یہ دِل روشن خیالی سے کہیں کالا نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

یہ دِل روشن خیالی سے کہیں کالا نہ ہوجائے۔۔۔۔۔۔ادریس آزاد

22 جنوری 2020

یہ دِل روشن خیالی سے کہیں کالا نہ ہوجائے

یہ سُورج کی طرف تکتا ہے نا بینا نہ ہوجائے

بھروسہ کس قدر مشکل ہے بازارمحبت میں

مسافر ڈرتا رہتا ہے کہیں دھوکا نہ ہوجائے

رگوں میں شور کرتا ہے لہو، محسوس ہوتا ہے

نگہ پربت نہ بن جائے یہ دل دریا نہ ہوجائے

تُو پاس آئے تو خوشبُو یوں کرے رنگوں میں ڈھل جائے

تجھے دیکھوں تو دِل ایسے کرے دیوانہ ہوجائے

مجھے تم سے کہیں سچ مچ محبت ہی نہ ہوجائے

نہیں ایسا نہ ہو! ایسا نہ ہو! ایسا نہ ہوجائے!

وہ تیرا منترِ کُن آگیا ہے میرے ہاتھوں میں

ادھورا یہ جہاں تیرا کہیں پورا نہ ہوجائے!!

تمہیں ہونٹوں کی، آنکھوں کی وجہ سے چاہتاہوں میں

محبت لفظ کے معنی سے دِ ل میلا نہ ہوجائے!!

خدا سے عہد لے کر آئے تھے ہم دارِ فانی میں

کہ جب تُو شمع ہوجائے تو دِل پروانہ ہوجائے

زمیں تب تک اُسے اذن قبولیت نہیں دیتی

ستارہ گر کے جب تک ریت کا ٹیلہ نہ ہوجائے

ادریس آزاد