کوانٹم بیالوجی کے عجائبات

جِم الخلیلی برطانیہ کے ایک معروف سائنسدان ہیں۔ جِم کے والد عراق سے برطانیہ منتقل ہوئے اور وہیں بس گئے۔ جِم الخلیلی بی بی سی  اور دیگر میڈیا پہ خاصے متحرک ہیں اور انہوں نے سائنس،   بطور خاص فزکس اوربیالوجی  کے موضوعات پر بے شمار ڈاکومنٹریز بنائی ہیں۔اُن کا خاص میدان کوانٹم بیالوجی ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی محققین اِس  کوشش میں ہمہ وقت مصروف ہیں کہ کوانٹم بیالوجی کو ایک علحیدہ ڈسپلن یعنی شعبۂ علم کا درجہ دلوایا جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک مشہور کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے، ’’لائف آن دی ایج، دی کمنگ آف  ایج آف کوانٹم بیالوجی‘‘۔

درج ذیل مضمون جم الخلیلی کی ایک ڈاکومنٹری دیکھنے کے بعد لکھاگیاہے۔مضمون ترجمہ  نہیں ہے بلکہ جِم کی باتیں اپنے  طلبہ تک پہچانے کے لیے میں نے خود اپنے طریقے اختیار کیے ہیں۔

کبھی کبھارکوانٹم فزکس کی باتیں ہورہی ہوں تو بعض دوست کہہ دیتے ہیں، ’’سَب ایٹامک پارٹیکلز‘‘ کی دنیا کا ہماری دنیا سے عملی تعلق  جو بھی ہو اِس کو ہماری زندگیوں میں اُتنا دَخل نہیں جتنا دَخل  کلاسیکل فزکس کو ہے۔یہ بات درست نہیں ہے۔ہماری پوری کائنات اور اس کا ہرہر جزُو بنیادی طورپر ’’سَب ایٹامک پارٹیکلز‘‘ کی اکائیوں پر ہی منحصرہے، بشمول حیاتِ ارضی۔ یہ سوال کہ کوانٹم فزکس کو زمینی حیات یا بیالوجی میں کس قدر دَخل ہے، نہایت دلچسپ جوابات کا حامل ہے۔اس پر مستزاد کوانٹم فزکس کی وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس کے منطقی فہم سے ہم آج تک تو قاصر ہیں، ممکن ہےآئندہ آنے والے انسانوں کے لیے یہ آسان ہو۔

کوانٹم بیالوجی کی اصطلاح اُن مظاہرِ فطرت کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بیک وقت حیاتِ ارضی اور کوانٹم فزکس کےتعلق  کوظاہر کرتے ہیں۔کوانٹم بیالوجی اس بات کے ثبوت حاصل کرتی ہے کہ آیا حیاتِ ارضی کے بعض راز جن تک ابھی تک سائنس کی رسائی نہیں ہوسکی، وہ کوانٹم فزکس کے ذریعے معلوم کیے جاسکتے ہیں۔زندگی کا خلیہ جو کوانٹم فزکس کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایک بہت بڑا آبجیکٹ ہے لیکن اگر اسے بیالوجی کی نگاہ سے دیکھاجائے تو وہ سب سے چھوٹا آبجیکٹ ہے۔ زندگی کاخلیہ یا سیل اتنا چھوٹا بھی ہوسکتاہے کہ ہم اسے اچھی خاصی طاقتور مائیکرسکوپ کے بغیر دیکھ ہی نہیں سکتے۔

پودے جب سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہیں تو اُن کے خلیوں میں کوانٹم سپرپوزیشن اور اَن سرٹینٹی پرنسپل اپنا کرشمہ دکھاتے ہیں ۔ ایک ہی فوٹان پورے پودے میں ہرجگہ موجود ہوجاتاہے،آنِ واحد میں اور ایک ہی وقت میں۔ یاخدا! یہ بات اب کون سمجھےگا؟  اسی لیے میں نے عرض کیا کہ کوانٹم کے لیے ابھی ہمارے منطقی فہم قطعی طورپر تیار نہیں ہیں۔اورتواور ہماری انسانی حسّیات کو کوانٹم لہروں کا امتزاج چلا رہاہے۔ اگر کوانٹم اِنٹینگلمنٹ، کوانٹم سپرپوزیشن، کوانٹم ٹنلنگ، کوانٹم سپن وغیرہ کا وجود نہ ہوتا تو ہماری کوئی بھی حِس کام کرنے کی اہل  نہ ہوتی۔کوانٹم کی محیرالعقول دنیا میں، زندگی کوانٹم کے اُصولوں کے تحت کھیلا گیا ایک ’’  نشانہ بازی‘‘  کا کھیل ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پرندوں کی بے شمار جنگلی انواع لمبے لمبے سفرکرتی ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو پیدائش کے بعد جوان ہوتے ہی آسٹریلیا سے پرواز کرتےہیں اور براعظم امریکہ جا پہنتے ہیں اور پھر وہاں سے واپس بھی آتے ہیں اور واپس آسٹریلیا آکر اپنی طبعی عمر پوری کرلیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو قطبین سے آتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی جو یورپ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلے جاتے ہیں۔ ایسے تمام پرندے ہمیشہ ٹھیک ٹھیک سفر کرتے ہیں۔ وہ کبھی راستہ نہیں بھولتے۔کیا وہ جب انڈے میں موجود تھے تب انہیں کسی نے راستہ سمجھا دیا تھا؟ یا اُن کے پاس کوئی قدرتی ہدایت موجود ہے جس کے تحت وہ اَن دیکھے راستوں کو ٹھیک ٹھیک نَیوی گیٹ کرلیتے ہیں؟ یہ سوال بیالوجی کے ماہرین کو صدیوں سے پریشان اور سرگردان کیے ہوئے تھا۔اگرچہ گزشتہ صدی میں اس کا نہایت مناسب جواب حاصل تو کرلیا گیا تھا کہ پرندوں کا یہ سفر زمین کے میگانیٹک فیلڈ کی وجہ سے ممکن ہوپاتاہے۔وہ زمین کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرلیتے ہیں۔لیکن اِتنا معلوم ہوجانے کے بعد بھی سوالیہ نشان وہیں کا وہیں موجود تھا، کہ کیسے؟ زمین کی مقناطیسی فیلڈ کی قوت عام مقناطیس سے سوگنا کم ہے۔ ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندے اگر اسے محسوس کرلیتے ہیں تو یقیناً ان کے پاس آج تک کے بنائے گئے تمام سائنسی آلات سے زیادہ درست اور حسّاس آلہ موجود ہے۔کیا ہم وہ آلہ خود بناسکتے ہیں؟

لیکن کوانٹم فزکس نے جب اس سوال کا جواب دیا تو سب کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں۔مثلاً بارنیکل گِیز (Barnacle Geese) مرغابیوں کی ایک قسم ہےجوہرسال مو سمِ سرما میں ایک سکاٹِش دریا کے کنارے، عین اُسی مقام پر آبستے ہیں جہاں اُن کی نسلیں صدیوں سے آتی، بستی اور پھر موسمِ گرما میں واپس چلی جاتی ہیں۔

یہ مرغابیاں ’ثوال بارڈ‘ (Svalbard)سے روانہ ہوتی اور کُل دوہزارمِیل سفر طے کرتی ہیں۔   ’’ثوال بارڈ‘‘  ناروے کے جزائر میں سے ایک ہے۔کتنی ہی انواع ہیں جو اِسی طرح  سردیوں کے آغاز میں شمال سے جنوب کی طرف سفر کرتی ہیں اورگرمیوں میں واپس گھر آجاتی ہیں۔صدیوں تک بیالوجی کے ماہرین کے لیے یہ سوال ایک  معمہ تھا۔

حضرت خواجہ فریدالدین عطارنے منطق الطیر میں اِسے پرندے کا عرفان کہہ کر پکاراہے۔ اقبال نے خواجہ صاحب کا شعر درج نہیں کیا لیکن ایک بہت بڑے صوفی شاعر کا قول کہہ کر  وہی بات بتائی کہ یہ وجدان ہے جو فکر کی بلند ترین شکل ہے۔بعض مغربی مفکرین کی نظر میں وجدان کو فکر سے کم تر بھی سمجھا جاتاہے اور برگسان کے تتبع میں اقبال جیسے مفکرین اِسے فکر کی مزید ترقی یافتہ شکل قراردیتے ہیں۔ میں نے اس مسئلہ کو سلجھانے کے لیے ایک باقاعدہ مضمون لکھا۔ میں نے  فہم کو تین درجات میں تقسیم کرکے اپنے اُس مضمون میں اپنے تئیں ثابت کیا ہے کہ دراصل جانور کا وجدان، فہم غیرشعوری کا مقام ہے۔ اس کے بعد فہم ِ شعوری اور پھر فہم حقیقی کے درجات ہیں، جبکہ یہ فہم حقیقی فکر کی وہ بلند ترین شکل ہے جسے عرفان کہنا چاہیے۔ یہ بھی وجدان کی طرح خودکار ہوتاہے۔ تفصیل کے لیے آپ میرا مضمون پڑھ لیں۔لنک یہ ہے،

 

 

 

چنانچہ بارنیکل گِیز  پرگزشتہ چند سالوں میں سائنسدانوں نے جو کام کیا وہ بیالوجی سے زیادہ فزکس کا کام ہے۔ انہوں نے معلوم کیا کہ آخر یہ پرندے اپنا اَن دیکھا راستہ کیسےجان لیتےہیں۔سائنسدانوں کے خیال میں یہ دریافت سائنسی دریافتوں میں حیران کردینے کے حوالے سے بے مثال ہے۔یہ پرندے دراصل کوانٹم فزکس کا ایک نہایت عجیب و غریب مظہر استعمال کرتے ہیں، جسے کوانٹم اِنٹینگلمنٹ کہتے ہیں۔اور کوانٹم فزکس کا یہ مظہر وہ واحد مظہر ہے جس کی بنا پر آئن سٹائن اور نیلز بوھر کے درمیان کئی سالوں پر محیط ایک طویل بحث ہوتی رہی تھی۔ میں نے اس بحث کی تفصیل پر بھی ایک مضمون لکھا ہے۔

 

 

خیر معاملہ یہ ہے کہ پہلے کوانٹم فزکس کے ماہرین کی مدد سے ایک چڑیا پرتجربات کیے گئےاوریہ دیکھا گیا کہ آیا پرندوں پر میگانیٹک فیلڈ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اگر ہوتے ہیں تو کس قدر؟ اس چڑیا کو ’’کوانٹم رابن‘‘ کا نام دیا گیا۔کوانٹم رابن کو  عین اُس عمر میں جب وہ لمبے سفر کے لیے تیار تھی، ایک ایسے پنجرے میں بند کردیا گیا جس میں میگنیٹک فیلڈ تھی۔ ہم جانتے ہیں میگنیٹک فیلڈ کے دوپول یعنی قطبین ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے بار بار میگنیٹک فیلڈ کے قطبین کا رُخ الٹا کر دیکھا۔ ہر بار چڑیا نے بھی اپنے سفر کا رُخ الٹالیا۔ گویا چڑیا پنجرے میں بھی یہ سفر میگنیٹک فیلڈ کی مدد سے کررہی تھی۔یہ تجربہ کیلیفورنیا یونیورسٹی  میں کیا گیا۔بعدازاں پرندے کی ایک ایک  آنکھ کو ڈھک کر باری باری دوسری آنکھ سے تجربات کیے گئے۔ معلوم ہوا کہ پرندے کی آنکھوں میں کچھ ہے جس کی مدد سے وہ راستہ جان لیتاہے۔ آنکھوں میں کچھ ایسا ہے جس سے وہ دیکھتا نہیں بلکہ محسوس کرتاہے۔

فزکس کے ماہرین نے مکمل اعدادوشمار سے اندازہ لگایا کہ پرندے کی آنکھ میں اِنٹینگلڈ الیکٹرانوں کو آبزرو کرلینے اور اُن کی سپن تبدیل کردینے کی  صلاحیت موجود ہے۔ دواِنٹینگلڈ الیکٹران یا کوئی سے بھی پارٹیکلز کوانٹم فزکس کے مطابق اپنے سپِن کی خبر  اپنے جُڑواں پارٹیکل کو روشنی کی رفتار کی حد سے ماورا ہوکر دیتے ہیں۔ اگرچہ اِنٹینگلمنٹ کے تجربات لیبارٹری میں بھی انجام دیے جاچکے ہیں اور انسانوں نے سائنس کی تاریخ کی پہلی ٹیلی پورٹیشن جو فقط پارٹیکلز کی ٹیلی پورٹیشن تھی، کامیابی سے انجام دے لی ہے لیکن سائنسدانوں نے تقریباً ایبسولیوٹ زیروٹمپریچر کے درجۂ حرارت پر بنائی گئی اعلیٰ قسم کی لیبارٹریز میں بھی جب یہ تجربہ انجام دیا تو انٹینگلمنٹ کا عمل اسّی (80) مائیکروسیکنڈ کے عرصہ سے زیادہ عرصہ کے لیے آبزرو نہ کرسکے۔ وہ بار بار کے تجربات سے بھی اس وقت کو نہ بڑھا سکے جبکہ کوانٹم رابن جو کہ ایک عام سی یورپین چڑیا ہے اِنٹینگلمنٹ کے عمل کو سو(100) مائیکروسیکنڈز کے لیے آبزروکرلیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوانٹم اِنٹینگلمنٹ کے جس تجربے سے یہ چڑیا گزرتی ہے انسان اُس جیسا اعلیٰ یا بَڑھیا تجربہ اب تک نہیں کرسکے۔یہ چڑیا ہرسال شمالی یورپ سے سپین کے آخری کنارے تک سفرکرتی ہے اور پھر سردیاں گزار کر واپس آجاتی ہے۔ایک اور بیالوجسٹ ’’ہینرک موریسن (Henrique Morison) نے نہایت پُرسکون ماحول میں یورپین رابن کے رویے کا تجرباتی مطالعہ کیا۔اس نے ایک بڑے سے گول ٹب میں ایسے  خاص قسم کے کاغذ  رکھے جواِس چڑیا کے پنجوں کے نشانات ظاہر کرتے تھے۔ٹب کے گرد میگنیٹک فیلڈ اس طرح پیدا کی گئی کہ ہینرک جس طرف کو چاہتا قطب یعنی میگنیٹک پول کا رُخ موڑسکتاتھا۔ اس نے چڑیا کو اس ٹب میں بند کردیا اور میگنیٹک پولز کو بدل بدل کر دیکھا۔ ہر بار اس کا تجربہ کامیاب رہا۔ چڑیا نے ہربار اپنی سمت تبدیل کی اور جس رُخ پر تبدیل کی ، ایک ہی سیدھ میں لکیریں ڈالیں، گویا سیدھی لکیریں۔اب ہینرک کا اگلا سوال تھاکہ آخر چڑیا یہ سب کیسے کرلیتی ہے؟ تب اس نے چڑیا کی ایک آنکھ بند کردی اور اُس کی فقط دوسری آنکھ کھولے رکھی۔ اس سے یہ ہوا کہ اگر دائیں آنکھ کھلی رکھی تو بائیں طرف کے دماغ پر مقناطیسی فیلڈ کا اثر ہوا اور اگر بائیں آنکھ کھلی رکھی تو دائیں طرف کے دماغ پر یہ اثر ہوا۔ تب ہنرک اس نتیجے پر پہنچا کہ چڑیا مقناطیسی فیلڈ کی وجہ سے ہی اپنا راستہ نیوی گیٹ کرلیتی ہے۔مقناطیسی فیلڈ چڑیا کی آنکھوں میں کس طرح کام کرتی ہوگی۔یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔

کوانٹم اِنٹینگلمنٹ کے مطابق  دو جڑواں پارٹیکلز یعنی ایسے پارٹیکلز جو ایک ہی سورس سے پیدا ہوئے ہوں یا جنہیں بعد میں اِنٹینگلڈ کردیا گیاہو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں چاہے فاصلہ جتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو۔وہ ایک دوسرے کو فوری طور پر اطلاع بھیج سکتے ہیں چاہے ایک پارٹیکل ایک کہکشاں پر ہو اور دوسرا دُور کسی اور کہکشاں پر۔ وہ جب آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں تو کوئی وقت صرف نہیں ہوتا۔ وہ زیروٹائم میں ایک دوسرے کو  انفارمیشن منتقل کرسکتے ہیں۔ یہ ہے کوانٹم اِنٹینگلمنٹ۔اب ، الیکٹرومیگانیٹک فیلڈ میں اگر کوئی الیکٹران آجائے تووہ اپنے چارج کی وجہ سے فیلڈ کے ساتھ انٹرایکٹ کرتاہے۔ اس انٹرایکشن سے اس کا سپن بدل جاتاہے۔

فلہذا جب کوئی ایک فوٹان رابن کی آنکھ میں داخل ہوتاہے تو وہ دوالیکٹرانوں کا ایک جوڑا پیدا کردیتاہے۔ یہ الیکٹرانز ہونے کی وجہ سے الیکٹرک چارج رکھتے ہیں اس لیے جب چڑیا کی آنکھ میں ایک الیکٹران اپنا سپن بدلتاہے تو دوسرا الیکٹران خود بخود سپن بدل دیتاہے۔ چڑیا جان جاتی ہے کہ اسے کس رُخ پر مُڑجانا چاہیے۔ اس چڑیا کا نیوی گیشن سسٹم ہمارے کسی بھی ہوائی نظام یعنی جہازوں کے نیوی گیشن سسٹم سے بدرجہا بہترہے۔فوٹان بار بار الیکٹرانوں کے جوڑے جنم دیتے رہتے ہیں۔ رابن کا کوانٹم سسٹم سومائیکروسیکنڈ کے لیے دوجڑواں الیکٹرانوں کے سپن کا مشاہدہ کرتا اور اس کے مطابق عمل کرتا رہتاہے۔ اور یوں کوانٹم رابن  کا نیوی گیشن سسٹم نہایت عمدگی سے کام کرتارہتاہے۔

کوانٹم اِنٹینگلمنٹ کا یہ مظہر صرف پرندوں تک محدود نہیں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے لے کر انسانوں تک اس کے اثرات لامتناہی ہیں۔مثلاً انسانی دل چار خانوں پر مشتمل ہوتاہے۔ دل سے باہر  ایک خانے کے بالکل ہی پاس ایک قدرتی ’’پیس میکر‘‘ (Pace Maker) نصب ہوتاہے۔یہ پیس میکر دل کو کرنٹ دیتاہے جس سے دل کی دھڑکن کا عمل جاری رہتاہے۔ یہ پیس میکر اگر خراب ہوجائے تو ڈاکٹر اس کی جگہ ایک مصنوعی پیس میکر لگادیتے ہیں۔ ہم اسے ایک چھوٹی سی بیٹری بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ پیس میکر چونکہ الیکٹرومیگنیٹک فیلڈز میں متاثر ہوسکتاہے اس لیے اُنہیں طاقتور میگانیٹک فیلڈ کے علاقوں سے بچ کر رہناہوگا۔ اگرسوچا جائے تو قدرتی پیس میکر کو بھی اِس احتیاط کی کسی نہ کسی حدتک ضرورت رہتی ہوگی۔ ہم جب فرنٹ جیب میں موبائل ڈالے گھوم رہے ہوتے ہیں یا سینے پر لیپ ٹاپ رکھے فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں توموبائل یا لیب ٹاپ  کی لہریں ضرور ہمارے پیس میکر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہونگی۔ یہ بات اگرچہ کوئی میڈیکل کا ڈاکٹر ہی بتاسکتاہے لیکن  یہ جاننے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں   کہ وولٹیج کے اِس جہان میں کتنے پارٹیکلز ایسے ہونگے جوبیرونی دنیا کے ساتھ بھی اِنٹینگلڈ ہونگے اور ہمارے دل کے پیس میکر کے ساتھ بھی اور پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہونگے ہمارے ساتھ۔ وللہ اعلم

کوانٹم بیالوجی بہت ہی تازہ علم ہے۔ کوانٹم رابن کے نیوی گیشن سسٹم کی دریافت غالباً اس کی پہلی دریافت ہے۔ اس کے علاوہ جو تجربات جاری ہیں اُن میں ایک  ہماری حسِ شامہ ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کوانٹم بیالوجی کی رُو سے ہم خوشبُوؤں یا بدبُوؤں کو سونگھتے نہیں بلکہ سُنتے ہیں۔بیالوجسٹس عشروں تک یہ سمجھتے تھے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم کسی شئے کو کیسے سُونگھ لیتے ہیں۔لیکن ایک سائنسدان ’’جینی بروکس (Jenny Brooks)  کا خیال ہے کہ ممکن ہے ابھی ہم سب کچھ نہیں جانتے کہ ہم کیسے سُونگھتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ ہم ہزاروں خوشبوؤں میں سے کسی ایک مخصوص بُو کو کیسے پہچان لیتے ہیں۔ ایک کُتا کیونکر اتنا ٹھیک ٹھیک جان لیتاہے کہ کون سا کپڑا کس چورنے پہن رکھا تھا؟  کوانٹم بیالوجی سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ کسی ایک بُو کو باقی دوسری بُوؤں سے الگ کرلینے کی اہلیت ہم میں بُوؤں کے مالیکیولوں کی شکل (Shape)کی وجہ سے موجود ہے۔ ہر مالیکیول چونکہ الگ الگ شکل اور ساخت کا حامل ہوتاہے اس لیے ہماری حِس اُس مخصوص شکل کو پہچان لیتی ہے۔ اِسے بیالوجی کی زبان میں کہتے ہیں ’’لاکنگ میکانزم (Locking Mechanism)‘‘۔یہ بات بھی اگرچہ غلط نہیں۔ لیکن معاملہ فقط اتنا آسان نہیں تھا۔مثلاً بینزلڈی ہائیڈ (Benzaldehyde) کا مالیکیول اور سائنائیڈ کا مالیکیول شکل یا ساخت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ایک بڑا مالیکیول ہے اور دوسرا اس سے کافی چھوٹا اور ان میں ایٹموں کی ساخت بھی مختلف ہے لیکن دونوں کی خوشبُو ایک جیسی ہوتی ہے۔

خیر! جب یہ انکشاف ہوا تو سائنسدانوں نے اپنی عادت کے مطابق ایک خاص ترکیب کا استعمال کیا۔ زیادہ باریکی  میں جانے کی بجائے مَیں اِسے اپنے طریقے سے بیان کرتاہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن ایک ایٹم ہے۔لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن کی نسل میں تین ایٹم پائے جاتے ہیں جنہیں ہائیڈروجن کے آئسوٹوپس کہا جاتاہے۔ نمبر ایک پروٹیم، اِس میں ایک پروٹان اور ایک الیکٹران ہوتاہے۔نمبردو ، ڈیوٹیریم، اس میں ایک پروٹان، ایک الیکٹران اور ایک نیوٹران ہوتاہے۔ نمبرتین، ٹریٹیم، اس میں ایک پروٹان ایک الیکٹران اور دو نیوٹران ہوتے ہیں۔ یہ تینوں ایٹم ہائیڈروجن کے ہی اٹیمز ہیں کیونکہ ان میں پروٹانوں اور الیکٹرانوں کی تعداد ایک ایک رہی۔ اگر بدلی تو صرف  نیوٹرانوں کی تعداد۔ نیوٹرانوں کی تعداد بدلنے سے عنصر یعنی ایلیمنٹ نہیں بدل جاتا بلکہ اسی ایٹم کی نسل میں اس کے کچھ نئے بھائی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ کاربن بارہ  (12)سے ہم واقف ہیں لیکن کاربن فورٹین بھی ہوتی ہے، جس کی مدد سے کاربن ڈیٹنگ کی جاتی ہے۔ خیر! تو سائنسدانوں نے یہ کیا کہ مثلاً ایک مالیکیول لیا جس میں ہائیڈروجن  کے کچھ ایٹمز تھے۔ اوروہ ایک شخص کو سونگھنے کے لیے دیا۔ شخص نے جو بتایا وہ نوٹ کرلیا گیا۔ اب اس کے بعد اس مالیکیول کے ساتھ ایک ترکیب کرڈالی۔ اس کا ہائیڈروجن کا ایٹم ہائیڈروجن کا ہی رہنے دیا بس اُس ایٹم کا آئی سوٹوپ یعنی ’’ہم جا‘‘ بدل دیا۔ اس سے مالیکیول تو وہی رہا لیکن اس  کے وزن میں فرق آگیا۔ مثلاً اگر وہ  ہائیڈروجن کا ایٹم تھا تو اس کے پروٹیم آئیسوٹوپ کو ڈیوٹیریم آئیسوٹوپ کےساتھ بدل دیا۔ اب اگر بیالوجسٹوں کی پرانی بات پوری طرح سے درست ہوتی تو ساخت کی وجہ سے مالیکول چونکہ نہیں بدلا تھا اس لیے خوشبُووہی رہنا چاہیے تھی، لیکن انہوں نے بار بار نوٹ کیا کہ خوشبُو بدل چکی تھی۔چنانچہ کوانٹم بیالوجی اس نتیجے پر پہنچی کہ ہماری ناک مالیکیولوں کو سونگھتی نہیں  ہے بلکہ سُنتی ہے۔اصل بات یہ سامنے آئی کہ ساخت کا تعلق بھی خوشبُو کے ساتھ ہے تو سہی لیکن اصل تعلق ہے کسی ایٹم کے ارتعاش کا ہے۔ ایٹم کوئی رُکا ہوا آبجیکٹ نہیں ہے۔ ایٹم اور اُس کے سب ایٹامک پارٹکلز ، یہ سب ہمہ وقت شدید قسم کے مرتعش رہتے ہیں۔ سیزیم کلاک ایک گھڑی کا نام ہے۔ یہ گھڑی سیزیم کے ایٹم کے ارتعاشوں کی تعداد یعنی فریکوئنسی پر بنائی گئی ہے۔ سیزیم کا ایٹم ایک سیکنڈ میں کم و بیش نوکھرب مرتبہ وائبریٹ ہوتاہے۔کیمیائی مالیکیول ہماری ناک میں میوزک بجاتے ہیں۔ ہماری سونگھنے کی حس دراصل وائبریشن کی فریکوئنسی کو محسوس کرنے کی حس ہے، جیسا کہ ہماری سننے کی حس کرتی ہے۔ ہماری ناک کے وصول کنندہ مالیکیول یعنی ہماری ناک میں موجود ’’ریسپٹر(Receptor)  مالیکیولزباہر سے آنے والے خُوشبُو کے مالیکیول کے ارتعاش کو محسوس کرتے اور گن گن کر اُن کی یادیں دماغ میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ہوتا کیا ہے؟ ہوتا یہ ہے کہ ریسپٹر مالیکیولز میں سب ایٹامک پارٹیکلز ہوتے ہیں جیسا کہ الیکٹران وغیرہ۔جونہی الیکٹران کسی ایک ایٹم سے دوسرے ایٹم کی طرف اُچھل کر جاتے ہیں،وہ خوشبُو کے مالیکیول کے بانڈز کو مرتعش کردیتے ہیں۔بالکل ویسے جیسے کسی مِضراب سے بربط کی تاروں کو چھیڑدیا جائے۔

اس ساری تفصیل سے ہمارے حصے میں کیا آیا؟ ہمارے حصے میں یہ آیا کہ ہماری حسِ لامسہ مالیکولز کی ساخت کو اتنا نہیں پہچانتی جتنا ان کی حرکت کو محسوس کرتی ہے۔ اور یہ حرکت چونکہ پارٹیکلز کی حرکت ہے اس لیے یہ ایک موج کی حرکت ہے نہ کہ ایک ذرّے کی۔ کیونکہ کوانٹم کی دنیا میں ذرّے کی حرکت کسی موج یعنی ویو کی حرکت جیسی ہوتی ہے۔ اگر آپ کو ڈبل سلِٹ ایکسپری منٹ یاد ہوتو آپ کو یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ ذرّے کی حرکت جب ویوفنکشن میں پوشیدہ ہے تو پھر ہماری ناک نے کیا محسوس کیا؟ کیا ہماری ناک  کے ریسپٹر مالیکیول نے آبزرور کا کام کیا اور موج کے رویے کو پارٹیکل کے رویے میں بدل دیا؟ کیونکہ جب بھی کسی ویوفنکشن کو آبزرو کیا جائے وہ پارٹیکل رویے کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ایک مالیکیول ہمیں بتاتاہے کہ یہ سیب کی خُوشبو ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے سب ایٹامک پارٹیکلز کی وائبریشن مخصوص ہوگی، جو فقط اس کے مالیکیولز میں موجود ایٹموں کے آئیسوٹوپس کے فرق کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔چنانچہ ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتاہے کہ  بینزیلڈی ہائیڈ اور سائنائیڈ کے مالیکیولز کیوں ایک جیسی خوشبُو دیتے ہیں حالانکہ ان کی شکل و ساخت بالکل ہی مختلف ہے ایک دوسرے سے۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ ان کی وائبریشن ایک جیسی ہے۔ سوہم کسی شئے کو سونگھتے نہیں بلکہ اصل میں سنتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور مظہر ہے جو دیکھنے والی آنکھ کا منتظرتھا اور پھر وہ آنکھ اس تک آپہنچی۔ یہ مظہرہے مینڈک کا ’’میٹامارفسس (Metamorphosis) ‘‘ کا کرشمہ۔میٹامارفسس یعنی ایک شکل سے تیزی کے ساتھ دوسری  شکل میں چلے جانا۔مینڈک یعنی فراگ جب پیدا ہوتاہے تو اس کی شکل بالکل الگ سی ہوتی ہے۔ یوں  لمبوترا جیسے کسی مچھلی کا چھوٹا سا بچہ۔ اُس کی ٹانگیں تک نہیں ہوتیں۔سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں اُس کی ٹانگیں۔ اس کی دُم کسی مچھلی کی دُم  جیسی ہوتی ہے۔ جیسے پنکھ۔ لیکن صرف چھ ہفتوں کے اندر اندر وہ اپنی اِس شکل سے بدل کر ایک بالکل نئی اور مختلف شکل میں آجاتاہے جسے ہم مینڈک کہتے ہیں۔فراگ کی یہ ٹرانسفارمیشن ماہرینِ بیالوجی کے لیے ہمیشہ معمہ رہی۔ اُن کے لیے یہ سوال حل کرنا مشکل تھا کہ وہ کیمیکل بانڈگ جو مینڈک کی پہلی شکل کاباعث تھی، قطعی طورپر اَٹوٹ تھی۔ ہزاروں کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں بننے والی الگ الگ بافتیں (ٹِشوز) جوآخرالامرنہایت مضموط کیمیائی بانڈزکی صورت ظاہرہوتی ہیں، یوں چھ ہفتوں کے اندر اندر کیسے ٹوٹ کر ایک دوسری شکل میں بندھنا شروع ہوجاتی ہیں؟ اتنی جلدی یہ سب ناممکن ہے۔ یہ کیمیکل بانڈز گویا مضبو ط ترین گانٹھیں سمجھ لیں، جنہیں ہم ہاتھ سے پکڑ کر بھی کھولنا چاہیں تو نہ کھلیں۔لیکن یہ گانٹھیں چھ ہفتوں میں کھل کر ایک اور طرح کی گانٹھیں بنالیتی ہیں، جن سے مینڈک کی ٹانگیں نکل آتی  ، پیر اور پیروں کی انگلیاں بھی بن جاتے ہیں۔اُس کی دُم واپس جسم کے اندر چلی جاتی ہے ۔ پروٹینزاورفائبرز، جنہوں نے گوشت بنایا تھا ایک بار ٹُوٹ کر خود کو نئے سرے سے جوڑلیتے ہیں۔یہ گانٹھیں جو ٹوٹیں اور نئی گانٹھوں میں بدل گئیں، جس اُصول کے تحت بنائی گئی تھیں اسے دیکھ کر آسانی سے کہا جاسکتاہے کہ اِن گانٹھوں کو سالہال میں بھی نہیں کھولا جاسکتاتھا۔

اس سوال کا جواب زندگی کے ایک نہایت اہم مالیکیول یعنی  ’’اینزائم‘‘میں پوشیدہ ہے۔جِم الخلیلی اوردیگر ماہرینِ کوانٹم فزکس کا یہ خیال ہے کہ اس عمل کے دروان  کوانٹم ٹنلنگ ایفکٹ کام کرتاہے۔ کوانٹم ٹنلنگ ایفکٹ کا مطلب ہے کہ ایک پارٹیکل جوکہ دراصل ایک ویو(موج) بھی ہوتاہے، کسی دیوار سے ٹکرائے اوراُس سے یوں پار ہوجائے کہ دیوار کی دوسری جانب وہی پارٹیکل منتقل ہوجائے۔

کوانٹم ٹنلنگ ایفکٹ تجرباتی فزکس کا حصہ ہے نہ کہ نظری(تھیوریٹکل) فزکس کا۔ اگرکائنات میں کوانٹم ٹنلنگ نہ ہوتی تو سُورج کبھی نہ چمک سکتا۔ کوانٹم ٹنلنگ ہمہ وقت جاری ہے اور ہرہرشئے میں کسی نہ کسی صورت واقع ہورہی ہے۔ایک ٹیڈپول(بچہ مینڈک) کی شکل ایک بڑے مینڈک میں کیسے تبدیل ہوجاتی ہے، اِس عمل میں کوانٹم ٹنلنگ اپنامحیرالعقول معجزہ انجام دی رہی ہے۔مینڈک کے بچے کے جسم میں بافتوں کی وہ گانٹھیں جنہیں کھولنا یوں تو ممکن نہیں تھا، کوانٹم ٹنلنگ کی وجہ سے خودبخود ایک دوسری قسم کی گانٹھوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک خاص اینزائم کے، جسے ’’کولاجِن(Collagen)‘‘کہاجاتاہے ، پروٹان  کوانٹم ٹنل  ہوجاتے ہیں۔ یہ جواب اس لیے درست ہے کہ کولاجن کو اپنے پروٹان ایک مالیکیول سے دوسرے میں بھیجنے کے لیے جس قدر توانائی درکار تھی، وہ اُس مختصروقت میں ممکن نہیں جو ایک ٹیڈپول سے ایک فراگ بننے تک صرف ہوتاہے۔سائنس کی زبان میں اسے کہتے ہیں ’’انرجی بیریئر‘‘ پر قابو پانا۔کولاجن انرجی بیریئر پر کیسے قابو پالیتاہے؟ کیونکہ اگر یہی پروٹان سیدھے راستے سے دوسرے مالیکیول تک سفر کرتے تو انہیں انتہائی زیادہ توانائی کی ضرورت تھی اور اتنی توانائی ٹیڈپول میں موجود نہیں ہوتی۔ یقیناً یہ پروٹان کسی شاٹ کٹ سے دوسرے مالیکیول میں داخل ہوئے ہیں۔ اور کوانٹم ٹنلنگ ہی وہ شاٹ کٹ ہے۔

کوانٹم ٹنلنگ کی تفصیل پر میرا  ایک مضمون پہلے سے موجود ہے،

 

کوانٹم بیالوجی ہرزندہ چیز میں موجود ہے۔کوانٹم کے وہ عجائبات جن کا ذکر صرف سائنسدانوں سے سنا تھا اور جن کا براہِ راست مشاہدہ شایدفزکس کی دنیا میں کبھی بھی ممکن نہ تھا، کوانٹم بیالوجی نے اسے ممکن بنادیا۔ ان عجائبات میں سب سے حیران کُن پودوں میں کوانٹم بیالوجی کے کرشمات کا مظاہرہ ہے۔ایک فوٹان جو سُورج سے روانہ ہوا، ایک درخت کے پتے پر پہنچ کر جب اپنا سفر ختم کرتاہے تو وہ عمل دیکھنے لائق ہے۔زمین پر ہردن کے ہرسیکنڈ میں سولہ ہزار ٹن نباتاتی حیات تخلیق ہورہی ہے۔پودے پر سورج کی روشنی کا پڑنا اور اس سے نباتاتی حیات کا پیدا ہونا اور پھلنا پھولنا جس عمل تحت وقوع پذیر ہوتاہے اُسے بیالوجی کی زبان میں ’’فوٹوسینتھسس‘‘ کہتے ہیں۔فوٹوسینتھسس کا عمل سوفیصد فعّال ہے، گویا کسی بھی انسانی ایجاد سے لاکھوں گنا بہترمشینی عمل۔لیکن جس طرح یہ عمل پیش آتاہے،  اِس بات کا علم حاصل کرلینا گویا بیالوجی کا سب سے بڑا خواب تھا۔پودے کے تمام سبز حصے اِس لیے سبز ہوتے ہیں کہ ان میں کلوروفل نامی ایک مالیکیول ہے جو انہیں سبز چولا پہناتاہے۔ سُورج کی روشنی کو جذب کرنے کا کام یہی کلوروفل انجام دیتاہے۔سُورج سے حاصل ہونے والی یہ توانائی ناممکن الحصول حدتک تیزی کے ساتھ پورے پودے کے لیے خوراک میں بدل جاتی ہے۔یہ تیزی ایک سیکنڈ کا مِلیَنتھ آف دی مِلیَنتھواں  حصہ ہے۔یعنی ایک سیکنڈ کے دس لاکھ حصے کیے جائیں اور دس لاکھویں حصے کے دس لاکھ حصے کیے جائیں تو تب جاکر وہ تیزی بنتی ہے جس تیزی کے ساتھ کلوروفل کے ایک مالیکیول میں داخل ہونے والا فوٹان پورے کے پورے پودے کے لیے خوراک میں تبدیل ہوجاتاہے۔جب ایک فوٹان پتے کے ایک سیل(خلیے) سے ٹکراتا ہےتووہ  کلوروفل کے مالیکیول میں ایک عدد الیکٹران کو خارج کردینے کا باعث بنتاہے۔ بالکل ویسے جیسے ہماری چھتوں پر رکھی سولر پلیٹس کرتی ہیں ۔اب یہ  الیکٹران  اگلے مرحلے میں توانائی کا ایک بہت چھوٹا سا شَمہ پیدا کردیتاہے جسے ’’ایکسِٹان (Exciton)کہتے ہیں۔یہ ایکسٹان،  کلوروفل مالیکیولوں کے پورے جنگل میں ایک ساتھ پھیلتاہے ، یہاں تک کہ ’’ری ایکشن سینٹر‘‘ تک پہنچ جاتاہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سورج سے حاصل شدہ  توانائی کیمیائی تعاملات میں استعمال ہونے لگتی ہے۔اِنہی کیمیائی تعاملات سے زندگی کے تمام اہم مالیکیولز پیدا ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایکسٹان،   کلوروفل مالیکیولوں کے اتنے گھنے جنگل میں ری ایکشن سینٹر تک اپنا راستہ کیسے ڈھونڈ لیتاہے؟کیونکہ عام میکانیات کی رُو سے اگر ایکسٹان کا ’’ری ایکشن سینٹر‘‘ تک سفر دیکھاجائے تو ہم کہیں گے کہ وہ ایک مالیکیول کے پاس جاتاہے، پھر وہاں ری ایکشن سینٹر کو نہ پاکردوسرے مالیکیول کے پاس جاتاہے ، پھر وہاں ری ایکش سینٹر کو نہ پاکر تیسرے مالیکیول کے پاس جاتاہے وعلیٰ ھٰذالقیاس۔ اربوں مالیکیولوں سے ہوکر ری ایکشن سینٹر تک پہنچنے والا ایکسٹان کتنا وقت صرف کرےگا، اس کا اندازہ لگانے کےلیے کوئی لمباچوڑا دماغ نہیں چاہیے۔اگر ایکسٹان اتنا لمبا وقت صرف کرکے ری ایکشن سینٹر تک پہنچتا تو یقیناً وہ راستے میں ہی اپنی ننھی سی توانائی کھودیتاہے۔

بیالوجی کے ماہرین نے حال ہی میں کچھ لیزرز کے ذریعے  تجربات کیے اور اعلان کیاکہ ایکسٹان عام میکانیات کے تحت سفر نہیں کرتا۔یہ جان لینے کے بعد سائنسدانوں کے ذہن میں ایک ہی خیال آیا کہ ضرور کوانٹم  کا  ’’اَن سرٹینٹی پرنسپل‘‘ یہاں اپنا کام دکھا رہاہے۔ یعنی ہم کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایکسٹان کبھی کسی ایک خاص جگہ پر تھا، یا ہوتاہے۔یعنی یہ کہ ایکسٹان دراصل یہاں ’’ویولائیک‘‘ طرزِ عمل کا مظاہرہ کررہا تھا نہ کہ ’’پارٹیکل لائیک‘‘ طرز عمل کا۔مطلب کسی موج کی طرح سے پھیل رہا تھا نہ کہ کسی ذرّے کی طرح سے سفر کررہاتھا۔ایکسٹان نکتہ اے سے نکتہ بی تک سفر نہیں کررہا تھا بلکہ وہ ہرسمت میں ایک ساتھ بڑھ رہاتھا جیسے پانی کے تالاب میں ایک موج بڑھتی ہے۔چنانچہ وہ ہرممکنہ راستے کو ایک ہی وقت میں دیکھتا جارہاتھا۔یوں نہیں تھا کہ ایکسٹان، اِس طرف گیا تو اُس طرف کو نہ گیا۔ بلکہ ایک موج جیسے برابر برابر پھیلتی ہے، ایکسٹا ن بھی ایک موج بن کر پھیلا اور کلوروفل کے جنگل میں ہرجگہ ایک ہی وقت میں پہنچ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایکسٹان ایک ہی وقت میں ری ایکشن سینٹر تک پہنچنے کا ہرہرراستہ آزما رہاہے تو لازم ہے کہ اپنی پوری پوری یعنی ساری توانائی ری ایکشن سینٹر تک پہنچانے کے لیے   وہ تیز ترین  یعنی  کسی برق رفتارعمل سے گزرے۔چنانچہ یہ ثابت ہوجاتاہے کہ ایکسٹان کوانٹم بیالوجی کے کرشمے کا اسیر ہے یعنی وہ ان سرٹینٹی پرنسپل کی فرمانبرداری کررہاہے۔اسے ری ایکشن سینٹر تک پہنچنے کے لیے کوئی وقت نہیں چاہیے۔گویا وہ   ایک سیکنڈ کے ملینتھ آف دی ملینتھویں حصے کے لیے ہرجگہ موجود ہوجاتاہے اور اسی عرصہ میں اس کی پوزیشن اُس وقت واضح ہوتی ہے جب وہ ری ایکشن سینٹر میں پہنچ کر اپنی تمام تر توانائی کیمیائی تعامل  میں صرف کردیتاہے۔

 

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین