ہومواِریکٹس، گمشدہ کڑی

اس میں دوسری رائے نہیں کہ انسان ہی زمین پر تمام مخلوقات سے زیادہ ہوشیار نوع ہے۔اس سے زیادہ دلچسپ امریہ ہے کہ ’’انسان زمین پر واحد انسان ہے‘‘۔یہ بات ذرا مبہم سی ہے۔ اس لیے اِسے دوسری طرح سے کرتے ہیں۔ زمین پر کُتے موجود ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کُتے کئی ذیلی انواع میں منقسم ہیں۔شکاری کُتے، رُوسی کُتے، جرمن شیفرڈ، گلٹریا وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح ہم جانتے ہیں کہ زمین پر بندر موجود ہیں لیکن بندر بھی کئی دیگر ذیلی انواع میں منقسم ہیں جیسا کہ ’’پرانی دنیا کا بندر‘‘ جوہمارے پاکستان میں پایا جاتاہے، اِسی طرح چمپنزی، بیبون، گوریلاوغیرہ وغیرہ۔ غرض دیگر انواع کی ذیلی انواع وجود رکھتی ہیں۔ لیکن انسانوں کی ذیلی انواع اب زمین پر موجود نہیں ہیں۔لیکن آج سے چند ہزار سال پہلے تک ایسا نہیں تھا۔ہمارےساتھ کچھ اور انسان بھی رہتے تھے۔جیسے چمپنزی ، بیبون اور گوریلا کا فرق ہے، اُس وقت ہمارے ساتھ رہنے والے دیگر انسانوں کا بھی ایسے ہی فرق تھا۔مثلاً یورپ کے سرد ممالک کو ہی لے لیں۔ آج سے چالیس ہزار سال پہلےاِن ممالک میں نینڈرتھل نسل کے انسان بھی موجود تھے اور ’’ماڈرن مین نسل‘‘ کے انسان بھی موجود تھے۔جبل الطّارق جسے جبرالٹربھی کہتے ہیں بیک وقت دونوں نسلوں کے انسانوں سے آباد تھا۔آج مراکش اور جبل الطّارق تک پانی ہے۔آج سے چالیس ہزار سال پہلے یہاں پانی نہیں تھا۔مراکش جو افریقہ کے شمال مغربی کنارے پر واقع ہےدراصل یورپ کے ملک سپین کے ایک ساحل کے بالکل سامنے ہے۔درمیان میں فاصلہ اتنا کم ہے کہ آپ کشتی میں بیٹھ کر آرام سے فقط آدھے گھنٹے میں براعظم افریقہ سے براعظم یورپ جاسکتے ہیں۔ چالیس ہزار سال پہلے اِس آبنائے میں پانی نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت سرسبزوشاداب وادی تھی۔آپ آج جبرالٹر کے ساتھ ساتھ کشتی میں سفر کرتے چلے جائیں تو آپ کو جگہ جگہ بڑی بڑی غاریں نظر آئینگے۔ یہ غاریں بیک وقت نینڈرتھل نسل کے انسانوں اور ماڈرن مین نسل کے انسانوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ اسی طرح افریقہ میں کئی نسلوں کے انسان بیک وقت آباد تھے۔اُن کی اک دوسرے سے مُڈھ بھڑ ہوتی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے کم یا زیادہ ذہین ہوتے تھے۔ وہ کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود فی الاصل ابتدائی نسلوں کے انسان ہی تھے۔غرض اب تو زمین پر فقط ایک ہی ذیلی نوع کے انسان آباد ہیں جنہیں ماڈرن مین کہا جاتاہے لیکن آج سے چند ہزار سال پہلے تک زمین پر ہمارے ساتھ کئی دیگر ذیلی ، انسانی انواع بھی آباد تھیں۔یہاں ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ موجود انسان، جسے ماڈرن مین کہا جاتاہے اپنے ڈی این اے کے اعتبار سے ایک ہی نوع کہلاتے ہیں۔چنانچہ کوئی قاری یوں نہیں کہہ سکتا کہ انسانوں کی تو اب بھی مختلف نسلیں ہیں مثلاً بلوچ، پٹھان وغیرہ۔یہ اقوام ہیں انسانوں کی قسمیں نہیں ہیں۔ اُس وقت زمین پر بیک وقت کئی، ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف نسلوں کے انسان آبادتھے کیونکہ اُن میں سے ہرایک کا ڈین این اے دوسرے سے مختلف تھا اور کروموسومز کی تعداد بھی مختلف تھی۔

ہوموسیپینز نے افریقہ کو آج سے ایک لاکھ سال پہلے خیرباد کہہ دیا تھا۔بس یہی وہ زمانہ ہے جب اُن بہت سی مختلف نسلوں میں سے زیادہ تر نابود ہوگئیں اور بہت کم باقی رہ گئیں۔اُن پرانی قسموں کے انسانوں میں سے بعض نے تو ہوموسیپینز سے بھی پہلے افریقہ چھوڑدیاتھا۔لاکھوں سال پہلے ہمارے ساتھ انسانوں کی جو ذیلی انواع آباد تھیں اُن میں سے بعض تو بےپناہ طاقتور، ذہین خونخوارتھیں۔آرکیالوجی کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ یورپ میں نینڈرتھل نسل کے انسانوں اور ماڈرن مین نسل کے انسانوں کے درمیان باقاعدہ ہزاروں سال تک لڑائیاں ہوتی رہیں۔نینڈرتھل لمبانیزہ استعمال کرتے تھے۔ اُن کے جسم پر مَسَلز ہی مَسَلز ہوتے جو انہیں ماڈرن مین نسل کے انسانوں سے کہیں زیادہ طاقتوربناتےتھے۔ لیکن ماڈرن مین نسل کے انسانوں کے پاس صرف اور صرف ایک صلاحیت اضافی تھی، جس کی بنا پر وہ نینڈرتھل کے ساتھ برپا ہونے والی ہزاروں سال طویل اور خوانخوار جنگیں مسلسل جیتتے رہے۔ماڈرن مین نسل کے انسان بھی نیزہ استعمال کرتے تھے لیکن یہ لوگ نیزے کو دُور سے پھینک سکتے تھے۔نینڈرتھل انسان اپنے لمبے نیزے کو ہاتھ میں پکڑکرزورسے گھونپتے تھے جبکہ ماڈرن مین نسل کے انسان اپنے قدرے چھوٹے نیزے کو دُور سے پھینکتے تھے۔ یہ تھی وہ واحد برتری جس کی بنا پر وہ نینڈرتھل نسل کے انسانوں پر بھاری تھے۔

آج ہم جو شہروں میں رہتے ہیں اس احساسِ تفاخر سے پھولے نہیں سماتے کہ ہم ہی فی الاصل ارفع ترین نوع ہیں لیکن قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ہمیں اِس خوشحالی اور عروج کا زمانہ دیکھتے ہوئے ابھی تین ہزار سال بھی نہیں گزرے جبکہ نینڈرتھل انسانوں نے کم سے کم تین لاکھ سال تک اونچے درجے کا عروج دیکھاہے۔ وہ خاندانوں میں رہتے تھے۔ مُردے دفناتے تھے۔ کپڑے پہنتے تھے۔آگ جلاتے تھے۔ ہتھیار بناتے تھے۔اور وہ بے پناہ طاقتورتھے۔ایک آرکیالوجسٹ نے نینڈرتھل نیزے کی طاقت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا تو معلوم ہوا کہ نینڈرتھل نیزہ کسی جاندار کے جسم میں ایک فُٹ تک اندر گھس جاتا تھا۔ وہ شکاری تھے اور ہاتھی جتنے بڑے بڑے جانور بھی آسانی سے شکار کرلیا کرتےتھےکیونکہ وہ ذہین تھے۔اُن کے علاقے میں ماڈرن مین نسل کے انسان وارد ہونا شروع ہوئے تونینڈرتھل کو پہلی بار خود سے طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا۔وہ تیزی سے ختم ہونے لگے۔لیکن آرکیالوجسٹس اس بات پر متفق ہیں کہ اُن کے مکمل خاتمے کے ذمہ دار فقط ماڈرن مین نسل کے انسان ہی نہیں بلکہ اٹلی کے شہر نیپلز کے علاقہ میں پھٹنے والاایک سُپرآتش فشاں بھی ہے۔یہ آتش فشاں تین چار دن تک مسلسل ابلتا رہا اور اس کی راکھ یورپ کے دور دراز کے ممالک کے علاوہ ایشیأ اور مشرقِ وسطیٰ تک کے میدانوں پرگری۔ آج جب زمین میں ڈرل کرکے تین براعظموں سے مٹی نکالی گئی تو اُن ٹیوبوں میں سُپرآتش فشاں ’’کیمپی فلیگری‘‘ (Campi Flegrei) کی راکھ ٹھیک انہی تاریخوں میں پائی گئی جن میں نینڈرتھل کا خاتمہ ہوا تھا۔

تب بھی نینڈرتھل انسانوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگیا تھا۔جبرالٹر کی غاروں میں نینڈرتھل اس سے پندرہ ہزار سال بعد تک بھی جیتے جاگتے، ہنستے کھیلتے رہے۔عین اُسی زمانہ میں ان کے آس پاس کی غاروں میں ماڈرن مین نسل کے انسان بھی مقیم تھے۔ان غاروں میں نینڈرتھل انسانوں اور ماڈرن مین انسانوں کے درمیان ملاپ بھی ہوتارہا اور اس ملاپ کے نتیجے میں ’’پوسٹ ماڈرن نسل‘‘ کا انسان بھی پیدا ہوتارہا۔ مختصر مدعا یہ ہے کہ آج انسانوں کی ایک ہی نوع زندہ اور باقی ہے جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ آج ہم اپنے موجودہ’’ راج‘‘ کو صرف تین ہزار سال سے جانتے ہیں جبکہ دوسری نسل کے انسانوں اور جسمانی طور پرزیادہ طاقتور انواع نے لاکھوں سال تک دورعروج دیکھا۔جدید سائنس کے اکتشافات سے بہت پہلے بعض مذہبی کتابوں میں ایسی نسلوں کا تذکرہ ملتاہے۔ خاص طور پر رامائن میں وانروں کی پوری فوج ہے جن کا سردار ہنومان ہے۔معلوم ہوتاہے چار ہزار سال پہلے بھی انسانوں کو اُن معدوم ہوجانے والی نسلوں کی بابت علم تھا۔

لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے انسانوں کی ایک نوع انڈیا پہنچی۔اُن کا رنگ کالا تھاجس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ افریقہ سے آئے تھے۔وہ زبان بول سکتے تھے۔وہ چھوٹے چھوٹے لیکن مضبوط خاندانوں کی صورت رہتے تھے۔اِسی نوع کو آرکیالوجسٹس ’’ہوموسیپینز‘‘ (homosapien)کانام دیتے ہیں اور انہی کو ماڈرن مین کہا جاتاہے۔ہوموسیپینز اس وقت کے ماڈرن انسان تھے۔سائنس کے بقول یہی ہمارے اصل آباؤاجداد ہیں۔ہمارے سے مُراد زمین پر فی زمانہ موجود ہرانسان کے اصل آباؤاجداد یہی ہوموسیپینز ہیں۔وہ تعداد میں کم تھےاور افریقہ سے انڈیا وہ کسی ہجرت کے نتیجے میں نہ آئے بلکہ آہستہ آہستہ، سرکتے سرکتے آپہنچے۔لیکن ایشیأ پر تو پہلے سے کسی اور کا قبضہ تھا۔ہوموسیپینز سے پہلے ہی ایشیأ ایک اور قسم کے انسانوں کا گھر تھا۔ آرکیالوجی نے ان قدیم ایشیائی باشندوں کو ’’ہومواریکٹس‘‘ کا نام دیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آئے تو ہومو اریکٹس بھی افریقہ سے ہی تھے لیکن وہ لاکھوں سال پہلے ہی آگئے تھےچنانچہ اب ایشیأ اُن کا گھر تھا۔ ’’ہومواریکٹس کے جو فاسلز ملے ہیں اُن میں قدیم ترین ہومواریکٹس آج سے اُنیس لاکھ سال پہلے زمین پر موجودتھا اور سب سے آخری ہومواریکٹس آج سے سترہزار سال پہلے تک زمین پر موجود تھا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ افریقہ، یوریشیأ، جارجیا، انڈیا،سری لنکا، چائنہ اورانڈونیشیأ کے علاقوں پر ’’ہومواریکٹس‘‘ نسل کے انسانوں کی حکومت کم سے کم اٹھارہ لاکھ سال تک رہی۔اب ایک لمحے کو رُک کر ہم اپنی اِس تین ہزار سالہ حکومت پر نظر ڈالیں اور پھر ہومواریکٹس کا سیارۂ زمین پر اٹھارہ لاکھ سال کا دورِ حکومت تصور میں لائیں تو ہم اپنے بقأ (سروائیول) کے اعتبار سے کتنے حقیر قراردیے جائینگے؟ آرکیالوجی کے ماہرین کا کہناہے کہ زمین پر جتنی بھی قسموں کے انسان آباد رہے، ہومواریکٹس نے ان میں سب سے طویل دورِ حکومت دیکھا۔

اریکٹس کا لغوی معنی ہےدوپاؤں پر اُٹھ کر کھڑاہونے والا۔یہ دوپاؤں پر چلنے والی انواع میں سب سے قدیم تھے۔ہوموسیپینز کی آمد کے بعد یہ دونوں انواع ساتھ ساتھ ایشیأ میں رہنےلگیں۔ پھر یوں ہوا کہ آج سے سترہزارسال پہلے انڈونیشیا کی جھیل ’’توبہ‘‘ کے نزدیک ایک سُپرآتش فشاں پھٹا۔ ماہرین کے مطابق اس آتش فشاں کی راکھ نے پورے ایشیأ سمیت سیارۂ زمین کے زیادہ تر حصے کو تقریباً ڈھک دیا۔ مشرقی ہندوستان میں اِس ’’توبہ آتش فشاں‘‘ کی چھ چھ میٹر موٹی ، راکھ کی تہہ دریافت کی گئی ہے۔چھ میٹر موٹی تہہ والی راکھ کا مطلب ہے آتش فشاں کا دھماکہ حدِ خیال سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ آج سے سترہزارسال پہلے اِس راکھ نے فضا کو بھر دیا۔ سُورج غائب ہوگیا اور زمین تاریک ہوگئی۔فضا میں موجود آکسیجن بری طرح زہریلی ہوگئی ۔ آسمان سے تیزاب کی بارشیں برسنے لگیں جنہوں نے دریاؤں اور جھیلوں کو زہریلا بنادیا۔چھ سے دس سال کا عرصہ ، اچانک طاری ہوجانے والا ’’آتش فشائی سرما‘‘ (والکینِک وِنٹر)یعنی شدید سردی کا موسم بھی رہا۔اس تباہ کن زمانہ میں زیادہ تر ہومو سیپینز اورہومواریکٹس فنا ہوگئے جبکہ جنوبی ایشیأ کے علاقے میں بہت کم تعداد میں ہوموسیپینز اور ہومواریکٹس زندہ بچ گئے ۔ جوبعد میں سبزے اور پانی کی خاطر ایک دوسرے کے شدیددشمن بن گئے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو دو مختلف قسم کی مخلوقات تصورکرتے تھے۔ سپر آتش فشاں کے اِس واقعہ کو ’’توبہ کٹسٹرافی تھیوری‘‘ (Toba catastrophe theory) بھی کہتے ہیں۔

خیر! تو اس قیامت کے بعد بچی کچھی انسانی انواع کے درمیان غذا خصوصاً پانی کی قلت کی وجہ سے قتل و غارت گری کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ہندوستان میں باقی بچ جانے والے ہوموسیپینز اور ہومواریکٹس کے لیے اب وہ سرسبزوشاداب ہندوستان نہیں تھا بلکہ اب یہاں ہرطرف راکھ کا صحرا بچھاہواتھا اور پینے کا پانی تلاش کرناجُوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔

توبہ آتش فشاں نے پورے سیّارۂ زمین کو ہِلا کر رکھ دیا۔ پودوں اور جانوروں کی لاکھوں انواع نابود ہوگئیں۔ انسان تعداد میں اتنے کم ہوگئے کہ لگتا تھا بالکل ہی ختم ہوجائینگے۔چنانچہ ہومواریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان لڑائیوں کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ہومواریکٹس زبردست قسم کے شکاری تھے۔ وہ اتنا تیز دوڑ سکتے تھے کہ آج کا کوئی انسان بھی اُتنا تیز نہیں دوڑ سکتا۔وہ پتھروں سے ہتھیار اور اوزار بنانے میں ماہرتھے لیکن اِس بات کا ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہومواریکٹس نیزے بناسکتے تھے۔ البتہ اِس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ وہ خنجرکی شکل کے پتھرتراش کراُنہیں بطورہتھیاراستعمال کرسکتے تھے، جنہیں وہ یورپین نینڈرتھل کی طرح صرف ہاتھ میں پکڑے پکڑے استعمال کرتے اور پھینکنے کی صلاحیت کے حامل نہیں تھے۔لباس کے معاملے میں شواہد موجود ہیں کہ وہ چمڑے کاجانگیہ پہنتے جبکہ اُن کے مقابلے میں ہوموسیپینز پیروں کے تَلووں پربھی چمڑے کا ٹکڑا باندھتے تھے ۔ ہومواریکٹس آگ جلاسکتے تھے۔مالائیں بناتے اور ایک دوسرے کو مالاؤں کے تحفے دیتے۔وہ تاریخِ انسانی کے پہلے کھوجی تھے۔اپنے شکار کا سراغ لگانا اُن کی اکمل ترین صلاحیتوں میں سے تھا۔اُن کی سراغ لگانے کی حِس ، بہترین شکاری بننے کے عمل کے ساتھ ساتھ ہی ترقی پاتی چلی گئی جس سے ان کی سونگھنے کی حس، چکھنے کی حِس، دیکھنے کی حِس اور سننے کی حِس نے غیرمعمولی ارتقأ کیا۔اُن کے دماغ کا سائز بڑاتھااور اُن کے دماغ میں علامتوں کے تبادلے والا حصہ موجود تھا۔تاہم ہوموسیپینز کو ہومواریکٹس پر ایک برتری حاصل تھی۔ہوموسیپینز کے پاس سوچنے اوردوسروں کے رویّوں کو سمجھنے کی صلاحیت موجودتھی۔چنانچہ ہومواریکٹس کے مقابلے میں ہوموسیپینز اپنے آپ کو بچانے کے زیادہ ماہرتھے۔اُس وقت موجود ہوموسیپینز کےفاسلز بتاتے ہیں کہ اُن کے مونڈھوں میں گھومنے کی صلاحیت تھی جبکہ ہومواریکٹس کے بازو ہرطرف گھوم نہ سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہومواریکٹس نیزہ نہیں پھینک سکتے تھے جبکہ ہوموسیپینز پورا بازو گھماکرنیزہ پھینکنے کے ماہرتھے۔یورپ میں بھی اِسی نیزہ پھینکنے کی صلاحیت نے ہومیوسیپینز یعنی ماڈرن مین نسل کے انسانوں کو نینڈرتھل نسل کے انسانوں پر برتری دیے رکھی۔

نیزہ پھیکنا ہوموسیپینز کی اکلوتی صلاحیت نہ تھی۔ وہ رسّی کے ساتھ بندھے پتھر کو دُور تک پھینکنے کے بھی ماہر تھے۔ وہ کسی اولمپک ایتھلیٹ کی طرح رسی کے سرے پر بندھا پتھر پہلے اپنے بازو کے زور سے گھماتے اور پھر اُس میں بھرپور پوٹینشیل انرجی بھردینے کے بعد پتھر کوچھوڑدیتے۔ دُور سے دشمن کو مارنے کا یہ پہلا انسانی طریقہ تھا جو ہوموسیپینز نے ایجاد کیا ۔ یہ گویا پہلی بندوق یا پہلی توپ تھی۔اس ہتھیار سے وہ اُڑتے ہوئے پرندوں تک کا شکار کرلیتے تھے۔چنانچہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ہوموسیپینز ہومواریکٹس سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔چنانچہ ہومواریکٹس کا مقابلہ ایسے انسانوں کے ساتھ تھا جو طاقت میں تو ان سے کم تھے لیکن عقل میں ان سے کہیں زیادہ تھے۔انڈیا سے ملنے والےفاسلز کے ریکارڈز سے معلوم ہوا ہے کہ ہوموسیپینز شترمرغ کے انڈوں کے خول پانی پینے یا سنبھالنے کے برتنوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔فاسلز کے ریکارڈز ہی بتاتے ہیں کہ ہوموسیپینز کا دماغ ہومواریکٹس کے دماغوں سے تین گنا بڑاتھا۔یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دماغ ایک بہت ہی پیچیدہ عضو ہے جسے زندہ رہنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔انسانی جسم میں سب سے زیادہ توانائی خرچ کرنے والا عضودماغ ہی ہے۔چونکہ ہوموسیپینز کا دماغ بڑا تھا سو لازمی طور پر اُس بڑے دماغ کا کام بھی ہومواریکٹس کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ وہ ساری توانائی جو دماغ خرچ کرتا تھا، سوچ بچار میں خرچ ہوتی تھی۔ یہاں یہ دکھانا مقصود ہے کہ بالآخرفتح بڑے دماغ کو حاصل ہورہی ہے نہ کہ زیادہ طاقت کو۔اس بڑے دماغ کی وجہ سے ہی وہ آپس میں بات چیت کرسکتے تھے۔ وہ بولتے تھے۔ ہوموسیپینز ہی وہ نوعِ انسانی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے زبان کو پیغامات کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ان دونوں انواع کا یہ بنیادی فرق اِن کی کھوپڑیوں کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتاہے۔ہوموسیپینز کی کھوپڑی میں دماغ کا بولی بولنے اور سمجھنے والا حصہ اب بھی موجودہےجبکہ یہ حصہ ہومواریکٹس کی کھوپڑیوں میں موجود نہیں ہےلیکن اس کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ ہومواریکٹس کسی حدتک ٹوٹی پھوٹی زبان کا استعمال جانتے تھے۔

ہومواریکٹس چھوٹے چھوٹے خاندانوں کی صورت رہتے تھے۔اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ہومواریکٹس بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے اور بیماری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔جارجیا میں ایک بزرگ ہومواریکٹس کا فاسل ملا ہے جو اپنے تمام دانت ضائع ہونے کے دوسال بعد تک زندہ رہا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ اور لوگ اس کا خیال رکھتے رہے یعنی اُس بزرگ کے لیے اُس کا کھانا کوئی اور چباتارہا۔شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ ہومواریکٹس کے خاتمے کی ایک وجہ ’’ٹیپ ورم انفیکشن‘‘ بھی تھا جو ایک وباتھی اور باسی اور خراب گوشت کھانے سے پھیلی اور بڑی تعداد میں اریکٹس ہلاک ہوگئے۔شواہد سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اریکٹس کچا گوشت پسند کرتے تھےاگرچہ یہ بھی ثابت ہے کہ وہ گوشت کو پکانے کی صلاحیت کے مالک تھے لیکن وہ سرخ گوشت کھانا زیادہ طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ تصورکرتے تھے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ہومواریکٹس اگر ہوموسیپینز کو مارتے تو ان کا گوشت کھاجاتے تھے۔جبکہ ہوموسیپینز کے ایسے آثار دستیاب نہیں ہیں۔

سترہزارسال پہلے کے ہوموسیپینز یعنی ’’ماڈرن مین ‘‘نسل کے انسانوں میں ابتدائی مذہب کے آثاربھی پائے گئے ہیں۔وہ اپنے آباؤاجداد کی نشانیاں گلے میں پہن لیتے اور سمجھتے کہ ان کے باپ داد اُن کی حفاظت کررہے ہیں۔بزرگوں کی مالائیں نسل درنسل منتقل ہوتیں اور بہت قیمتی متاع تصور کی جاتیں۔

بیجنگ سے تیس میل جنوب کی طرف چائنہ کی سب سے مشہور آرکیالوجیکل سائیٹ ’’ژوکوڈیان (Zhoukoudian)ہے۔یہ دراصل ایک غار ہے جسے ڈریگن بون ہِل بھی کہا جاتا ہے اورجہاں سے 1994 میں درجنوں فاسلز دریافت ہوئے ہیں ۔ اِن فاسلز کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو معلوم ہوا ہے کہ یہ دس لاکھ سال پرانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں ہیں۔دس لاکھ سال پہلے زمین پر انسان نمانسلیں آباد تھیں جن کا ذکر ہم پچھلے مضمون سے کرتے آرہے ہیں۔ان میں سب سے پرانے ’’ہومواریکٹس‘‘ ہیں۔ ہومواریکٹس افریقہ اوریورپ میں بھی دریافت ہوئے ہیں اور ایک صدی سے ان کا وجود اس بحث کا مرکزی حصہ ہے کہ آیاانہیں اوّلین انسانی نسل قراردیا جاسکتاہے یا نہیں ۔آج ہم جانتے ہیں کہ ہومواریکٹس ظاہری شکل و صورت میں کیسے دکھائی دیتے تھے۔اِن کی آنکھیں اندر کی طرف دھنسی ہوئی تھیں جن پر آگے کو بڑھا ہوئے خاصے گھنے اَبرُو تھے۔یہ ابرو ، جبڑے کے مَسَلز کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جو خوراک چبانے کے عمل میں بھی مددگار تھے۔ان کے جبڑوں اور دانتوں کا سائز ہمارے جبڑے اور دانتوں کے ساتھ سائز سے 28 فیصد بڑاتھا۔اس سے یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہومواریکٹس اپنے دانتوں سے ہتھیاریااوزارکا کام بھی لیتے ہونگےیعنی کسی جانور کی آنتوں کو کھینچنے کے لیے دانت استعمال کرتے ہونگے۔البتہ ا ُن کی کھوپڑی تقریباً ہماری کھوپڑی کے سائز کی ہی تھی۔جہاں جہاں سے ہومواریکٹس کے فاسلز ملے ہیں وہیں سے پتھر کے ایسے اوزار بھی ملے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ ہومواریکٹس پتھر کے اوزار بناتے اور انہیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔اتنی بڑی کھوپڑی میں آخر وہ کیا سوچتے ہونگے؟ آج سے دس لاکھ سال پہلے کی دنیا اُنہیں کیسی دکھائی دیتی ہوگی؟

اُس زمانے میں زمین کا ماحول زیادہ سرد اور خشک تھا۔زمین برفانی تودوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ آرکیالوجی میں اس دور کو ’’پلائیسٹوسین (Pleistocene) کہاجاتاہے۔یہی وہ دور ہے جس میں انسان نما نسلوں کا ارتقأ اور اس عہد کے اختتام تک زمین کا تقریباً کوئی ایسا خطہ نہ تھا جہاں انسان یا انسان نما نسلیں موجود نہ تھیں۔پلائیسٹوسین کے فوراً بعد جو عہد شروع ہوا یعنی ہمارا عہد اُسے’’ہولوسِین‘‘ کہتے ہیں۔پلائیسٹوسِین عہد میں یہ تمام براعظم وہاں نہیں تھے جہاں آج ہیں۔کئی براعظم جو آج ایک دوسرے سے دُور واقع ہیں تب ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔جیالوجی میں آپس میں جُڑے ہوئے براعظموں کو ’’سپر کانٹینینٹ ‘‘ کہتے ہیں۔صرف براعظم ہی آپس میں نہ جُڑے ہوئے تھے بلکہ برف کی ایک بہت بڑی شِیٹ پوری زمین پر بچھی ہوئی تھی۔ مثلاً ہمارا پاکستان آج سے دس کروڑ سال پہلے ایک سُپر براعظم کا حصہ تھا جسے جیالوجی میں ’’گوندوانہ‘‘ کہاجاتاہے۔گوندوانہ سپربراعظم میں انڈیا کی ٹیکٹانِک پلیٹ موجودہ آسٹریلیا کے ساتھ جڑی ہوئی تھی جسے ’’انڈوآسٹریلین پلیٹ‘‘ بھی کہا جاتاہے۔انڈیا کی پلیٹ آج سے دس کروڑ سال پہلے گوندوانہ سے ٹوٹ کر شمال کی جانب سِرکنا شروع ہوئی۔جدید جیالوجی کے مطابق انڈیا اور آسٹریلیالگ بھگ تیس لاکھ پہلے سے الگ الگ پلیٹوں کی صورت میں موجود ہیں۔آج سے پانچ کروڑ سال پہلے انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹیں آپس میں ٹکرانا شروع ہوئیں۔اس ٹکراؤ سے سمندر کا جو کیچڑاُوپر کو اُٹھنا شروع ہوا وہ کوہِ ہمالیہ کا سلسلہ ہے۔ یہ ٹکراؤ آج بھی جاری ہے چنانچہ ہرسال کوہِ ہمالیہ پہلے سے بلند ہوجاتاہے۔کوہِ ہمالیہ پر لاکھوں سال پرانی سمندری مخلوقات کے فاسلز کی دستیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پہاڑ کبھی سمندرتھا۔
چناچہ ہومواریکٹس جو آج سے انیس لاکھ سال پہلے زمین پر نمودار ہوئے ، آخری برفانی عہد کی پیداوار ہیں۔اس عہد میں الاسکا اور سائبریا ایک دوسرے کے ساتھ برف کی شِیٹ کی وجہ سے ملے ہوئے تھے۔چنانچہ ایشیأ سے کچھ لوگ آج سے بیس ہزارسال پہلے اِسی راستہ سے امریکہ چلے گئے۔ موجودہ ’’امیرِنڈینز (Amerindians)‘‘ میں اُن قدیم انسانوں کے جینز دریافت کیے گئے ہیں۔اِسی طرح انڈونیشیأ اور انڈونیشیأ کے جزائر بھی ایشیأ کے ساتھ جڑے ہوئے تھےجبکہ جنوبی ایشیأ کا زیادہ تر حصہ جنگلات سے گھرا تھا۔انڈونیشیأ سے ملنے والے بڑے قد کے ہاتھیوں کے فاسلز سے معلوم ہوتاہے کہ اس زمانے میں بھی انڈونیشیأ جنگلات اور کھلے میدانوں سے پُرتھا۔

غرض جب براعظم کسی حدتک ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے اور درمیانی سمندروں پر برف کی چادر بچھی ہوئی تھی تو کتنے ہی ہومواریکٹس نسل کے قبائل ایک براعظم سے دوسرے براعظم کو منتقل ہوئے ہونگے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ ہومواریکٹس آج سے انیس لاکھ سال پہلے نمودار ہوئے اور انہوں نے زمین پر اٹھارہ لاکھ سال حکومت کی۔مضمون کی پہلی قسط میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہومواریکٹس غضب کے شکاری تھے۔وہ ہرقسم کے جانور کا شکار کرنے کے ماہر تھے ۔آرکیالوجی میں ایسے شکاریوں کو ’’بڑی گیم کے شکاری‘‘ کہا جاتاہے جو اجتماعی طور پرشکار کرتے اور خود سے کئی گناہ بڑے جانوروں کو مارگراتے ہیں۔وہ پتھروں سے شکار کرتے اوراپنے شکار کو چیرنے پھاڑنے کے لیے اپنے بڑے بڑے دانت استعمال کرتے تھے۔ہومواریکٹس کی ہڈیوں پر پائے گئے مخصوص نشانات کے معائینے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ خود بھی جانوروں کا شکار بنتے تھے۔آرکیالوجسٹوں کے لیے ایک بڑا سوال یہ بھی رہا ہے کہ ہومواریکٹس بنیادی طور پر کہاں سے آئے ہونگے۔ کیا یہ ایشیأ میں ہی پیدا ہوئے یا کسی اور خطۂ زمین سے ہجرت کرکے ایشیأ منتقل ہوئے ہونگے؟ اس سوال کا جواب سب سے پہلے انڈونیشیأ سے ملنا شروع ہوا۔ فی الاصل کسی ہومواریکٹس کا سب سے پہلا فاسل جو کہ ایک کھوپڑی، ایک دانت اور ایک ران کی ہڈی تھی، ’’یوجین ڈُبوا‘‘ (Eugene Dubois) ‘‘ نامی فزیشن کو1891 میں، انڈونیشیأ کے ایک جزیرے جاواسے ہی ملا تھا۔بعد ازاں یہ سائیٹ آرکیالوجسٹوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اور بہت سے فاسلز دریافت ہوئے۔ان فاسلز کی کاربن ڈیٹنگ سے اندازہ ہوا ہے ہومواریکٹس انیس لاکھ سے شروع ہوکر آج سے سترہزار سال پہلے تک موجود تھے۔یادرہے کہ ’’فاسل کلاک‘‘ کی بتائی ہوئی تاریخ ہماری مشینی گھڑیوں سے بھی زیادہ درست ہوتی ہے۔

’’ٹرکانہ بوائے‘‘ 1984 میں، جھیل ٹرکانہ کے کنارے کینیا میں دریافت ہوا۔ابتدائی پلائیسٹوسین عہد کے کسی ہومواریکٹس کا یہ فاسلز پہلا مکمل فاسل تھا۔کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلا کہ ٹرکانہ بوائے کا ڈھانچہ پندرہ سے سولہ لاکھ سال پراناہے۔ٹرکانہ بوائے کے دماغ کا سائز 880 سی سی ہے۔یہ ایک لڑکے کا ڈھانچہ ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی اس کا دماغ مزید بڑھنا تھا۔ماہرین کو معلوم ہوا ہے کہ ٹرکانہ بوائے کسی پیدائشی بیماری کی وجہ سے فوت ہوا۔ٹرکانہ بوائے اپنی عمر کے حساب سے دراز قدتھا۔ ویسے بھی ماہرین کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ ہومواریکٹس چھ فٹ تک دراز قدانسان نما مخلوق تھی۔ٹرکانہ بوائے کے باریک بین معائنہ کے بعد یہ اعلان بھی کیا گیاہے کہ وہ ابتدائی سطح کی زبان بولتاتھا ۔ مجموعی طور پر ہومواریکٹس کے بارے میں یہی رائے پائی جاتی ہے کہ وہ پیچیدہ زبانیں بولنے اور سمجھنے کے اہل نہیں تھے۔

میرے لیے سب سے حیران کن یہ شہادت تھی کہ ٹرکانہ بوائے کی نسل کے انسان آگ کا استعمال جانتے تھے کیونکہ ٹرکانہ بوائے آج سے پندرہ سے سولہ لاکھ سال پہلے زمین پر موجود تھا۔گویا انسان نما نسلوں نے آج سے پندرہ سولہ لاکھ سال پہلے آگ جلانا سیکھ لیا تھا؟ خدا کی پناہ!

خیر! تو اس سوال کا جواب کہ ہومواریکٹس شروع سے ایشیأ میں تھے یا کہیں اور سے آئے تھے اب تک کی تحقیقات کے بعد یہ مِلا کہ ہومواریکٹس بنیادی طور پر آج سے بیس لاکھ سال پہلے افریقہ میں پیدا ہوئے۔ افریقہ میں ہی ان کے دماغ اتنا ارتقا کرگئے کہ وہ ہتھیاروں کے ذریعے شکار کرتے، آگ جلاتے اور ابتدائی زبان بول سکتے تھے۔افریقہ سے ہومواریکٹس پوری زمین پر پھیلے اور اُن کے پھیلنے کی وجوہات کے بارے میں اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سفر کرتے رہے۔ دراصل جب کسی علاقے کے سبزی خور جانور قدرتی آفات کے بعد اس علاقے سے قدرے آگے منتقل ہوجاتے تو ان کے تعاقت میں ہومواریکٹس بھی نئے علاقے میں پہنچ جاتے۔ آرکیالوجی کے مطابق افریقہ سے ایشیأ پہنچنے والے ہومواریکٹس لگ بھگ پندرہ ہزار سال تک آہستہ آہستہ سفر کرتے رہے۔ یوں گویا انہیں معلوم تک نہ ہوسکا کہ وہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں بسنے جارہے ہیں۔

1994 میں ہومواریکٹس کے فاسلز کی دریافت کا جو حیران کن سلسلہ بیجنگ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پرژوکوڈیان کی وادی میں شروع ہوا اُس نے بے شمار نئے رازوں سے پردہ اُٹھایا۔اس دریافت سے ماہرین کو اندازہ ہوا کہ ہومواریکٹس آج سے دس لاکھ سال پہلے بھی سماجی رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ وہ سردی سے بچنے کے لیے آگ کا الاؤ جلا کر اس کے ارد گرد بیٹھتے اور بے شمار سماجی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے۔چین میں دریافت ہونے والے اِن ہومواریکٹس کو ’’پیکنگ مین‘‘ کے نام سے پکاراجاتاہے۔

 

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین