جرمِ ضعیفی کی سزاکب تک؟

اس بارتوحکمران بھی طعنے مارتے ہوئے اُترے۔ہماری آنکھوں کے پانی زندہ ہوتے توذہنوں کو  سیراب کرتے۔ یہاں تو نہ آنکھوں میں پانی بچا ہے نہ لہُو میں وہ برقِ تپاں  جس کی وجہ سے اقبال اپنی کشتِ ویراں سے کبھی نااُمید نہ ہوسکا۔ گویا نہ پانی ہے نہ بجلی۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ سُورج سوا نیزے پر ہے لیکن سردیِ خونِ غزل سرا کا یہ عالم ہے کہ سانس درسانس  برفیں جمی ہیں۔کوئی تحریرنہیں، کوئی تقریر نہیں جوہمیں ہمارا کھویا ہوا اعتماد واپس دلاسکے۔جوہمیں اُس احساسِ کمتری سے باہر لاسکے جس نےہماری ہڈیوں کا گودہ تک سُکھارکھاہے۔ہرکوئی اکیلے اکیلے اپنی تقدیربدل رہاہے۔کوئی نعرہ نہیں بچا جو ہم سب کو کسی ایک پرچم تلےجمع کرسکے۔سب نعرے آزما لیےگئے۔

نئے لوگ، جنہیں فکرونظرکی مجذوبی کبھی میسرنہ ہوسکی عمران خان کو اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔پرانے لوگ مکمل طورپر مایوسی کے دلدل میں غرق ہیں۔عمران کے حق میں سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں دی جاتی کہ، ’’ایک بار اِسے بھی موقع دے کر دیکھتےہیں‘‘۔ یہ کسی قوم کے فیصلے سے زیادہ جواریوں کے کسی گروہ کا فیصلہ لگتاہے۔

ایک زمانہ ہوتا تھا سیاسی جماعتوں کے پاس منشور ہوا کرتے تھے۔وہ کسی بڑے خیال کی بنا پر وجود میں آیا کرتی تھیں۔ جماعتوں کے سربراہ اپنے منشورسے اِدھر اُدھر سوچ بھی نہ سکتے تھے۔جماعتوں کے کارکنوں کو ’’نظریاتی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔اور کارکن بھی نفسیاتی حدتک نظریاتی ہوا کرتے تھے۔

کسی بڑےمنشوراور نصب العین کے بغیر کوئی بھی جماعت لوگوں کا اجتماع پیدا نہیں کرسکتی۔جب سے ہماری جماعتیں منشوروں سے محروم ہوئیں اجتماعات کی بجائے لوگوں کے ہجوم  پیدا ہونے لگے جو انگریزی ہارر موویز کے زومبیز کی طرح   لیڈردرلیڈررینگتے نظرآتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی دہائی کی کبھی کوئی شنوائی ممکن نہیں ہوپاتی کہ سننے والے کان فرد فرد کے اکیلے پن سے واقف ہیں۔آج بھی کسی کان میں کسی اجتماع کا نعرہ گونج اُٹھے تو بخدا پاکستان کے ایوان تو کیا وائٹ ہاؤس تک کے درودیوار لرز اُٹھیں۔کوئی جماعت نہیں، کوئی لیڈر نہیں، کوئی  ایک بھی سمجھدار ووٹر نہیں، لیکن جمہوریت کا شوشہ بدستورموجود ہے۔

گزشتہ دنوں ہم بیٹھے باتیں کررہے تھے تو ایک دوست نے توجہ دلائی کہ ’’ذرا غورتو کریں! صرف امریکہ میں ٹرمپ ہی ایسا نہیں آیا بلکہ آدھی دنیا کے حکمران اِس وقت ذہنی توازن سے محروم ہیں‘‘۔اگر یہ سچ ہے تو  کیا یہ ارتقأ  کی کوئی قسم ہے؟ کیا یہ قدرتی انتخاب کا ہی کوئی کرشمہ ہے کہ دنیا بھر کے آدھے حکمران پوری طرح عقلمند بھی نہیں ہیں۔ امریکہ جیسے عظیم ترین ملک کے شہنشاہِ معظم کا یہ عالم ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کے بارے میں  فرماتے ہیں ، ’’سب جھوٹ ہے۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا‘‘۔

بظاہرمعلوم ہوتاہےکہ  انسانیت کا مستقبل مخدوش سے مخدوش ترہوتاجارہاہے۔امریکہ کی تو امریکی جانیں لیکن ہمارے سرپرجونئی حکومت منتخب کرنے کی ذمہ داری آن پڑی ہے کیا ہم اِس ذمہ داری کو بخوبی نبھاپائیں گے؟ کیا ہم ایسی کوئی ذمہ داری نبھاسکنے کے اہل ہیں؟ ہمارا تو ووٹ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس کسی نے ہمارا کوئی ناجائز کام کروادیا تھا وہ ہمارے ووٹ کا حقدار ہے اور جس کسی نے ہمارا ناجائز کام کرنے سے انکار کردیا تھا وہ الیکشن میں ہمارا دشمن ہے۔

شہباز شریف کی آخری تقریر میں تو مجھے یوں لگا جیسے کوئی ہم کنویں کے کنارے کھڑے تھے اور شہبازشریف نے ہمیں دھکا دیتے ہوئے کہا، ’’جاؤ! مروتم لوگ! ہماری جوتی کو بھی تمہاری پرواہ نہیں‘‘۔ میں پانی چُلّو میں بھر، سیکنڈوں بیٹھارہالیکن ڈوبنے کی ہمت نہ ہوئی کہ میں  نوازشریف کا ووٹرکبھی بھی نہ رہا تھا۔پیپلزپارٹی کوزرداری نے اتنا تبدیل کردیاہے کہ وہ نظریاتی جماعت جس کا ایک ایک کارکن اپنے مقاصد سے آگاہ ہی نہ ہوتا بلکہ بھٹوازم کا مبلغ ہوتا، اب نون لیگ سے کچھ مختلف نہیں۔ اگرچہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں میری چوائس آج بھی پیپلز پارٹی ہوتی لیکن افسوس کہ  اس بار ایساہوا تو سِرے سے ووٹ نہ دینے کا گناہِ کبیرہ کمالونگا لیکن ووٹ ہی نہ دونگا۔

میری ذاتی رائے میں ہم جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ہمارا اعصاب اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم  میں کسی کے لیے اب کوئی ایک جھنڈا اُٹھانے کی بھی ہمت نہیں۔اور یہ ضعف ہماری ہڈیوں  کو گزشتہ چالیس سال میں کسی وائرس کی طرح چاٹ گیاہے۔یہ ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ایک فوجی جرنیل نے مسلم لیگ بنائی تھی اور نواز شریف کو اس کا لیڈر بنایا تھا۔نہ کوئی منشور، نہ کوئی دستور، نہ کوئی نظریہ، نہ کوئی نصب العین۔بس آزاد الیکشن لڑکر آئے سب اپنے اپنے گھروں سے۔ کوئی کرسی کے نشان پر تو کوئی ٹریکٹر کے نشان پر۔ اسمبلی میں پہنچے تو مل کر ایک جماعت بنالی، مسلم لیگ۔ پاکستان کی واحد اسمبلی جس کی اپوزیشن ہی نہیں تھی۔تب سے ہماری تمام نسلیں، جمہوری شعور، افکارونظریات، دساتیرومقاصد وغیرہ جیسی اصطلاحات سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے آج کے پاکستانی کسی جماعت کے ’’انتخابی منشور‘‘ کو ہی کُل ملجاؤماویٰ سمجھتے ہیں۔ انہیں اس بات سے آگاہی تک نہیں کہ جماعتوں کی جڑوں میں کسی بہت بڑے مشترکہ مقصد کا حصول ہوتاہے جو جماعتوں کی سمتوں کو بدلنے نہیں دیتا۔ جو قربانیاں دیتا ہے لیکن اپنے مؤقف کی صداقت سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ہمارے ہاں کوئی اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ’’ شخصیتیں جماعتوں سے ہوتی ہیں جماعتیں شخصیتوں سے نہیں ہوتیں‘‘۔ یہاں تو ایک شخصیت ایک جماعت کے اصول پر سیاسی جماعتیں بنتی اور قائم رہتی ہیں۔ وہ ممالک جہاں کی جمہوریتیں کامیاب سمجھی جاتی ہیں وہاں غورکریں تو ٹُوپارٹی سسٹم ہوتاہے۔ فقط دو بڑی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی اور جماعتی منشور کے ساتھ۔نہ کہ فی شخصیت فی جماعت کے حساب سے الیکشن کمشن میں سیاسی جماعتوں کا ایک ایسا بے ذائقہ اچار جس کی بدبُواسمبلیاں ختم ہونے یا ٹُوٹنے تک اپنے ووٹرز کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

ہمارا یہ ضعف، ہماری یہ نادانی، ہمارا یہ بچپنا جو ہمیں بار بار رسواکرتاہے فقط اِس وجہ سے ہے کہ ہم فی الحقیقت اکیلے اکیلے ہیں۔ہم سب ایک دوسرے سے بری طرح بچھڑ گئے ہیں۔یہ تنہائی مغرب سے درآمد کی گئی ہے۔ قصور ہمارا اپنا ہے مغرب کا نہیں، لیکن آئی وہیں سے ہے۔ ہاں اس میں ہمارا ہاتھ اس طرح ہے کہ کمیونزم جو اجتماع کی بات کرنے والا ایک مناسب نظام تھا ہم نے کیپٹالزم کے مقابلے میں اس خود رد کیا اور عملی جہاد میں شریک ہوکر اسے شکست سے دوچار کیا۔ اجتماع کی بات کرنے والا کوئی سا نظام بھی بہرحال تنہا کردینے والے نظام سے بہتر ہوتاہے۔کیپٹالزم نے ہمیں اکیلا کردیا۔ این جی اوز نے ہماری ضروریات پوری کرنے کا ٹھیکہ اُٹھالیا۔ فرداً فرداً ہم اپنے مفاد کا سوچنے لگے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے بیگانہ ہوئے۔ بھائی بھائی سے جدا ہوگیا۔ کیپٹالزم نے سب کے ہاتھوں میں موبائل تھما دیے۔ جن میں ایک ایسی رنگین دنیا ڈال دی کہ فقط خواب ہائے حوورقصور پر ہی ہم نےگزارہ کرنا سیکھ لیا۔کل جب موبائل نہیں تھا تو ہمیں اس کی ضرورت کا احساس تک نہیں تھا۔ آج جب موبائل ہے تو ہم جانتے ہیں کہ اس کے بغیر سانس لینا بھی دشوار ہے۔ آخر یہ کیسے ہوجاتاہے؟ کسی شئے کی اتنی ضرورت کب او رکیوں اچانک پیدا ہوجاتی ہے؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ جس شئے کے بغیر مکمل گزارا ہورہاہو، اس کے بغیر اچانک بالکل ہی گزارا ہونا بند ہوجائے؟

سب جانتے ہیں کہ ایسی چیزوں کی پہلے ضرورت پیدا کی جاتی ہے۔ لوگوں کو عادی بنایا جاتاہے اور پھر مجبور اور پھر معذوربنادیا جاتاہے۔ یہ ہے نظام ِ سرمایہ داری۔ یہ وہ نظام ہے جو انسانوں کو روزاوّل سے جدا جدا اور اکیلا کیلا دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ انسانوں سے اچھے تو بھیڑیے ہیں۔ کل بھی اکھٹے تھے آج بھی اکھٹے ہیں۔ ہم تو اکھٹا ہنا ہی بھول گئے۔ اس میں جتنا ہاتھ وجودیت کے فلسفے کا ہے اس سے کہیں زیادہ ہمارے ضعف ِ جسمانی و روحانی کا ہے۔ مادہ پرستی کمزور کرتی ہے ۔ مردوں کو نامر اور عورتوں کو ناعورت بناتی ہے۔ اس سے ہزارہا گنا بہتر ہے کمیونزم  یا ایسا کوئی بھی نظام جو جمہور کی نہیں اجتماع کی بات کرتاہو۔

 

 

 

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین