اقبال اورنظریہ ارتقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

اقبال اورنظریہ ارتقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

22 جنوری 2020

(26 سال کی عمر سے 61 سال کی عمر تک)

۔۔

’’محقق واکر کے نزدیک انسانی قبائل کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ وبا اور قحط کے وسائل کسی قوم کی آبادی کو مستقل طورپر کم نہیں کرسکتے۔ وسیع معنون میں زندگی کا قیام ایک کلیہ، قانون کے تابع ہے جس کو فلسفی ’’قانون بقائے افراد قویّہ(Survival of the fittest)‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔‘‘

اقبال، ۱۹۰۳ ، ڈارون کی وفات کے اکیس(۲۱)سال بعد، اقبال کی کتاب ’’علم الاقتصادسے

۔۔

’’ ’’تقریباً تمام حکمائے حال اس امر پر متفق ہیں کہ نظام ِعالم کا ہرحصہ اس قانون (یعنی قانون بقائے افرادِ قویہ) کے عمل سے متاثر ہوتاہے۔ کیا نباتات کیا حیوانات اور کیا انسان، سب کی فنا و بقا کا اصلی راز اسی قانون کا عمل ہے۔ تم جانتے ہو کہ وسائل و اسباب ہمیشہ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔ پس جب یہ اسباب و سائل دفعتاً متغیر ہوجائیں اور جانداروں کے کسی خاص طبقے میں وسائل بقا کے تغیر کے ساتھ ہی ان کے مطابق تبدیلی پیدا کرسکنے کی صلاحیت نہ ہو تو صاف ظاہر ہے کہ وہ طبقہ فنا ہوجائےگا اورو ہی حیوان محفوظ رہیں گے جو ان وسائل متغیر شدہ میں قائم رہنے کی قابلیت رکھتے ہوں گے۔ مثلاً فرض کرو کہ کسی ملک کی آب و ہوا میں دفعتاً اس قسم کی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے کہ جو چارپایوں کے حق میں نہایت مضر ہو ۔ اس حال میں صرف وہی چارپائے زنددہ رہ سکیں گے جن کے قویٰ میں تبدیل شدہ آب و ہوا کے متحمل ہوسکنے کی قابلیت ہوگی۔ باقی سب فناہوجائیں گے۔ غرض کہ نظام عالم کے ہر حصے میں جانداروں کے درمیان ایک قسم کی مصاف ہستی شروع ہے جس میں قوی افراد فتح پاتے ہیں اور ضعیف و ناتواں افراد صفحہ عالم سے معدوم ہوتے جاتے ہیں ۔ ‘‘

اقبال ۱۹۰۳ ، ڈارون کی وفات کے اکیس(۲۱)سال بعد، اقبال کی کتاب ’’علم الاقتصادسے

۔۔

اقبال شبلی کی کتاب سے ابنِ مسکویہ کا نظریۂ ارتقا متعارف کرواتے ہیں:

’’ابتدائی جواہر کے اتحاد سے فلزاتی اقلیم وجود میں آئی، جو حیات کی ادنیٰ ترین صورت ہے۔ اقلیم نباتی ارتقأ کا اعلیٰ زینہ ہے۔ پہلاظہورخودروگھاس کا ہے، پھر پودے اور پھر مختلف قسم کے درخت وجود میں آتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ڈانڈے اقلیم حیوانی سے مل جاتے ہیں۔ کیونکہ ان میں بعض حیوانی خصوصیات ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ نباتی اور حیوانی اقالیم کے درمیان حیات کی ایک اور صورت پائی جاتی ہے، جو نہ تو حیوانی ہے اور نہ نباتی۔ بلکہ دونوں کی خصوصیات اس میں مشترک ہیں، جیسے (مرجان) حیات کی اس درمیانی منزل کے بعد قوت ، حرکت اور زمین پر رینگنے والے کیڑوں کے حاسۂ لمس کے نشوونما کا درجہ ہے۔ عمل تفریق کے ذریعہ سے حاسۂ لمس سے حواس کی دوسری صورتیں نموپاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اعلیٰ درجے کے حیوانات کے طبقہ تک پہنچ جاتے ہیں۔جہاں عقل ایک ارتقائی حالت میں ظہور پذیر ہونے لگتی ہے۔ بندر میں انسانیت کی کچھ جھلک سی آجاتی ہے، جو مزید نشوونما کے بعد بتدریج راست قامت ہوجاتاہے۔ اور انسان کی طرح اس میں بھی قوتِ فہم پیدا ہوجاتی ہے۔ یہاں حیوانیت کا اختتام اور انسانیت کا اغاز ہوتاہے ۔‘‘

۱۹۰۸، اقبال کے مقالہ ’’ایران میں مابعدالطبعیات کا ارتقا‘‘

۔۔

’’قانونِ انتخابِ فطری کے اکتشافِ عظیم کی بدولت انسان اپنے خانوادہ کی تاریخ کا عقلی تصور قائم کرنے کے قابل ہوگیا، حالانکہ پہلے اس تاریخ کے واقعات کی حیثیت اس کے نزدیک حوادث کے ایک فوق الادراک سلسلہ سے زیادہ نہ تھی جو بلاکسی اندرونی ترتیب و غایت کے فرداً فرداً مادرِ ایّام کے سراپا اسرار بطن سے پیدا ہوکر گہوارۂ شہود میں اٹکھیلیاں کرتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے۔ اس قانون کے معانی کی تنقید جب اور بھی زیادہ دقتِ نظر کے ساتھ کی گئی اور اُن فلاسفہ نے جن کی خیال آفرینیاں ڈارون کے مقدمۂ حکمت کی تتمہ ہیں جب حیات کی ہییتِ اجتماعی کے دوسرے نمایاں حقائق کا اکتشاف کیا تو مدنی زندگی کے عمرانی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کے متعلق انسان کے تصورات میں ایک انقلابِ عظیم پیدا ہونے کی صورت نکل آئی۔‘‘

اقبال، ۱۹۱۰، نیچرل سیلیکشن کے موضوع پر، مضمون’’ ملتِ بیضا کا عمرانی مطالعہ‘‘

۔۔

’’ اس دور نے بغیر کسی دلیل کے یہ فرض کرلیا ہے کہ ہم انسان اپنے ارتقا کی جس منزل میں ہیں اسے نفسیاتی یا عضویاتی جس لحاظ سے بھی دیکھاجائے ہمارے ارتقأ کی آخری منزل ہے۔ لہذا بحیثیت ایک حادثۂ حیات کے موت میں کوئی تعمیری پہلو مضمر نہیں۔ دراصل عصر حاضر کو آج ایک رومی کی ضرورت ہے جو دلوں کو زندگی ، اُمید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کردے۔‘‘

اقبال، ۱۹۳۴، خطباتِ اقبال

۔۔

مرتب: ادریس آزاد