمائے حسنیٰ کیا ہیں؟ وہ تمام اچھے اچھے نام جو خدا کو دیے جاسکتے ہیں۔ خدا کے ایسے تمام اچھے اچھے ناموں پر غورکریں تو فوراً معلوم ہونے لگتاہے کہ یہ سب تو بنیادی طورپر انسانی صفات تھیں۔علم کی ہمیں ضرورت ہے۔ رزق، رحم، معافی، ربوبیت اور مغفرت کی تو ہمیں ضرورت ہے۔ اِسی طرح قدرت کی تو ہمیں ضرورت ہے۔ جو کام ہم نہیں کرسکتے ہم اُسے ایک بڑا اور مشکل کام قرار دیتے ہوئے خدا کے ساتھ ایک اور صفت کا اضافہ کردیتے ہیں۔ الغرض خدا کے صفاتی ناموں کی تو پوجا تک بھی جائز نہیں ہے اسلام میں۔ خدا کی صفات کی پوجا ہی تو کرتے تھے باقی تمام مذاہب۔ مثلاً ہندوؤں میں دُرگا دیوی خدا کی صفتِ قہاریت کی علامت ہے۔ جب کوئی ہندو دُرگا دیوی کی پوجا کرتاہے تو فی الاصل وہ خدا ہی کی ایک صفت کی پوجا کرتاہے۔ رحمت، انسان کی صفتِ پدری ہے۔ انسان کو رحیم باپ کی ضرورت ہے جسے ہم اُردو میں شفیق باپ کہتے ہیں۔ عیسائیت نے خدا کی اِس صفت کو باقی صفات پر غالب کردیا اور اسی ایک کی پوجا کرتے کرتے خدا کو فادر اور فادر کو خدا بنادیا۔ اور اِس کے ساتھ شامل کیا بھی تو ماں کی محبت کو، اور یوں عیسیٰ و مریم میں خدا کو پرسونیفائی (مجسم) کردیاگیا۔ عیسائیوں کا خدا تو بالکل ویسا ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔

وہ دلائل جو یورپی ملحدین نے خدا کے خلاف دیے وہ دلائل خدا کی صفات کے خلاف ہیں۔ خدا کی ذات کے خلاف تو آج تک کوئی دلیل کہیں سے نہیں دی گئی۔ مثلاً ’’ خدا قدرت رکھتاہے تو برائی کو روک کیوں نہیں دیتا‘‘ یہ دلیل خدا کی صفتِ قدرت کے خلاف ہے نہ کہ ذاتِ خداکے خلاف۔ جبکہ خدا کی صفتِ قدرت توہماری وجہ سے پہچانی گئی ہے۔ اگر زمین پر کوئی بھی انسان نہ ہوتا تو کس کو ضرورت تھی کہ وہ قدرت، رحمت، مغفرت وغیرہ کی بات بھی کرے؟ پوری کائنات میں سے آج تمام انسانوں کو خارج کردیں تو خدا کی زیادہ ترصفات خود بخود قابلِ ذکرہی نہ رہیں گی۔ مثلاً علم کی ہم انسانوں کو ضرور ت ہے۔ ہم خدا کو علیم مانتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان بھی کائنات میں باقی نہ رہے تو خدا کے علیم ہونے کا کیا مطلب رہ جائےگا۔ خدا کی ایسی تمام صفات کو علامہ اقبال نے بتکدہ قرار دیاہے۔ بالِ جبریل کا پہلا شعر ہی یہی ہے،

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغہ ہائے الاماں بُتکدۂ صفات میں

اگر ہندو دُرگاماتا کی پوجا کرتاہے اور عیسائی فادر کی، تو یہ دونوں خدا کی صفات کی پوجا کرتے ہیں۔پاربتی محبت کی دیوی ہے اور لکشمی دولت و عظمت کی ۔ مریم خداوندِ یسوع مسیح کی ماں اورصفتِ ربوبیت سے مالامال ہے۔ سونے چاندی کے پیچھے دن رات گزاردینے والا کاروباری شخص بھی خدا کی ہی صفات کے پیچھے دوڑرہاہے۔ اگرصفات کی پوجا شرک نہ ہوتی تو دنیا کا کوئی مذہب بھی اسلام سے مختلف نہ ہوتا۔

اکبربادشاہ کو آٹھ سال کی عمر میں بادشاہت مل گئی اوراس کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ اس مسئلے کا حل اکبر نے یہ نکالا کہ دنیا جہان کے علمأ کو اپنے دربار میں جمع کرنا اور اُن سے سیکھنا شروع کردیا۔ کیا ہندو، کیا عیسائی ، کیا مسلمان۔ دھیرے دھیرے اکبر پر واضح ہوا کہ مذاہب تو سارے ایک جیسے ہیں۔ سب ہی خدا کو کائنات میں جاری و ساری سمجھتے ہیں اور سب کے مطابق ہی ہرشئے میں خدا ہے۔ چنانچہ اکبر کے ذہن میں ایک بالکل نیا مذہب ایجاد کرنے کا اچھوتا آئیڈیا آیا۔ اس نے دینِ اکبری کی بنیاد رکھی اور اعلان کیاکہ کائنات کی ہرشئے میں خدا ہے اس لیے ہر شئے خدا کی طرح محترم و مقدس ہے۔ دینِ اکبری کے پیروکار ایک سُؤر (خنزیر) کے سامنے بھی ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے کہ اِس میں خدا کاجلوہ ہے اور اِس لیے اِس کی پوجا بھی جائز ہے۔آج ہمیں معلوم ہے کہ اکبر نے یہ مذہب اپنی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایجاد کیا تھا۔ عین اکبر کے دور میں اکبر کی اِس ایجاد کے خلاف ایک نہایت مضبوط سیاسی تحریک نے جنم لیا۔ یہ تحریک مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ نے شروع کی۔ اُنہوں واضح کردیا کہ خدا کی صفات ، خدا کی ذات سے الگ ہیں۔

دراصل انسانی صفات کو اگر انسانی ذات سے الگ کیا جائے تو پیچھے انسانی ذات ہی فنا ہوجاتی ہے۔مثلاً میرا قد، میرا حلیہ، میری قوم، میری زبان، میرا تجربہ، میری تعلیم، میرا مزاج، میرا رنگ ، میرا قبیلہ، میری فیملی، میرے بچے، میرا کاروبار، میرے دوست وغیرہ وغیرہ یہ سب میری صفات ہیں۔ اگر ان سب کو مجھ سے الگ کردیا جائےتو پیچھے مَیں باقی نہیں بچتا۔ میں بالکل زیروہوجاتاہوں۔ میرے لیے میری صفات لازم و ملزوم ہیں۔ خدا کی شخصیت کا میری شخصیت سے یہی بنیادی فرق ہے کہ خدا کی شخصیت  ہرقسم کی  صفات سے ماورا ہے۔ ذات ِ خداوندی مکمل طورپر صفات سے پاک ہے۔اسلام کی سب سے نرالی بات ہی یہی ہے کہ اسلام میں خدا کی صفات کی پوجا نہیں کرنی ہوتی بلکہ اُنہیں تسخیر کرناہوتاہے۔

چنانچہ اسلام کا مؤقف تو بڑا واضح اور منفرد رہاہے۔ اسلام میں خدا کی صفات کو پوجنے کی بجائے اُلٹا اُنہیں تسخیر کرنے کا حکم ہے۔علامہ اقبال نے تو ان موضوعات کی تشریحات میں ایسا سخت رویہ اختیار کیے رکھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ سید عابد علی عابد کے بقول اقبال کے نزدیک کائنات کی ہرشئے  فی الحقیقت ہماری دشمن ہے۔ ہمیں کائنات کو تسخیر کرنے کا حکم اِسی لیے دیا گیا ہے کیونکہ دشمن کو ہی تسخیر کیا جاتاہے۔ لیکن یادرہے کہ تسخیر کرنے سے مُراد تباہ کرنا ہرگز نہیں۔ یعنی اس سے یہ مُراد ہرگز نہیں کہ چونکہ کائنات کی ہرشئے ہماری دشمن ہے اِس لیے مَیں سامنے نظر آنے والی پہاڑی کو تباہ کردوں کیونکہ وہ ہماری دشمن ہے۔اِس سے ایسی مُراد اس لیے نہیں لی جاسکتی کہ دشمن کو تباہ نہیں کرنا ہوتا، اُسے تسخیر کرناہوتاہے۔ اگرکوئی شخص دشمن کو تباہ کردیتاہے تو وہ خود بھی تباہ ہوجاتاہے کیونکہ اس نے جس کو تباہ کیا اُس کی غیر موجودگی میں وہ اسے مسخر کرکے ہمیشہ کے لیے اپنا مطیع  نہیں بنا سکتا۔ہمیں کائنات کے اجزأ کو دشمن سمجھ کر اُنہیں تباہ نہیں کرنا بلکہ ہمیں ان اجزأ کو تسخیر کرناہے تاکہ ہم ان کو اپنا مطیع اور فرمانبرداربناسکیں۔ جیسے کسی دشمن کو بنایا جاسکتاہے۔وہ ہمارے دوست ہوئے تو ہم نہ ہی اُنہیں مسخر کریں گے اور نہ ہی تسخیر کرکے مطیع بنائیں گے۔ ہم ان کی پوجا شروع کردینگے۔ کیونکہ دشمنی کے برعکس  ان سے دوستی کا نظریہ دراصل ان سے محبت اور بالاخراُن کی اطاعت پر ہی منتج ہوتاہے۔

انسان نے اسلام کے بعد جس تیزی کے ساتھ سائنسی ترقی کی ہے اس کے پیچھے فی الحقیقت یہی مؤقف تھا اوریہ مؤقف  ون ہنڈرڈ پرسنٹ اسلامی تعلیمات سے برآمد ہوکر اندلس کی درسگاہوں سے یورپ پہنچا تھا۔ورنہ یورپ کے تمام ترمذاہب میں تو اجزائے کائنات کی برتری کا تصور موجود تھا۔ یونان سے لے کر مسیحیت تک یورپ کا ہرعہد اجزائے کائنات کی برتری کا عہد ہے۔وہ جنہیں قدیم دور کے لوگ دیوتا سمجھ کر اُن کی پوجا کیا کرتے تھے، اسلام نے اُنہیں ملائکہ کہا اور اُنہیں حکم دیا کہ انسان کے آگے سجدہ ریز (یعنی مسخر) ہوجائیں۔اہل بابل کا ربِ رع بارشیں برسانے والا دیوتاتھاجسے مسلمانوں نے بارشیں برسانے والا فرشتہ کہا اور اپنا مسجود نہیں بلکہ اپنا ساجد ومطیع مانا۔مسیحیت  کی  درست تعلیمات میں اگرچہ ان ملائکہ یعنی صفاتِ خداوندی کا صحیح تصور موجودتھا لیکن اسے بعد کے عیسائیوں نے بھُلا کراس کی جگہ پیگن مذاہب کے تصورات کو دے دی۔

الغرض اسلام میں ذاتِ خداوندی کو پوجا  کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اگر آپ قران کی اس واحد آیت پر غور کریں جس میں انسانوں اور جنّوں کی پیدائش کا مقصد دوٹوک الفاظ میں بیان کیاگیاہے تو آپ کو صاف دکھائی دے گا کہ وہاں ذاتِ خداوندی براہِ راست مخاطب ہے۔

ماخلقتُ الجن ولاِنس الالیعبدون

اور ’’میں نے‘‘ جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر بندگی کے لیے

اس  میں لفظ ’’میں نے‘‘ پر غورکریں۔ یہ صیغہ خدا اپنے لیے قران میں بہت کم استعمال کرتاہے۔عام طورپر خدا اپنے لیے ’’نحن  اور نا‘‘ کا صیغہ استعمال کرتاہے، یعنی ’’ہم‘‘ یا ’’ہمارا‘‘ وغیرہ۔’’نحن اور نا‘‘ میں صفاتی رنگ غالب ہے۔اس کے برعکس ’’میں‘‘ کا لفظ واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ گویا یہاں خدا بطورذات کے مخاطب ہے۔قران میں  کائنات کے بنانے یا اس کی پرورش کی بات آئے تو خدا صفاتی رنگ میں بولتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ذاتِ خداوندی نے کس طرح اپنی صفات کے ذریعے کائنات کا عمل جاری کیا اور جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن جب وحی  بھیجنے کی بات آتی ہے یا مقصدِ تخلیق کا ذکر مقصود ہوتاہے تو خدا کبھی صفاتی رنگ میں بات نہیں کرتا۔ وہ ’’میں‘‘ کا صیغہ استعمال کرتاہے  اور واضح کردیتاہے کہ اب ذات مخاطب ہے۔

ہم خدا کو ذات کو تسخیر نہیں کرسکتے۔ لیکن ہم جب اس کی صفات کو تسخیر کرتے ہیں تو اُس کی  ذات کے قریب تر ہوجاتے ہیں۔ خدا کی صفات کو تسخیر کرنے کا مطلب ہے کہ کائنات میں علم حاصل کرنا، قوت وجبروت حاصل کرنا، صلاحیت و قدرت حاصل کرنا اور کائنات کے پست و بلند کو اپنے لیے کھولتے چلے جانا۔ جب ہم اِن صفاتِ خداوندی کو تسخیر کرتے ہیں تو ہم دراصل  اپنی ہی کمزوریوں پر قابُو پاتے  چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا کی یہ تمام کی تمام صفات ہماری اپنی ذات کی وجہ سے وجود رکھتی ہیں۔جب ہم اپنی تمام کمزوریوں پر قابُو پالینگے تو گویا ہم خود بھی اِن صفات کے چکر سے باہر آجائیں گے۔ جب ہم صفات کے خول سے باہر آکر دیکھنے کے قابل ہوگئے تو پھر ہمارے سامنے فقط ذات ہی موجود ہوگی۔خدا نے خود یہی طریقہ وضع کیا ہے اپنی تلاش کا۔ اس نے اپنی ان تمام صفات کو اپنی نشانیاں (آیات) کہاہے۔

یہاں ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوجاتاہے کہ اگر تصورِ خدا انسانی شخصیت پر استوار نہیں تو پھر ذاتِ خداوندی کا گیان کیسے حاصل کیا جاسکتاہے؟دراصل خدائے شخصی اورخدائے غیر شخصی کا تصور بھی مغربی ردِ عمل کے زمانے کے تصورات ہیں۔ خدائے غیر شخصی اس قسم کے خدا کو کہتے ہیں جس کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔ جیسا بدھ مت والوں کا خداہے۔ یا جیسا سپائنوزا اور آئن سٹائن کا خدا ہے۔یعنی اگر آپ یہ کہہ دیں کہ  انرجی خدا ہے، یا کائنات خداہےیا نیچر خداہے تو گویا آپ نے خدائے غیرشخصی کی بات کی۔ ایسے خدا کی شخصیت وجود نہیں رکھتی۔ مغربی فلسفے میں دوسرا تصور، خدائے شخصی کا ہے۔ یعنی ایسا خدا جس کی شخصیت ہم انسانوں کی شخصیت جیسی ہے۔ جو ہماری طرح علم رکھتاہے، جوہماری طرح آنکھوں سے دیکھتاہے، جوہماری طرح قدرت کا استعمال  کرتاہے، جو ہماری طرح معاملات میں اچانک دخل دے سکتاہے۔ غرض جو بالکل اور بعینہ ہماری طرح ہے۔ یہ تصور عیسیٰ علیہ السلام  کی ذات وصفات کے تصورپرقائم تھا چنانچہ  مکمل طورپر انسانی شخصیت کی نقل تھا۔ اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔اسلام کا خدا نہ خدائے شخصی ہے اور نہ ہی خدائے غیر شخصی۔کیونکہ شخصیت ہمیشہ صفات سے متصف ہوتی ہے۔ جیسے ہماری انسانی شخصیت صفات سے متصف ہے۔ اسلام کا خدا ایک خالص ذات ہے، جو ہرطرح کی صفات سے پاک ہے۔اس کی تمام تر صفات زمانی ومکانی ہیں جب کہ وہ خود زمان ومکاں سے ماورا ہے۔چنانچہ یہ سوال کہ اگر خدا نہ شخصی ہے اور نہ ہی غیر شخصی تو پھر خالص ذات کو تصورمیں کیسے لایاجائے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خالص ذات کو تصور میں تو نہیں لایا جاسکتاالبتہ اس کا عرفان حاصل کیاجاسکتاہے۔جب ذات کے ساتھ کوئی صفاتی اِمیج (یعنی دنیا کا کوئی امیج) جُڑاہوا ہی نہیں ہے تو پھر کسی امیج یا تصویر کو ذہن میں لاکر اسے کیسے سوچا یا سمجھاجاسکتاہے؟ البتہ عرفان ایک ایسا راستہ ہے جو وجدانی علم کے ذریعے ہاتھ آتاہے۔

یہاں پھر ایک اہم سوال پیدا ہوجاتاہےکہ اگر خداکی ذات کا عرفان فقط وجدانی علم کے ذریعے ممکن ہےتوپھرکیا خدا کی ذات کا عرفان صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگاجو مراقبے یا میڈیٹیشن کے ذریعے اُسے حاصل کرنا چاہیں گے؟ یہ سوال  گویا اس غلط فہمی سے پیدا ہوا کہ عرفان بھی شاید کچھ لوگوں کی ہی صلاحیت ہے،  جیسے زیادہ گہری عقلی باتیں کچھ یا چند لوگوں کی ہی صلاحیت ہوتی ہیں۔حالانکہ  قران میں ہے  کہ وحی شہد کی مکھی کو بھی ہوتی ہے۔ دیکھاجائے تو سماج کی مشترکہ وحی پورے سماج پر آہستہ آہستہ نازل ہوتی رہتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ عرفان اصل میں عام ہی لوگوں  کے لیے خدا تک پہنچنے کا ممکن ترین راستہ ہے۔اورتواور یہ غلطی فہمی اقبال جیسے بڑے ذہن میں بھی جوں کی تُوں موجود تھی۔ تبھی تو انہوں نے خطبات کے دیباچے میں لکھا ہےکہ اس طرح کا تجربہ (یعنی عرفان) حاصل کرنے کی صلاحیت ہرکسی میں نہیں ہوتی۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ گہری عقل سے زیادہ گہرا وجدان اسی سادگی کی بنیاد پر ہی الگ کیا جاسکتاہے جو عام آدمی کا خاصہ ہوتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ وحی ووجدان کے ذریعے حاصل ہونے والا علم سوفیصد حتمی ہوتاہے جبکہ عقل کے ذریعے حاصل ہونے والا علم نناوے فیصد سے اُوپر نہیں جاسکتا۔وحی کے درجات ہیں۔ قران میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ  ’’میں نے شہد کی مکھی کو وحی کی‘‘۔اسی طرح ارشاد ہے کہ ’’میں نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی‘‘۔ اسی طرح بعض دیگر آیات میں وحی کی اصطلاح اس طریقے پر استعمال ہوئی ہے کہ  جس سے معلوم ہوتاہے کہ وحی کے درجات ہیں۔ پرندے کا وہ عرفان جس کی بنا پر وہ اپنا بے نشان راستہ دیکھ لیتاہے او رایک براعظم سے دوسرے براعظم تک چلتا چلا جاتاہے ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔شہد کی مکھی کا وہ وجدان جس سے وہ شہد بناتی ہے ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔کسی درخت پر کوئی آزادانہ پھوٹتی ہوئی شاخ درخت کی وحی ہے، جس کی بنا پر وہ سوفیصددرست علم کے ذریعے شاخیں نکالتاہے۔ یہ درجات ابتدائی ہیں۔ پانی کے نشیب کی طرف بہاؤ سے لے کر انسانی وجدان تک کتنے ہی درجات ہیں جن کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہمیشہ سوفیصد درست ہوتاہے۔ ہم جب اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنی ناک کو چھوتےہیں تو ہم ہمیشہ سوفیصد نتیجہ وصول کرتےہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم لقمہ تو منہ میں لے جانا چاہیں لیکن وہ لقمہ ہماری ناک میں چلا جائے۔ ہمیں کبھی آئنہ نہیں دیکھناپڑتا اپنے جسم کے کسی مقام کو اُنگلی سے چھُونے کے لیے۔ یہ ہمارا حیوانی وجدان ہے۔ کیونکہ کسی بھی جانور کو اپنا بدن چھُونے کے لیے آئینہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ایسے موقعوں پر  ہمیشہ ہی ہمارا علم درست ہوتاہے کیونکہ یہ ہماری جبلت  یعنی ہمارا وجدان ہے۔ ایک فٹبال کا کھلاڑی اپنے علم ، تجربے اور عقل  کو استعمال کرتے ہوئے اُتنا کامیاب نہیں  کھیل سکتا جتنا وہ اپنے حتمی وجدان سے کامیاب ہوتاہے۔مشہور فٹبالر پیلے نے ایک مرتبہ گول کرنے کےلیے شاٹ لگائی۔ فٹبال پول  کے اُوپر سے  گزرگئی اور گول نہ ہوا۔ پیلے نے گیم رُکوا دی اور دعویٰ کیا کہ اس کی لگائی ہوئی شاٹ غلط نہیں ہوسکتی، اِس لیے پول کو چیک کیا جائے۔ پول کو چیک کیا گیا تو وہ  تھوڑا چھوٹا نکلا، گویا پیلے سچ کہہ رہاتھا، چنانچہ اس کا گول تسلیم کرلیاگیا۔کہنے کو کہا جاسکتاہےکہ یہ اس کا تجربہ تھا لیکن تحقیق شرط ہے۔یہ تجربہ کسی اورفٹبالر کے پاس کبھی  نہیں  دیکھاگیا، چنانچہ یہ پیلے کا وجدان تھا۔اِس طرح ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔وجدان سے حاصل ہونے والا علم حتمی ہوتاہے اور معاشروں کو اجتماعی وجدان نصیب ہوتے ہیں۔سماج اپنی اخلاقی زندگی میں کسی ایک شخص کی عقل سے بنائی گئی قدروں پر نہیں چلتے۔ سماج چاہے امریکی بھی ہوگا اس میں وجدان ہمیشہ کارفرما رہے گا اور اسی وجدان سے نت نئی اخلاقیات تخلیق ہوتی رہیں گی۔اگرچہ فلسفیوں کی لکھی ہوئی اخلاقیات کو اِمپوز کیا جاتارہے گا لیکن حقیقی جبلی اخلاقیات کی پیدائش سے پھر بھی کسی معاشرے کو مکمل طورپر محروم نہ کیا جاسکےگا۔

پھر اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نےنہایت واضح الفاظ میں اور بار بار کہا ہے کہ کائنات کے پست وبلند کو اس لیے تسخیر کرو کہ  یہ تمہیں خدا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہیں۔بالفاظ دیگر قران نے سائنسدانوں کو بھی خدا کے متلاشی قرار دیاہے۔ ایک سائنسدان جب کوئی تجربہ کرنے لگتاہے تو اس کے دل میں ایک نہایت گہرا ایمان موجود ہوتاہے کہ کائنات میں ایک عالمگیر سچائی کارفرماہے۔ یہ عالمگیر سچائی اُس سائنسدان کی نظر میں ایک ایسا قانون ہے جو کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی تجربے کو انجام دیتے وقت سب سے پہلے  یہی یقین اُس کا کُل سرمایہ  ہوتاہے  کہ یہ عالمگیر قانون یا یہ ناقابلِ تبدل صداقت  ضرور اس کے تجربات کی تہہ میں موجود ہوگی۔ ایک سائنسدان کی خاموش دعا یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب تجربہ انجام دے تو بالاخر ضرور اُس عالمگیر  صداقت یعنی اس غیرمبدل قانون کو پھر سے دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائے جسے اس کے ساتھی سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلے بھی متعدد بار دریافت کیا تھا۔ اگر اس سائنسدان کو اپنے تجربہ میں  وہی عالمگیر قانون نہ مل پائے تو وہ ہمیشہ یہی کہتاہے کہ اس کا تجربہ ناکام ہوگیا۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ عالمگیر سچائی جس کی اُسے تلاش تھی، وہ سچائی ہی غلط ہے۔اس سائنسدان کی طرح ہرعام انسان بھی اپنے ماحول میں غوروفکرکے ذریعے اُسی بنیادی سچائی کو دریافت کرتےہوئےجہانِ صفات سے فقط ذات کی طرف سفر کرتارہتا ہے۔ایسے ہرمسافرکو بقولِ قران،   خداخود راستہ دکھاتاہے ۔

مولانا روم ؒ نے اس فرق کو  جو ایک صوفی اور سائنسدان کے درمیان ہے بہت خوبصورت طریقے سے واضح کیاہے۔ یعنی صوفی اور سائنسدان ایک ہرن کے دو ایسے شکاری ہیں جن میں سے صوفی براہِ راست وجدان کے ذریعے یعنی ہرن کی بُوئے ناف کو سُونگھ سُونگھ کر ہرن  تک پہنچنا چاہتاہے جبکہ سائنسدان ہرن کے قدموں کے نشانوں پر چلتاہو ا اُس کی طرف بڑھ رہاہے۔اورجو ہرن کی بُوئے ناف کی مدد سے ہرن تک پہنچنا چاہ رہاہے وہ بہرحال قدموں کے نشانوں کوڈھونڈ کر خدا تک پہنچنے والے سے پہلے پہنچ جائےگا۔

راہ رفتن یک نفس بربُوئے ناف

خُوشترازصد منزلِ گام و طواف

چنانچہ خدا کی ذات کے خلاف ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی نہیں ہے جسے مذہب پرحملہ سمجھاجائے۔یورپ کے ملحدین نے چرچ کے  ہزارسالہ مظالم کے خلاف ری ایکشن دکھاتے ہوئے انسانی حقوق کے بڑے بڑے فلسفے تخلیق کردیے۔ وہ نہیں جان سکے اور (غصے کی حالت میں) جان بھی نہیں سکتے تھے کہ خدا کی ذات اُن کے اعتراضات کا نشانہ نہیں  بن سکی۔وہ چرچ سے ناراض تھے اور اِس لیے اُنہوں نے مذہب کے خلاف بحیثیتِ مجموعی اپنا غصہ نکالا۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اخلاقیات جیسی چیز کو آپ ایک  کرسی میز پر بیٹھ کر لکھ دیں اور پھر پوری انسانیت کےلیے لازمی قرار دے دیں کہ یہ ہے جی، آپ کے لیے اب نئی اخلاقیات، جو ہم نے اپنی عقل کو استعمال کرکے ایجاد کی ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ جان سٹورٹ مِل کی اخلاقیات میں اُن چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جائے جو صدیوں کے وجدان کا نتیجہ ہیں؟ ہم انسان ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں تو کبھی خشکی سےہتھیلی کوسیدھا رکھتے ہیں۔ کبھی دوسرے شخص کی ہتھیلی کو تھوڑا سا دبا دیتے ہیں۔ ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے کوئی ایک بھی دبا دی جائے یا فقط سیدھی ہی رکھی جائےتو سامنے والے کو ایک الگ قسم کا اخلاقی پیغام ( میسج)  منتقل ہوجاتاہے۔ کیا جان سٹورٹ مل جیسا کوئی فلسفی عقل سے اخلاقیات وضع کرتے ہوئے اتنی باریکی میں جاسکتاہے؟یہ مِل کی اخلاقیات ہی  ہے  جسے ’’گریٹرگُڈ‘‘ یا عظیم تر مفاد کی اخلاقیات کا نام دیا  جاتاہے۔ کیا اسی گریٹر گڈ کے تصور کی وجہ سے ہی جاپان پر امریکہ نے بم نہیں گرایا تھا؟ آج تک امریکہ کے پاس یہی ایک جواز ہے کہ اگر اس وقت بم نہ گرایا ہوتا تو ہٹلر(جوفقط ایک شخص تھا) زمین کو تباہ کردےگا۔ امریکہ نے تو فقط ایک شخص اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے جب پورے افغانستان اور آدھے پاکستان کو تباہ کیا ، تب بھی اس نے یہی کہا تھا کہ اگر اسامہ کو نہ مارا گیا تو دنیا تباہ ہوجائےگی، چنانچہ گریٹرگڈ کے لیےباقی معصوموں کی  جانوں کو قہر کی دیوی کی بھینٹ چڑھاناہوگا۔مِل کی اسی گریٹر گڈ کی تھیوری کی مدد سے امریکہ نے  فقط ایک شخص صدام حسین کو پکڑنے کے لیے پورے عراق کو آگ لگادی۔دیکھاجائے تو امریکہ تو جان سٹورٹ مِل کی اخلاقیات کو پندرھویں صدی کے کیتھولک چرچ سے بھی زیادہ بُرے طریقے سےا ستعمال کررہاہے۔اُن کے گستاخ تو فرداً فرداً جلتے تھے، جبکہ اِن کے پیغمبر یعنی مِل کی مصنوعی اخلاقیات کے گستاخوں کے تو پورے کے پورے ممالک کو جلاکرراکھ کا ڈھیر بنادیاجاتاہے۔

جان سٹورٹ مِل کی حقوقِ انسانی والی اخلاقیات چند انسانوں کی عقلوں کا نتیجہ ہے اور عقلیں بھی ایسی جو مذہب سے ناراض تھی اوراُنہوں نے قسم اُٹھارکھی تھی کہ وہ وجدانی اخلاقیات جو مذہب  کے ذریعے صدیوں میں انسانوں پر وارد ہوئی، اُسے تو  وہ دُور سے بھی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ایک فلسفی نے لکھا، ’’ اگر ہم نے اُس اخلاقیات کو پکارا تو پادری پھر اپنی جھولیوں میں بائیبل اُٹھا کر بھاگے چلے آئیں گے کہ لوجی! ہمارے پاس ہے وہ اخلاقیات‘‘۔ یورپ کے مفکرین تو مذہب سے ناراض تھے۔مذہب سے  ناراض لوگوں کو مذہبی اخلاقیات کی قدروقمیت کا اندازہ کیسے  ہوسکتاتھا؟ اخلاقیات تو  ہمیشہ وحی اور وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اخلاقیات اگر کسی ایک نبی یا رشی منی کی وحی و الہام کا نتیجہ نہ ہو تب بھی وہ عام انسانوں کی وحیوں اور الہاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اخلاقیات تو کسی درخت کی شاخوں کی طرح معاشرے میں خود بخود پھوٹتی ہے۔فقط آنکھوں کے اشاروں میں کتنے ہی اخلاقی پیغامات موجود ہوسکتے ہیں،  یہ جان لینا عقلی اخلاقیات کے بس کاروگ ہی نہیں ہے۔یورپ کے ناراض مفکرین نے پچھلے تین ساڑھے تین سو سالوں میں جتنی بھی اخلاقیات وضع کی وہ تمام کی تمام مذہب سے نفرت کا ردِ عمل ہے۔ مثلاً یورپ نے  ’’نیشن سٹیٹ‘‘  کا نظریہ کیوں اختیار کیا؟ نیشن سٹیٹ سے پہلے پورا یورپ ایک ہی قوم تھا، یعنی عیسائی قوم۔ جب اُنہوں نے عیسائیت سے ناراض ہوکر اس  مشترکہ اوربڑی قومی شناخت کو  خیرباد کہہ دیا تو ان کے پاس قومی شناخت کا ایک ہی راستہ رہ گیا تھا، نیشن سٹیٹ۔ یعنی جو جہاں کا رہنے والا ہے، اس کی قومی شناخت اسی علاقہ سے ہوگی۔یہ ڈینش ہے، یہ نارڈک ہے، نارویجن ہے، یہ فرنچ ہے، یہ سوِس ہے، یہ انگریز ہے وغیرہ جیسی تمام قومی شناختیں نیشن سٹیٹس کی شناختیں ہیں۔جہاں کا جوکوئی رہنےوالا ہے، وہیں کی زبان، ثقافت، رنگ، قبیلہ اور رسم و رواج ہی اس کی شناخت ہوگا۔ یورپ بیسیویں صدی کے اوائل میں مذہب سے ناراضی کےاسی فیز میں تھا جب اقبال نے یورپ میں یہ اشعار کہے تھے،

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہی زرِ کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اقبال نے یورپ کے نیشن سٹیٹ کے اس تصور کو شاخِ نازک کہہ کر پکاراتھا۔ کیا اقبال سے بڑا بھی کوئی فلسفی ہوگا جس کی پیشگوئی یوں  سوفیصد درست ثابت ہوئی ہو؟   ان اشعار کے کہنے کے کچھ ہی عرصہ بعد یورپ میں پہلی جنگِ عظیم لڑی گئی جس میں ڈیڑھ کروڑ انسان مارے گئے اور پھر جلد ہی دوسری جنگِ عظیم لڑی گئی جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔ پورا یورپ جل کر راکھ ہوگیا۔ ہرطرف غربت ناچنے لگی اور لوگ گلی کوچوں میں ایک دوسرے کوقتل کرنے لگے۔اور پھر جب یورپ سنبھلا تو اُسے اتنا نقصان اُٹھا کر ’’تھوڑی تھوڑی اور کچھ کچھ‘‘  سمجھ آئی کہ الگ الگ قبائل کی صورت تو وہ ہمیشہ ہی آپس میں لڑتے رہیں گے۔ آج جس یورپی یونین کو ہم  جانتے ہیں، ذرا سا غور کریں تو یہ  مشترکہ شناخت کی طرف وہی سفر ہے جسے چار صدیاں پہلے وہ عیسائیت کی صورت پیچھے چھوڑ آئےتھے۔ جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ متحدہ بن رہی  تھی تو اقبال نے یہ اشعارکہےتھے،

تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط  ملتِ آدم

مکےّ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام

جمیعتِ اقوام کہ جمعیت ِ آدام؟

یعنی ملّتوں کو تقسیم کرنا   فرنگیوں کی دانائی کا مقصود ہے، اس کے مقابلے میں اسلام کا مقصود تو انسانوں  کی واحد ملت بناناہے اور یہ کہ مکے نے اقوامِ متحدہ کے مرکز یعنی جنیوا کو حج کے موقع پر یہ پیغام دیاہے کہ کیا اقوام کی جمیعت بننی چاہیے تھی یا آدم یعنی انسانوں کی؟

اقبال نے پہلی جنگِ عظیم سے پہلے ہی طبلِ جنگ سُن لیاتھا۔اقبال نے واپس آکر یہاں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ مذہب سے اپنی شناخت ہمیشہ قائم رکھیں۔اگر اُنہوں نے بھی یورپیوں والی غلطی کردی تو پھر وہ بھی جنگلوں اور صحراؤں میں بھٹکتے پھریں گے،  اصلی اور جینیوئن اخلاقیات کی  تلاش میں۔ یورپ کی اخلاقیات جو مذہب کے خلاف ردِ عمل کی اخلاقیات تھی میز اور کرسی پر بیٹھ کر وضع کی گئی اور انسانی حقوق کو پہچانا گیا تو عقل کے ذریعے جمع تفریق کرکے۔ جبکہ اخلاقیات تو پورے معاشرے کی مشترکہ وحی ہوتی ہے، جس میں گاہے بگاہے مصلحین کی طرف سے ریفارمیشن کا قدرتی عمل جاری رہتاہے اور وہ ہمیشہ ہی پھلتی پھولتی چلی آئی ہے۔

یورپ نے مذہب کے خلاف ردعمل کے طورپر سب سے پہلا اور بڑا جو نظریہ اختیار کرلیاتھا اسے ہم فلسفہ کی زبان میں وجودیت کہتے ہیں۔ اس میں انسان پر توجہ مرکوز کردی گئی تھی  کیونکہ انسان پر مسیحیت نے بڑے مظالم ڈھائے تھے۔وجودی مزاج نے مزید ترقی کی تو وہ کبھی مارکسزم میں ڈھل کر وارد ہوا  اور کبھی افادیت پسندی (یوٹیلیٹیرنزم) میں ڈھل کر۔ جمہوریت بھی اسی وجودی سوچ کی پیداوار تھی جوانسانی حقوق کا  مسلسل شور مچارہی تھی۔ان تمام اخلاقی اور سیاسی نظاموں نے اصلی انسان کو اُدھیڑ کررکھ دیا۔ مغرب سے مسیحی عقائد کا جنازہ نکلا تو وہاں مسیحی اخلاقیات کے باقی رہنے کا جواز بھی نہ رہا۔ وہ تمام اعلیٰ انسانی شرف ہا جو کبھی اعلیٰ اجتماعی سماجی،  وحی کے نتائج میں انسانی تہذیب کا حصہ بنے تھے، دھیرے دھیرے مفقود ہونے لگے۔انسان ترقی کے نام پر واپس جانوروں جیسی زندگی کی طرف بڑھتاچلاگیا۔ اس تنزلی میں بعض اعمال تو جانوروں سے بھی بدتر ہوتے چلے گئے۔ ہپی کلچر، گے کلچر، لزبین کلچر، نیچرل لائف، جانوروں کی آزادی جیسی آزادی اور ہرفرد کی اپنی ذاتی زندگی کا حصار بڑے بڑے انسانی المیوں کے طورپر مصنوعی انسانی اخلاقیات کا حصہ بنتے چلے گئے۔شرف ہائے انسانی ، اقدار، روایات، آداب اور تہذیبِ نفس جیسی  نایاب دولتیں جو غیرمختتم سلسلۂ  قربانی و ایثار سے ہزاروں سال سے وجود میں آئی تھیں،   دھیرے دھیرے مفقود ہوتی چلی گئیں اور یورپ عیسیٰ کی روحانیت سے مکمل طورپر محروم ہوگیا۔

چنانچہ سچ تو یہ ہے کہ جتنا آرگومنٹ تھا عیسائیت کے خلاف، سارے کا سارا اُٹھا کر اسلام کے خلاف جڑدیاگیا۔مذہب اسلام کے خلاف آرگومنٹ کی ضرورت تھی تو نیا آرگومنٹ ڈیولپ کیا جاتا۔ پرانا آرگومنٹ کیوں استعمال کیا گیا اور وہ بھی جُوں کا تُوں؟پھر اسلام اورعیسائیت میں بہت کچھ فرق تھا۔مذہب ِ عیسائیت کے خلاف  جو آرگومنٹ یورپ کے مذہب مخالفین نے صدیوں کی محنت سے تیار کیاتھا، وہ فقط مذہبِ عیسائیت کی مخالفت کا کام ہی ٹھیک سے انجام دے سکتا تھا، نہ مذہب اسلام کی۔دورحاضر سے پہلے اسلام کے خلاف کسی بھی بیانیہ ساز کو کبھی کسی آرگومنٹ کی ضرورت پیش ہی نہ آئی تھی تو تاریخ میں ایسا کوئی آرگومنٹ موجود ہی کیونکر ہوتا؟

ادریس آزاد

 

 

 

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین