معاصر اردو نظم میں مہمل نگاری کا رجحان – ادریس آزاد

معاصر اردو نظم میں مہمل نگاری کا رجحان – ادریس آزاد

2 مئی 2017  (یہ مضمون "دلیل ” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دلیل کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)

ضروری ہے کہ پہلے ہم اہمال کا تعین کرلیں۔ اہمال اہلِ زبان میں ’’بغیر چرواہے کے چرتے ہوئے اونٹوں‘‘ کے لیے بولا جاتاہے۔ البتہ اصطلاحاً لفظ مہمل، بے معنی صوت یا علامت کے لیے بولا جاتا ہے۔ یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ ابہام، اہمال کا مترادف نہیں ہے۔ ابہام اور اہمال دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہرانسان میں پہیلیاں بوجھنے کا کسی نہ کسی درجہ کا شوق پایا جاتاہے کیونکہ جب کوئی شخص کوئی پہیلی بوجھ لیتاہے تو اسے ایک خاص قسم کا لطف حاصل ہوتاہے۔

اس لطف کو سقراط تذّکر کا نام دیتا ہے۔ ہماری آج کی گفتگو میں ابہام اور اہمال کو آپس میں مدغم کردینے جو اندیشہ موجود ہے اُسے دُور کرنے کے لیے میں مختارعلی خان پرتَو کی ایک نظم آپ کو سنانا چاہتاہوں۔ اس نظم میں شاعرنے جان بوجھ کر اصل بات کو واضح الفاظ میں نہیں لکھا۔ اُس اصل بات یعنی اُس ابہام کو ہمیں ایک پہیلی کے طور پر بوجھناہے۔ جونہی ہم پر پہیلی کھلے گی، ہمیں ایک خاص قسم کا لطف حاصل ہوگا۔ نظم پیش کرتاہوں،

نحیف چڑیا نزار چڑیا
حسیں چڑیا جمیل چڑیا
کسی شکاری کا گھاؤ کھا کرنہ جانے کب سے
سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مری نہیں تھی
زمیں سے اس کو اٹھا کے میں نے
قریب ہی اک درخت کی شاخ پر بٹھایا
کہیں سے چُلُّو میں پانی لا کر اسے پلایا
وہ سانس دینے کا اک طریقہ
کبھی جو بچپن میں مَیں نے سیکھا تھا آزمایا
تو چند لمحوں میں اس نحیف و نزار چڑیا نے سر اٹھایا
ابھی میں اپنی سیہ ہستی کی ننّھّی نیکی پہ آفریں تک نہ کہہ سکا تھا
کہ میں نے چڑیا کو جست بھرتے ہوا میں دیکھا
ہوا سے چڑیا جو واپس آئی
تو اس کی ننھی سی چونچ میں اک حسین تتلی دبی ہوئی تھی
حسین تتلی، جمیل تتلی
نحیف تتلی، نزار تتلی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مری نہیں تھی

اور جب اس نظم میں موجود یہ خوبصورت بات ہم پر کھلتی ہے کہ چڑیا جب واپس آئی تو وہ اپنی چونچ میں ایک زخمی تتلی کو اس لیے لے کر آئی کیونکہ وہ شاعر کو مسیحا کے رُوپ میں پہچان چکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ میرا مسیحا اس بیچاری ننھی تتلی کو بھی ٹھیک کردے گا۔ اب اگر کوئی شخص اس ابہام کافائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ معنیٰ برآمد کرے کہ شاعر نے جب چڑیا کی چونچ میں تتلی دبی ہوئی دیکھی تو اسےصدمے کا جھٹکالگا۔ اس نے تو چڑیا کے ساتھ ہمدردی کی تھی اور چڑیا کے کام دیکھو! بیچاری تتلی کو کھاجانا چاہتی ہے۔ یقیناً اس نظم کے شارحین کو اول الذّکر تشریح پر اتفاق ہوگا اور ثانی الذکر جو منظرنگاری کی رُو سے غلط بھی نہیں، کسی کو قبول نہ ہوگی۔ یہ تھی ایک اچھی نظم میں ابہام کی مثال، نہ کہ مہمل نگاری کی۔

ابہام میں لفظ اور معنی وجود رکھتے ہیں لیکن ان کے مابین ربط کا قرینہ مفقود ہوتاہے۔ جبکہ اہمال میں لفظ فقط ایک صوت ہے یا علامت۔ آج کے موضوع میں اہمال کےدونوں معانی کو بطورِ خاص اختیارکیا گیاہے یعنی ’’بغیر چرواہے کے چھوڑدیے جانے والے اونٹوں‘‘ کے معنی میں بھی اور اصطلاحاً استعمال ہونے والے معنی میں بھی۔ چنانچہ ہمیں پہلے قدم پر ہی مہمل نگاری کو دوبڑی شاخوں میں تقسیم کرناپڑجاتاہے۔ اور اس لیے ہم ابتدائیے کے طور پر لکھے گئے اس مضمون کے لیے اس اصطلاح یعنی ’’مہمل نگاری‘‘ کو متعین کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ فلہذا شاعری میں مہمل نگاری کی دوقسمیں شمار کی جانی چاہییں۔
۱۔ ایسی شاعری جوبہت سے مہمل لفظوں کا مجموعہ ہو، یعنی ایسے لفظوں کا جوفقط اصوات یاعلامتیں ہیں۔
۲۔ ایسی شاعری جس میں استعمال کیے گئے الفاظ بظاہر بامعنی ہوں لیکن انہیں بغیر چرواہے کے چھوڑدیاگیاہو یعنی فقط لفظوں کو آگے پیچھے جوڑکرنظم کی سطریں تراشی گئی ہوں نہ کہ کسی ابہام یا معنی کو مدنظر رکھ کر۔

اوّل الذّکر کی مثال یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کے بعض کھیلوں میں ایسی لوک نظمیں عام پائی جاتی ہیں جن کے الفاظ فقط اصوات ہوں۔ مثلاً اکڑم بکڑم بمبے بو وغیرہ۔ جبکہ ثانی الذکر بطورِ خاص ہمارے مذاکرے کا موضوع ہے۔ یعنی ایسی شاعری جس میں فقط الفاظ کو کمپوز کردیا گیاہے اور یہ عمل انجام دیتے وقت شاعر کے ذہن میں کوئی تخلیقی فریم موجود نہیں تھا۔

یہ بات مزید واضح کرنے کے لیے میں ایک کھیل کی مثال پیش کرناچاہوں گا۔

ایک کھیل کھیلا جاتاہے کہ میں، ایک شخص، ایک لفظ بولتا ہے۔ کوئی سا بھی۔ اور سننے والے کے ذہن میں جو لفظ سب سےپہلے آتاہے، کوئی سا بھی، وہ جواب میں فوراً بولتاہے۔ مثلاً اگر اسلم کہتاہے، شراب، تو سننے والا فورا ً کہہ سکتاہے شرابی، یا میخانہ، یا جام یا وہ کچھ اور بھی کہہ سکتاہے جس کا تعلق شراب سے ہو چاہے نہ ہو، غرض کچھ بھی جو اس کے ذہن میں آتاہے وہ کہہ دیتاہے۔ اس کا کہا ہوا لفظ پہلا شخص سنتاہے اور پھروہ تیزی سے کوئی اور لفظ کہہ دیتاہے جو مقابل کے لفظ سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہوبھی سکتاہے اور نہیں بھی۔ بعینہ یہی کھیل اگر ہم آزاد نظم کےدس شاعروں کو ایک دائرے میں بٹھا کر کھیلیں فقط اس شرط کے اضافے کےسا تھ آپ لوگوں نے فعول فعلن کی بحر میں ہی رہناہے۔ توپہلا شاعر یقیناً فعول کے وزن پر کوئی لفظ بولے گا۔ فرض کریں وہ بولتاہے، شراب۔ اب دوسرا شاعر جانتاہے کہ اسے فعلن کے وزن پر کوئی لفظ بولناہے، چنانچہ فرض کریں وہ کہہ دیتاہے، پی کر۔ اب تیسرا شاعر جانتاہے کہ اسے فعول کے وزن پر کوئی لفظ بولناہے فرض کریں وہ بولتاہے، قریب۔ اب چونکہ چوتھے شاعر کو معلوم ہے کہ اس نے فعلن کےوزن پر کوئی لفظ بولنا چنانچہ فرض کریں وہ کہہ دیتاہے، آجا۔ تو ان چاروں شاعروں تک پہنچ کر ہی، یہ مصرع وجود میں آجائے گا،

شراب پی کر قریب آجا

اگر یہ دس شاعروں کا دائرہ ہے اور انہیں یہی کھیل کھیلنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا گیاہے تو تصور کیا جاسکتاہے کہ وہ کتنی زیادہ آزاد نظمیں کہہ لیں گے۔ اس کے بعد فقط تراش خراش کا کام رہ جائے گاکہ ان سینکڑوں یا ہزاروں سطروں میں سے ایسی سطریں الگ کرلی جائیں جو ان نظموں کو ایک فن پارہ بنانے کی کسی حدتک قابل ہوں۔

اس کھیل میں کیا ضروری تھا؟ بحر سے آگہی۔ فعول اور فعلن کے وزن پر کوئی لفظ بغیر سوچے سمجھے نکالنا ایک ایسےشخص کا ہی کام تھا جو شاعرہوتا۔ اس کے علاوہ اس کھیل میں اچھی نظمیں حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ وہ شاعر تجربہ کار ہو۔ ان دس شعرا کا تجربہ جس قدر زیادہ ہوگا اتنی ہی اچھی آزاد نظمیں تخلیق ہوجائیں گی۔ چونکہ اس کھیل میں بحر کی پابندی تھی اس لیے جب ایک شاعر کوئی لفظ بولتا تھا تو اگلا شاعر بیک وقت دوکام سرانجام دیتاتھا۔ نمبرایک، بحر کا خیال رکھنا اور نمبردو پچھلے شاعر کے کہے ہوئے لفظ کے ساتھ کسی نہ کسی حدتک مطابقت پیدا کرتاہوا لفظ بولنا۔

شراب پی کر، قریب آجا، کباب کھاکر نماز پڑھ لے وغیرہ

لیکن اگر کسی بحر یا رکن کی پابندی نہ ہو یعنی وہ آزادنظم کے شعرأ نہ ہوں بلکہ نثری نظم کے شعرأہوں اور یہ کھیل کھیلا جائے تو ذہن میں آنے والےپہلے لفظ کو وزن کی طرف جانے والے دھیان کے ساتھ بدل دیا جائے گا۔ اب وزن کی طرف دھیان نہ جائے گا۔ اب فقط لفظ کے ساتھ مماثلت اور وہ بھی بلاسوچے سمجھے وارد ہوگی۔ مثلاً لفظ ’’ قلعہ‘‘ کہنے والے کے بعد والا شخص اگر متوجہ تھا تو اس کا ذہن لازمی طور پر کسی ایسی چیز کی طرف چلا جائے گا جو قلعے سے متعلق ہو۔ وہ بادشاہ کا لفظ کہہ سکتاہے یا محل، یا شاہی مسجد، یا کنیزوغیرہ وغیرہ اور اگر اس کا ذہن اور دھیان کسی اور طرف ہُوا، یعنی اس نے جان بوجھ کر یا نادانستہ اپنے سے پہلے والے شخص کے الفاظ کو نہ سنا تو وہ کوئی ایسا لفظ بولے گا جو بالکل ہی غیر متعلق ہو۔ لیکن کسی کسی وقت بے دھیانی میں ہی اس کے منہ سے ضرور ایسے الفاظ نکل جائینگے جو سنی کو ان سنی کرنے کے باوجود ان الفاظ کے ساتھ کوئی نہ کوئی معنوی یا تصوری رشتہ رکھتے ہونگے جو پہلے شخص نے بولے ہوں۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ سائنسی تحقیقات کے مطابق، اس کی وجہ ہے ہمارا لیفٹ برین۔

زمین پر چلنے والے ہر جاندار کے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک کو رائٹ برین اور دوسرے کو لیفٹ برین کہا جاتاہے۔ انسانوں میں اب تک کے کامیاب تجربات سےیہ معلوم کیا گیاہے کہ انسان کی ’’بولنے کی صلاحیت‘‘ لیفٹ برین کے فرنٹل لوب میں پائی جاتی ہے۔ جب کسی انسان کے لیفٹ برین کو لوکل اینستھیزیا کے ذریعے وقتی طور پر مفلوج کردیا جاتاہے تو وہ انسان بولی کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوجاتاہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گونگا ہوجاتاہے یا اس کی زبان کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ زبان کا ہلنا عضلات کے نظام کا حصہ ہے اس لیے لیفٹ برین کو مفلوج کرنے سے زبان مفلوج نہیں ہوتی، بلکہ انسان کی بولنے کی وہ صلاحیت جو دماغ میں پیش آتی ہے، وہ مفقود ہوجاتی ہے۔ یعنی انسان اپنی سوچ میں ہی بولنے کے عمل سے محروم ہوجاتاہے۔ یہ محض تھیوری نہیں۔ ایکسپری منٹل سائنس ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ کے رائٹ برین کو تخلیقی برین کہاگیاہے۔ رائٹ اورلیفٹ برین دونوں، بیک وقت انسانوں میں کام کرتےہیں لیکن کسی کسی انسان کا کوئی ایک حصہ دوسرے حصے سے زیادہ فعّال ہوسکتاہے۔ چنانچہ جن لوگوں کا رائٹ برین زیادہ فعّال ہوتاہے ان کی تخلیقی صلاحیت واضح ہوتی ہے جبکہ جن لوگوں کا لیفٹ برین زیادہ کام کرتا ہے ان کی ریاضیاتی نوعیت کی مہارتیں زیادہ واضح ہوتی ہیں۔ مکرر عرض کرتاہوں کہ دونوں طرح کے لوگ دونوں طرح کے کام انجام دے سکتے ہیں لیکن کوئی کسی ایک طرح کے کام میں قدرے زیادہ نمایاں بھی ہوسکتاہے۔ اب شاعری چونکہ تخلیق کاروں کا پیشہ ہے اور تخلیقی عمل رائٹ برین میں پیش آتاہے جبکہ بولی اور محض بولی یا روز مرہ کی بولی فقط لیفٹ برین میں پیدا ہوتی ہے اس لیے اگرکسی تخلیق کار کے رائٹ برین کو اینستھیزیا کے ذریعے مفلوج کردیا جائےگا تواس کی تخلیقی صلاحیت فنا ہوجائے گی لیکن وہ بول سکے گا۔ چنانچہ مہمل نگاری کے وقت جب ہم خاص تخلیقی عمل سے نہیں گزرتے بلکہ فقط لفظوں کے ساتھ لفظ جوڑتے چلے جاتے ہیں تو ہم صرف لیفٹ برین کی سرگرمی پیش کررہے ہوتے ہیں۔ جو کوئی تخلیقی سرگرمی نہیں ہوتی بلکہ کمپوزیشن ہوتی ہے کیونکہ ریاضی کا سارا نظام لیفٹ برین کنٹرول کرتاہے۔

شدید فالج اور تشنج کے مریضوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ عموماً چند الفاظ یا بعض مریض چند جملوں کو بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ ایسے الفاظ یقیناً مہمل ہوتے ہیں لیکن سننے والے ہمیشہ ان میں سے معنی نکالنے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ایک واقعہ جو میرے گھر کا ہے وہ یہ ہے کہ میری دادی صاحبہ نے فالج کے بعد پانچ چھ سال تک ایک ہی جملہ ہمیشہ بولا،

علیک یُنھا ولمنھا لک یُنھا

ایک مذہبی اور عربی سے وابستہ گھرانہ ہونے کے ناطے ہمارے تمام گھروالے اس جملے کو عرصہ تک سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، فقط یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید یہ کوئی الہامی جملہ ہے۔ حالانکہ ہوا فقط یہ تھا کہ دادی صاحبہ کے برین کی کوئی مخصوص لوب فالج کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔ چونکہ تخلیقی سرگرمی رائٹ برین کی سرگرمی ہے اس لیے اگر لیفٹ برین کچھ بھی بولتا رہے چاہےبامعنی بھی بولتا رہے تو وہ اس وقت تک تخلیق نہ ہوگا جب تک تخلیق کار پر اس کی تخلیق وارد نہ ہورہی ہو۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے میں ایک مثال آرکیالوجی سےپیش کرتاہوں۔

ماہرین لسانیات اور آرکیالوجسٹس مل کر اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اوّل اوّل کے انسانی ذہن نے تخلیق کا عمل کیسے شروع کیا ہوگا۔ لاکھوں سال پہلے جب انسان ابھی ننگا تھا اور ابتدائی سطح کی زبان جو لیفٹ برین کے فرنٹل لوب کا کارنامہ تھی وجود میں آرہی تھی تو اس وقت کسی نے اگر کوئی تخلیقی عمل کیاتو سب سے پہلے کون سا عمل کیا؟ یعنی کون سا ایسا عمل جس کے ثبوت آج ہمارے پاس موجود ہیں۔ کہا جاتاہے کہ جب وہ لوگ، بادلوں کودیکھتے تھے تو ان میں سے وہ جن کا رائٹ برین زیادہ فعّال ہوتا تھاان کے دماغ بادلوں میں مختلف شکلوں کو دیکھ لیتے، جیسا کہ مثلا دوڑتاہوا گھوڑا دیکھ لینا یا بیل یا کوئی شیر چیتا وغیرہ۔ پامسٹری کے بارہ برج آج بھی ہرایک کو ویسے نظرنہیں آتے جیسی تصویریں ان کی ہم دیکھتے ہیں۔ مثلاً عقرب سب لوگوں کو بچھو کی طرح نظر نہیں آتا اور نہ ہی اسد وغیرہ۔ سو جب لاکھوں سال پہلے وہ غاروں کی دیواروں پر پیٹرن دیکھتے تو ان میں سے جو رائٹ برین یعنی تخلیقی صلاحیتوں کے قدرتی طور پر حامل لوگ ہوتے وہ دیواروں کے پیٹرنوں میں بھی جانوروں کی شبہییں دیکھ لیتے تھے۔ اور پھر اُٹھ کر کسی نوکدار پتھر سے اسی جگہ ویسی ہی شبیہ کھود دیتے تھے۔ آج غاروں کے دور کی مصوری کو دیکھ کر پورے یقین کے ساتھ کہا جاتاہے کہ وہ جس جانور کی شبیہ بنائی گئی، پیچھے دیوار میں اس جانور کی شبیہ بنانے کے لیےپہلے سےموجود پیٹرن میں گنجائش تھی۔ ایسی ہی ہزاروں تصویروں کو دیکھنے کے بعد یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اوّلین دور کے تخلیق کار وہی غاروں میں تصویریں بنانے والے ننگے مصور ہی ہوا کرتےتھے۔ چنانچہ نظریہ ارتقأ کی رُو سے بھی ہر انسان تخلیق کار نہیں تھا۔ بلکہ فقط وہ لوگ تخلیق کار تھے جنہیں پیٹرن نظر آتے تھے اور جو باقی تھے یعنی جن کا فقط لیفٹ برین زیادہ فعال تھا انہیں اُسی دیوار میں کوئی پیٹرن نظرہی نہ آتا تھا۔ اس لیے وہ اُٹھ کر تصویر بھی نہ بنا سکتے تھے۔

اب ذرا ہم اِسی نکتے کو معروف ادبی مباحث کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ادب میں ہمیشہ دو دبستان رہے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو یہ مانتے ہیں کہ شاعری الہامی چیز ہے اور دوسرے وہ جو یہ مانتے ہیں کہ شاعری فقط کرافٹ ہے۔ ان کے ساتھ ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو یہ مانتاہے کہ شاعری کرافٹ بھی ہے اور الہام بھی۔ اوپر دی گئی آرکیالوجی کی مثال سے ثابت ہورہاہے کہ کسی پیٹرن میں کسی جانور کی شبیہ دیکھ لینا یقیناً الہام ہے۔ بادلوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو بارہ عدد گھوڑوں کو دستہ نظر آجائے یا جہاز نظر آجائے اور مجھے کچھ بھی نظر نہ آئے تو یہ یقیناً آپ کا ننھا سا الہام ہے جبکہ میں اس الہام سے محروم رہا۔ خیر! تو بنیادی طور پر دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو مکمل طور پر کرافٹ مانتے ہیں اور ہمارے ہاں یہاں اسلام آباد میں اخترعثمان اس نظریہ کے پرجوش طریقے پر قائل ہیں کہ شاعری فقط کرافٹ ہے۔ یہیں سے دلچسپ ترین سوال جنم لیتاہے۔ کرافٹ کا تعلق یقیناً تجربے کے ساتھ ہے اور تجربے کا تعلق یقیناً بہت زیادہ مشق کے ساتھ جبکہ بہت زیادہ مشق محنت کے بغیر بالکل بھی ممکن نہیں۔

مجھے ایک بزرگ شاعر نےمشورہ دیا کہ شاعری پر محنت کریں، اسے زیادہ وقت دیں، اس سے محبت کریں، خون پسینہ خرچ کریں۔ جب تک اپنا خون جگر صرف نہ کریں گے شاعری نہ کرپائیں گے۔ گویا کہ اقبال کے الفاظ میں وہ مجھ سے کہہ رہے تھے،

نقش ہے سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون ِ جگر کے بغیر

بے شک بہت اچھا مشورہ ہے۔ اور میں ایسا ہی سمجھتا ہوں کہ جب تک اس مشورے پر عمل نہ کیا جائے گا اچھی شاعری تخلیق نہیں ہوسکتی لیکن ایک سوال پیدا ہوجاتاہے کہ اگر ایسا کیا جائے یعنی محنت کی جائے، وقت صرف کیا جائے پھر تو شاعری اعلیٰ پائے کے ابہام سمیت نہایت عمدہ معانی کے سلسلہ میں جڑ کر نمودار ہوگی۔ کیونکہ محنت اور خون ِ جگرسے تو ایسا ہونا لازم ہے۔ ہاں اگر میں بالکل توجہ نہ دوں اور بلاسوچے سمجھے الفاظ کو آگے پیچھے جوڑدوں تو پھر یقیناً بے معنی شاعری نمودار ہوگی۔ یادرہے کہ مضمون کے آغاز میں اصطلاحات کے تعین کے وقت ہم نے ابہام کے بارے میں جان لیا تھاکہ،۔ ابہام میں لفظ اور معنی وجود رکھتے ہیں لیکن ان کے مابین ربط کا قرینہ مفقود ہوتاہے۔

اب ایک بات واضح ہوگئی ہے۔ کرافٹ سے کام لیا گیا تو منطقی طورپر ممکن ہی نہیں کہ شاعر تخلیق کے عمل سے گزرتے وقت تین چیزوں میں سے کسی ایک کو بطور پیغام اپنے فن پارے میں پیش نہ کر رہا ہو۔

یا معنی کی ترسیل
یا کسی کیفیت ِ احساس کی ترسیل
یا فقط نغمگی کی ترسیل

یاد رہے کہ کرافٹ کی صورت میں ان تینوں میں سے کسی ایک چیز کا ہونا لازمی ہوجاتاہے۔ چنانچہ یہ نظریہ کہ شاعری کرافٹ ہے اورصرف کرافٹ ہے کچھ مزید لازمی استخراجی نتائج کا حامل ہوکر سامنے آتاہے۔ جن میں سب سے اہم یہ نتیجہ ہے کہ اگر شاعری فقط کرافٹ ہے تو غزل اور آزاد نظم کو چھوڑ کر کرافٹ کی حالت بطور کرافٹ صفر رہ جائےگی، اگر اُسے معنی سے محروم کردیا گیا تو؟ یعنی اگر نثری نظم کو بھی مہمل نگاری کے سپرد کردیا گیا تو وہ کوئی نظم نہ ہوگی، یہاں تک کہ خود صنفِ مہمل نگاری کی رُو سے بھی وہ کوئی نظم نہ ہوگی۔ یاد رہے کہ مہمل نگاری کوئی نئی صنف نہیں اور یہ کہ امیر خسرو کے ہاں مہمل نگاری کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

اس مقام پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو نثری نظم کا مہمل ہونا سمجھا جا رہا ہے وہ دراصل ابہام گوئی ہے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ابہام میں لفظ اور معنی وجود رکھتے ہیں لیکن ان کے مابین ربط کا قرینہ مفقود ہوتاہے۔ جس نثری نظم میں ابہام موجود ہوگا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ابہام آخرالامر کھل جانے کا اہل بھی ہو۔ ابہام ہو تو بالآخر اس کے لیے کھل جانا ضروری ہے۔ یعنی اُس نظم میں موجودشاعری کے تمام شارحین کو ایک بنیادی معنی پر اتفاق ہوسکے۔ اپنےوقت میں تو کسی نےغالب کی شاعری کو بھی بھینس کا انڈہ کہہ دیا تھا لیکن آج تمام شارحین غالب کے مشکل سے مشکل شعر کے معنی پر تقریباً متفق ہیں کیونکہ غالب کا ابہام کسی دلچسپ پہیلی کی طرح کھلتا اور اپنے قاری کو سرشار کردیتاہے۔ لیکن ایسی نثر جسے نظم کہا گیا ہو اور اس کے ابہام کے معانی شارحین کے لیے مختلف ہوں۔ کسی بھی لحاظ سے شاعری کہلانے کی اہل نہیں۔ کیونکہ ابہام شاعر نے دانستہ پیدا کیا ہوتاہے اور اگر شاعر نے ابہام دانستہ پیدا کیا ہے تو اس کی پہیلی کا جواب ایک ہی ہونا چاہیے۔ ممکن ہے اس کی کئی پرتیں ہوں۔ ممکن ہے اس کی بعض پرتیں خود شاعر کو بھی معلوم نہ ہوں لیکن ایسی صورت میں شاعر اُن باقی کی پرتوں کی تخلیقی ملکیت کا دعوے دار نہیں ہوسکتا۔ وہ قاری کی تخلیق سمجھی جائےگی کیونکہ اسے قاری کے رائٹ برین نے بادلوں کی ٹکڑی میں موجود شبیہوں جیسا جانا نہ کہ شاعر نے۔

اس کی ایک پڑتال بھی ہے۔ جو عین ریاضیاتی ہے۔ آپ ایک شخص کو نظم سنائیں۔ سو فرض کریں کہ اگر کسی کو اس بات کا قائل کرلیا جائے کہ ہاں واقعی بے معنی نظمیں لکھی جارہی ہیں تو وہ شخص دہری مصیبت میں مبتلا ہوجائےگا۔ کیونکہ اگر کسی معروف اور قدر آور شخصیت کی کوئی نظم اسے سنائی جائے اور شاعر کا نام نہ بتایا جائے تو وہ عین ممکن ہے نظم کو بےمعنی نظموں کی فہرست میں شمار کرے اور اگر کسی عام شہری کی نثری نظم کسی بڑے شاعر کا نام لے کر سنادی جائےتو زیادہ امکان ہے کہ وہ اس میں سے معنی نکالناشروع کردے۔ مثلاً اس نظم کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں کیا خیال آسکتا ہے؟
کون جانے
کھوکھلے سمندر کی تہہ میں کتنا سونا ہے اور کتنی ریت
کسے معلوم
رتیں بے انتہا طویل ہو گئی ہیں
بلا کسی جواز کے
موسم کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے
درخت اونچی آواز میں بین کرتے ہیں
زمیں کی سانسیں ہچکیوں میں بدل چکی ہیں
صور کب پھونکا جائے گا
جب آخری پتہ زرد ہو چکا ہوگا
اور آخری آنکھ سرد ہو جائے گی
ہم کس شمار میں ہیں
لکھنے والے کب کے لکھ کر جاچکے
آسمان کی سرخی کی آواز سنو
کیا تمہیں اب بھی کچھ نظر نہیں آیا
یعنی یہ درست ہے کہ تم مر چکے ہو

اب اگر کسی قاری کو یہ نظم شاعر کا نام لیے بغیر سنائی جائے تو وہ کیسے کیسے قیافے قائم کر سکتا ہے ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے۔

ابہام گوئی کو شاعری کا حسن سمجھا جاتاہے لیکن ابہام گوئی قطعی طورپر مختلف چیز ہے۔ ابہام پیدا کرتے وقت شاعر خود معنی سےواقف ہوتاہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ خود واقف نہ ہو اور اپنے کلام میں موجود ابہام کو ابہام کہنے کا دعویٰ کرسکے۔ شاعری کا ابہام تب ہی ابہام ہے جب تک وہ کھل جانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اگر وہ کبھی بھی نہیں کھل سکتا تو وہ ابہام نہیں مہمل نگاری ہے۔ چنانچہ جہاں تک نثری نظم کے کرافٹ کی بات ہے۔ یہ مؤقف کہ شاعری فقط کرافٹ ہے لازمی طور پر اس بات کا متقاضی ہے کہ بطن شاعر میں ہی سہی، ابہام کی صورت ہی سہی، شاعر معانی کے ایک سلسلہ کو ضرور مدنظر رکھے گا۔ کچھ ایسے الفاظ یا تمثالیں لائے گا جو معنی نہ سہی تو کسی کیفیتِ احساس کو ہی ایک لڑی میں پرودیں۔ ساری نظم مجموعی طور پر غمزدہ ہی کردے یا چلو خوش ہی کردے وغیرہ۔ ورنہ وہ کرافٹ کیسی کرافٹ ہوگی؟ کوئی دوسرا ٓپشن ہی نہیں۔ وہ فقط نثری نظم ہوئی تو پھر کرافٹ بھی نہ کہلا سکے گی کیونکہ نغمگی کو تو پہلے ہی چلتا کردیا۔ پیچھے بچ گئی تھیں دوچیزیں، یعنی معنی کی ترسیل اور اگر معنی کی ترسیل بھی نہیں ہوسکی تو کسی کیفیتِ احساس کی ترسیل۔ اور اگر تینوں مفقود ہیں تو ایسی نظم کوئی نظم نہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے چارعدد مختصر کہانیاں لکھیں۔ احمد حسن رانجھا کی عادت ہے کہ وہ کہانی بھی توڑ توڑ کر علحیدہ علحیدہ جملوں کی صورت لکھ دیتے ہیں۔ نذیر ناجی کو یہ کہانیاں پسند آئیں انہوں نے کہانیوں کو نثری نظمیں سمجھ کر اپنے کالم میں چھاپ دیا اور عنوان دیا، ’’افسانہ، حقیقت اور چند نثری نظمیں‘‘۔

اس مقام پر پہنچ کر مہمل نگاروں کو ایک اور پتلی گلی نظر آسکتی ہے جس کا نام ہے تمثال کاری۔ جدید اردو نظم میں تمثال کاری کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ تمثال کاری کیا ہے؟ جب شاعر کوئی نیا تصور متعارف کرواتاہے تو ہم کہتے ہیں شاعر نے تمثال کاری سے کام لیا۔ نیا تصور متعارف کروانا کیسے ممکن ہے؟ مثال کے طور پر ایک تصور ہے کہ دریا زمین پر بہتاہے۔ ہم جب دریا کا ذکر سنتے ہیں تو لازمی طور پر ہمارے دماغ میں زمین پر بہتا ہوا پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ آجاتاہے۔ یہ ہے وہ تصور جو پہلے سے ہمارے ذہن میں موجود ہے۔ یہ آل ریڈی تشکیل شدہ تصور ہے۔ اگر کوئی شاعر کہہ دے کہ دریا آسمان میں اُڑتاہے تو ہم کہیں گے کہ یہ وہ نیا تصور ہے جو پہلے سے موجود نہیں تھا چنانچہ یہ شاعر اپنی نظم میں ایک نئی بصری تمثال لایا۔ تمثال کاری کوئی برائی نہیں بلکہ خوبی ہے لیکن تمثال کاری واحد میدان ہے جس کے کوئی اصول نہیں ہیں۔ ہم کسی بھی تصور کو نیا کرسکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دائرہ ہمیشہ گول ہوتاہے اور مربع ہمیشہ چوکورہوتاہے۔ سو جب بھی کوئی شخص دائرہ یا مربع کا لفظ بولتاہے ہمارے ذہنوں میں فوری طورپر پہلا تصورہی وہی آتاہے جو دائرے اور مربعے کے ساتھ پکا جُڑاہوا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنے شعر میں ’’چوکوردائرے‘‘ یا ’’ گول مربعے‘‘ کی تمثال لائے گا تو ہم اسے تمثال کار تسلیم کریں گے۔ لیکن کوئی اصول نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہمیشہ اس وقت بھی تمثال کاری کی پتلی گلی میں پناہ لینے پر مجبور ہونگے جب ہم سے فی الاصل مہمل نگاری سرزد ہوئی۔

مثلاً نصیر ناصر ایک اچھے تمثال کار ہیں۔ وہ اپنی ایک نظم میں ایک بصری وحسّی تمثال لاتے ہیں کہ’’دیوار پر لٹکتی، گھڑی کی سُوئیاں مجھے سانپ بن کر دیکھ رہی تھیں اور ان کی سُرخ سُرخ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔ اب ہم اس ابہام کو کھول سکتے ہیں۔ ہمیں اس میں شاعر کے زمانی کرب کا اندازہ ہورہاہے۔ اس نے ایک کیفیتِ احساس ہم تک منتقل کی ہے نہ کہ معنی۔ ایسی صورت میں وہی کلیہ کام آئے گاکہ متعدد شارحین بالآخر ایک بنیادی مفہوم یا کیفیت ِ احساس پر کسی حد تک اتفاق کرتے ہوئے نظر آئیں گے مثلاً شاعر کے زمانی کرب پر۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا جب نصیر ناصر کی نظم میں پیش کی گئی کسی تمثال کو ہم سب الگ الگ، اپنے اپنے طور پر سمجھ رہے ہوں اور جب شاعر سے پوچھا جائے تو وہ تجریدی مصور کی طرح کہے کہ مجھے خود معلوم نہیں میں نے کیا لکھا؟ آپ اس میں سے جو چاہیں نکال لیں۔ معنی یا کیفیت، کچھ بھی۔ مثلاً نصیر ناصر کی یہ تمثال کیا ہے؟

خواب ہماری گلیوں کے گندے پانی پر
مچھر مار دوائیں ہیں

یا

جب خاموشی کے جنگل میں
آوازیں کتوں کی طرح پیچھا کرتی ہیں
اور خارشتی مریل تنہائی
شاموں کے اُتھلے تالابوں میں
خوابوں کے بچے جنتی ہے
تب سُورج کی شاخوں پر
بیٹھے کوّے اُڑجاتے ہیں

یا ہم جناب علی محمد فرشی کی مشہورنظم علینہ کے بعض اقتباسات کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟ یا ہم فرشی صاحب کی ہی نثری نظموں میں سے بعض کو سمجھنے یا اس سے کوئی کیفیت اخذ کرنے کے لیے کس کس کی گواہی مانگتے پھریں گے؟ مثلاً

چالاک عورت
سو لومڑیوں کی ماں ہوتی ہے
لیکن ہمیشہ کنواری دکھائی دیتی ہے

عین ممکن ہے سفید ریش حاجی خان
کالے دھندے میں ملوث ہو

ٹی وی مباحثے میں
مقدس آیات کوٹ کرنے والے نے
مصنوعی داڑھی لگا رکھی ہو

ہر دل عزیز پروفیسر کے گرد جمگھٹا
اُن طالبات کا ہو
جنھیں وہ ہیروئن سپلائی کرتا ہے

دس ہزار میں شبینہ گرل واقعی مہنگی لگتی ہے
لیکن دس لاکھ میں
پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھ دینے والا پروفیسر
کتنا سستا ہے

حقوقِ نسواں کی علم بردار
میڈیا کے سامنے
حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے تو
کیمروں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں
اُس کی للکار سے
بالائی ایوانوں کی دیواریں لرزنے لگتی ہیں
لڑکھڑاتے حاکموں کو سہارتی
ایک رات کی دلہنیں
فراہم کرنے والی میڈم کی چیخ پکار میں
کنواری ماؤں کا درد کیسے شامل ہو سکتا ہے؟

اسی طرح آفتاب اقبال شمیم کی بہت سی نظمیں، یا روش ندیم کی ’’ٹشو پیپر پر لکھی گئی بہت سی نظمیں‘‘ یا جدید ٹرینڈ کی تقلید کرتی ہوئی بے شمار ابلیکائیں، فلیکائیں وغیرہ۔ غرض معاصر نظموں میں ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو مہمل نگاری کے اُصولوں پر تو پوری اترتی ہیں لیکن ابہام گوئی سے کوسوں دور ہیں۔

ان بزرگوں کے ہوتے ہوئے نوجوان نظم گو شعرأ کو جو تحریک مل رہی ہے اس میں کراچی سے سدرہ عمران اس کی بہترین مثال ہے، لاہور، اسلام آباد اور بیرون ملک میں ہرجگہ اب مہمل نگاری کو رواج مل رہاہے۔ مہمل نگاری بُری نہیں۔ مہمل نگاری خود ایک فن ہے۔ مہمل نگاری امیر خسرو نے کی۔ مہمل نگاری ہماری کلچرل نظموں کا بنیادی خاصہ ہے۔ مہمل نگاری میں غزلیں تک لکھی گئی ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے انہیں مہمل نگاری تسلیم کیا جائے تب ہی ان فن پاروں کو کوئی اہمیت دی جاسکتی ہے۔

یہی وہ قضیہ ہے جو بنیادی طور پر اصولاً آج زیربحث لایا جانا چاہیے۔ ابہام میں لفظ اور معنی ساتھ موجود ہیں اور ہمیں تلاش کرناہے تو وہ قرینہ جو ان کے درمیان ربط پیدا کرسکے۔ مہمل نگاری اس کیفیت سے یقیناً محروم ہے۔ مہمل نگار ی سے بھرپور نثری نظم کی تفہیم اگر ہرکسی کے لیے مختلف ہے تو یہ کسی حدتک آسمانی صحائف والی بات ہوجاتی ہے۔ آسمانی صحائف جو معروف مہابیانیے ہیں ان کے بارے میں بھی جدید لسانیات کا یہی رویہ ہے کہ ان کے معانی ردتشکیل کے عمل سے گزارے جائیں تو ہرآیت ہی متشابہہ آیت کے درجے پر موجود ہے اور کوئی آیت محکم آیت کہلانےکی اہل نہیں ہے۔ تو کیا ہم یہ کہہ دیں کہ معاصر اردو نظم آسمانی صحائف جیسی کوئی چیز ہے؟

سچ تو یہ ہےکہ مہا بیانیہ ختم کرنے کے پوسٹ ماڈرن جہاد کے پیچھے مخالف مذہبی قوتیں کارفرما ہیں۔ ان کے پاس اگر کوئی راستہ ہے تو وہ فقط یہی ہے کہ کسی بھی بیانیے کی حتمیت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا کردیا جائے۔ اگر ایسا کردیا جائے تو ہرقسم کا مقبول اورمعروف مہابیانیہ ساتھ ہی خود بخود اپنی موت مرجائےگا۔ اگر یہ مشہور کردیاجائے کہ آسمانی صحائف مبہم بیانات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ اور اِن کا ابہام کسی بھی قسم کی تشریح کے ذریعے دُور کیا جاسکتاہے اور چونکہ تمام تشریحات برابر درست ہونے کے امکانات ہوسکتے ہیں اس لیے ہرآسمانی صحفیہ فی الاصل معنویت سے عاری ہوتاہے۔ اور اس طرح معروف مہابیانیے جیسا کہ قرانِ کریم وغیرہ کا بھی خود بخود ابطال ہوجاتاہے۔

معلوم ہوتاہے پوسٹ ماڈرنزم کی ساری جنگ ہی نیوکرٹیسزم (New Criticism) کے ساتھ ہے۔ بالفاظِ دگر سٹرکچر کے ساتھ۔ کیونکہ یہ سٹرکچر ہی تھا جس نے شاعری سے لے کر ہر بیان کی عمارت کو صدیوں تک قائم رکھا۔ مثلاً اگر ہم سٹرکچر کی اہمیت کو تسلیم کرتے رہیں گے تو کیا ہوگا کہ ابہام گوئی کی گنجائش کم جبکہ مہمل نگاری کی گنجائش بالکل ہی ختم ہوجائے گی۔ ایک کمپوزر کیا کرتاہے۔ وہ مختلف نوڈز کو ایک دوسرے کے بعد متصل یا منفصل ترتیب دیتاہے۔ یہ ایک زمانی ترتیب ہوتی ہےجس کی اساس ہی سلسلہ ٔعلت و معلول پر ہے۔ کمپوزرفقط حروف کا بھی ہوسکتاہے۔ پرانے زمانے کےپرنٹنگ پریس میں یہی کمپوزر ہوا کرتے تھے جو لوہے کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے حروف کو قطاروں کی صورت جوڑتے توجملے وجود میں آتے۔ یہ لوہے کے حروف لکڑی کے ایک بلاک پر نصب ہوتے تھے۔ کام ختم ہونے کے بعد یہ سب حروف بلاک کے چھوٹے چھوٹے خانوں سے نکال کر ایک ڈبے میں رکھ دیے جاتے۔ اُس ڈبے میں ان حروف کی مختلف قطاریں تو ہوتی تھیں لیکن کوئی ترتیب نہ ہوتی تھی۔ ایسے ہی حروف، اگر مُٹھی میں بھر کر کسی میز کی سطح پر بکھیر دیے جائیں تو کیا ہوگا کہ کئی مہمل لفظ ایک ساتھ وجود میں آجائیں گے۔ یہاں ہوا کیا ہے؟ یعنی جب ہم نے میز کی سطح پر مٹھی بھر حروف پھینکے تو کیا ہوا ہے؟ یہاں سٹرکچر فناہوا ہے۔ یہاں سٹرکچر کو توڑ دیا گیاہے۔ جب تخلیق میں سٹرکچر کو توڑکرنئے امیجز نکالنا مقصود ہو تو یہی ہوتاہے۔ تمام حروف و الفاظ کو بے ترتیبی کے ساتھ پھینکنا ہوتاہے۔ جیسے تجریدی پینٹنگ کا مصور اپنے برش پر مختلف رنگ اُٹھائے اور بلاسوچے سمجھے کینوس پر دے مارے۔

تمثال کاری کا سچ تو یہی ہے کہ اسی عمل کو جدید نظم میں تمثال کاری کے نام سے یاد کیا جانے لگا ہے۔ یہ دریدا کے ڈفرانس سے برآمد ہونے والی وہ تعطیلِ معانی ہے جس کا دوسرا سرا پڑھنے یا سننے والے کے منطقی فہم کے ساتھ جڑاہے۔ کوئی بھی بیان ہو۔ اس کے معانی اس کی ساخت یا سٹرکچر مقرر نہیں کرتے۔ نہ ہی لکھنے والا متعین کرتاہے۔ ہر ذہن کو آزادی ہے کہ وہ جو اخذ کرے، وہی اس کا معانی ہے۔ کبھی کبھی تو لگنے لگتاہے کہ جیسے کسی مخصوص مہابیانیے کی موت کا سامان کرنے کے لیے یہ سارا جھمیلا رچایاگیاہے۔ یقیناً وہ بیانیہ مذہب کا ہی ہوسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس قسم کے مذاکرے یا مباحث کا اہتمام کیا جاتاہے تو بحث یکلخت جن دو فریقین میں تقسیم ہوجاتی ہے ان میں سے ایک پروگریسو اور مخالف مذہبی ذہن کے حامل ہوتے جبکہ دوسرے عام اصطلاح کے مطابق رائٹسٹ ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جب بھی معانی کی اور بے معنویت کی جنگ چھڑے، ایسا ہی کیوں ہوتاہے کہ مخالف مذہبی ذہن بے معنویت کے حق میں جبکہ موافق مذہبی ذہن معنویت کے حق میں چل پڑتاہے؟ یہ ایک سوال نہیں، ایک المیہ ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب سمجھ لیا جائے کہ بات شعروادب کی نہیں اپنے اپنے عقائد و نظریات کی ہے؟

معاصر نظم میں ابہام گوئی، تمثال کاری، تصویر کاری، ردتشکیل، ردِ کلیشہ وغیرہ کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ہم ابہام گوئی کی جگہ مہمل نگاری تو نہیں کر رہے؟ گاؤں کی مائیاں جب گوبر کے اُپلے دیوار پر چپکاتی اور پھر اُتاردیتی ہیں تو پیچھے دیوار پر کئی قسم کے پیٹرن وجود میں آجاتے ہیں۔ ساحل پر کھیلتی مرغابیاں جب اُڑجاتی ہیں تو پیچھے زمین پر کتنے ہی دلکش نقش و نگار وجود میں آجاتے ہیں۔ چھوٹے بچے جب آپس میں کھیل رہے ہوتے ہیں تو وہ کئی مرتبہ نہ صرف نئے نئے الفاظ تخلیق کرلیتے ہیں بلکہ پوری پوری نظمیں گھڑ لیتے ہیں۔ یہ سارا کچھ قدرتی تخلیقی عمل تو ہوسکتاہے شعوری تخلیقی عمل نہیں ہے۔ اگر یہ تخلیقی عمل ہے تو پھر جدید نثری نظم میں پائی جانے والی مہمل نگاری بھی تخلیق ہے۔ بہرحال وہ ایک قسم کی قدرتی تخلیق تو پھر بھی ہے۔

یہاں ایک بات ضرورتسلیم کرنی چاہیے کہ جدید نظم کی مہمل نگاری یقیناً فقط بےمعنویت ہے نہ کہ لایعنیت۔ الفاظ کی ایک خوبصورت کمپوزیشن بے معنی تو ہوسکتی ہے لیکن عموماً لایعنی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس میں تین چیزوں میں سے کوئی ایک ضرور موجود ہوتی ہے۔

۱۔ معنی کی ترسیل
۲۔ کسی کیفیت ِ احساس کی ترسیل
۳۔ فقط نغمگی کی ترسیل

اب اکڑم بکڑم بمبے بو میں فقط نغمگی کی ترسیل ہو رہی ہے۔ لیکن فیض کی ان سطروں میں نغمگی کے ساتھ ساتھ کیفیتِ احساس کی بھی ترسیل ہورہی ہے،

یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو تجھ سے مجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں میں لاکھ مشعل بکف ستاروں کے قافلے گر کے کھوگئے ہیں
ہزار مہتاب اِس کے سائے میں اپنا سب نُور رو گئے ہیں
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں اور تیرے گیسوؤں میں الجھ کے گلنار ہوگئے ہیں

خیر! آگے چل کر یہ نظم پھر بھی معنی کا ایک سلسلہ مرتب کرنے لگ جاتی ہے لیکن یہ جو کچھ شروع میں فیض نے کیا، کیا یہ فقط نشے کی بدولت نہیں؟ کیا یہ فقط لفظوں کو لفظوں کے ساتھ ایک خاص حسین وجمیل ترتیب میں جوڑ نہیں دیا گیا؟ کیا یہ بہت زیادہ تجربے کی وجہ سے ہونا ممکن نہیں ہوا؟کیا کوئی ان سطروں سے کسی بھی قسم کا معنی اخذ کرسکتاہے؟اور اگر کر سکتاہے تو کیا اس کی تشریح کے ساتھ کسی اور کی تشریح کو اتفاق ہوسکتاہے؟ اور پھر اگر کوئی معنی نکالے بغیر بھی یہ خوبصورت ہے اور سننے میں اور گانے میں اور پڑھنے میں مزہ دیتاہے تو پھر اِس نظم کے ابتدایے میں اور ’’اکڑم بکڑم بمبے بو‘‘ کی بے معنویت میں کتنا کچھ فرق ہوگا؟ کوئی فرق نہیں۔ دونوں بے معنی ہیں لیکن دونوں لایعنی نہیں ہیں۔ فیض کی سطروں میں بھی نغمگی اورکیفیتِ احساس موجود ہے۔ دونوں خوبصورت تو ہیں لیکن دونوں ہیں کیا؟ کیا یہ موسیقی کی کوئی بے سُر قِسم کی قسم ہے؟ کیا یہ ریاضی کا کوئی کھیل ہے؟ کیا یہ گیٹار کی تاروں سے کی گئی چھیڑ چھاڑ ہے؟اور پھر ہمارے بعض بزرگ شعرأ بھی ظاہر ہے اصرار کرینگے کہ یہ واقعی شاعری ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شاعری ہے لیکن پھر کیا واقعی فقط کیفیات کا اظہارمقصود ہے چاہےجیسے بھی ہو۔ اگر یہ بات ہے تو میں پورے یقین سے کہہ سکتاہوں کہ بچے سب سے بڑے شاعر ہوتے ہیں اور جوں جوں وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اُن کے اندر کا شاعر مرتاجاتاہے اور اگر کسی کے اندر کا بچہ زندہ رہے تو وہ ضرور بڑا اور مشہور شاعر بن جاتاہے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مِیر ایسا کرتا ہے نہ غالب۔ اقبال ایسا کرتاہے نہ جون۔ یہ بے مقصدیت صرف اور صرف پوسٹ ماڈرنزم کا تحفہ ہے۔ دنیا آرٹ کے حوالے سے بتدریج ڈفر ہوئی ہے۔ موسیقی ہی بے ہنگم چیخ وپکاربن کر جدید نہیں ہوئی، اس سے پہلے شاعری بے ہنگم شوربن کر جدید ہوئی ہے۔ بقول پوسٹ ماڈرنزم یہ سب ’’کے اوس ‘‘کے تحفے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ محنت سے جی چرانے، روایت سے ناواقفیت کو جدت طرازی کا نام دینے، کرافٹ کے جمالیاتی تقاضوں کو کلیشے بتانے اور سب سے بڑھ کر ہر سطحی اور لا یعنی تصور کو جدیدیت یا جدت سمجھنے والے نام نہاد شعرأ کی کوتاہیوں کو مجبوراً پوسٹ ماڈرنزم کے ہی کھاتے میں ڈالنا پڑتاہے کیونکہ پوسٹ ماڈرنزم خود عہدِ حاضر کا وہ مہا بیانیہ ہے جس نے ان سب فضولیات کو اپنی آغوش میں لے رکھاہے۔ پوسٹ ماڈرنزم خود ایک مہابیانیہ اس لیے بن چکاہے کہ ہم کسی بھی مہابیانیے یا کلیشے کے خلاف بات کریں، اس کی ہمیں کھلے عام اجازت ہے لیکن جونہی ہماری تنقید کا رُخ خود پوسٹ ماڈرنزم کی طرف مُڑتاہے ہم پر وہی قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں جو دیگر مہابیانیے ماننے والوں کے خلاف عائد کی جاتی ہیں۔

شاعری میں مہمل نگاری کوئی بری بات نہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بھی غیر درست نہ ہوگا کہ اوّلین انسانی ادوار کی تمام شاعری اِسی صنف سے تعلق رکھتی ہے بایں ہمہ مہمل نگاری کو تاریخ ِ شاعری کی سب سے پرانی تخلیقی سرگرمی کہاجائے تو غیر درست نہ ہوگا۔ مہمل نگاری جینوئن شاعری ہے۔ اس میں ایک اپنی خوبصورتی ہے۔

پی ٹی وی کے ایک مزاحیہ فنکار نے مہمل نگاری کی پہلی قسم میں رہتے ہوئےکسی زمانے میں ایک پورا گیت نہ صرف لکھا بلکہ وہ مقبول ہوا اور آج تک پسند کیا جاتاہے۔ اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں،

کل کال کلا مل مال ملا

تاڑ باڑ بلّے باہیا ماہی رینا ماروے

اور اسی طرح وہ پورے چھ منٹ کا گیت سناتے ہیں جو نہایت سریلا اور دلچسپ ہے۔ دور ِ حاضر کی زیادہ تر جدید نظموں (بشمول نثری و آزاد) کو اگر مہمل نگاری کی صنف کے تحت دیکھاجائے تو شعرأ کو داد دینا بنتاہے اور ہرقسم کا شکوہ بھی دُور ہوجاتاہے۔ ایسے شعرأ کو ظاہر ہے مہمل نگار کہا جائےگا۔ میں سمجھتاہوں اردو ادب کے طلبہ و طالبات کو سنجیدگی کے ساتھ ’’مہمل نگاری‘‘ پر مقالہ جات لکھنا چاہییں۔ یہ شاعری تاریخی اعتبار سے سب سے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ مواد کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے کئی تھیسز تیار ہوسکتے ہیں۔ ابلاغ میں نالائقی کو تجرید کے پردے میں چھپانے والے اشعار کی بہتات ہوگئی ہے۔ کسی کسی مشاعرے میں پون پون گھنٹے کی ایسی نظم سننا بھی پڑجاتی ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ اور پھر تمثال کاری کے نام پر اگر ایک شخص پرانے تصورات کو کلیشے کی باسکٹ میں پھینکتا ہوا نئے تصورات تخلیق کرکے سامنے لاتاچلا جائے اور وہ تصورات ایسے ہوں جو بقول ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے وقت کے قاری کے منطقی فہم میں ابھی جگہ نہیں پاسکے کیونکہ وہ ان تصورات کا عادی نہیں ہے تو وہ تصورات کیونکر تصورات کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔

بُوئے گل نالہ دل کو اگر کوئی بُوئے دل نالۂ گُل لکھ دے گا تو کیا وہ تمثال بن جائے گی؟ کیا فقط پرانے تصورات کو الٹادینے سے جدید شاعری تخلیق ہوجاتی ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہم اپنی نظم میں اگر ٹرین کو ریل پر چلانے کی بجائے پانی پر یا ریت پر چلادیں تو ہماری نئی تمثال وجود میں آجائے گی؟

نثری نظم کے وجود پر ہونے والے مباحث میں عموماًکی جانے والی یہ پرانی بات کہ شاعری کو تمام حدودوقیود سے آزاد ہونا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو شاعر اپنےاحساسات و جذبات بیان کرنے کےلیے ان پابندیوں کا مقید رہیگا اور کبھی بھی اپنے حقیقی احساسات و جذبات بیان نہ کرپائے گا۔ اس لیے درست نہیں ہے کہ

کہ اگر اس بات کو بالکل درست مان لیا جائے تووہ احساسات و کیفیات جو بیان کیے جانے ہیں اس وقت تک احساسات و کیفیات کہلانے کے حقدار نہیں ہیں جب کہ کوئی یعنی ان کا قاری بھی انہیں کسی کے احساسات و کیفیات نہ کہہ دے اور اگر شاعر نے اپنی خوشی کو قلمبند کیا اور قاری نے اپنے غم کو اس میں سے اخذ کرلیا تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کو دی گئی آزادی ٹھیک ٹھیک کام میں لائی گئی اور اس نے کیفیات کو ٹھیک ٹھیک بیان کردیا۔ ابہام تھا تو کھل کیوں نہ گیا؟ ہاں اب یہ کہا جاسکتاہے کہ اس نے اپنے لیے کہا۔ اپنے لیے لکھا جو کچھ بھی لکھا۔ اس لیے کسی کو معانی نکالنے کی تکلیف ہی کیوں ہے؟ تو جواب ہے معنی نہ سہی کیفیت ہی نکل آئے۔ لیکن نکلے تو وہی کیفیت۔ مکرر کہا جائے گا کیوں نکالی جائے کوئی کیفیت ؟ تو مکرر سوال ہوگا پھر یہ فن پارہ کیسا فن پارہ ہے جس کا ناظر یا شاہد ایک بھی نہیں۔ کیونکہ جو ناظر یا شاہد اسے دیکھ رہاہے وہ کچھ اور دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے اندر کی کیفیت کو دیکھ رہا ہے۔ اس لیے فن پارے کی قدر نہیں کی گئی۔ فن پارہ گونگا رہ گیا ہے۔

جون نے شاید کے دیباچےمیں شاعری کا موسیقی اور موسیقی کا ریاضی کے ساتھ جو تعلق نکالا ہے اگر اس کو ذہن میں رکھا جائے تو کہا جاسکتاہے کہ بے معنی لیکن مترنم شاعری کے وجود کا امکان ہے اور ہمیں امیر خسرو سے ہی اس کی مثالیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ ایسی شاعری میں ریاضیاتی کمپوزیشن کو مدنظر ضرور رکھاہے چنانچہ اگر باوزن شاعری بے معنی ہو تو ایک مقام پھر بھی رکھتی ہے اور موسیقی کی صورت ایک فن پارے یا شاہکار کا درجہ بھی شاید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن کیا یہی اصول نثری نظم کے لیے بھی مقرر کیا جاسکتاہے جس میں کوئی ریاضیاتی کمپوزیشن نہیں ہوتی۔ اب جدید تمثال کاری کی موجودگی میں یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ ان میں ضرور معنی، یا کیفیت، یا احساس موجود ہے کیونکہ تمثال کاری تمثال کاری ہے تصویر کاری تو ہے نہیں چنانچہ اس کا لازمی تقاضا ہے کہ تصور ہی نیا پیش کیا جائے۔

چنانچہ وہ خاص کلیہ جس کی بنا پر معاصر نظم اور بالخصوص نثری نظم کی مہمل نگاری کو ادبی مرتبہ نہیں دیا جاسکتا وہ ہے، ذمہ داری کا کلیہ،

مہمل نظم کا شاعر اپنی نظم کے مکمل معنی یا نظم میں موجود کسی بے نام کیفیت کو سمجھنے کی ساری ذمہ داری قاری پر ڈال دیتاہے لیکن ابہام گوئی کاشاعر اپنے ابہام کا راز قاری کی پہیلی بوجھنےوالی صلاحیت کے سپرد کردیتاہے۔ جونہی قاری پہیلی بوجھ لیتاہے، اسی وقت اُسے بقول سقراط تذکر کے عمل سے گزرنا پڑتاہے جس سے وہ لطف کشید کرلیتاہے کہ گانٹھ اس نے کھولی۔

آخر میں، مَیں ایک نظم کے ساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتاہوں جو میں نے بلاسوچے سمجھے لکھی بالفاظ دگر میں نے فقط اپنے لیفٹ برین کے فرنٹل لوب کو استعمال کیا۔ اگر اس طرح بلاسوچے سمجھے لکھنا مہمل نگاری نہیں اور اس کے معانی کی ذمہ داری قاری پر ہے تو پھر شاعر نے فن پارہ تخلیق ہی نہیں کیا۔ اس نے فقط مہمل نگاری کی ہے اور بے شک مہمل نگاری بھی فن ہے لیکن اس کا بڑھتا ہوا رجحان ادب کی کوئی خدمت نہیں بلکہ ادب کے لیے تازیانہ ہے۔ خیر! نظم کا عنوان ہے،

اے معاصر نظم!

بلانیکا شرامیکا، فلاسیکا، ملامیکا
یہ تم میری محبت کا فسوں لے کر سسکتی رہ گئی ہو
اور میں سجدوں پہ رکھی مہر کو سجّادگی
یا لذتِ آمادگی کہہ کر بلکتا تھا کہ مالک!
آسماں کو میرے رستے سے ہٹاکر دُور رکھ دے
مجھ کو اپنی ’’وحدہُ‘‘ تشخیص کاری
کے طلسمِ تختیِٔ تلخیص پر
نقطہ لگانے دے
مجھے معلوم تھا کلموہی بے چاری رُدالی
دوسروں کےبین کرکر تھک چکی ہے
اور مجھ کو اِن کٹے کانوں میں اَٹکے
حسرتِ پیکر کے آویزوں سے
ننھے سانپ کے بچے لٹکتے چھوڑدینے ہیں
زمینیں خفتگانِ لم یزل کو یاد کرتی ہیں تو روتی ہیں
مثالیں اپنے پانی چھوڑنے لگتی ہیں
جیسے عورتِ بے حیض شیروں کو کمینے دم سکھاتی ہے
فرشتے کام کرتے ہیں
کلیشے ڈھونگ بن جانے کے کالے شرم سے
گھٹ گھٹ کے جیتے ہیں

بلانیکا
بلائے مارِ دل چھائی ہوئی ہے ساری دنیا پر
جنہیں پتوں کے سبزیلے مزاجوں کی خبر ہے اور جو دشنام کرتے ہیں
مسلسل صورتِ الہام
اپنی لعنتوں کو سیر ِ گرد بے امانی شہر کہتے ہیں

بلانیکا!
تری تمجید کا تختہ
وہ جس پر آخری منصور لٹکا تھا
ابھی تک ہِل رہاہے جیسے کوئی وقت گزرا ہی نہیں ہے

شرامیکا
کتابی پشتگان ِ سہروردی بھول جانے دو
کہ تم اچھی نہیں تھیں
آج بھی اچھی نہیں ہو

’’شرامیکا!
ترے انڈوں سےجو بچے نکلنے تھے
وہ بچے مرچکے ہیں
گندگی میں سانس لے لے کر‘‘

فلاسیکا!
مجھے وہ پھل نہیں بھولے گا جو تم نے کھلایا تھا
مجھے اُلّو بنایا تھا
تمہیں اپنے جہنم کے لیے کیڑے اُگانے تھے
مجھے مردُود کرکے تم مرا دست ِ غنائی مانگ سکتی ہو؟
مجھے تم چاہتی ہوتیں تو ہم دونوں ہی تھے اس باغ میں اور پھر
ہمارے بعد تو کوئی نہیں تھا

ملامیکا
تمہارے پیر گورے ہوگئے پانی میں رہنے سے
یہ کالی چپلیں پہنو!
جنہیں پھر اپنے منہ پر مارنے کا ذوق
کتنے چور سینوں میں چھپائے پھر رہے ہیں
چور جو قصے سناتےاور موسیقار بنتے ہیں

مجھےیہ پوچھنا ہے
تم کلاسیکی تسلسل سے مسلسل جھوٹ لکھتی ہو
تمہیں اندھوں کے راجے غیرتِ پامال کے بدلے
یہاں لے کر نہ آتے تو
تمہاری دال، گلنے کے لیے ہندوستاں کے اُس جنوبی
گوشۂ اسود میں بھیجی جانے والی تھی
یہ میں ہوں جس کی خاموشی
تمہاری ناک کے بخیے بچاتی ہے
یہ میں ہوں جس کی سچائی تمہارے ہاتھ کی مہندی میں گھُل کر
جھوٹ کی تشکیل کرتی ہے۔