دولت کا ارتکاز اور ایک بار پھر ’’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘‘ کی یاد

فیس بک کا سوشل نیٹ ورک، گوگل کا سرچ انجن، وکی پیڈیا کا انسائیکلوپیڈیا، یوٹیوب کا ویڈیو پورٹل، ٹوئٹر کا مختصربیانیہ اور پھُس پھُس پھُس۔ یہ آخری تین الفاظ طنزیہ نہیں لکھے، بلکہ یہاں پہنچ کر انجن میں تیل ختم ہوگیا تھا سو گاڑی بند ہوگئی۔ انٹرنیٹ اب فقط چند ویب سائیٹس کا ہی نام رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا۔ الگ الگ ویب سائیٹس کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ ہر چیز کی ویب سائیٹس ہوا کرتی تھیں۔ اب تو فیس بک پیج ہوتاہے۔ تب لوگ انٹرنیٹ کو انٹرنیٹ سمجھ کر استعمال کرتے تھے۔ اب لوگ انٹرنیٹ کو فیس بک یا یوٹیوب سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا؟ انٹرنیٹ یوزرز لاکھوں ویب سائیٹس سے چند ویب سائیٹ تک ہی کیونکر محدود ہوکر رہ گئے۔

کل ایک دوست نے نوم چومسکی کی ویڈیو شیئر کی ہوئی تھی۔ نوم چومسکی بتارہے تھے کہ کلاسیکل لبرلزم اور عہدِ حاضر کے لبرلزم میں بُعدالمشرقین ہے۔ اور ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ کیپٹلز کس طرح مرتکز ہوئے، باوجود اس کے لبرل ازم ہی بنیادی نظریہ رہا۔

اسی صدی کے وسط تک زمین کی آبادی اس حد تک بڑھ جانے اور آب و ہوا اس حدتک خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے کہ اگر اُس وقت تک اہلِ زمین ، اِس سیّارے کے علاوہ مزید سیّارے تلاش کرنے میں ناکام رہے تو زمین پر زندگی کا بقأ ناممکن ہوجائےگا۔ ایسی صورت میں فقط چند لوگ ہی خود کو بچاپائینگے۔ وہ لوگ جن کے پاس اتنا سرمایہ ہوگا کہ زمین سے باہر کسی مصنوعی سیّارے پر باقی زندگی بسر کرسکیں۔ اور ایسا مصنوعی سیّارہ پہلے تعمیر بھی کرنا ہوگا۔ اس موضوع پر دوفلمیں بھی بن چکی ہیں۔ جن میں ’’وال ای‘‘ کے علاوہ غالباً ’’دی آرک‘‘ نامی فلم مشہور ہے۔

اگر دولت بابل کے بل مردوک کی طرح سینٹرائز ہوتی رہی اور سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ قائم رہا تو لازماً ایسی ہی صورتحال ہوگی جیسی میں نےاوپر ابھی بیان کی۔ جب تک کسی طرح سوئٹرزلینڈ میں موجود سرمائے کا یعنی دنیا میں ربٰوا کا سب سے بڑا مرکز ختم نہیں ہوجاتا تو دولت مرتکز ہوتی رہے گی اور عامۃ الناس چوپایوں کے درجہ پر ہی رہینگے۔

دنیا کو آج بھی کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو دولت کو مرتکز ہونے سے بچاسکے۔ یہاں اسلام آباد میں کریم ٹیکسی سروس شروع ہوئے تو لوگوں کی بے پناہ خوشی دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اکیسویں صدی بھی یقیناً وہ صدی نہیں جس کا انسان اس حد تک باشعور ہوسکے کہ دولت کو ایک جگہ مرتکز ہونے سے روکنے کی کسی تحریک کا باقاعدہ حصہ بن سکے۔

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین