اسلام، ایک مذہب مخالف تحریک

رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک بنیادی طور پر ’’مذہب مخالف‘‘ تحریک تھی۔ ابراھیمؑ سے لے کر عیسیٰؑ تک تمام نہیں تو زیادہ تر انبیأ کی جنگ اپنے وقت کے فراعین و نمارید کے ساتھ رہی یعنی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف۔لیکن اسلام اپنے وقت کی مذہبی پیشوائیت کے خلاف آیا اور کلمہ اسلام کا آغاز تمام خداؤں کے انکار سے کیا گیا۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف ہمیشہ تین بڑی قوتیں برسرپیکار رہی ہیں۔
۱۔ جاگیردار
۲۔ سرمایہ دار
۳۔ مذہبی پیشوأ
قران نے اپنے انداز میں ان قوتوں کو سمبولائز کیا ہے۔ جاگیرداری کی علامت فرعون، سرمایہ داری کی علامت قارون اور مذہبی پیشوائیت کی علامت ھامان کو قرار دیا ہے۔ اقبال کے مطابق یہ ایک مثلث ہے، جو صرف انبیأ کے زمانہ میں ہی قائم نہ تھی بلکہ ہمیشہ قائم رہی اور اب تک موجود ہے۔
مسلمان خلفأ کے دور میں یہ مثلث بہت مضبوطی کے ساتھ اسلامی اقدار کا چہرہ مسخ کرنے میں مصروف رہی اور قرون ِ وسطیٰ کی مسلم مذہبی پیشوائیت نے سابقہ تمام ادوار کے ریکارڈز توڑ دیے۔ بات یہ ہے کہ جب تک جاگیردار کو سرمایہ دار کا تعاون حاصل نہ ہو وہ عامۃ الناس کا خون نہیں پی سکتا لیکن یہ دونوں عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر انہیں مذہبی پیشوائیت کی تائید حاصل نہ ہو۔ فرعون جاگیردار تھا۔ قارون سرمایہ دار تھا اور ہامان مذہبی پیشوأ تھا۔ یہ ہامان ہی تھا جو لوگوں سے کہتا تھا کہ فرعون تمہارا خدا ہے۔ اگر اتنے بڑے مذہبی پیشوأ کی تائید نہ ہوتی تو فرعون کبھی بھی خدائی کا دعویٰ نہ کرسکتا تھا۔
سردارن ِ قریش (استعارۃً) فرعون اور نمرود کی اولاد نہیں تھے، بلکہ ہامان کی اولاد تھے۔ مکہ حجاز کا سب سے بڑا ’’مذہبی مرکز‘‘ تھا نہ کہ ممفس (مصر) یا بابل کی طرح کسی بڑی سلطنت کا دارالحکومت۔ مکہ سرمائے اور جاگیر کا نمائندہ ہرگز نہیں تھا، مکہ مذہبی پیشوائیت کا نمائندہ تھا۔ چنانچہ رسول ِ اطھر صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک بنیادی طور پر مذہبیت کے خاتمے کی تحریک تھی۔ آپ نے اپنی پہلی دعوت میں ہی یہی فرمایا تھا کہ ’’قولوا لاالہ الا اللہ تفلحوا‘‘۔ کہہ دو کہ کوئی الہ نہیں سوائے اللہ کے، تم کامیاب ہوجاؤگے۔ ’’لا‘‘ کی شمشیر سے بھانت بھانت کے خداؤں کا سرقلم کرنے والی تحریک بعد میں خود ایک مذہب کیسے بن گئی، اس کی داستان الگ ہے۔ لیکن اس میں چنداں شک نہیں کہ اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک تحریک تھا جو مذہب کے خلاف اُٹھی تھی اور جسے قران نے ’’دین‘‘ کہہ کر پکارا۔
لیکن بدقسمتی سے ملوکیت کے دور میں دین اسلام نے بھی ایک مذہب کی شکل اختیار کرلی کیونکہ بلاتائید ِ مذہب سلاطین و ملوک کےلیے اپنی حکومتیں قائم رکھنا ممکن نہیں تھا۔ خلفائے راشدین کے بعد اسلام میں بھی ملوکیت کا آغاز ہوگیا اور سلاطین نے مذہبی پیشوائیت سے باقاعدہ اسناد حاصل کرکے عامۃ الناس کا لہُو پینا شروع کردیا۔ مسجدوں میں سلطان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا تھا اور اسرائیلیات کے زیر ِ اثر ایسی ایسی احادیث کا ذخیرہ تیار کرلیا گیا تھا جن کے بارے میں یہ تصور بھی قرین ِ قیاس نہیں کہ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ فرمایا ہوگا۔ مثال کے طور پر قرون وسطیٰ کے مذہبی پیشوأ جمعہ کے خطبوں میں یہ حدیث پڑھا کرتے تھے،
انّ السلطانَ ظل اللہ فی الارض
سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے
یا
من اہان السلطان فقد اہانہُ اللہ
جس نے سلطان کی توہین کی اُس نے اللہ کی توہین کی۔
سوال یہ ہے کہ رسول ِ اطھر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو کوئی سلطان موجود نہیں تھا۔ پھر رسول ِ اطھر صلی اللہ علیہ وسلم نے سلطان کو اللہ کا سایہ کیونکر کہا ہوگا؟ یا سلطان کی توہین کو اللہ کی توہین کیوں قرار دیا ہوگا؟ یقیناً یہ روایات مستند کتب ِ احادیث میں ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔
غرض جیسے ابراھیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیؑ یا باقی انبیأ کی تحریکیں سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف اُٹھی تھیں ویسے ہی اسلام مذہبیت اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف اُٹھا تھا۔ ریاست ِ مدینہ اپنی کنہ اور ماہیت میں ایک سیکولر سٹیٹ تھی جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کو گرانے کا حکم جاری کرتی تھی۔مسجد ِ نبوی، کسی مذہبی مرکز سے زیادہ ایک کمیونٹی سینٹر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ ریاست ِ مدینہ میں دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا ماحول تھا۔ اسلام اگر مذہب ہوتا تو قبلہ کبھی ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر واپس پہلی جگہ منتقل نہ ہوتا۔ قبلہ کی تبدیلی سے متعلق آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو واضح ہوجاتاہے کہ بیت المقدس سے واپس مسجد حرام کو قبلہ بناتے وقت قران نے اس بات کا باقاعدہ اظہار کیا کہ یہود سے قبول ِ اسلام کی توقع عبث ہے۔
فرض کریں اگر یہود اسلام قبول کرلیتے تو کیا ہمارا قبلہ مسجد ِ حرام ہوتی؟ یقیناً ایسی صورت میں وہ آیات بھی نازل نہ ہوئی ہوتیں جن میں قبلہ دوبارہ تبدیل کردینے کا حکم صادر ہوا۔ غرض یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کسی مادی مقام کو پوجنے کا درس دینے والا ’’مذہب ِ محض‘‘ ہرگز نہیں تھا۔ مکے کے تمام سردار کس بنا پر سردار تھے؟ محض اس بنا پر کہ وہ خانہ کعبہ کی توسط سے ہی اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ ابولہب کون تھا؟ اور کیوں وہ اسلام کے اس قدر مخالف تھا؟ محض اس لیے کہ اسلام خانہ کعبہ کے ساتھ جڑی ہوئی تمام مذہبیت کا قلع قمع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور یہی بات ابولہب کے لیے ناقابل ِ برداشت تھی۔
ایک بات بہت اہم ہے۔ ہم جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ خداؤں کے انکار سے شروع ہوتاہے۔ یوں کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا کہ اسلام اپنے وقت کے خداؤں کا انکار کرنے کے لیے دنیا میں آیا اور اس نے الاللہ سے پہلے ’’لا‘‘ کی تلوار چلا کر تمام تر مذہبیت اور توھمات کو انسانیت کے رگ و پئے سے نکال دینے کی تدبیر کی۔‘‘

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین