زمانہ بدستِ اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

زمانہ بدستِ اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

2 فروری 2020

زمانہ، ذہن کی جھاڑی میں اٹکا

ریشمی دھاگے کا کپڑا ہے

کوئی خلّاق جولاہا، وہ جس نے ریشہ در ریشہ

زمانے کو بُنا ہے، ذہن سے باہر نہیں بستا

یہ میرے اپنے بے خوابی کے خوابوں کا کرشمہ ہے

یہ سارے دائروں میں گھومتے دن رات

آتا وقت، جاتا وقت

استمرار کے آثار

سے آراستہ شئے کا زمانے سے گزر

یہ واقعے، یہ حادثے

ہر ہر گھڑی، ہر پل کی ٹِک ٹِک

اور سب معلول

جن کی علّتیں ناقص دلیلِ کائناتی ہیں

یہ سب ناظر نے سوچے ہیں

یہ سب، ناظر نے سوچے ہیں کہ ایسے ہیں تو ایسے ہیں

زمانہ، وہ زمانہ کون سا ہو گا؟

جہاں لمحات کے جامد تراشے

تہہ بہ تہہ رکھے نہ ہوں

بلکہ جہاں سے چوکھٹہ در چوکھٹہ

سب چوکھٹے اِک ساتھ دِکھتے ہوں

وہ بُعدِ خامسہ

جس میں تسلسل کا تصور ختم ہو جاتا ہے

جس میں،

رنگ کو تصویر کی حاجت نہیں رہتی

جہاں سے ہر جہاں پہلا جنم لے کر نکلتا ہے

اور اس کے بعد جنموں کے جنم لیتا ہوا، دیتا ہوا

راہِ تسلسل کھول دیتا ہے

زمانِ قار کا یہ ساختہ پرداختہ جبروت

قہقہری نہیں ہے

نہیں ہے یہ، وگرنہ لوٹنا پڑتا

وہیں پر لوٹنا پڑتا جہاں سے یہ تواتر

اُس توَہّم میں بدلتا ہے

جسے آواگَوَن کہنا مناسب ہے

زمانِ استدام البتہ وہ دورانیہ ہے

جس کی وسعت

حاشیہ در حاشیہ پھیلے ہوئے آفاق میں تشکیل پاتی ہے

جہاں سے زندگی آواز دیتی ہے

جہانِ حرکت و غایت قیامت بن کے اُٹھتا ہے

کوئی بِگ بینگ پھَٹتا، پُھولتا ہے

سانس لیتا ہے

میں دس ابعاد کے سارے فسانے کا لکھاری ہوں

مجھے بے بُعد رہنا ہے

مجھے بے بُعد رہ کر وقت کا سارا غبارہ پھاڑنا ہے

وقت سے باہر نکلنا ہے

زمانِ قار میں سُوئی چبھونی ہے

مجھے خلّاقِ عالم کی تمنّائیں سمجھنی ہیں

مجھے کچھ کائناتیں اور بھی تخلیق کرنی ہیں

نئی الواح لکھنی ہیں

نئے کاتب بٹھانے ہیں

ضروری کام کرنے ہیں

زمانے کے تواتر کی یہ سب ترتیب بس تھوڑی بدلنی ہے

ادریس آزاد