نیلمانہ

’’بٹرفلائی ہاؤس‘‘  کا باغیچہ ہزاررنگ کے پھولوں اور تتلیوں سے جگمگارہاتھا۔چنبیلی، سوسن، چمپا، موتیا، گلاب، نیلوفر، ڈاہلیا اور جانے کتنی ہی قسم کے پھول تھے جو بٹرفلائی ہاؤس کے وسیع باغیچے میں یوں کھِلے تھے گویا دھوپ کے ساتھ سُورج سے آئے ہوں۔پچاس کے پیٹے کا ایک دبلاپتلا شخص کسی پودے پر جھکا  شایدکچھ ڈھونڈرہاتھا۔

’’یہ میرے بابا ہیں۔میں اکثرسوچتی ہوں، میرے بابا اگر ’’لیپی ڈاپٹرسٹ‘‘ نہ ہوتے تو شاعرہوتے‘‘

ماریہ نے جیسے خودکلامی کی۔ راہیل ماریہ کی بات پر مسکرادیا ۔وہ ماریہ کے بابا پروفیسر سارنگ کو دلچسپی سے دیکھ رہاتھا۔

’’تمہارے بابا پروفیسر تھے نا؟ کسی یورپی ملک میں؟‘‘

’’نہیں! چائنہ میں۔  میرےبابا  دنیا کے دی بیسٹ لیپی ڈاپٹرسٹ ہیں‘‘

راہیل نے زیرِ لب دہرایا، ’’لیپی ڈاپٹرسٹ‘‘۔ ماریہ راہیل کی طرف دیکھ کر مسکرادی۔

’’لیپی ڈاپٹرسٹ  اُس ریسرچر کو کہتے ہیں جو تتلیوں پرتحقیق کرتاہے‘‘

’’ماریہ! کیا تم نے بیالوجی کی فیلڈ اِسی وجہ سے اختیار کی؟ میرا مطلب ہے کیا تم بھی تتلیوں پرتحقیق میں دلچسپی رکھتی ہو؟‘‘

’’راہیل! میں دنیا کو ایک تتلی کی نظرسے دیکھناچاہتی ہوں۔ میرا تھیسز ہی تتلیوں کے وِژن پر ہے۔میں جاننا چاہتی ہوں کہ مہکتے ہوئے خوشرنگ پھولوں  کے بیچوں بیچ زندگی گزارنے والے اِن سرمستوں کو یہ  دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے‘‘

راہیل ہنسنےلگا۔

’’تم خود کیا کسی تتلی سے کم ہو؟‘‘

ماریہ بھی ہنسنے لگی۔

’’تتلیوں کی طبعی عمر بہت کم ہوتی ہے۔یہ اس مختصر سے وقت میں اپنی پوری زندگی جیتی ہیں۔بچپن، جوانی، بڑھاپا۔ ہم انسان ساٹھ ستر سال کی زندگی پاتے ہیں  جو پھر بھی ہمیں  تھوڑی محسوس ہوتی ہے‘‘

اتنا کہہ کرماریہ رُک گئی۔پھر وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ آئی اور راہیل کے نزدیک آکر قدرے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہنے لگی،

’’راہیل! کیا تم جانتے ہو؟’’اینمل فلِکّر فیوژن فریکونسی (Animal Flicker Fusion Frequency)‘‘ کسے کہتے ہیں؟‘‘

’’نہیں‘‘

راہیل نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔ماریہ نے دوبارہ  کہا،

’’ کوئی بھی جاندار ، کسی حرکت کرتی ہوئی  شئےکو جتنے فریمز فی سیکنڈ کی رفتار سے دیکھ سکتاہے، اُسے فلِکّرفیوژن فریکوئنسی کہتے ہیں۔ایک فوٹان کیمرے سےہم  فقط ایک سیکنڈ کی ایسی ویڈیو بناسکتےہیں جسے ٹی وی سکرین پر چلائیں تو دیکھنے میں کئی گھنٹے لگ جائیں۔فوٹان کیمرہ روشنی کی حرکت کا سلوموشن بھی ریکارڈ کرسکتاہے۔تتلیاں اپنی کمپاؤنڈ آنکھوں کی مدد سے فوٹان کیمرے جیسا کام لیتی ہیں۔یہ روشنی کی ویولینتھ کو 254  سے 600  نینومیٹرتک دیکھ سکتی ہیں۔ وہ اپنی مختصر سی زندگی کو بھی کتنا طویل سمجھتی ہونگی، ہم اندازہ نہیں لگاسکتے‘‘

**********

پروفیسر واقعی مرفوع القلم تھا۔ اب تو بیوی بچوں نے بھی اُسے معاف کردیاتھا۔صرف ماریہ ابھی تک باپ کو باپ سمجھتی تھی۔وہی پروفیسر کےساتھ جُتی رہتی۔وہ باپ کے کھانے پینے اور چائے پانی کا خیال بھی رکھتی اور سارا وقت باپ کے ساتھ لیبارٹری میں بھی گھسی رہتی۔پروفیسر کی لیبارٹری میں آدھے انچ کے پروں والی’’ پِگمی‘‘ سے لے کرایک فٹ سائز کے پروں والی ’’گِنی‘‘ نسل تک، ہرقسم کی تتلیاں تھیں۔پروفیسر کی لیبارٹری  گھر کے باغیچے سمیت ، ایک برامدے اور ایک ہال پر مشتمل تھی۔ہال کی تمام کھڑکیوں میں شفاف شیشے لگےتھےجہاں سے پروفیسر باہر باغیچے میں اٹھکیلیاں کرتی تتلیوں کو دیکھتا اور خودکلامی کرنے لگتا،

’’آج سونیا سُست لگ رہی ہے۔ ڈیانا نظر نہیں آرہی؟اور شہمیر  کیوں اس طرح جھُول جھُول کر اُڑرہاہے؟‘‘

وہ اپنی تتلیوں کو ہمیشہ ناموں سے پکارتاتھا۔ماریہ بھی اُن تمام تتلیوں  کے ناموں سے واقف تھی۔ وہ بھی انہیں ناموں سے پکارتی لیکن ہربار جب کوئی شناساتتلی مرتی تو ماریہ ضرورروتی۔

دونوں باپ بیٹی گھنٹوں تتلیوں کی نسلوں اور اُن کے ڈین این اے پر باتیں کرتے رہتے۔وہ اب تک فلوراسینٹ رنگوں والی تتلیاں، روشنی خارج کرنے والی ، بال دار پروں والی ،  میناکاری والی ، شاہی فرمان، شیلڈز، پیراشُوٹس، فوجی اور مذہبی تتلیوں جیسی بے شمار نسلیں خود بھی پیدا کرچکے تھے۔نئی نئی نسلوں کے نئے نئے نام رکھتے وقت پروفیسر اور ماریہ خوب بحث کرتے۔کبھی باپ ہارجاتا تو کبھی بیٹی۔مذہبی تتلیوں  کانام رکھتے وقت، بحث پروفیسر جیت گیاتھا۔

ایک روز ماریہ یونیورسٹی سے لوٹی تو حسبِ معمول پروفیسر کوکھڑکی کے پاس خودکلامی کرتے پایا۔اس نے پروفیسر کے عقب میں پہنچ کر کھڑکی سے باہرجھانکا۔ سامنے’’لائی سِنی ڈائی‘‘ نسل کی   چند اُودی اُودی تتلیاں     ڈاہلیا کے گلابی گلابی پھولوں پر منڈلا رہی تھیں۔اِن تتلیوں کو دیکھ کرماریہ نے یکلخت خوشی سے چلّاتے ہوئے باپ سے پوچھا،

’’ہائے!بابا! وہ لُوسی ہے نا؟‘‘

’’ہاں! یہ لُوسی ہے۔ ابھی صرف پانچ یونٹ جگائے ہیں میں نے‘‘

’’اُف بابا! آپ نے میرے آنے سے پہلے انہیں کیوں جگایا؟ ہائے!  سمیارگس  پرہماراتجربہ کامیاب رہا، اِس کا مطلب ہے؟‘‘

’’ہاں میزارائن کی کلاس میں یہ ہمارا پہلا کامیاب تجربہ ہے۔ اتنا طویل ہائبرنیشن۔ میں سوچ بھی نہ سکتاتھا کہ ہم کامیاب ہونگے‘‘

ماریہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھی۔ وہ فوراً کھڑکی سے ہٹ آئی۔ اب وہ پرانی لکڑی کی الماری سے ایک فائل نکال رہی تھی۔

’’بابا ! یہ دیکھوتو! ایک دن  وہ بھی تھا جب ہم  لُوسی  کاسکیچ بنا رہے تھے۔ اُف مائی گاڈ! ہاتھ سے کاغذ پر بنائی ہوئی ڈرائنگ کو یوں زندہ   دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی‘‘

پروفیسر اپنی چہیتی بیٹی کو اتنا خوش دیکھ کر ہنسنے لگا۔ماریہ کی تو حالت غیر ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ لُوسی  گزشتہ نو ماہ سے  سورہی تھی۔ایک تتلی جو اُن دونوں باپ بیٹی نے مل کر پیدا کی تھی۔پھر جب ابھی لُوسی نے    عالمِ شباب  میں قدم رکھا ہی تھا، پروفیسر نے اُسے ہائبرنیٹ کردیاتھا۔’’میزارائن بلیو‘‘ نسل کی  سمیارگس تتلیاں یوں بھی طبعی عمر کے لحاظ سے نسبتاً  زیادہ جیتی تھیں۔ لُوسی، سمیارگس نسل  کے قریب تر تھی۔

’’بابا! کیا لُوسی پرفیکٹ ہے؟ کیا وہ ڈاہلیا کو پہچانتی ہے؟ ‘‘

’’میں کافی دیر سے یہی دیکھنے کی کوشش کررہاہوں‘‘

ماریہ نے دوائیوں اور کیمیکلز کے پیکٹس  ایک میز پر رکھے اور تیزی سے  دوسرے میز کی طرف بڑھی جہاں میگنِفائر رکھا تھا۔ یہ ایک دستی عدسہ تھا جیسا عموماً پرانے زمانے کی شکستہ تحریروں کو پڑھنے کے لیے ماہرینِ لسانیات استعمال کیا کرتے تھے۔ماریہ نے میگنِفائر اُٹھایا اور باہر کی طرف لپکی۔ پروفیسر اپنی بیٹی کا اشتیاق دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہورہاتھا۔

ماریہ باغیچے میں آئی ۔ چھوٹی چھوٹی کیاریوں پر مختلف رنگوں کی تتلیاں گردش کررہی تھیں۔ ماریہ سیدھا ڈاہلیا کے پھولوں کی جانب بڑھی۔وہ جانتی تھی کہ پروفیسر نے لُوسی کو ڈاہلیا  کے نزدیک ہی چھوڑا ہوگا۔بونسائی پودوں کے گملے دائروں میں آراستہ تھے۔ یہ ڈاہلیا کے پھول تھے۔پھولوں پر لمبی نیند سے جاگی ہوئی مدہوش   سمیارگس تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ یہ تعداد میں چار پانچ تھیں۔  ماریہ کو تلاش تھی تو اِن میں سے ایسی تتلی کی جو ڈاہلیا کے کسی پھول پر بیٹھ جاتی اورماریہ میگنِفائر سے اس کے طرزعمل کا معائنہ کرتی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ لُوسی اپنی مخصوص خوراک یعنی ڈاہلیا کے پھولوں کو پہچانتی تھی یا نہیں۔ کیونکہ لُوسی  کے تمام فیچرز کو ماریہ اور پروفیسر نے مل کر مرتب کیا تھا۔

اور پھر ماریہ کی خوش قسمتی کہ وہ جونہی نزدیک پہنچی اُن میں سے ایک،  سیدھا  ڈاہلیا کے پھول کی ایک پتی پر جاکر براجمان ہوگئی۔ یوں جیسے وہ ماریہ کا ہی انتظارکررہی تھی۔ماریہ کے حلق سے مارے خوشی کے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔اگلے لمحے وہ تیزی مگر احتیاط سے عدسہ تھامے پھول کی طرف لپکی۔ماریہ کا دل جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔

*******

طاقتورعدسے کی دوسری طرف دو آنکھیں تھیں۔دو ایسی آنکھیں جو ماریہ کی آنکھوں میں پیوست ہوگئیں۔ماریہ کو یکلخت خوف سا محسوس ہوا۔ عدسے میں سے لُوسی ماریہ گھُوررہی تھی۔ماریہ کو لگا جیسے وہ کسی واہمہ کا شکار ہورہی ہے۔ اُس نے جھٹکے سے عدسہ پیچھے ہٹالیا اور بغیر عدسے کے لُوسی  کو گھبرائی ہوئی نظروں سے تکنے لگی۔ لُوسی اب بھی ماریہ کو دیکھ رہی تھی۔ماریہ نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا، ’’یہ کیا بیوقوفی ہے؟ تم پاگل ہوتی جارہی ہو۔ ہروقت یہ سوچ سوچ کر کہ تتلیاں بھی باشعور ہوسکتی ہیں تمہارا دماغ خراب ہوگیاہے۔ تمہیں فقط وہم ہوا اور کچھ نہیں‘‘۔ خود کو ٹھیک ٹھاک ڈانٹنے اور سمجھانے کے بعد ماریہ نے دوبارہ عدسے کو لُوسی کی آنکھوں کے سامنے کردیا۔

لیکن اب کی بار۔ اب کی بار تو جیسے لُوسی کی چمکدار اور تیز آنکھوں نے ماریہ کو جکڑ لیا۔ ماریہ کو یوں لگا جیسے وہ  تتلی نہیں  کوئی بھوت ہو۔ماریہ نے دل کو کچھ حوصلہ دیا اور لُوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھیں۔ اب ماریہ کو یقین ہونے لگا تھا کہ لُوسی اُسے جانتی ہے۔ اُسے یقین ہونے لگا تھا کہ لُوسی اُس کے ساتھ ’’آئی کانٹیکٹ‘‘ بنارہی ہے۔ماریہ کا دل خوف اور تجسس سے بری طرح اُچھل رہا تھا۔ معاً اسے اپنے دماغ میں کچھ سنسناہٹ سی محسوس ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، اُس کا دماغ یکایک  تاریک ہوتا چلا گیا۔ اس نے سرکو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن ایک بار بھی نہ جھٹک سکی۔ اگلے لمحے وہ پھولوں کی کیاریوں کے بیچوں بیچ  بے ہوش ہوکر گرپڑی۔

دورکھڑکی میں کھڑا پروفیسر ایک لمحے کو تو کچھ نہ سمجھ سکا کہ آخر ماریہ کے ساتھ کیا ہوا۔ پہلے پہل تو وہ سمجھا کہ اس کی بیٹھی ٹھوکر کھاکرگرگئی ہوگی۔لیکن پھر یکدم اُسے محسوس ہوگیا کہ معاملہ زیادہ خطرناک ہے۔ پروفیسر پاگلوں کی طرح ہال سے باہر کی طرف بھاگا۔ وہ بھاگتے ہوئے مسلسل پکارتا جارہاتھا۔ ’’ماریہ! ماریہ! ماریہ! میرا بچہ! کیا ہوا میرا بے بی!!!‘‘

پروفیسر نے ماریہ کا سر گود میں لیتے ہی زور زور سے گھر کے دیگر افراد کو پکارنا شروع کردیا،

’’ارے کوئی ایمبولینس منگواؤ! ارے کوئی ہے؟ کوئی جلدی سے ایمرجنسی نمبرپر کال کرو۔ او مائی گاڈ! او مائی گاڈ!‘‘

اورپھر کچھ دیر بعد بے ہوش ماریہ کو ایمبولینس میں ہسپتال کی طرف لے جایا جارہاتھا۔پروفیسر اور اس کی بیوی بری طرح رو رہے تھے۔وہ بھی ماریہ کے ساتھ ہی ایمبولینس میں سوار تھے۔ ایمبولینس کے ڈاکٹرز مسلسل ماریہ کو ٹریٹ کررہے تھے۔ماریہ کی ناک پر آکسیجن ماسک دھرا تھا اور ڈاکٹرز اُسے طرح طرح کے انجکشنز دینے میں مصروف تھے۔پروفیسر بار بار ڈاکٹروں سے پوچھتا،

’’کیا ہوا میری بیٹی کو؟ کچھ پتہ چلا؟ کچھ تو بتائیے ڈاکٹر صاحب! آخر ہوا کیا ہے بچی کو؟‘‘

آخر ایک ڈاکٹر نے چہرے سے کپڑے کا ماسک ہٹاتے ہوئے کہا،

’’میرا خیال ہے آپ کی بیٹی میجر سٹروک سے گزرہی ہیں‘‘

’’میجر سٹروک؟ ‘‘

پروفیسر جیسے سکتے میں آگیا۔

*****

اُس کی آنکھ کھلی تو پہلے پہل اُسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ کسی بہت ہی بلند نشت پربیٹھی تھی۔اُس کا دل دہل کر رہ گیا۔اس نے سمجھاوہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ ہاں وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ کیسی جگہ ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اسے یاد آیا آخری بار وہ لُوسی  کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔اُس نے سوچا شاید  لُوسی نے اُسے ہپناٹائز کرلیاتھا۔ اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے ہی گھر کے باغیچے میں ہے۔اسے کچھ تسلی ہوئی۔ وہ بٹرفلائی ہاؤس میں تھی۔ ماریہ کا ڈر کچھ کم ہوا۔ یہ ایک خوبصورت خواب تھا۔ وہ اپنے باغ میں تتلیوں اور پھولوں کے بیچوں بیچ تھی۔معاً اس کے دل میں خیال آیا کہ اچھے خواب سے کیا ڈرنا۔ لیکن پھر ایک سوچ کہ آخر وہ سوئی کب تھی؟ وہ تو آخری بار لُوسی کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ ماریہ نے ذہن پر زور دیا لیکن اسے بالکل بھی یاد نہ آیا کہ  دن کب گزرا، کب رات ہوئی اور وہ کب سوئی۔ وہ سب کچھ بھول کر ذہن پر زور دینے لگی۔ ایک دم اُسے خیال آیا کہ یہ کیسا خواب ہے؟ ایسا خواب جس میں وہ  یہ بات جانتی ہے کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے؟ وہ پھر گھبرانے لگی۔ لیکن گھبراہٹ بھی عجب تھی۔ اسے اپنا دل زور زور سے دھڑکتاہوا کیوں محسوس نہیں ہورہا تھا؟ معا ً اس نے کسی خیال کے تحت اپنے جسم پر نگاہ ڈالی تو بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اگلے لمحے وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ  اس کا جسم اب ایک تتلی کا جسم تھا۔وہ ایک تتلی بن چکی تھی۔ماریہ نے پورا گلا پھاڑ کر چلّانا اور بابا کو پکارنا چاہا لیکن اس کی آواز کسی اور طرح سے برآمد ہورہی تھی۔یاالٰہی یہ کیا ماجراہے؟ کیا میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہوں؟ ہاں میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہو؟ ہاں میں سچ مچ خواب دیکھ رہی ہوں؟ وہ ایک ہی جملہ بار بار دہرانے لگی۔ کبھی وہ خود کو خواب  سے جگانے کے لیےاپنے پر زور زور سے پھڑپھڑاتی تو کبھی دوبارہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے چلانے لگتی۔

ماریہ کی چیخیں سن کر آس پاس اُڑتی تتلیاں بھی چونکیں۔ ان میں سے  ایک  تتلی  تیزی سے ماریہ کی طرف لپکی۔

’’ارے کیا ہوا؟ اتنا چلّا کیوں رہی ہو؟ دیکھتی نہیں کتنا روشن اور شفاف دن ہے۔ شانت ہوجاؤ‘‘

ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ یہ  تھریسیا تھی۔ ماریہ نے ہی اس کا نام تھریسیا رکھا تھا۔یہ ٹائیگر سوالوٹیل نسل کی تتلی تھی۔ جس کے جسم پرٹائیگرجیسے پیٹرن بنے ہوئے تھے۔پیلے رنگ کے پروں پر گہرے بھورے رنگ کی دھاریوں والی یہ تتلی ماریہ سے قد کاٹھ میں بڑی تھی۔ماریہ کو حیرت ہوئی کہ اُس نے تھریسیا کی بات سمجھ لی۔ کیا وہ اپنے خواب میں تتلیوں کی زبان سمجھ سکتی ہے؟ وہ سوچنے لگ گئی۔ آخر یہ سب کیا ہورہا تھا۔ معاً ایک خیال نے تو اس کی جان ہی نکال دی۔ کہیں کسی طرح وہ انسان سے تتلی تو نہیں بن گئی؟

اتنی دیر میں بہت سی تتلیاں ماریہ کے چاروں طرف جمع ہوچکی تھیں۔ایک ’’بلیو مارفو(Blue Morpho) تو  اس کے ساتھ والے پتے پر آکربیٹھ گئی۔ماریہ بیسیوں تتلیوں میں گھری بری طرح کانپ رہی تھی۔ اسے اب یہی لگ رہا تھا کہ وہ انسان سے تتلی بن چکی ہے۔اس نے باقی تتلیوں کو دیکھا اور پھر خود کو دیکھا۔ وہ اب سمیارگس نسل کی ایک نیلی تتلی تھی۔وہی تتلی جسے اس نے خود اپنے بابا کے ساتھ مل کر پیدا کیا تھا۔وہی تتلی جس کا نام اُس نے لُوسی رکھاتھا۔ وہی تتلی جس کی آنکھوں میں جھانکتے جھانکتے وہ خود اُس کے اندر آگئی تھی۔

معاً اُسے چند ’’گارڈن ٹائیگر موتھ‘‘ اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ وہ انہیں پہچانتی تھی۔ یہ پتنگے تھے جو چھوٹی چھوٹی تتلیوں جیسے دکھتے تھے۔ ماریہ جب بھی کبھی باغیچے میں آتی تو وہ ان  ٹائیگر پتنگوں کو پیار سے بدمعاش کہا کرتی تھی۔ لیکن آج وہ دیکھ رہی تھی کہ ’’گارڈن ٹائیگر موتھس‘‘ واقعی بدمعاش تھے۔ وہ ماریہ کو  انسانی دنیا کے اوباش لڑکوں جیسے لگے۔جونہی وہ  ماریہ کے قریب آئے بلیو مارفو ساتھ والے پتے سے اُڑ گئی۔ شاید وہ بھی اِن بدمعاشوں سے ڈرگئی تھی۔ باقی تتلیاں بھی اِدھر اُدھر سرکنے لگیں۔ یہ ٹائیگر پتنگے اب ماریہ کے گرد منڈلا رہے تھے۔ماریہ کو ایک لمحے کے لیے لگا کہ وہ لفنگے اس کی عزت لُوٹ لینگے۔

یکلخت ماریہ اپنی تتلی بن جانے کی پریشانی بھول گئی۔ اس کے دل میں آئی کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے۔ وہ بدمعاشوں کے چنگل سے نکلنے کی راہیں سوچنے لگی۔بدمعاش ٹائیگر پتنگے اب ماریہ کے گرد گھیرا تنگ کررہے تھے۔قریب تھا کہ وہ ماریہ کو کوئی نقصان پہنچاتے لیکن اچانک ایک جانب سے بڑےبڑے پروں والا’’نِمف(Nymph) ‘‘نسل   کا تتلانمودارہوا۔ چھوٹے ٹائیگرپتنگے، نمف کو دیکھتے ہی بھاگ نکلے۔ نمف کے جسم پر سفید اورسیاہ دھاریاں تھیں اور ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ ماریہ نے اس کا نام’’بڈھاگُجر‘‘ رکھاہوا تھا۔ بڑے پروں والا نمف تتلا ماریہ کے قریب آیا ۔اب ماریہ پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ ہوگئی۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی کہ ’’یااللہ کسی بھی طرح کرکے اُسے اس خوفناک سپنے سے بیدار کردے‘‘۔ وہ بار بار اپنا سرزور زور سے جھٹکتی کہ شاید کسی طرح وہ جاگ جائے اور دوبارہ انسان بن جائے۔لیکن اُس کا خواب تھا کہ لمبا ہوتا جاتاتھا۔

گجر تتلے نے ماریہ کے پاس ایک بڑے سے پتے پر بیٹھتے ہوئے ماریہ کو گھورنا شروع کردیا۔ وہ ماریہ کو کسی اوباش نوجوان کی بجائے ایک سمجھدار بزرگ جیسا محسوس ہوا۔ تتلے نے بھی ماریہ کو ہمدردی بھری نظروں سے دیکھا اور پھر نہایت حلیم لہجے میں پوچھا،

’’تمہارا نام کیا ہے بیٹا؟‘‘

’’ماریہ‘‘

ماریہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

’’ماریہ؟ یہ کیسا نام ہے؟  ایسا نام تو میں پہلی بار سن رہاہوں۔ کیا تم ’پُورماشانی تتلیوں‘‘ کے ساتھ نہیں آئی ہو؟ وہ جو پانچ تتلیاں   آج سے کچھ دن پہلے ’’شردھان‘‘ میں وارد ہوئیں، تم انہی میں سے ایک ہو نا بیٹا؟‘‘

’’کچھ دن پہلے؟‘‘ ماریہ نے حیرت سے سوچا۔کچھ دن پہلے کیسے؟ نیلی تتلیوں کو تو آج ہی پروفیسر نے طویل ہائبرنیشن سے جگایاتھا۔ماریہ نے بڈھے گجر کو کوئی جواب نہ دیا۔وہ متلاشی نگاہوں سے باقی نیلی تتلیوں کو ڈھونڈنے لگی۔جلد ہی اُسے نزدیکی پھولوں پر پریشانی کے عالم میں بیٹھی اپنی ہم نسل تتلیاں دکھائی دیں۔ ماریہ نے دور سے دیکھا کہ نیلے رنگ کی سمیارگس تتلیاں  ماریہ کو ہی تکے جارہی تھیں۔ وہ آپس میں باتیں بھی کررہی تھیں۔ معاً  بزرک  بڈھےگجر  نے  دوبارہ کہا،

’’کیا بات ہے بیٹا؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ تمہاری فیملی تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے پھول تمہارے پاس ہیں۔ تم ایک خوبصورت لڑکی ہو۔ اور کیا چاہیے؟ سب کچھ تو ہے۔ کچھ تو بتاؤ! آخرتم کیوں رورہی ہو؟‘‘

فیملی کا ذکر سنتے ہی ماریہ اور زور سے رونے لگی۔ اسے اپنے بابا یاد آگئے۔اس نے سب کچھ بھلا کر دور ہال کی کھڑکیوں کی جانب دیکھنا چاہا لیکن ہال اُسے خود سے بہت دور ، بہت ہی دور محسوس ہورہاتھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے گھرسے کوسوں دور آگئی ہے۔ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اپنے ہی باغیچے میں ہے۔ اب اُسے احساس ہورہا تھا کہ تتلیوں کا زمان و مکاں کس طرح کا ہوتاہے۔ باغیچے کی ہرچیز اُسے بہت بڑی بڑی  لگ رہی تھی۔ ہوا کے ساتھ ہلتے ہوئے پتے اُسے سلو موشن میں ہلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔اسے دُور سے اپنے گھر کی چھت آسمان  کو چھُوتی ہوئی  دکھائی دے رہی تھی۔باغیچے کے سارے درخت پرانی دنیا کے بوسیدہ  دیوہیکل پیڑ معلوم ہوتے تھے۔ جیسے  یہ  بڈھے پیڑ صدیوں سے یہاں کھڑے ہوں۔

********

’’مورسینا! تم اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ لے جاؤ! تم سب اب ایک فیملی ہو۔ یہ کب تک یہاں بیٹھی رہے گی۔ دن گزرنے والا ہے۔ اِسے ابھی آرام کی ضرورت ہے۔ یہ تمہاری بہن ہے۔ یہ اگر یونہی یہاں بیٹھی رہی تو اسے   کتنےغنڈے، بدمعاش اور موالی نقصان پہنچا سکتے ہیں ‘‘

’’دن گزرنے والا ہے؟‘‘ یہ دوسری بات تھی جس پر ماریہ غیرمعمولی طورپر چونکی۔ وہ جانتی تھی کہ ابھی تو دوپہر بھی نہیں ہوئے۔ توپھر بڈھاگجر ایسے کیوں کہہ رہاتھا کہ دن گزرنے والا ہے؟ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی جس نیلی تتلی کو بڈھے گجر نے مورسینا کہہ کر پکاراتھا۔ وہ اُڑتی ہوئی ماریہ کے پاس آئی اور ساتھ والے پھول پر بیٹھتے ہی کہنے لگی،

’’نیلمانہ! کیا ہوا؟ کوئی بھوت دیکھ لیا ہے کیا؟  اتنا چیخ اور چلّا کیوں رہی ہو؟ دیکھوتو! سب لوگ کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ ہم لوگ یہاں شردھان میں نئے نئے آئے ہیں۔ اس لیے بھی سب کی نظریں ہمہ وقت ہم پر ہوتی ہیں۔تمہاری وجہ سے یونہی تماشا بن گیا۔ ہوش میں آؤ نیلم!‘‘

ماریہ نیلی تتلی کی بات سن کر سٹپٹاگئی۔کون نیلمانہ؟ کیسا بھوت؟  اسے نہ جانے کیوں غصہ آگیا۔ اس نے نیلی تتلی کو قدرے مالیخولیائی لہجے میں جواب دیا،

’’میں ماریہ ہوں۔ میں تتلی نہیں ہوں۔ میں انسان ہوں۔میں نہیں جانتی کسی شردھان وردھان کو؟ یہ ہمارا باغیچہ ہے۔ میرا اور میرے بابا کا۔میں تم سب کی مالک ہوں۔ میں نے اور میرے بابا نے پیدا کیا ہے تم لوگوں کو‘‘

وہ بہت غصے میں تھی۔ چیخ چیخ کر بات کررہی تھی۔ آس پاس کی تتلیوں میں مزید تماشا بنتا دیکھا تو مورسینا نے اپنا لہجہ بہت نرم کرلیا اور بڑے پیار سے ماریہ کو سمجھانے لگی،

’’دیکھونیلمانہ!  تم میری بہن ہو۔ ہم لوگ پورماشانی کی طویل نیند سے جاگے ہیں۔ مطلب، ہم آج سے اسّی ہزار دن  پہلے پیدا ہوئے تھے۔ پھر ہم سوگئے تھے۔ بزرگ موروان بابا کا خیال ہے کہ تمہاری ذہنی حالت پورماشانی کی طویل نیند کی وجہ سے ایسی ہے۔تم جانتی ہو؟ ہمیں یہاں بہت وقار سے رہنا چاہیے کیونکہ پورماشانی کی نیند نے ہمیں شردھان کا سب سے قدیم شہری بنادیاہے۔ان لوگوں میں سے کوئی بھی اتنی بڑی عمر کا نہیں۔ ’’موروان بابا‘‘ بھی ہم سے بہت چھوٹے ہیں‘‘

’’اسّی ہزار دن؟ یہ تم کیا  کہہ رہی ہو؟ تم سمیارگس نسل کی تتلیاں ہو۔ میں تمہیں جانتی ہوں۔ میرے بابا نے تمہیں صرف نوماہ کے لیے  ہائبرنیٹ کیاتھا۔ میں بڈھے گجر کو بھی جانتی ہوں۔یہ موروان بابا نہیں ہیں۔ یہ نِمف نسل کے عمررسیدہ تتلے ہیں‘‘

ماریہ کی بات سن کر بڈھے گجر سمیت آس پاس موجود سب تتلیاں دنگ رہ گئیں۔ یہ لڑکی کیسی باتیں کررہی تھی؟ موروان بابا کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں نمودار ہوئیں۔

ماریہ سچ مچ ہوش میں نہیں رہی تھی۔ اس پرحیرت کے پہاڑ ٹوٹتے چلے جارہے تھے۔ تو کیا تتلیوں کی دنیا میں اُس کا نام ’’ نیلمانہ‘‘ تھا؟  ابھی وہ مورسینا کی باتوں پر غور کررہی تھی کہ باقی سمیارگس تتلیاں بھی ماریہ کے نزدیک آکر بیٹھ گئیں۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ہم نسل تتلیوں کو تکے جارہی تھی۔اُسے احساس ہورہاتھا کہ تتلیوں کا ایک پورا جہان ہے۔ اُن کا وقت الگ ہے۔ ان کے نام الگ ہیں۔ ان کی زبانیں الگ الگ ہیں۔ وہ خاموش تھی لیکن اس کا دماغ تیزی کے ساتھ چل رہاتھا۔

معاً اُس کی نظر سامنے ڈاہلیا کے ایک اور پودے پر پڑی۔ اسے لگا جیسے پتوں کے پیچھے  سےاسے کوئی جھانک رہاتھا۔ اس نے چونک کر اُس طرف دیکھا تو تمام نیلی تتلیوں نے بھی  سرگھما کر ماریہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔ لیکن انہیں وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ مورسینا نے ایک مرتبہ پھر ماریہ کو سمجھانا چاہا،

’’نیلمانہ! تم یہاں کب تک بیٹھی رہوگی؟ آؤگھر چلیں! آج کا دن ختم ہونے والا ہے۔ اتنا زیادہ جاگنا صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔صبح  ہوتے ہی ہم  پھولوں پر  پروازکریں گے۔ اپنے اپنے ساتھی تلاش کرینگے۔ گانے گائینگے۔ کھیل کھیلیں گے۔ ابھی تو ہمارا وقت شروع ہوا ہے۔ اب تک تو ہم سب سورہے تھے۔ تم اب ہوش میں آؤ۔ کیا تمہیں کچھ بھی یاد نہیں؟ کیا تمہیں ہمارے سونے سے پہلے کا وقت بھی یاد نہیں؟ کیا تم ہم سب کو بھول چکی ہو؟ کیا تمہیں’’ شاؤزان‘‘بھی بھول گیاہے؟ پورماشانی ہونے سے پہلے تم دونوں میں کتنا پیار تھا؟ شاؤزان سے تو تمہاری حالت دیکھی نہیں جارہی۔ دیکھوتو! وہ کتنا اداس ہے۔ دیکھوتو! وہ تمہارے لیے رورہاہے؟‘‘

ماریہ نے گھوم کر دیکھا۔ سامنے والے پھول پر ایک نوجوان نیلا تتلا اُداس بیٹھا ماریہ کی جانب دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہاتھا۔جب سے یہ لوگ بیدار ہوئے تھے  نیلمانہ کا رویّہ اس کے ساتھ اُکھڑا اُکھڑا سا تھا ۔آج ہی نیلمانہ اور شاؤزان کے درمیان کسی بات پر لڑائی  بھی ہوئی تھی۔ آج  صبح کا آغاز ہوتے ہی نیلمانہ نے شاؤزان کو بری طرح ڈانٹ دیا تھا۔ شاؤزان بیچارہ ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ نیلمانہ اس سے ناراض ہے۔ اس لیے وہ اس کے نزدیک آنے سے کترارہاتھا۔

ماریہ نے شاؤزان کی جانب دیکھا تو جیسے اُسے کچھ یاد آنے لگا۔ اسے ایسا لگنے لگا جیسے وہ یہاں ایک تتلی بن کر پہلے بھی رہتی رہی ہے۔ اسے اپنی تتلیوں والی یاداشت واپس آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔اس کے دماغ میں کسی فلم کے فلیش بیک کی طرح بہت سے مناظر گھومنے لگے۔ہاں وہ پہلے ایک بھی تتلی ہوا کرتی تھی۔اُس کا نام واقعی نیلمانہ تھا۔اسے  مورسینا کا چہرہ بھی اب یاد آنےلگا۔ مورسینا ان سب میں بڑی تھی۔ وہ سب کا خیال رکھتی تھی۔ یہ لوگ آج سے ستائیس دن پہلے بیدار ہوکر یہاں آئے تھے۔یہ تتلیوں کے ستائیس دن تھے۔اسے یاد آنے لگا کہ شاؤزان اسے پسند کرتاتھا۔ وہ ڈاہلیا کے گلابی پھولوں پر مل کر منڈلایا کرتے۔ وہ کھیلتے کھیلتے کتنی دور نکل جایا کرتے تھے۔ جب بھی شاؤزان اسے کہتا کہ نیلمانہ! کیاتم مجھ سے پیار کرتی ہو‘‘ تو وہ شرارت سے جواب دیتی، ’’بالکل بھی نہیں‘‘۔ اب اُسے آہستہ آہستہ سب باتیں یاد آنے لگیں۔اس نے اپنے پاس بیٹھی مورسینا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کا نام ہولے سے دہرایا،

’’مورسینا!‘‘

مورسینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اور پھر جیسے وہ سمجھ گئی کہ نیلمانہ کی یاداشت واپس آرہی ہے۔ مورسینا کے چہرے پر خوشی کا شگوفہ سا پھوٹا۔ اس نے پرجوش انداز میں اپنی ساتھی تتلیوں کو بتایا،

’’ارے دیکھوتو! نیلمانہ ٹھیک ہورہی ہے۔ دیکھو تو! اس نے میرا نام پکارا۔ وہ سب کو پہچاننے لگی ہے‘‘

مورسینا بہت خوش ہورہی تھی۔ اس نے اپنے دائیں  پَر سے نیلمانہ کو چھوا اور ہنستے ہوئے کہنے لگی،

’’بس کروبی بی! چلو! اب  جِن کھیلنا بند کرو! نئے دن کا آغازہوتے ہی تم بالکل ٹھیک ہوجاؤگی۔ مجھے پورا یقین ہے‘‘

یہ کہہ کر مورسینا نے اُڑنے کے لیے پرتولے ۔مورسینا کو دیکھ کر باقی نیلی تتلیاں بھی اُڑنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ اب سب ماریہ کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہ اُڑے تو سب اُڑیں۔ آخر ماریہ نے پہلی بار اپنے پر پھیلائے۔ اسے اُڑنے سے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ  کبھی اُڑی ہی نہ تھی۔ لیکن ساتھ ہی اس کی یاداشت میں کچھ ایسے مناظر بھی گڈ مڈ ہورہے تھے جب وہ اُڑا کرتی تھی۔اس نے ایک بار اپنے پرپھڑپھڑائے اور گرتے گرتے بچی۔ لیکن اتنی سی حرکت سے ہی اس کے پیر پھول کی پتی سے پھسل گئے اور وہ اتنے اونچے پھول سے نیچے گرنے لگی۔ابھی وہ فضا میں ہی تھی کہ اس کے پرخود بخود کھُل گئے۔اس نے اپنی تمام تر توانائی مجتمع کی اور اُڑنے  لگی۔

اب وہ اُڑ رہی تھی۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔بہت ہی انوکھا۔ ہوا میں بلند ہوتے ہی اسے سب کچھ بھول گیا۔ سارے غم۔ سب پریشانیاں ایک  ساتھ نہ جانے کہاں چلی گئیں۔اسے اپنے دل میں ہلکی سی خوشی محسوس ہوئی۔وہ سرگھما گھما کر سارے باغیچے کو دیکھنے لگی۔ ماریہ اُڑرہی تھی۔وہ پھولوں کے اوپر منڈلا رہی تھی۔ اس کے خاندان کی سمیارگس تتلیاں اس کے آس پاس اڑ رہی تھیں۔ سب خوشی سے نہال تھے کہ ان سب کی لاڈلی نیلمانہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ اچانک ماریہ کو محسوس ہوا کہ اس کے پہلو میں کوئی لڑکا ہے۔ ہاں! یہ شاؤزان تھا۔ شاؤزان  ماریہ کے پہلو بہ پہلو اُڑرہاتھا۔وہ کبھی مسکرا کر ماریہ کی طرف دیکھتا اور کبھی  خوشی سے قلابازیاں کھانے لگتا۔اب یہ لوگ اپنے ٹھکانے کی طرف جارہے تھے۔

********

نئے  صبح کے آغاز پرماریہ کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو قدرے ہلکا پھلکا محسوس کیا۔یہ اٹھائیسواں دن تھا۔اسے اب سب کچھ یاد آچکاتھا۔ سب کچھ یاد آجانے کی وجہ سے اس کے کافی سارے خوف دور ہوگئے تھے۔ اسے یاد آیا کہ وہ فی الحقیقت کبھی انسان رہی ہی نہیں تھی ۔ وہ دراصل ایک تتلی ہی پیدا ہوئی تھی۔اسے یاد آیا کہ اسی ہزار دن قبل جب وہ اسی دنیا میں پرواز کیا کرتی تھی تو اس کی ساری سہیلیاں اسے نیلمانہ کہہ کر ہی پکارتی تھیں۔لیکن  پھر یہ ماریہ نامی لڑکی کی یاداشت اس کے دماغ میں کیوں  گھُس گئی؟اب اس کے ذہن میں دویاداشتیں تھیں۔ ایک ماریہ کی اور دوسری نیلمانہ کی۔ کبھی اُسے لگتا کہ وہ  ماریہ ہے جو انسان تھی اور کسی وجہ سے تتلی بن گئی اور کبھی اسے لگتا  کہ وہ شروع سے ہی ایک تتلی تھی اور پورماشانی کی طویل نیند میں چلنے والے کسی خواب کی گونج ابھی تک اس کے دماغ میں موجود تھی۔لیکن یہ کیسی گونج تھی۔ یہ تو ایک مکمل یادتھی۔ اُسے یاد تھا کہ وہ پروفیسر سارنگ کی بیٹی تھی۔ اسے یاد تھا کہ وہ مائیکروبیالوجی میں پی ایچ ڈی کررہی تھی۔ اُسے یاد تھا کہ اُسے ایک لڑکا پسند کرتاتھا جس کا نام راہیل تھا اور جو انگلش لٹریچر کا طالب علم تھا۔ اسے سب کچھ یاد تھا۔ وہ کبھی دُور ہزاروں ’’فرسانگی‘‘ کے فاصلے پر موجود عمارت کی کھڑکیوں کے پاس جانے کا سوچتی۔

اب وہ پھر اُڑرہی تھی۔ نیلمانہ کو یوں گلابی پھولوں پر پرواز کرتے دیکھا تو شاؤزان سے رہا نہ گیا۔ وہ بھی اپنے گہرے نیلے پر پھڑپھڑاتا مورسینا کے ساتھ آمِلا۔ شاؤزان نے آتے ہی کہا،

’’نیا  دن مبارک ہو۔یہ سال کتنا روشن ہےنا؟‘‘

ماریہ ہنس دی۔ اب اسے سب معلوم تھا۔ یہ لوگ انسانوں کے ایک دن کو اپنے لیے ایک سال سمجھتے تھے۔ ماریہ نے شاؤزان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،

’’شاؤ! تمہیں پتہ ہے؟ ہمارا ایک سال کسی اور کے لیے  فقط ایک دن کے برابر بھی ہوسکتاہے؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ہاں! ہمارے تین سو  دنوں کا ایک سال ہوتاہے نا؟

اُس نے شاؤزان سے سوال کیا،

’’ہاں‘‘

’’ تمہیں پتہ ہے ؟ ہمارےنوہزار دِنوں سے  انسانوں کا ایک مہینہ بنتاہے۔ہمارے اسّی ہزار  دنوں سے انسانوں کے نومہینے بنتے ہیں‘‘

’’انسانوں کے؟ انسان کون ہیں۔ وہ کہاں ہوتے ہیں؟‘‘

شاؤزان کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ  نیلمانہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں نیلمانہ سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگی۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ نیلمانہ ابھی تک پوری طرح صحتیاب نہیں ہوئی۔ لیکن ماریہ تھی کہ بولتی چلی جارہی تھی۔شاؤزان کے پوچھنے پر ماریہ نے کہا،

’’انسان بھی ایک زندہ مخلوق ہیں۔وہ ہم سے  بہت بڑے ہیں۔ہم ہوا میں اُڑسکتے ہیں لیکن وہ زمین پر چلتے ہیں‘‘

ماریہ کو یاد آیا کہ ہاں، سچ مچ وہ لوگ انسانوں کو نہیں جانتے تھے۔ اُسے یاد آیا کہ ایک تتلی کے طور پر وہ انسانوں کودرختوں جیسا ہی سمجھتی تھی جن پر نہ کوئی پھول اُگتے تھے اور نہ ہی پتے۔ جن کی شاخوں سے خوشبُو کی بجائے بدبُو آتی تھی۔ماریہ کو یاد آیا کہ  چلنے والی نسل کے چھوٹے  درخت بڑے درختوں سے زیادہ خطرناک ہوتے تھے۔ چھوٹے درخت تتلیوں کے پیچھے بھاگتے اور اُنہیں پکڑ کرجان سے ماردیتے تھے‘‘

معاً ایک خیال کے تحت ماریہ نے شاؤزان سے پوچھا،

’’شاؤ! ایڈونچر کا موڈ ہے؟‘‘

شاؤزان یکایک خوش ہوگیا۔

’’ارے کیوں نہیں؟ ایڈونچر اور وہ بھی تمہارے ساتھ؟ افف بہت مزہ آئیگا۔ بتاؤ! کہاں چلیں؟‘‘

’’وہ ہ ہ ہ ہ وہاں‘‘

ماریہ نے دور سے پہاڑ نما عمارت کی دیوہیکل کھڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔شاؤزان ٹھیک سے سمجھ نہ پایا۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔

’’کہاں؟ ؟؟‘‘

’’یار! وہ دیکھونا۔ وہ وہاں وہ جو بڑی سی عمارت ہے۔ اس کی کھڑکیوں کے پاس‘‘

شاؤزان کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ دراصل وہ سوچ ہی نہ سکتا تھا کہ نیلمانہ اُسے کسی دوردراز کے شہر میں یوں بے سازوسامانی کے عالم میں جانے کے لیے کہے گی۔ اس نے بے یقینی سے دہرایا،

’’تم آسمان کے دروازے کی بات کررہی ہو؟ وہ جہاں سے  چلنے والے درخت نمودار ہوتے ہیں؟

ماریہ کو یاد آیا کہ ایک تتلی کی حیثیت سے وہ لوگ پروفیسر اور اس کی عمارت کو آسمانوں کا دروازہ کہا کرتے تھے۔ماریہ نے فوراً جواب دیا،

’’ہاں ہاں! وہیں‘‘

’’تم پاگل ہوگئی ہو  نیلمانہ! کوئی تتلی آج تک وہاں نہ گئی ہوگی‘‘

’’کیوں نہ گئی ہوگی۔ تمہیں کیا پتہ؟ میں خود پہلے وہاں رہتی تھی۔ ہماری ساری فیملی، تم بھی اور نیلمانہ اور سومانہ اور مالیَم اور پالسینا، ہم سب پورے  اسّی ہزاردن وہیں تو سوتےرہے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے؟ وہاں ایک پروفیسر رہتے ہیں۔ وہ میرے بابا ہیں۔ وہ تتلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔انہوں نے ہی ہمیں پیدا کیا ہے۔ یہ جو تمہارے پروں کا ڈیزائن ہے نا؟ یہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے ڈرائنگ کیا تھا۔ میں نے او رمیرے بابا نے ،ہم سب کا ڈیزائن بنایا تھا۔ پہلے کاغذ پر۔ پھر کمپیوٹر میں۔ پھرہم نے سمیارگس تتلیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کی تھی۔ ہم تمہاری عمریں لمبی کرنا چاہتے تھے۔میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ میرا ایک دوست تھا راہیل۔ وہ لٹریچر کا سٹوڈینٹ تھا‘‘

ماریہ بولتی چلی جارہی تھی اور شاؤزان تھا کہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے چلا جارہاتھا۔ یہ لڑکی کیسی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگ گئی ہے۔شاؤزان دل ہی دل میں بہت ڈر گیا۔ اس کی نیلمانہ صحت یاب نہیں ہوئی تھی۔ نیلمانہ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہاتھا۔ وہ سوچ میں پڑگیا۔ کیا نیلمانہ کو موروان بابا کے پاس لے جایا جائے؟ موروان بابا جسے ماریہ نے بڈھے گجر کا نام دے رکھا تھا تتلیوں کا وید اور حکیم تھا۔ اس نے کسی خیال کے تحت ماریہ سے  کہا،

’’تم یہی رُکو میں ابھی آتاہوں‘‘

وہ  موروان بابا کے پاس جارہاتھا۔ شاؤزان ایک سادہ دل نوجوان تتلا تھا۔ اسے اپنی نیلمانہ کو دوبارہ ٹھیک ٹھاک دیکھنے کی تمنّا تھی۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا چاہتاتھا۔ شاؤزان چلا گیا تو ماریہ دوبارہ اپنے بابا اور اپنی لیبارٹری کے بارے میں سوچنے لگی۔ معاً اُسے محسوس ہوا جیسے سامنے کسی پھول پر کوئی  تتلا بیٹھا اُسے چھپ چھپ کر دیکھ رہاتھا۔ ماریہ تیزی سے گھومی تو اُسے لڑکا نظرآگیا۔ ماریہ اُسے پہچانتی تھی۔ یہ ’’ایسٹ ویسٹ  فالیَن فائر‘‘ نسل کا ایک نہایت ہی خوبصورت تتلا تھا۔ ماریہ جب  ماریہ ہوا کرتی تھی  تو اُس کی پسندیدہ ترین تتلیوں میں ’’ایسٹ ویسٹ فالیَن فائر‘‘ شامل تھی۔ اس تتلے کو تو وہ انفرادی طور پر بھی پہچانتی تھی۔ اسے وہ پیار سے پرنس کہا کرتی تھی۔ ماریہ کو یاد آنے لگا، جب وہ باغیچے میں فقط ٹہلنے کےلیے آیا کرتی تو پرنس  کو جگہ جگہ ڈھونڈتی پھرتی۔ پرنس اپنی نسل کی دیگر ’’ایسٹ ویسٹ فائر‘‘ تتلیوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کے پروں پر برفانی جھیلوں جیسے پیٹرن تھےجولال لال دائروں میں کے درمیان دونوں پَروں پر دو آنکھوں کی طرح دکھائی دیتی تھے۔دونوں پروں کے کناروں پر فلوراسینٹ گرین کلر کے حاشیے تھے۔ماریہ پرنس کو پہچانتی تھی اس لیے اسے بے پناہ اپنائیت سے محسوس ہوئی۔ پرنس موتیے کے پھول پر بیٹھا ماریہ کی جانب ہی دیکھ رہاتھا۔ ماریہ کو پرنس سے نہ خوف آیا اور نہ ہی جھجک محسوس ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اُڑی اور سیدھی پرنس کے پاس جاکر ہوا میں پھڑپھڑانے لگی۔

پرنس بری طرح  بوکھلا گیا۔وہ جس لڑکی کو چھپ چھپ کر دیکھ رہاتھا، وہی خود اُڑ کر اس کے پاس آپہنچی تھی۔ ماریہ نے پرنس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہایت اپنائیت  سےکہا،

’’پرنس!‘‘

’’کک کیا؟ کون پرنس؟‘‘

پرنس نے دائیں بائیں دیکھا۔ اُسے لگا جیسے ماریہ کسی اور سے مخاطب تھی۔ لیکن ماریہ تو اسی سے مخاطب تھی۔ یہ  نوجوان تتلا باغیچے کے ہرپھول اور ہرتتلی سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔ شردھان کی ہر نوجوان تتلی پرنس پر جان چھڑکتی تھی ۔ لیکن وہ کبھی کسی کی طرف مائل نہ ہوتا تھا۔ نہ جانے کیوں، ماریہ کو ایک دن پہلے چیختا چلاتا دیکھ کر وہ بھی باقی تتلیوں کی طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر اُس کے بعد سے اب تک وہ ماریہ کو ہی ڈھونڈتا رہ گیا تھا۔ماریہ کے ’’پرنس‘‘ پکارنے پر وہ چونکا۔ اسےکچھ سمجھ نہ آئی کہ  اِس حسین و جمیل نیلی تتلی  نے اسے کیوں پرنس کہہ کر پکاراتھا۔ابھی  وہ حیرت کے جھٹکے سے باہر ہی نہ آیا تھا کہ ماریہ نے دوبارہ کہا،

’’پرنس! تم نے مجھے پہچانا؟ میں ماریہ ہوں۔ یاد ہے میں کیسے تمہیں ڈھونڈتی پھرتی تھی باغیچے میں؟‘‘

اب تو  پرنس کی حیرت دیکھنے والی تھی۔ جس لڑکی کو اس نے زندگی میں پسند کیا، وہ کیاکہہ رہی تھی؟ کیا یہ سچ تھا؟ کیا وہ اسے واقعی باغیچے میں ڈھونڈتی پھرتی تھی؟ لیکن کب؟ اُسے تو کچھ یاد نہیں آرہاتھا؟ اس نے بالآخر زبان کھولی،

’’مجھے ڈھونڈتی پھرتی تھیں؟ کب؟ مجھے تو کچھ یاد نہیں‘‘

’’ارے واہ! تمہیں یاد نہیں؟  ایک بار تمہارا بایاں پَر زخمی ہوگیا تھا اورتمہاری سُرخ کلر کی لائنیں خراب ہوگئی تھیں۔ میں نے تمہارا علاج کیا تھا۔ یاد نہیں ہے کیا؟ میں تمہیں اپنی لیبارٹری میں لے گئی تھی۔تمہارے پروں پر زخم ٹھیک کرنے والی دوائی لگائی تھی۔ تم نے کچھ دن ہماری لیبارٹری میں گزارے تھے۔ کیا تم سب کچھ بھول گئے ہوپرنس؟‘‘

قریب تھا کہ پرنس چکرا کر گرپڑتا۔ یہ سب تو سچ تھا۔ یہ سب تو اسے یاد تھا۔ ایک بار واقعی اس کا پر زخمی ہوگیا تھا اور وہ بے ہوش کر گرپڑاتھا۔ تب شاید کسی آسمانی مخلوق نے آکر اُس کا پر ٹھیک کردیا تھا۔ لیکن یہ نیلی تتلی ایسا کیوں کہہ رہی تھی؟  یہ ضرور جھوٹ بول رہی تھی۔ اس نے کسی قدر ناراض لہجے میں کہا،

’’اجنبی لڑکی! تم جھوٹ بول رہی ہو۔میں اُس آسمانی دروازے والی عظیم الشان عمارت میں چند نہیں، چند سال رہاتھا۔تم نے یہ بات کسی سے سن لی ہوگی اور مجھے حیران کرنے کے لیے بتارہی ہو‘‘

’’ارے نہیں نہیں! وہ میں ہی تھی۔ میں اس وقت انسان ہوتی تھی۔ میرا نام ماریہ تھا۔ میں نے ہی تمہارے پروں پر اُس لوشن کا لیپ کیا تھا جس سے ٹوٹے ہوئے پر دوبارہ مرمت ہوجاتے ہیں۔مجھے خود پتہ نہیں کہ میں انسان سے تتلی کیسے بن گئی ہوں۔ کل تم نے دیکھا میں کیسے رورہی تھی؟ اِسی لیے رو رہی تھی کہ میں اچانک انسان سے تتلی بن گئی ہوں۔ کل اُن پھولوں کے پیچھے تم ہی تھے نا؟ جو  مجھے چھپ چھپ کر دیکھ رہے تھے؟ میں نے اس وقت تمہاری ایک جھلک دیکھ لی تھی۔لیکن اس وقت میں تمہیں پہچان نہ پائی تھی۔آج تمہیں میں نے پہچان لیا۔ تم تو میرے پرنس تھے۔حیرت ہے تمہیں میری محبت بھی یاد نہیں؟ میں روزباغیچے میں تمہیں دیکھنے کے لیے آیا کرتی تھی۔ تم اُڑ کر میرے ہاتھ پر بیٹھ جاتے تھے۔پھر تم تب تک بیٹھے رہتے تھے جب تک میں تمہیں موتیے کے اِن پھولوں پر دوبارہ خود نہ اُتار دیتی تھی۔ میں نے ہی تمہارا نام پرنس رکھا تھا‘‘

پرنس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس عجیب و غریب نیلی تتلی کو دیکھے جارہا تھا۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے؟  اس کا ننھا سا ذہن  اتنے عجیب وغریب معجزے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ لیکن اس کے دل کے کسی گوشے میں سے آواز آتی تھی کہ نیلی تتلی جھوٹ نہیں بول رہی۔ اسے واقعی یاد تھا کہ جس پہاڑ  جیسے چلتے پھرتے پیڑ نے اسے اُسے اُٹھالیاتھا۔ اُسی نے اُس کا علاج بھی کیا تھا۔ یہ ساری باتیں اس نے موروان بابا کو بتائی تھیں۔ سب لوگ اس سے آسمانوں کے دروازے کی باتیں پوچھا کرتے تھے۔اُسے یاد تھا کہ وہ چلتاہوا پیڑ روز شردھان آتاتھا اور پرنس کو ڈھونڈتاتھا۔پرنس  نے تجسس، حیرت اور خوف سے ایک جھرجھری لی تو اس کے رنگین اور خوشنما پر ہوا میں  لہرائے۔

ماریہ اب ایک تتلی تھی اور نوجوان تتلی تھی۔ ایسے حسین تتلے کو دیکھ کر اس کے دل میں جوانی کے کسی ارمان نے جنم لیا۔ اپنی اس کیفیت پر وہ تلملا اُٹھی۔ اس کا دل نوجوان تتلے کی طرف کھنچتا چلاجارہاتھا۔پرنس کے دل میں بھی ماریہ کے لیے ایسے ہی جذبات مچل رہے تھے۔ معاً پرنس نے ہولے سے کہا،

’’میرا نام پرنس نہیں، فائینی ہے‘‘

’’فائینی؟ ارے واہ! یہ تو بڑا خوبصورت نام ہے۔ فائینی!  کیا تمہیں یقین آگیا کہ میں واقعی وہی لڑکی ہوں جس  نے تمہاری مدد کی تھی؟‘‘

پرنس سوچ میں پڑگیا۔ چند ساعتیں خاموش رہنے کے بعد اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا،

’’نہیں‘‘

ماریہ اداس ہوگئی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ پرنس نے دل سے اس کی بات پر ضرور یقین کرلیا ہے۔وہ ابھی پرنس سے مزید باتیں کرنا چاہتی تھی کہ اسے دور سے شاؤزان آتاہوا دکھائی دیا۔ شاؤزان کو دیکھتے ہی پرنس دوبارہ پھولوں کے پیچھے چھپ گیا۔ماریہ نے شاؤزان کو دیکھا تو وہ بھی واپس مُڑ آئی۔شاؤزان کے ساتھ ’’ موروان بابا‘‘ نہیں تھے۔اُس نے قریب آکر کہا،

’’نیلمانہ! وید بابا خود بیمار ہیں۔ وہ نہیں آسکتے۔ ہمیں اُن کے پاس جاناہوگا‘‘

’’نہیں! ہم کسی وید بابا سے ملنے نہیں جارہے ۔ مجھے آسمان کے دروازے والی بڑی بلڈنگ میں جانا ہے۔ اگر تم میرے ساتھ آسکتے ہو تو ٹھیک ہے۔ ورنہ میں اکیلی چلی جاؤنگی‘‘

شاؤزان کے لیے نیلمانہ کا یہ رویّہ نہایت غیر  متوقع تھا۔نیلمانہ کی بات سن کر وہ بالکل خاموش ہوگیا۔پورا دن   وہ ، شاؤزان کے ساتھ ایسی ہی باتیں کرتی رہی تھی۔ دن کے اختتام پر جب سب لوگ اپنے ٹھکانے پر لوٹے تو شاؤزان نے  مورسینا کو سب کچھ بتادیا۔ مورسینا اور باقی سب نیلی تتلیاں نیلمانہ کو ہمدردانہ نظروں سے دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کرسکتی تھیں۔ یونہی  اُن کا اگلادن تمام ہوا اور شیشتا شروع ہوگئی۔ شیشتا تتلیوں کی دنیا کی رات ہوتی تھی۔اس میں انسانوں کی رات جیسی تاریکی نہ ہوتی تھی۔ بس روشنی کا رنگ تھوڑا سا بدل جاتاتھا۔ ہردن میں روشنی کا رنگ پچھلے دن سے مختلف ہوتاتھا۔روشنی کے  رنگوں کی اسی تبدیلی کی بنا پر تتلیاں  اپنے زمانے کا حساب رکھتی تھیں۔

ماریہ سب جانتی تھی۔ ماریہ جانتی تھی کہ تتلیوں کی دنیا میں ہردِن  میں روشنی کا رنگ کیوں بدل جاتا ہے۔ سُورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ زمین پر آنے والی روشنی کی شعاعوں میں جو معمولی سی تبدیلی بھی واقع ہوتی تھی، تتلیاں اُسے نوٹ کرسکتی تھیں۔ انسانوں کے لیے روشنی بس روشنی تھی ۔ انسان سُورج کی شعاعوں  میں سات رنگوں کی ہلکی ہلکی جھلک کو محسوس کرنے سے قاصر تھے۔

وہ خود جب سے تتلی بنی تھی ہرپل رنگ بدلتی سُورج کی روشنی دیکھتی تو حیران رہ جاتی۔ وہ جانتی تھی کہ تتلیوں کی آنکھوں میں باریک ویو لینتھ کی شعاعوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت تھی۔اب تو ماریہ الٹراوائیلٹ شعاعوں کو بھی دیکھ سکتی تھی۔اس کے لیے سب کچھ بدل گیاتھا۔ یہ جہان ہی کچھ اور تھا۔ یہاں کی ہرچھوٹی سے چھوٹی چیز ماریہ کے لیے بڑی بڑی چیزوں جیسی تھی۔ یہاں گزرنے والا ہرلمحہ انسانی زندگی کے لمحات سے یکسر مختلف تھا۔ تتلیوں کا ایک سیکنڈ انسانوں کے ایک سیکنڈ سے  کہیں زیادہ طویل تھا۔وہ انسانی علوم کے بارے میں سوچنے لگی۔اُسے کوانٹم فزکس کی باتیں یاد آنے لگیں جہاں اشیأ کو اور بھی باریک سطح پر جاکر دیکھنے کا تجسس موجود تھا۔تتلیوں کے وِژن سے بھی کروڑوں گنا باریک سطح۔

شیشتا شروع ہوئی تو ساری نیلی تتلیاں سوگئیں لیکن ماریہ کو نیند نہیں آرہی تھی ۔ اُسے اپنا انسانی گھر یاد آرہاتھا۔اُسے اپنے بابا یاد آرہے تھے۔خداجانے اُس کے انسانی رُوپ کے ساتھ کیا بیتی ہوگی؟ خدا جانے اس کے بابا کا کیا حال ہوگا اُس کے بغیر۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقیقی دنیا میں وہ مرچکی ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوؤں کا آواگوَن درست ہو؟ انسان مرنے کے بعد کسی اور مخلوق میں بدل جاتاہو؟

طرح طرح کے خیالات تھے جو اس کے دل میں آتے رہے۔ماریہ دیر تک جاگتی رہی اور اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، دوستوں اور انسانی زندگی کے سارے واقعات کو یاد کرتی رہی۔ شیشتا گزرتی جارہی تھی۔ سب تتلیاں سورہی تھیں اور ماریہ اکیلی جاگ رہی تھی۔ وہ بے حدا داس تھی۔ اتنی اداس کہ آخر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔

*********

کچھ نہ ہوسکا۔ وہ کچھ بھی تو نہ کرسکی۔ وہ اب ایک کمزور تتلی تھی۔ وہ اب ایک طاقتور انسان نہیں تھی۔  دِن پر دِن  گزرتے چلے گئے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اُس کی زندگی مختلف سے مختلف ہوتی چلی گئی۔ اب تو کبھی کبھار اسے یوں لگتا جیسے وہ کبھی ماریہ تھی ہی نہیں۔ وہ ہمیشہ سے  نیلمانہ تھی۔ایک نیلی تتلی جو کسی پورماشانی کی نیند کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ اس کی تمام انسانی یاداشتیں فقط جھوٹے خواب تھیں۔ لیکن اپنے ایسے خیالات پر اُسے کبھی دل سے یقین نہیں آیا تھا۔البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی انسانی یاداشتیں دھندلانے لگی تھیں۔ اُس پرتتلی کا وِژن غالب آتاجارہاتھا ۔

غم کے ہوں یا خوشی کے دن، وقت بالآخر گزر ہی جاتاہے۔ آج ماریہ کو تتلیوں کی دنیا میں آئے ہوئے نوسودن گزرچکےتھے۔اس دوران  اس کی ننھی سی زندگی کے ساتھ کیا کچھ بیت گیا، وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔پرنس فائینی سے محبت کرنے کے جرم میں نیلی سمیارگس تتلیوں نے اسے اپنے خاندان سے نکال دیا تھا۔شاؤزان نے نیلمانہ کی بیوفائی کے غم میں کھانا پینا چھوڑدیاتھا اور اب وہ اتنا بیمار تھا کہ بستر مرگ پر پہنچ چکاتھا۔ماریہ گزشتہ دوسودنوں سے پرنس فائینی کے ساتھ رہ رہی تھی۔پرنس فائینی کے خاندان نے نیلمانہ کو بڑی مشکل سے قبول کیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ماریہ سیانی ہوتی گئی۔ اب وہ کسی کو اپنے انسان ہونے کی کہانی نہ سنایا کرتی تھی۔ دنیا میں صرف دو ہی لوگ تھے جنہیں ماریہ کی اصل کہانی معلوم تھی ۔ ایک ماریہ کا محبوب پرنس فائینی اور دوسرا ’’بزرگ وید موروان بابا‘‘۔ اب ماریہ ہرکسی سے اپنی درد ناک داستان چھپاتی تھی۔کیونکہ سب لوگ اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔ بعض نک چرھی  لڑکیاں  تو اس سے باقاعدہ نفرت کرتی تھی۔اس جادوگرنی کہتی تھی اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اُن کے اِس رویّے نے ماریہ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا شروع کردیاتو ماریہ سب سے الگ تھلگ رہنے لگی۔

نوسودنوں کا مطلب تھا کہ ماریہ نے تتلیوں کی دنیا کے تین مکمل سال گزار دیے تھے۔تین سال! خدا کی پناہ! کہنا آسان تھا۔ وہ اکثر حیران ہوتی کہ وقت کتنی تیزی سے گزرگیا۔اس دوران اس نے ایک بار بھی اپنے بابا کو نہ دیکھا۔حالانکہ ہرنئے دن کے آغاز  پہ وہ اس اُمید کے ساتھ جاگتی کہ آج بابا باغیچے میں آئینگے اور وہ اپنے بابا کو دیکھے گی۔

جب سے وہ  پرنس فائینی کے ساتھ رہنے لگی تھی، اُسے یہ اُمید بھی بندھ گئی تھی کہ ایک نہ ایک دن اُس کا پرنس اُسے دُور آسمانوں کے دروازے والی عظیم عمارت میں ضرور لے جائیگا۔ پرنس فائینی نے بھی ماریہ کے ساتھ وعدہ کررکھاتھا کہ جب اُن کی شادی ہوجائے گی تو وہ ہنی مون کے لیے وہیں جائینگے۔ پرنس نے اپنا ہنی مون کا منصوبہ اپنے خاندان والوں سے چھپا رکھاتھا۔

اور پھر وہ دن بھی آگیا جب پرنس اور ماریہ کی شادی ہورہی تھی۔پرنس کا خاندان موتیے کے پھولوں  میں رہتاتھا۔ آج موتیے کی پوری کیاری پر بہار آئی ہوئی تھی۔ہرخاندان کی نوجوان تتلیاں پوری طرح تیار ہوکر آئی تھیں۔ ماریہ نے بھی حسبِ معمول شبنم کے ساتھ غسل کیا۔اڑوس پڑوس کی لڑکیاں بالیاں اُس کا بناؤ سنگھار کرنے آپہنچیں۔ ان لڑکیوں میں پرنس کی لاڈلی بہنیں بھی تھیں جو اپنی بھابھی کو دیکھ دیکھ کر اُس کی بلائیں لے رہی تھیں۔ سارا خاندان مخالف تھا لیکن اِن لڑکیوں نے اس نیلی تتلی کو دِل سے قبول کرلیاتھا۔ ماریہ نے بھی اُن کا دل جیتنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ انہیں کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ آسمانوں کی کہانیاں۔جہاں بڑے بڑے جنّاتی پیڑ رہتے تھے جو چلتے پھرتے تھے اور جو اپنے سے بھی بڑے جانوروں کو کھاجاتے تھے۔ماریہ انہیں یہ نہ بتاتی تھی کہ وہ بھی کبھی ان جنّات میں سے ایک تھی۔ بس وہ انہیں کہانیاں سناتی اور پرنس کی بہن خوشی سے پھولے نہ سماتیں۔ ایسی باتیں انہوں نے کبھی بھی نہ سنی تھیں۔ ماریہ نے پرنس کے خاندان کے بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری بھی سنبھال لی تھی۔ گزشتہ دوسودِنوں میں اس نے کئی بچوں کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک بہت سی ضروری  چیزیں پڑھائی تھیں۔ تدریس کی وجہ سے اب باغیچے کی باقی تتلیاں بھی اپنے بچوں کو ماریہ کے پاس پڑھنے کے لیے بھیج دیا کرتی تھیں۔

آج ماریہ کی شادی تھی۔ پرنس بے پناہ خوش تھا۔ ماریہ بھی خوش تھی۔ آخر اس نے اپنی تقدیر کو قبول کرلیاتھا۔ کسی کسی وقت اس کے دل سے ایک ہُوک سے اُٹھتی اور وہ ایک لمبی ٹھنڈی سانس لے کر رہ جاتی۔پرنس کی بہنوں اور دیگر تتلیوں نے جب اُسے اچھی طرح سے دلہن بنادیا اور دلہن کے کمرے سے باہر لے کر آئیں تو دیکھنے والی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنی حسین  اور ایسی جوان تتلی انہوں نے آج تک نہ دیکھی تھی۔ماریہ بھی مسکرا رہی تھی۔ پرنس کی ماں نے آگے بڑھ کر ماریہ کو گلے سے لگالیا۔علاقے  کی ساری بڑی بوڑھی تتلیاں  بھی آج پرنس کے گھر مہمان تھیں۔ ہرطرف تتلیاں ہی تتلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ نوعمر تتلے لڑکیوں کے پیچھے اُڑے اُڑے پھرتے تھے۔ کھنکتے ہوئے قہقہے۔ نیکٹر کے لُٹتے ہوئے جام اور لڑکیوں بالیوں کے  پھولوں کی پتیوں کی تھاپ پر شادی بیاہ کے گانے۔

معاً سارے پنڈال میں سنسنی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔یکلخت خاموشی چھاگئی۔ گانے بند ہوگئے اور ہرایک سانس روک کر اپنی اپنی جگہ ٹھٹھک گیا۔ ماریہ کو پہلے پہل تو کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہورہاہے لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ سب لوگ ایک ہی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ماریہ نے بھی جھٹ سے اُسی جانب دیکھا۔ اور وہ کیا دیکھتی ہے کہ اس کے بابا بہت ہی دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے باغیچے میں آرہے تھے۔تتلیوں کی دنیا کے نوسو دِنوں میں پہلی بار۔ اتنے طویل انتظار کے بعد آخر آج اُس کے بابا باغیچے کی طرف آرہے تھے۔ماریہ کا دل مارے خوشی کے اچھل کر حلق میں آگیا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کرے؟ خوشی کا اظہارکرے یا رونے لگ جائے۔لیکن وہ اپنے آنسو نہ روک پائی۔ آج کتنی مدت بعد وہ اپنے بابا کو دیکھنے والی تھی۔پرنس فائینی اپنی ہونے والی بیوی کی کیفیت دور سے ہی بھانپ گیا۔وہ اپنے جگہ سے اُڑا اور ماریہ کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنا دایاں پَرہولے سے ماریہ کے پر کے ساتھ مَس کیا۔ جیسے اُسے حوصلہ دے رہاہو کہ ’گھبراؤ مت! میں ہوں نا‘۔ماریہ نے ایک نظر پرنس کی طرف دیکھا اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ دھیمی آواز میں فقط ایک لفظ کہا،

’’میرے بابا‘‘

********

 

پروفیسر اب نزدیک آچکا تھا۔ وہ سیدھا اسی طرف آرہاتھا۔ آج اتنی زیادہ تتلیاں ایک ساتھ، باغیچے کے اِس حصے میں کیوں جمع تھیں؟ شاید اسی بات کی تحقیق کے لیے پروفیسر نے آج باغیچے میں آنا گوارا کیا ہوگا۔ کیونکہ جب سے اس کی بیٹی ماریہ کومے میں گئی تھی پروفیسر کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ وہ سارا سارا دن ہسپتال میں اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ آج تین دن بعد پروفیسر کا بڑا بیٹا  باپ کو زبردستی گھر لے آیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتادیا تھا کہ ماریہ لمبے کومے میں چلی گئی ہے اور یہ کہ اس کی واپسی کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بیٹا پروفیسر کو گھر لے آیا کہ پروفیسر کی حالت خاصی خراب تھی۔ اس نے تین دن سے نہ کچھ کھایا پیا تھا اور نہ ہی نہایادھویاتھا۔پروفیسر گھر آیا تو سب سے پہلے اپنی لیبارٹری میں گیا۔ لیکن شیشے والی کھڑکی کے پاس پہنچ کر اُسے احساس ہوا کہ باغیچے میں کوئی غیر معمولی سرگرمی جارہی ہے۔باغیچے کی زیادہ تر تتلیاں صرف موتیے کی کیاری پر  ہی منڈلا رہی تھیں۔ پروفیسر کچھ دیر تک شیشے کے پیچھے کھڑا تتلیوں کے رنگارنگ جھنڈ کو کسی قدر بے دلی سے دیکھتارہا پھر اس سے نہ رہا گیا اور وہ باغیچے کی طرف چل دیا۔

موتیے کے پھولوں کی کیاری کے پاس پہنچ کر پروفیسر رک گیا۔ اب وہ تتلیوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا۔ معاً ایک نیلی  سمیارگس اُڑتی ہوئی ہوئی پروفیسر کی طرف آنے لگی۔نیلی سمیارگس کو دیکھتے ہی پروفیسر کو ماریہ کے برین ہمبرج والا دِن یاد آگیا۔ اس دن انہی نیلی سمیارگس تتلیوں کو دیکھنے کے لیے ہی تو ماریہ باغیچے کی طرف دوڑی تھی۔پروفیسرکے دِل میں نیلی تتلی کے لیے نفرت سی پیدا ہوئی۔اس نے اپنی طرف آتی ہوئی نیلی سمیارگس کو نظر انداز کردیا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک ایسا نہ کرسکا۔ نیلی سمیارگس نے پروفیسر کی توجہ خودبخود ہی اپنی طرف مبذول کرلی۔ جب وہ اُڑتی ہوئی آئی اور سیدھی پروفیسر کےپاس آکر پھڑپھڑانے لگی۔ پروفیسر نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو نیلی سمیارگس پروفیسر کی ہتھیلی پر آبیٹھی۔

پروفیسر کے لیے یہ ایک اچھنبے کی بات تھی۔ یوں تو تتلیاں ہزاروں بار اس کی ہتھیلیوں پر بیٹھتی تھیں لیکن اِس نیلی سمیارگس کے بیٹھنے کا انداز ہی کچھ اور تھا۔ تتلی پہلے ہتھیلی پر اُتری اور پھر اُس نے اپنا رخ پروفیسر کے چہرے کی طرف موڑ لیا۔پروفیسر کو یوں لگا جیسے تتلی اسے دیکھ رہی ہو۔یہی وجہ تھی کہ وہ حیران ہورہاتھا۔معاً اُسے  ماریہ کا دیا ہوا نام یاد آگیا جو ماریہ نے اِن نیلی تتلیوں کو دیا تھا۔اس نے خودکلامی کے سے انداز میں پکارا،

’’لُوسی!‘‘

چند ثانیے بعدنیلی تتلی پروفیسر کی ہتھیلی پر پھڑپھڑائی۔پروفیسر کو سب کچھ نارمل لگا لیکن نہ جانے کیوں اس نے پھر پکارا،

’’لوسی!‘‘

اُتنے ہی وقفے بعد لُوسی پروفیسر کی ہتھیلی پر دوبارہ پھڑپھڑائی۔اب تو لُوسی نے سچ مچ پروفیسر کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ بار بار اُسے نام سے پکارتا اور ایک مخصوص وقفے کے بعد نیلی تتلی پروفیسر کی ہتھیلی پر پھڑپھڑاتی۔ پروفیسر حد سے زیادہ حیران ہورہاتھا۔  اسے وقتی طور پر اپنی بیٹی کی بیماری بھول گئی۔اس نے جانے کتنی بار لُوسی کو لُوسی کہہ کر پکارا اور ہر بار  اُتنے ہی وقفے کے بعد لُوسی نے اس کی ہتھیلی پر اپنے پر پھڑپھڑائے۔یہاں تک کہ پروفیسر کو پیچھے سے بیٹے نے آواز دی اوراس کے خیالات کا تانتا ٹوٹ گیا۔ اس نے لُوسی کو آہستگی سے موتیے کے ایک پھول پر اُتارا اور بے دلی سے  برآمدے کی طرف بڑھنے کے لیے مڑا۔ واپسی پر پروفیسر کی نظر اُس عدسے پرپڑی جو ماریہ کے ہاتھ سے بے ہوش ہوتے وقت گرگیاتھا۔ پروفیسر کی آنکھوں سے یکایک آنسو اُمڈنے لگے۔ اُس نے جھک کر عدسہ اُٹھایا اور ڈھیلے قدموں سے گھر کی طرف چل دیا۔

******

’’جب تم   اپنے بابا کو پکار رہی تھیں تو کیا تمہارے بابا نے تمہاری آواز سنی تھی انّا؟‘‘

یہ لوسی کے  سب سے چھوٹے پوتے کی آواز تھی۔

’’نہیں سارنگ بیٹا! میں چلّا چلّا کر اپنے بابا  کو پکارتی رہی لیکن انہوں نے میری آواز نہ سنی‘‘

’’لیکن تم نے تو اپنے بابا کی آواز سنی تھی نا انّا؟‘‘

’’ہاں!  وہ لُوسی لُوسی پکار رہے تھے۔ لیکن اُن کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ بہت  سُستی سے آتی ہوئی آواز جیسے ان کے بولنے کی رفتار پتوں کے ہلنے کی رفتار سے بھی آہستہ ہو۔ میں بڑی مشکل سے سمجھ پائی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے‘‘

سارنگ ہررات اپنی انّا سے یہ کہانی سنتاتھا۔حالانکہ اب وہ جوان ہوچکاتھا اور اپنے آس پاس کی تمام نوجوان تتلیوں میں کسی ہیرو کی طرح سے مشہور تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ عقلمنداور بہادر تھا۔اُس کی انّا نے اسے تمام علوم پڑھائے تھے۔وہ بچپن سے ہی انّا کی گود میں پلا تھا۔ماریہ اب بوڑھی ہوچکی تھی۔اُسے تتلیوں کی دنیا میں وارد ہوئے اب  چھتیس ہزار  دِن  گزرچکے تھے۔اس دوران اس کے بے شمار بچے پیدا ہوئے اور اس کے بچوں کے بچے پیدا ہوئے۔ سارنگ ماریہ  کا پوتاتھا۔ اُس کا پرنس آج سے  چند سال  پہلے  ہی اُسے اکیلا چھوڑکرچلاگیاتھا۔ ماریہ ہررات دولوگوں کو یاد کرکے رویا کرتی ۔ایک اپنے بابا کو اور دوسرے اپنی زندگی کے ساتھی، اپنے محبوب پرنس فائینی کو۔وہ جب بھی پرنس کو یاد کرتی تو اپنی ہنی مون کے دن ضرور یاد کرتی جب اُس کا پرنس اُسے دور آسمانوں کے دروازے والی عظیم عمارت تک لے گیاتھا۔وہ ماریہ کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا۔

اُس دن وہ ایک بار پھر اپنے بابا کی لیبارٹری میں آئی تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح پوری لیبارٹری میں اڑتی پھررہی تھی اور پرنس فائینی اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہاتھا۔ماریہ ہرہر الماری کے پاس گئی۔ اسے سب کیمیکلز کا پتہ تھا۔ وہ سب چیزوں کو پہچانتی تھی۔اُس دن ماریہ کو پتہ چلا کہ لیبارٹری میں اب اس کے بابا کام نہیں کرتے کیونکہ لیبارٹری کی سب میزیں ویران پڑی تھیں۔ اس دن ماریہ کو معلوم ہوا کہ انسانوں کی دنیا میں وہ یقیناً مرچکی ہے ورنہ اس کے بابا یوں غمزدہ ہوکر سب کچھ چھوڑ نہ دیتے۔اُس دن ماریہ کو اندازہ ہوا کہ اب اس کے بابا باغیچے میں آتے ہیں تو صرف گھومتے ہی کیوں رہتے تھے۔ تتلیوں پر تحقیقات کیوں  نہ کرتے تھے۔وہ جان گئی کہ ماریہ کے بغیر اس کے بابا اُداس ہیں۔ وہ اس دن بہت روئی تھی۔ ہنی مون سے واپسی پر ماریہ کتنے دن روتی رہی تھی۔ اس کاپرنس اُسے دلاسہ دیتا۔ اسے زندگی کی خوشحالیوں کی طرف متوجہ کرتا ۔ اُسے گھربنانے، بچے پیدا کرنے اور ایک لمبی خوشحال زندگی ساتھ گزارنے کے خواب دکھاتا لیکن ماریہ کے دل کی اداسی کم نہ ہوتی۔

اس کے بعد ساری زندگی ماریہ اپنے بابا کو باغیچے میں آتا دیکھتی رہی۔ کبھی کبھار جب وہ زیادہ دُور نہ ہوتے تو ماریہ اُڑ کر بابا کے پاس چلی جاتی اور ان کی ہتھیلی کی گود میں  یوں جاکر لیٹ جاتی جیسے آج ساری دنیا کے غم بھلا ہی تو دے گی۔ اس کے بابا اب پہلے سے بھی زیادہ خودکلامی کیا کرتے تھے۔ وہ اُسے لُوسی لُوسی پکارتے اور ماریہ کی باتیں بتاتے تو وہ زاروقطار رونے لگتی۔وہ ایک ایک بات سنتی، سمجھتی لیکن اُس کی کسی بات کو اس کے بابا کبھی نہ سمجھ پاتے۔ وہ ایک پَرپھڑپھڑاتی نیلی تتلی کے سوا کچھ بھی  کبھی نہ دیکھ پائے تھے۔

اتنے سال گزارنے کے بعد اب  ماریہ بہت بوڑھی اور کمزور ہوچکی تھی ۔ جب اس کے بابا شردھان میں آتے تو وہ اُڑ کر اُن تک جابھی نہیں سکتی تھی۔ کبھی کبھار اُس کے بابا خود ہی اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے موتیے کی کیاریوں کی طرف آنکلتے اور وہ اپنے بوڑھے پروں کے ساتھ مشکل سے اُڑتی ہوئی اب بھی کبھی کبھاراُن کی ہتھیلی پر جابیٹھتی۔اب بھی وہ لُوسی کے ساتھ ماریہ کی باتیں کیا کرتے اور اب بھی ماریہ ہربار روپڑتی۔

سارنگ کا نام بھی ماریہ نے اپنے بابا کے نام پر رکھاتھا۔یہی وجہ تھی کہ اپنی اتنی زیادہ اولاد میں فقط سارنگ ہی ماریہ کو سب سے زیادہ پیاراتھا۔ ماریہ نے سارنگ کو انسانی دنیا کی ہربات بتائی تھی۔ سارنگ بہت سمجھدار تھا۔ وہ اپنی انّا کی ہربات پر یقین کرتاتھا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ اس کی انّا کبھی انسان ہوا کرتی تھی۔ماریہ نے اسے سارے علوم اچھی طرح ازبر کروائے تھے۔ماریہ نے اسے زمان ومکاں کی ایسی تعلیم دی تھی کہ اب وہ اکثرسوچاکرتاتھا کہ کاش وہ کبھی انسانی زمانے کو اپنے تصور میں لاسکے۔وہ اپنے دوستوں کو آئن سٹائن کے نظریات سمجھایا کرتا تو سب اس سے پوچھنے بیٹھ جاتے کہ آئن سٹائن کون تھا اور یہ سب باتیں کیسے ممکن ہیں؟ سارنگ کی باتوں کو اُس کے دوست اکثرمذاق میں اُڑادیا کرتے تھے لیکن وہ  اپنی لگن سے کبھی باز نہ رہ سکا تھا۔ اسے بھی لیبارٹری میں جانے کا بے پناہ شوق تھا لیکن  وہ اپنی بیمار  اور بوڑھی دادی کو پیچھے اکیلا چھوڑ کر اتنے لمبے سفر پر روانہ نہ ہونا چاہتاتھا۔

اسی طرح ایک دن وہ اپنے دوستوں میں بیٹھا انسانی دنیا کی باتیں بتارہاتھا کہ چند اوباش قسم کے ٹائیگر پتنگوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی شروع کردی۔سارنگ اگرچہ بہت بہادر تھا لیکن وہ  اس طرح کے اوباشوں کو منہ نہیں لگاتاتھا۔ اس نے ٹائیگر پتنگوں کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ بات جاری رکھی۔ لیکن  اُس وقت وہ اپنے غصے پر قابونہ پاسکا جب اوباش ٹائیگر پتنگوں نے اس کی انّا کو فاحشہ ، جادوگرنی اور نہ جانے کیا کیا کہنا شروع کردیا۔ سارنگ سب کچھ برداشت کرسکتاتھا لیکن اپنی انّا کے لیے ایسے نازیبا الفاظ سننا اس کے بس سے باہر تھا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ٹائیگر پتنگوں پر حملہ کردیا۔ سارنگ کو اس کے سبھی دوست سمجھاتے رہے لیکن وہ اپنے غصے پر قابو نہ پاسکا۔ پتنگے تعدا د میں زیادہ تھے اور سارنگ اکیلا تھا۔ اس کے دوست لڑاکا نسل کے تتلے نہیں تھے اس لیے لڑائی میں شریک نہ ہوئے اور سارنگ  اکیلا اُن  بدمعاش ٹائیگر پتنگوں کے نرغے میں بری طرح پھنس گیا۔وہ ایسا غضبناک ہوکر لڑا کہ اس نے دوتین ٹائیگر پتنگوں کو اچھا خاصا زخمی کردیا لیکن اِس خونریزی میں اس کے اپنے پر بھی بری طرح  ٹوٹ ہوگئے۔ اس کے لیے مزید اُڑتے رہنا ممکن نہ رہا اور وہ زمین پر گرنے لگا۔زخمی حالت میں زمین پر گرتے وقت بھی وہ سوچ رہاتھا کہ،

’’آئن سٹائن سچ کہتاہے۔چیزیں زمین پر گرتی نہیں ہیں بلکہ وہیں کی وہیں رُکی رہتی ہیں جبکہ زمین چیزوں کی طرف اُوپر کو اُٹھنے لگتی ہے۔گریوٹی  کیسا عجب مظہرِ فطرت ہے‘‘

وہ اپنے آپ کو گرتاہوا محسوس نہیں کررہاتھا بلکہ اسے زمین اپنی طرف اُوپر کو آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔بے ہوش ہونے سے پہلے اُسے آخری منظر فقط اتنا یاد تھا کہ اس کے دوست چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

’’سارنگ کی انّا کو اطلاع کرو! ارے کوئی جاؤ! سارنگ کی دادی کو  بتاؤ!‘‘

*************

سارنگ کو ہوش آیا تو وہ لیبارٹری میں تھا۔ بوڑھاپروفیسراُس پرجھکاہواتھا۔ پروفیسر کے ہاتھ میں بڑاساعدسہ تھا۔ اور وہ کسی باریک سی نوک والی سوئی کی مدد سے سارنگ کے منہ میں شاید کوئی دوائی ڈال رہاتھا۔پہلے تو سارنگ کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں ہے۔ لیکن کچھ دیر غور کرنے کے بعد اُسے لگا جیسے وہ اپنی انّا کے بابا کی لیبارٹری میں ہے ۔ اس نے کہانیوں میں لیبارٹری کے بارے میں ہربات سنی ہوئی تھی۔ معاً اُسے یاد آیا کہ وہ تو زخمی ہوکر گرپڑاتھا اور اس کے پر ٹوٹ گئے تھے۔ تو پھر اتنی دوردراز کے علاقے میں وہ کیسے پہنچا؟ اس نے اپنے پرپھڑپھڑانے کی کوشش کی تو یہ جان کر اسے  خوشگوارحیرت ہوئی کہ اس کے زخمی پروں پر  کسی لوشن کا لیپ کیاگیاتھا۔شاید اُس کے نانا اُس کا علاج کررہے تھے۔ اسے پروفیسر پر پیار آنے لگا۔ اپنے اوپر جھکے ہوئے پروفیسر کو پہچانتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ زخمی ہونے کےبعد کسی نہ کسی طرح اُسے  پروفیسر کی لیبارٹری تک پہچایا گیاہے تاکہ اس کا علاج کیا جاسکے۔اس  کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا۔ آخر اُسے یہاں تک کس نے پہنچایا ہوگا؟

اس  نےایک بار پھر اپنے پر پھڑپھڑائے اورپھر اپنے ایک پر کے سہارا کسی قدر اُٹھنے کی کوشش کی۔اب وہ پہلو کے بل اُٹھ کر  بیٹھ گیا۔پہلو کے بل بیٹھتے ہی اس کی نظر اپنی انّا پرپڑی۔اس کی انّا اس کے ساتھ ہی  کچھ فاصلے پر  بے سُدھ پڑی تھی۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ انّا سورہی ہے۔ لیکن پھر اُسے خیال آیا کہ یہ بھلا کونسا سونے کا وقت ہے؟ اچانک کسی خیال کے تحت اس کے دل کوایک دھچکا لگا اور اس کے منہ سے بے اختیار نکلا،

’’اوہ مائی گاڈ! تو مجھے انّا یہاں لائی ہے؟ اُف یہ کیسے ممکن ہے؟ ایک کمزور اور بوڑھی تتلی جو ٹھیک سے اُڑبھی نہ سکتی تھی آخر مجھے کیسے یہاں تک لے کر آئی ہوگی؟‘‘

توگویا اس کی انّا سونہیں رہی تھی بلکہ بے ہوش تھی یا لمبی پرواز سے تھک کر………….

اس سے آگے وہ نہ سوچ سکا۔ وہ بے سُدھ پڑی ماریہ کے جسم کو گھور گھور کردیکھنے لگا۔ اس اُمید کے ساتھ کہ شاید انّا اب ہِلے گی کہ اب ہِلے گی۔ لیکن ماریہ تھی کہ ساکت وجامد پڑی تھی۔سارنگ نے پروفیسر کی طرف دیکھ دیکھ کر چلّانا شروع کردیا،

’’میری داد ی کوبچاؤ! خدا کے لیے پروفیسر! میری انّا کو بچالو! یہ آپ کی ہی بیٹی ہے۔ یہ آپ کی ماریہ ہے۔ آپ کا بے بی ہے ‘‘

لیکن پروفیسر  کو کچھ نہ سنائی دیا۔ اُس نے پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی چمٹی کے ساتھ پہلو کے بل بیٹھے ہوئے سارنگ کو پشت سے پکڑا اور دوبارہ سیدھا کرکے لٹادیا۔ ساتھ ہی پروفیسر بُڑبڑایا،

’’نہیں بیٹا جی! اس طرح اُٹھ کر نہیں بیٹھنا۔ ورنہ آپ کے پَر پھر سے زخمی ہوجائینگے‘‘

سارنگ کو دوبارہ لٹا کر پروفیسر اپنی جانی پہچانی نیلی تتلی لُوسی کی طرف بڑھا۔ وہ خود بہت حیران تھا کہ لُوسی کس طرح یہاں تک پہنچی ہوگی۔ اوروہ بھی اپنی پشت پر ایک جوان  زخمی تتلے کو اُٹھا کر؟ پروفیسر کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوسکتاہے۔ وہ اس سے ہٹ کر دیگر امکانات پر غور کررہاتھا۔ لیکن سچ یہی تھا جو پروفیسر کی پہلی سوچ تھی۔ وہ جب لیبارٹری میں آیا تو اس نے یہی دیکھا تھا کہ بوڑھی لُوسی میز پر بے ہوش پڑی تھی اور اس کی پشت پر ایک نوجوان، زخمی تتلا بھی بے ہوش پڑاتھا۔پروفیسر نے ذہن پر زیادہ زور دینے کی بجائے لُوسی کو بچانے کی ترکیبیں سوچنا شروع کردیں۔ لیکن وہ زیادہ پُراُمید نہیں تھا۔ تتلی بہت بوڑھی  ہوچکی تھی۔پروفیسر لوسی کو پہچانتاتھا۔ وہ جب بھی باغیچے میں جاتا تو دیکھتا کہ لُوسی کی نسل اپنے آپ بڑھ رہی تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ لُوسی نے ویسٹ ایسٹ فالیَن  فائر نسل کے تتلے کے ساتھ ملاپ کیا تھا ۔پروفیسر نے اب کبھی بھی تتلیوں پر تحقیق نہ کی تھی۔ وہ بس لیبارٹری میں آتا تو تب بھی اپنی بیٹی کی یادوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے آتا تھا اور اگر باغیچے میں جاتا تو تب بھی اپنی ماریہ کی یادوں میں خودکلامی کرنے جایا کرتاتھا۔

وہ میز کی دوسری طرف سے گھوم کر لُوسی کے پاس آیا۔ اس نے پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی چمٹی کےساتھ لوسی کے جسم کو ہِلاکردیکھا۔ لُوسی کے بوڑھے بدن میں بہت ہی معمولی سی جنبش ہوئی۔پروفیسر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی،

’’بوڑھی اماّں! تم خاصی سخت جان ہو۔ میں تو سمجھا چل بسی ہوگی میری دوست!‘‘

لیکن   ماریہ کچھ نہ سن رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور وہ  ٹکٹکی باندھے  اپنے بابا کے چہرے کو تکے جارہی تھی۔ پروفیسر کو نہ جانے کیا ہوا کہ اُس نے تیزی سے عدسہ اُٹھایا اور لُوسی کی  آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ لُوسی کی آنکھوں کی چمک ماند پڑتی جارہی تھی لیکن پھر بھی پروفیسر کو اُن میں عجب سی شناسائی محسوس ہوئی۔ وہ حیران تھا کہ آخر یہ کیا ماجراہے۔ ایک تتلی کی آنکھوں میں اسے اپنے لیے واقفیت یا شناسائی کا عنصر کیسے محسوس ہوسکتاہے؟  اس کا دل اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھالیکن وہ اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا۔اس نے عدسہ اور زیادہ قریب کرکے لُوسی کی آنکھوں میں مزید گہری توجہ کے ساتھ جھانکا تو اُسے لگا کہ شاید مرتی ہوئی تتلی اُس سے کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔وہ اس سب انہونے سے مظہرِ فطرت کو سمجھنے کی کوشش کررہاتھا کہ اسی اثنأ میں اس کی دیرینہ دوست ، نیلی تتلی لُوسی نے  ایک ہلکی سی جھرجھری لی اورجان دے دی۔ لُوسی مرگئی۔نیلمانہ مرگئی۔ تتلیوں کی دنیا کی سب سے پڑھی لکھی اور دانا تتلی آخر آج اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی تھی۔

پروفیسر کے دل کو شدید دھچکا لگا۔ جانے کیوں اسے لگا جیسے اس کی ماریہ آج مرگئی ہو۔وہ سوچنے لگا، کیا وہ پاگل ہوچکاہے؟ پروفیسر کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور وہ ایک ٹُک مری ہوئی لُوسی کے بوڑھے جسم کو  دیکھے جارہاتھا۔

*********

ہسپتال میں اچانک شور مچ گیا۔کمرہ نمبر تئیس  کی مریضہ ہوش میں آگئی۔ کومے کی مریضہ ہوش میں آگئی۔  پیشنٹ ماریہ نے آنکھیں کھول دیں۔ایک نرس دوڑتی ہوئی   کافی شاپ پر بیٹھے راہیل کے پاس آئی اور انتہائی پرجوش لہجے میں اسے بتانے لگی،

’’آپ کا مریض ہوش میں آگیاہے۔ بہت بہت مبارک ہو راہیل صاحب! آپ بہت خوش نصیب انسان ہیں۔ آج تک اس شدت کے برین ہمبرج کا مریض کبھی بھی کومے سے واپس نہیں آیا۔ لیکن ماریہ صرف بارہ دن بعد ہوش میں آگئی ہے‘‘

راہیل  مارے خوشی کے جیسے پاگل ہی تو ہونے والا تھا۔ اس نے کافی کا ڈسپوزیبل مگ وہیں سٹول پر چھوڑا  اور سرپٹ ماریہ کے وارڈ کی طرف دوڑنے لگا۔ ماریہ کے کمرے میں پہنچا تو ٹھٹک کر رک گیا۔ماریہ  سچ مچ آنکھیں کھولے بیڈ پر لیٹی تھی۔ وہ خاموش تھی لیکن  اس کے دیکھنے کا انداز بتارہاتھا کہ وہ نارمل ہے۔ کیونکہ وہ سب نرسوں، ڈاکٹرز اور باقی لوگوں کو کسی ہوشمند انسان کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ماریہ کے چہرے پر حیرت ، خوشی اور تجسس کے  ملے جلے آثارتھے لیکن وہ بے حد نحیف تھی۔ معاً اس کی نظر راہیل پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں راہیل کے شناسائی کی لہر دکھائی دی۔ راہیل فوراً سمجھ گیا کہ ماریہ کے ہوش و حواس سچ مچ واپس لوٹ آئے ہیں۔اس نے ماریہ کی طرف دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی لیکن وہ چھلک پڑا۔ ایسا چھلکا کہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔

معاً ماریہ کے کانوں میں کسی ڈاکٹر کی آوازپڑی،

’’پیشنٹ کے والدین کو خبر کردی ہے؟‘‘

’’یس سر! وہ آتے ہی ہونگے‘‘

**********

آج پندرہ دن بعد ماریہ ایک مرتبہ پھر اپنے  باغیچے میں تھی۔ وہ اپنے بابا سے لُوسی کی ساری کہانی سن چکی تھی۔ لیکن اس نے ابھی تک بابا کو کچھ بھی نہ بتایا تھا۔ حالانکہ اسے ایک ایک بات یاد تھی۔ ابھی تک وہ خود کو پوری طرح سنبھال نہیں پائی تھی۔ اسے یقین ہی نہ آتاتھا کہ اس قدر انتہائی سطح کا عمررسیدہ ہوجانے اور مرجانے کے بعد وہ پھر ایک جوان لڑکی کے رُوپ میں واپس ماریہ بن کر کیسے اپنے گھر لوٹ آئی؟ وہ  اگر کسی بات پر یقین کرسکتی تھی تو فقط اس بات پر کہ اس نے ایک طویل خواب دیکھاہے۔ لیکن اس کا دل نہیں مانتاتھا۔ اس پر مستزاد وہ اپنے بابا سے لُوسی اور نوجوان تتلے کی کہانی سن چکی تھی۔بابا نے بتایا کہ لُوسی مرگئی تھی لیکن وہ نوجوان تتلا ٹھیک ہوگیا تھا۔

آج باغیچے میں ماریہ سارنگ کو ہی دیکھنے آئی تھی۔موتیے کے پھولوں کی کیاری پر ’’سمیارگس اور ویسٹ ایسٹ فالین فائر کی مشترکہ نسل‘‘ کی تتلیاں پرواز کررہی تھیں۔وہ ان سب تتلیوں کو پہچانتی تھی۔ وہ ان میں سے ایک ایک کا نام جانتی تھی۔

اور پھر وہ بڑے پودے کے پاس سے گزری تو اسے اپنی شادی کا دن یاد آگیا۔ اُسے اپنا پرنس یاد آگیا جس نے ماریہ کے لیے جان پر کھیل کر آسمان کے دروازوں والی عمارت تک کا سفر کیا تھا۔ پرنس فائینی ، اُس کا شریک ِ سفر، اس کا جیون ساتھی، اس کا محبوب۔ ماریہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اسے وقتی طور پر اپنا پوتا سارنگ بھول گیا اور اپنا محبوب  شوہر یاد آنے لگا۔

اس نے کیسے خوشحالی کے دن گزارے تھے۔ ایک لمبی زندگی، اتنی لمبی کہ کوئی بھی اتنا جیتا جیتا آخر تھک جائے۔ اس تھکاوٹ میں محبوب کی جدائی کا دخل سب سے زیادہ تھا۔وہ  موتیے کے بڑے پودے کے پاس ہی کھڑی رہی۔وہ ایک ایک شاخ ، ایک ایک ٹہنی، ایک ایک پھول اور ایک ایک پتے  کو پہچانتی تھی۔یہاں اس کا گھر تھا۔ وہ یہاں سالہاسال رہی تھی۔اس نے شادی، غم، تہوار، رسم و رواج، لڑائی جھگڑے، دکھ درد سب کچھ یہیں کاٹاتھا۔ وہ ان تتلیوں میں سے ہرایک کی رشتے میں کچھ نہ کچھ لگتی تھی۔ اُسے اپنے ابتدائی دن یاد آنے لگے۔ شاؤزان، بزرگ وید موروان بابا وہ سب لوگ جنہوں نے شروع شروع میں اُسے سہارا دیا تھا۔

اسے اپنی شادی والے دن کی تمام تقریبات یاد آنے لگیں۔ اسے اپنا دلہنوں والا لباس اور بناؤ سنگھار یاد آیا۔ اپنی سہیلیاں یاد آئیں۔ سب کتنے خوش تھے۔ پرنس کتنا حسین لگ رہاتھا۔ وہ تھا بھی تو لاکھوں میں ایک۔ماریہ باقاعدہ رونے لگ گئی۔وہ وہیں اپنے  پرانےگھر کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔ آنسوؤں کی لڑیاں اس کے گالوں پر ٹوٹ کر بکھرچکی تھی۔معاً اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ہاتھ کی پشت  پر کچھ سرسراہٹ سی ہوئی۔ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔

اُس کے ہاتھ پر سارنگ بیٹھا تھا۔سارنگ کے دونوں پروں پر پرانے زخموں کے نشانات تھے۔ اب اس کے پرٹھیک ہوچکے تھے اور وہ اُڑسکتاتھا۔ماریہ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا اور ایک زوردار چیخ کے ساتھ اسے پکارا،

’’سارنگ! میرے بچے! اوہ مائی گاڈ‘‘

کچھ دیر بعد سارنگ  نے اس کے ہاتھ پر مخصوص انداز میں پرپھڑپھڑائے۔ ماریہ بے حد جذباتی ہورہی تھی۔ وہ  جانتی تھی کہ سارنگ اسے سن رہاہے اسی لیے اُس نے پر پھڑپھڑائے ہیں۔ وہ بھی تو اپنے بابا کی ہتھیلی پر ایسے ہی کچھ وقفے کے بعد پر پھڑپھڑاتی تھی۔ اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سارنگ اسے نہیں پہچانتاہوگا۔ چنانچہ وہ بولتی چلی گئی،

’’میرے بچے! میرے سارنگ۔ میں تمہاری انّا ہوں، تمہاری دادی۔ میں ہی تمہیں لیبارٹری میں لے کر گئی تھی۔ لیکن میں بہت بوڑھی ہوچکی تھی اور سفر بہت لمبا تھا۔ اس لیے میں جانبرنہ ہوسکی۔لیکن بیٹا تمہاری انّا مری نہیں۔ ہیں نا؟ یادرکھنا! تمہاری انّا مری نہیں۔ ابھی زندہ ہے۔ میں ہوں ۔ میں ماریہ ہوں۔ میں روز تمہیں کہانیاں سنایا کرونگی۔ اسی طرح جس طرح پہلے سنایا کرتی تھی۔ تم کبھی اداس نہ ہونا۔ میں تمہاری شادی بھی دھوم دھام سے کرونگی۔ تم اپنی انّا کے سارنگ ہو میرے لعل! میرے شہزادے!‘‘

ماریہ بولتی جارہی تھی اور سارنگ پرپھڑپھڑاتاچلاجارہاتھا۔ دو مختلف  زمان و مکاں کے درمیان مواصلات کا کائناتی نظام جاری تھا لیکن دنیا میں کوئی ایسا  انسان نہیں تھا جو اس رابطے اور اس تعلق کی حقیقت کو پہچان سکتا۔ کوئی بھی نہیں۔

ختم شد

*****************

ادریس آزادؔ

 

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین