کامل صداقت کی جستجو

ایک طرح سے دیکھاجائے تو سائنس کا علم ، حقیقی علم سے فرار کا ایک راستہ ہے۔وہ اس طرح کہ سائنس کو چھوڑ کر علم کی باقی تمام شاخوں میں آپ کامل صداقت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ دراصل ہمارے جذبات کامل صداقت کے مظاہرے میں رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں۔ جذبات سے بچ کر چلنا چاہیں تو کام بہت مشکل ہوجاتاہے۔ جذبات سے بچنے کے لیے باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے بچوں کو تربیت کے ذریعے سکھادیاجاتاہے کہ کہاں کہاں اپنے اموشنز کو قابومیں رکھناہے، تب وہ جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں تو مہذب ہوتے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طریقے پر کامل صداقت کے حصول کے لیے بھی جذبات کی تطہیر کرنی پڑتی ہے۔ جذبات کہاں استعمال ہونے چاہییں اور کہاں ان کا بہاؤ روک دینا چاہیے۔ کہاں یہ بہاؤ آہستہ آہستہ روکناہے اور کہاں یکایک اپنے جذبات کا بٹن آف کردیناہے؟ یہ سب مہارتیں اسی تربیت کے دوران حاصل کی جاتی ہیں۔ اب چونکہ جذبات ہمارے ذاتی ہوتے ہیں، اس لیے لازم ہے کہ ان کا تعلق ہمارے اپنے فطری نظریہ بقا کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کیونکہ کسی بھی وقت میں اچانک جذبات کا اظہار فی الحقیقت ،ہے تو سرائیول کے لیے جدوجہدہی ۔

انبیأ کی تربیت بہت اعلیٰ درجے پر کی گئی ہوتی ہے۔ چنانچہ انبیا علمِ حقیقی کے حصول کے لیے مناسب ترین لوگ ہوتے ہیں۔ پھر وہ لوگ جن کے اپنے اپنے اخلاقی نظامات اور مذاہب نے انہیں اپنے جذبات پر قابو پانے کے اچھے اور متوازن طریقے سکھائے ہوں، وہ لوگ بھی کافی حدتک علمِ حقیقی کے حصول کے اہل ہوتے ہیں۔لیکن باقی تمام لوگ، یعنی ہم جیسے لوگ ایک طرف تو فطری طورپر علم کے پیاسے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں کو سائنس میں پناہ مل سکتی ہے۔ سائنس پڑھ کر وہ اپنی پیاسِ علم بھی بجھا سکتے ہیں اور اِس علم میں جذبات کا کوئی دخل بھی نہیں ہوتا۔ یا کم ازکم اس علم میں جذبات، کامل صداقت کی راہ میں رکاٹ نہیں بن سکتے ہیں۔یہ ایک طرح سے بائنری قسم کا علم ہوتا ہے، جس میں سیاہ و سفید کی شکل میں دو دو حقائق متواتر سامنے لائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک کا چناؤ طے ہوتے ہی، یہ بھی طے کرلیا جاتاہے کہ انسانی علم میں ایک مزید عدد کا اضافہ ، اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوچکا۔علم کی پیاس بھی بجھ گئی، کامل صداقت بھی مل گئی اور جذبات نے علم کو آلودہ بھی نہ کیا۔ یہ ہے سائنس کی خوبصورتی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر باقی علوم، جیسا کہ سماجیات، عمرانیات، ادب، زبان، مذہب وغیرہ وغیرہ، کو کامل صداقت کے ساتھ کس طرح حاصل کیا جائے کہ ہمارے جذبات، علم کی صداقت کو متاثرنہ کریں۔ دراصل سائنس کے علاوہ باقی علوم کا حصول جذبات کو منہا کرکے ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ صرف سائنس ہے جو انسانی جذبات کو منہا کرکے زیادہ اچھے طریقے سے کامل صداقت کا راستہ دکھاتی ہے۔ باقی تمام علوم میں کامل صداقت تک پہنچنے کا طریقۂ کار نہایت مشکل بلکہ ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ اور وجہ اس کی فقط یہی ہے کہ ان علوم کے حصول میں جذبات ِ انسانی کی ضرورت پڑتی ہے۔یعنی کبھی طالب علم کو یہ کرنا ہوتاہے کہ اپنے جذبات اور ان کی تفہیم کو استعمال میں لاکر ان علوم کی کھوج کرے اور کبھی یوں ہوتاہے کہ اپنے جذبات پر مناسب قابو پاکر۔اور جیسا کہ اوپر ہم نے دیکھا ہے کہ یہ مہارت بغیر تربیت کے ممکن نہیں ہوتی۔ جبکہ جذبات کی تربیت کرنا کچھ ایسا ہے جیسے جانور کو سِدھانا۔ بالفاظِ دگر طالب علم کو پہلے اپنا کردار سنوارنا ہوتاہے اور بعد میں اس کو اس علم کی بھنک پڑنا شروع ہوتی ہے۔ اگر وہ کردار نہیں سنوار سکا تو یہ علم اس کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا۔

میرا قاری مجھ سے یہ سوال کرسکتاہے کہ آپ نے سائنس کے علم کے مقابلے میں دوسرے علم کو حقیقی کیوں قرار دیا؟ کیا سائنس کا علم غیر حقیقی ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ، نہیں۔ سائنس کا علم غیر حقیقی نہیں۔ سائنس کا علم حواسِ خمسہ کو محسوس ہونے والی ہرشئے کا علم ہے اور بہت ہی زیادہ حتمی ہونے کی وجہ سے پیہم ارتقائے انسانی کا موجب اور باعث بھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سائنس کا علم کامل صداقت تک پہچانے میں قاصر رہتاہے۔ سائنس کے زیادہ تر بلکہ آلموسٹ تمام تر، کو ایمرجنٹ رئیلٹی کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ مثلاً درجہ ٔ حرارت کو ہی لے لیں۔ درجہ حرارت کا تعلق ہمارے مشاہدے کے ساتھ ہے۔ حرارت اپنی کنہ میں حقیقی نہیں بلکہ دیکھنے والے کے حساب سے ہے۔ اپنی کُنہ میں تو حرارت کچھ ہے ہی نہیں۔ کسی بھی ایٹم میں الیکٹرانوں اور پروٹانوں کی حرکت تیز ہوجانے کا دوسرا نام حرارت ہے۔ یوں کہہ لیجے کہ آپ نے اگر کسی گرم چیز کو چھُوا تو تیزرفتار الیکٹرانوں نے آپ کی انگلی کے سست رفتار الیکٹرانوں کا مومینٹم بڑھا دیا، اور آپ کی انگلی کے الیکٹرانوں نے بھی تیز تیز حرکت شروع کردی۔ لیکن آپ کی حیوانی حس نے آپ کو بتایا کہ یہ چیز ہوتی ہے ، حرارت۔ تو حرارت کیا ہے؟ حرارت خود ایٹم کو تو گرمی کے طورپر نظر نہیں آتی۔ درجہ حرارت تو فقط ہمیں ہی گرمی یاسردی کے طورپر ہی محسوس ہوتا ہے۔الغرض سائنس نے جونتیجہ ہمیں دکھایا وہ بائنری ہے اور دو متخالف اجزأ میں پہچان کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اور اس لیے نہایت حتمی ہے۔ لیکن افسوس کہ کامل صداقت نہیں۔

پھر میرا قاری مکرر سوال کرسکتاہے کہ، وہ علم جسے آپ حقیقی کہہ رہے ہیں، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ کامل صداقت تک پہنچا سکتاہے؟اِس سوال کا جواب بائنری میں دیکھنا ممکن نہیں۔اگر ممکن ہوتا تو یہ علم بھی سائنس ہی ہوتا۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے اخلاقی تربیت کی شرط متعین ہے ۔ وہی اس علم میں کامل صداقت کو پاسکتاہے جو مکارمِ اخلاق میں بہت بلندی پر موجود ہو۔

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: عذرا بتول نے شائع کیا۔

عذرا بتول سے متعلق پڑھنے کو کچھ میسر نہیں ہے ۔