تم مرے دِل سے دُھواں بن کے نکل کیوں نہیں گئے؟

تم مرے دِل سے دُھواں بن کے نکل کیوں نہیں گئے؟

اتنی جو آگ لگی تھی تمہیں جل کیوں نہیں گئے؟

 

میں تو پروردۂ اوقات تھا، رہنا تھا مجھے

آپ تو وقت تھے پھر آپ ہی ٹل کیوں نہیں گئے؟

 

آج بھی اُتنی ہی شدت سے تمہیں چاہتا ہوں

وہ جو سُورج کی طرح خواب تھے ڈھل کیوں نہیں گئے؟

 

آگِرے ہیں نا پھِسل کر وہ ہمارے دل میں؟

ہم نے بروقت بتایا تھا،سنبھل کیوں نہیں گئے؟

 

مجھ حدف پر تو چلے آتے ہیں بے ساختہ تیر

تم کہ تھے ساختہ پرداختہ چل کیوں نہیں گئے؟

 

لوٹ آیا تو وہ اِک بات بہت پوچھتا تھا

اس قدر وقت ملا، آپ بدل کیوں نہیں گئے؟

 

میں نے تو دِل سے مٹائے ہیں سبھی نقش و نگار

آئینے! تیرے، یہ پیشانی کے بل کیوں نہیں گئے؟

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین