تیسری بارش

اب تک بارش برس رہی ہے
یہ بارش بھی یاد رہیگی
اس سے پہلے
عمر کے اِن سارے سالوں میں
تین ایسی برساتیں ہیں جو
ہر بارش پر یاد آتی ہیں

پہلی بارش
سب سے اچھی بارش تھی وہ
تب ہم دونوں ٹین ایجر تھے
تم کھڑکی میں بیٹھی بظاہر
اپنی اُن قاتل آنکھوں سے
باہر کے اُس بھیگے منظر میں گُم صم تھیں
لیکن چُپکے چُپکے اور وقفے وقفے سے
میری جانب دیکھ رہی تھیں
اورمیں نے ’’آداب عرض‘‘ کی
اوٹ سے تم کو پکڑ لیا تھا
جیسے آنکھوں میں وہ منظر
وادی بن کر ٹھہر گیا ہو
اُس دن بھی بارش نے
دن سے لے کے رات گئے تک
سب پیڑوں اور سب رستوں کو دھو ڈالا تھا
اور پھر اگلے دن جب میں اور میرے ماموں
ہم لاھور سے واپس گھر کو لوٹ رہے تھے
تم نے مجھ کو سب سے چھپا کر ٹافی دی تھی
وہ شیرینی اور وہ لذت
ہربارش میں یاد آتی ہے

دوجی بارش
ساون کی بارش تھی
لیکن اب ہم دونوں بچے نہیں تھے
یاد ہے تم کو کتنے دن تک
روز مسلسل بارش ہوتی رہی تھی
یاد ہے تم نے کتنے شوق سے
آرڈر پر اِک ڈیک بنوایا تھا
اور جس کے
دیسی ’’بُوفر‘‘ کتنے اچھے تھے
اور وہ گانے
ہائے وہ اس دور کے گانے

’’ہم تم ہونگے بادل ہوگا
رقص میں سارا جنگل ہوگا‘‘
’’ایسے موسم میں چپ کیوں ہو؟
کانوں میں رَس گھولو
ہونٹ اگر خاموش ہیں سجنا
آنکھوں ہی سے بولو‘‘

اور کشور کا یاد ہے وہ؟
’’ر ِم جِھم گرے ساون‘‘

فُل آواز میں، تم ہروز لگا دیتی تھیں
اِن گانوں کے ساتھ ہماری
کتنی یادیں وابستہ ہیں
اُس ساون میں ہم دونوں نے
مل کر کتنے وعدے کیے تھے
مل کر کتنے مزے کیے تھے
روز سموسے منگواتے تھے
املی کی چٹنی تو آتے ہی تم
جھپٹ لیا کرتی تھیں اکثر
ہاں بس اُس ساون کی اِک بارش جو
ہربارش میں یاد آتی ہے
بُوندا باندی میں ہم دونوں
صحن میں بیٹھے بھیگ رہے تھے
اور اِک بات پہ جھگڑ رہے تھے
تم کہتی تھیں
’’جھوٹے روپ کے درشن میں‘‘
راجہ انور نے جو لکھا ہے
اُس کو پڑھ کر اب تم
ہرقیمت پر
جامعۂ پنجاب میں جاکر
ایم اے اردو لٹریچر میں
داخلہ لوگی
تم کہتی تھیں،
’’تم بھی آؤ‘‘
میں نے کہا تھا
’’میں مفلس ماں باپ کا بیٹا‘‘
شہر میں کیسے جاکر آگے پڑھ سکتاہوں؟
تم کہتی تھیں
’’تم کرلوگی‘‘
میں نے کہا تھا،
’’یہ مجھ کو منظور نہیں ہے‘‘
تم نے کہا تھا،
’’اچھا! مل جل کر، کرلینگے‘‘
یوں ہم بیٹھے جھگڑ رہے تھے
یکدم زور سے بادل گرجا
اور پھر یکدم برس پڑا تھا
تم پہلے سہمی، سمٹی تھیں
پھر یکلخت یونہی ہنس دی تھیں
افف ہم کتنے خوش تھے اُس دن
اور پھر
تم جب پوری بھیگ گئیں تو
لال دہکتاچہرہ لے کر
تیزی سے اندر کمرے میں بھاگ گئی تھیں

تیسری بارش
درد کی بارش
قاتل، ظالم، اندھی بارش
آپ چلے جانے والے تھے
اور میں آپ کے پاس کھڑا تھا
دروازے میں
اتنے دن کے حبس
نے جیسے دِل کی گردن
تھام رکھی تھی
پتہ پتہ دو بوندوں کو ترس رہا تھا
دو دن سے ہلکے ہلکے
بادل آتے تھے
اور چپ چپ چاپ چلے جاتے تھے
آپ وہیں قالین پہ بیٹھے
سر کو جھکائے
جیون کا سامان اکیلے باندھ رہے تھے
مجھ کو چھوڑ کے جانے والے تھے اور

پہلے میری آنکھوں سے دو بوندیں برسیں
پھر کچھ دیر میں بارش برسی
کھل کر برسی

ایسی برسی
ایسی برسی

کہ بس اُس کے بعد سے اب تک
میری آنکھیں برس رہی ہیں

عمر کے اِن سارے سالوں میں
تین ایسی برساتیں ہیں جو
ہر بارش پر یاد آتی ہیں

آج بھی کب سے
اب تک بارش برس رہی ہے
یہ جو بارش برس رہی ہے
یہ بارش بھی اپنی کچھ
پیچیدہ یادیں چھوڑ گئی ہے
یہ بارش بھی یاد رہیگی

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین