نئے عہد کی زبان کیا ہوگی؟

جب ہم سمائیلیز کے ذریعے اپنی کیفیاتِ ذہنی و قلبی اپنا میسج یا کمنٹ پڑھنے والے کو منتقل کرتے ہیں تو ہمیں اپنے کلیجے کے اندر ہی کہیں پتہ چل جاتاہے کہ اگر اِس کی جگہ لفظ لکھتا تو اپنی کیفیت کا ٹھیک اظہار نہ کرپاتا۔

صدیوں سے انسانوں کی تمنّا رہی ہے کہ کاش انسان اپنی کیفیات بھی دوسروں تک پہنچا سکتا۔ ہماری زبانیں تو جھوٹ کی تفصیل، سننے والے تک پہنچاتی ہیں اور پہنچاتی رہی ہیں۔ وہ بات جو دل میں ہوتی ہے وہ کوئی کیسے جان سکتاہے۔ میں اکثر کوٹ کرتاہوں، اپنے لڑکپن کے ایک گمشدہ دوست شفیق قمر کا ایک قول، جو وہ مذاق میں بولا کرتے تھے،

’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان، اپنا مافی الضمیر چھپانے کے لیے دی ہے‘‘

اور یہ بات اتنا سچ ہے کہ اصل والا قول اس کے سامنے بالکل جھوٹا ثابت ہوجاتاہے۔ اصل والا قول یہ تھا،

’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان، اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے دی ہے‘‘

لیکن بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان ہمیشہ بات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت چھپاتاہے۔ اور تحریر تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر پوری اترتی ہے اس حقیقت پر۔
کل پرسوں میں نے میاں فرید کی وال سے اقبال کا ایک ذاتی خط شیئر کیا تو بہت سے دوستوں کو شدید حیرت ہوئی۔ وہ اقبال کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسا کچھ جاننے کے لیے تیار ہی نہ تھے جو عام انسانوں جیسا ہوتا۔ ہم اپنے اکابر کو جب دیوتا بنالیتے ہیں تو ان میں انسانی خامیاں جان کر ہمیں دکھ ہوتاہے۔ شاید اسی خطرے کو نظر میں رکھتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قران میں اپنے رسول کی بابت بشرٌ مثلکم کی آیت رکھ دی تھی۔ خیر! تو اقبال کا لکھا ہوا جو کچھ ہم سب کے سامنے اب تک رہا، اس سے اقبال کا بھی بُت کھڑا ہوجاتاہے دلوں میں۔ لیکن جب عطیہ فیضی کو لکھے گئے خط میں ان کی انسانی زندگی کی عام سے اور بالکل جائز سی باتیں پڑھیں تو ہمیں صدمے کا دھچکا لگا۔ اس کا مطلب اقبال نے جو کچھ پہلے لکھا وہ ملفوف تھا یعنی اس میں سے اقبال کی شخصیت کو اخذ کرلینا ممکن نہیں تھا۔ عہدِ حاضر کی لسانیات میں انہی موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

آج ہم ایس ایم ایس عموما رومن میں لکھتے ہیں اور اردو میں بھی ٹائپ کریں تب بھی ہم شاٹ کٹس استعمال کرتے ہیں۔ ہماری زبان بدل رہی ہے اور کوشش کررہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اصل کیفیات دوسرے تک پہنچائی جائیں اور یہ جھوٹی زبان جو صرف بولنے کے لیے ہوتی ہے اور جو شاید ارتقا میں بنی ہی بارٹرسسٹم کی کامیابی کے لیے تھی اس لیے جھوٹ سے بھر گئی، اس کا متبادل آنا چاہیے۔ کوئی چیز نئی آئے تو اس سے پہلے پرانی والی ایک بار مسمار ہوجاتی ہے۔ شاید یہی حقیقت اس وقت ہماری پرانی زبانوں کی حالت پر صادق آتی ہے۔ وہ مسمار ہورہی ہیں۔

اگر سمائیلیز کی زبان رائج ہوگئی اور اس نے ہر کیفیت کا احاطہ کرلیا تو انسان ایک بار پھر تصویری زبان کے عہد میں یعنی غاروں کے دور والی تحریر کے عہد میں پہنچ جائےگا۔ لیکن اُس عہد میں اور اِس عہد میں فرق یہ ہوگا کہ وہ کوئی کوئی لکھتا اور کوئی کوئی سمجھتا تھا لیکن یہ سب لکھیں گے اور سب سمجھیں گے۔

ایک زمانے تک میرا خیال تھا کہ تصوف کے پاس بغیر بولے ایسی زبان موجود ہے۔ لیکن اب میرا ایسا خیال نہیں ہے۔ ایک زمانے میں میرا یہ خیال مجازی عشق یعنی دنیاوری رومانوی محبت کے بارے میں بھی تھا۔ لیکن اب نہیں ہے۔ کچھ بچا ہے تو اتنا کہ شاید ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کی ایسی زبان سمجھ لیتی ہے جس کا میں بطور خاص ذکر کررہاہوں یعنی کیفیت کا منتقل ہونا۔ شاید اسی لیے یہ پنجابی محاورہ بھی ہے، گونگے دیاں رمزاں نُوں گُنگا جانڑیں یا گُنگے دی ما‘‘ یعنی گونگے کے دل کی باتوں کو تو یا تو وہ خود جانتا ہے یا اس کی ماں جانتی ہے۔

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین