کریٹیکل ڈسکورس اینالسس کیا ہے؟ ۔۔۔ادریس آزاد

(یہ مضمون 24 مئی 2017 کو "دانش” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دانش کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)

جدید لسانیات فی زمانہ  وہ واحد مضمون ہے جس کے ماہرین کی تعداد کسی قوم کے پاس جتنی زیادہ ہوگی وہ قوم اپنے سروائیول کی جنگ میں اُتنی زیادہ طاقتور ہوگی۔یہ زمانہ ایٹم بم بنا کر ترقی کرنے کا نہیں بلکہ باتیں بنا کر ترقی کرنے کا ہے۔

وہ اِس لیے کہ جدید لسانیات کے مغربی ماہرین نے علم لسانیات کا مطالعہ صرف ونحو کے قدیمی دائرہ سے باہر نکل کر کیا تو انہیں ادراک ہوا کہ انسانوں نے جب سے بولنا سیکھا تب سے لے کر آج تک زبان، کرۂ ارض پرہمیشہ طاقتورترین ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی۔

مچل فوکو بیسویں صدی کا ایک فرانسیسی فلسفی اور ماہرلسانیات ہے جس نے اپنے مخصوص نظریہ، ’’فوکالڈیَن  ڈسکورس اینالسس‘‘کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت حاصل کی اور انسانوں کے واحد مواصلاتی رابطے یعنی زبان کو گرامر اور منطق ِ محض کی حدود سے نکال کر سماجی،نفسیاتی سائنس کی ڈومین کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جوڑدیا۔فوکو نے ’’ڈپلومیسی‘‘ کے ڈسکورس کا پردہ چاک کرکے انسانی جذبات کو ایسی بے دردی کے ساتھ عریاں کیا کہ تب سے لے کر آج تک دنیا بھر کی تمام زبانیں خود اپنے اپنے سترچھپانے میں بری طرح مصروف نظر آتی ہیں۔

جینیالوجی علم الانساب کو کہتے ہیں۔ فوکو جینیالوجی  کی تاریخ میں بے حد دلچسپی رکھتاتھا۔فوکو نے اپنے مطالعات سے اخذکیا کہ

’’  کسی خاص تاریخی عہد میں ہمیشہ کسی ڈسکورس کی تخلیق کا گہرا تعلق طاقت کے ساتھ رہاہے‘‘

لیکن اس سے پہلے کہ ہم فوکو کے اس قدرے مشکل خیال کو آسان کرکے سمجھنے کی کوشش کریں ضروری ہے کہ ہم اِس مخصوص اصطلاح کے معنی پہلے اچھی طرح سے خود سمجھ لیں۔’’ڈسکورس‘‘ کیا ہے؟ ڈکشنری میں دیکھیں تو وہاں لکھا ہے کہ،

Written of spoken communication

لیکن اگر ہم اپنی آسانی کے لیے وقتی طور پر ایک اصطلاح عربی سے مستعار لیں تو کسی حد ڈسکورس کے خالص اندرونی معنی ہم پر واضح ہوسکتے ہیں۔

عربی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے،’’ معروف‘‘۔ معروف کہتے ہیں اُس قول یا عمل کو جسے لوگوں کی اکثریت کی طرف سے مقبولیتِ عام حاصل ہو۔ڈسکورس بھی ایسا ہی قول یا عمل ہے جولوگوں کے ایک خاص گروہ میں معروف ہو۔ معروف کا لفظ عارف سے منسلک ہے۔ عارف کا معنی ہے ’’واقف‘‘۔ معروف ایسا قول یا عمل ہے جس سے کسی خاص گروہ میں لوگوں کی اکثریت واقف ہوتی ہے۔

اسے ہم مزید آسانی کے لیے رجحان بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ وہ عوامی رجحان ہوگا جو کسی خاص گروہ کے لیے مخصوص ہو۔ مثال کے طور میڈیکل کی فیلڈ میں ڈسکورس سے مراد میڈیکل کی فیلڈ میں موجود گروہ کا عوامی رجحان ہے۔ اسی طرح ڈسکورسز کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ لیگل ڈسکورس، پالیٹیکل ڈسکورس، ریلجس ڈسکورس وغیرہ سب اپنے اپنے گروہوں میں موجود افراد کے عوامی رجحانات ہیں۔

فوکو کا کہنایہ ہے کہ تاریخ میں کوئی بھی ڈسکورس  طاقت کے زیرِ اثر پیدا ہواہے اور یہ کہ کوئی بھی ڈسکورس زبان کے اندر ہی وجود میں آتاہے۔فوکو نے تاریخ میں پشت درپشت چلنے والی حکومتوں کا مطالعہ کیا اور نتائج اخذ کیے کہ بقائے خویش کے جذبہ نے طاقتوروں میں نئے نئے ڈسکورسز پیداکرنے اور متعارف کروانے کا عمل خودکار طریقے سے جاری رکھاہے۔

ڈسکورس اینالسس کیا ہے؟

ڈسکورس اینالسس جس کا درست ترجمہ ’’اظہارِ خیال کا جائزہ‘‘ بنتاہے جدید لسانیات کا ایک نہایت اہم اور پسندیدہ موضوع ہے۔بہت پرانی بات ہے میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہم جب باتیں کرتے ہیں تو بہت کچھ ایسا ہوتاہے جو صرف ہمارے ظاہری ماحول، خال و خد، پہناوا، دکھاوا اور چہرے کے تاثرات کی وجہ سے زبان کا حصہ بن رہاہوتاہے لیکن جب ہم اسے لکھتے ہیں تو اکثر ایسے تاثرات اظہارِ خیال کا حصہ نہیں بن پاتے۔اور ہمیں کوشش کرکے باقاعدہ ایک منظر نامہ لکھنا پڑتاہے جو کسی بھی خیال کا سیاق و سباق اور حالات و واقعات کی وضاحت پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ ہم جان سکیں، وہ خاص بات کس منظر کا حصہ تھی اور کیوں پیش آئی۔

لیکن جب ڈسکورس اینالیسس کی اصطلاح سنی تو خیال آیا کہ یہ تو وہی ہے جیسا میں سوچا کرتا تھا۔مجھ سے جب پہلی بار سوال کیا گیا کہ ’’ڈسکور اینالسس کیا ہوتاہے؟‘‘تو میں سوچ میں پڑگیا۔ کیونکہ میرے ذہن میں فوری طور پر جو جوابات آرہے تھے وہ مختلف جہات میں بکھرے ہوئے تھے۔تب میں نے اس موضوع پر اردو میں لکھنے کا ارادہ کیا تاکہ ہمارے اردو اور انگریزی ادب کے طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوسکے۔انگریزی لسانیات اور فلسفہ کی روشنی میں دیکھیں تو اصطلاح ’’ڈسکورس‘‘ سب سے پہلے غالباً فوکو نے استعمال کی۔ لیکن ڈسکورس اینالسس کی مخصوص اصطلاح پر غور کرنا ہو تو پہلے ’’ڈسکورس‘‘ اور پھر’’ڈسکورس اینالسس‘‘ پر غور کرنا چاہیے۔

سماجی لسانیات کی ماہر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر، ’’ڈیبوراشفرن‘‘ (Deborah Schiffrin)  کی مشہور ہینڈ بُک میں ’’ڈسکورس‘‘ کی تین تعریفیں درج ہیں،

۱۔ قفرے سے باہر کچھ بھی

۲۔زیرِ استعمال زبان اور

۳۔سماجی سرگرمی کی وسیع حدود، بطور خاص جو غیرلسانی اور غیر مختص ہوں

پہلی تعریف کے مطابق دیکھیں تو کوئی بھی ایسی چیز جو فقرے یا جملے سے باہر ہے ڈسکورس کہلائے گی۔ فقرہ کیسے بنتاہے۔ علم الاصوا ت (Phonology)، علم الاشکال (Morphology) اور نحوی تراکیب (Syntax) کی مدد سے بننے والا فقرہ کچھ اور شئے ہے۔ اس فقرے سے باہر کیا تھا؟ جب کسی نے کوئی قفرہ استعمال کیا تو اس مخصوص جملے سے ہٹ کر کیا کچھ ایسا تھا جو نوٹ کرنے والا تھا؟کیا کیا علامات زیرِ استعمال تھیں؟ دوگفتگو کرتے ہوئے اشخاص باہم بولے جانے والے جملوں سے ہٹ کر مزید کن کن ذرائع سے اپنے اپنے مفاہیم کی ترسیل ممکن بنارہے تھے؟

دوسری تعریف کے مطابق ڈسکورس کہا جائے گا، ’’زبان کے استعمال کو‘‘۔ ایک خاص وقت میں، ایک خاص گفتگو میں استعمال ہونے والی زبان کیا تھی؟گویا ہر گفتگو کی اپنی الگ زبان ہوتی ہے۔ ہرگفتگو کی زبان اس کے وقتی ماحول کی وجہ سے ترتیب پاتی اور فوری طور پر تخلیق ہوتی چلی جاتی ہے۔وہی زبان زیرِ استعمال زبان کہلائے گی۔ کسی بھی گفتگو کو معنی پہنانے کے لیے ہمیں ’’زیرِ استعمال زبان‘‘ کو سمجھناہوگا اوراِسی کو ہم ڈسکورس کہیں گے۔مثال کے طور پر اگر میں اور آپ بس میں سفر کررہے ہیں اور گفتگو کرتے ہوئے آرہے ہیں تو ہماری گفتگو کو معنی پہنانے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ بس، رستے اور سفر کے اس وقتی ماحول میں ہمارے زیراستعال زبان کو ایک مخصوص زبان کا درجہ دیتے ہوئے معنی پہنائے۔

تیسری تعریف کا تعلق اکیڈمیا کے ساتھ زیادہ گہراہے۔یعنی’’ سماجی سرگرمی کی وسیع حدود، بطور خاص جو غیرلسانی اور غیر مختص ہوں‘‘۔ چنانچہ اس تعریف کے مطابق ڈسکورس میں وہ سماجی سرگرمیاں بھی شامل ہوجاتی ہیں جو غیرلسانی ہیں مثلاً وہ کپڑے جو گفتگو کرنے والوں نے پہنے ہوئے تھے۔ان کے پاس کیا کیا چیزیں تھیں مثلاً موبائل کونسا تھا، گاڑی کون سی تھی، سُوٹ کیس کونسا تھا؟ ذرائع ابلاغ کون کون سے تھے وغیرہ وغیرہ۔وہ کھڑے کس طرح سے تھے۔ ان میں سے کون کس وقت ایک ٹانگ پر بوجھ ڈال کر کھڑا رہا۔ کون کس وقت سر پر ہاتھ پھیررہاتھا۔ کس نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال رکھے تھے۔یہ سب سماجی سرگرمیاں ہیں جن کا گہرا تعلق معنی کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ہم ڈسکورس کہیں گے۔اسی طرح بطور ِ خاص غیر مختص زبان کا استعمال ڈسکورس کا حصہ ہوگا جس میں ایسے الفاظ جو گفتگو میں کسی خاص کیفیت یا حالت کے بیان کے لیے نہیں بولے جاتے بلکہ وہ عمومی طور پر بولے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ جن کا تعلق گفتگو کرنے والے اشخاص کی عام بول چال سے ہوگا اور زیرِ بحث موضوع سے بطورِ خاص نہ ہوگا۔جیسا کہ فوکو (Foucault) کے نزدیک  ڈسکورس کا مفہوم  صرف کسی انفرادی گفتگو کی زبان نہیں ہے بلکہ فوکو کے اپنے الفاظ میں وہ ایک ’’نمونہ‘‘ ہے اُس عظیم تر نظام ِ فکر کا جو ایک وسیع تناظر میں کسی خاص تاریخی اور جغرافیائی مقام پر محض اس لیے بولا گیا کہ وہ وہاں کچھ مخصوص چیزوں اور اصطلاحات کو بامعنی بنا دیتاہے۔

(انارکی آف نالج اینڈ دہ آرڈر آف ڈسکوررس از فوکو)

فوکو کی تعریف کے تحت ہر ہر ماحول الگ الگ ڈسکورس کی حیثیت اختیار کرتا چلا جاتاہے۔فوکو سترھویں صدی سے پہلے کی انسانیت کو’’قبل ازانسانیت‘‘ کا ڈسکورس کہہ کر پکارتاہے کیونکہ اس کے بقول سترھویں صدی سے پہلے انسان کی شخصی، انفرادی آزادی کا تصور موجود نہیں تھا۔چنانچہ ’’ہیومینٹی بطور، ڈسکورس‘‘ سترھویں صدی سے آغاز ہوتی ہے۔فوکو کا مشہور مقدمہ، جس میں وہ ایسے لوگوں کو جنہیں پہلے پاگل نہیں بلکہ دوسروں سے مختلف اور ماورائی صلاحتیوں کو حامل سمجھا جاتا تھا اور سترھویں صدی کے بعد دماغی طور پر بیمار سمجھا جانے لگا، ڈسکورس کا مفہوم سمجھنے کے لیے خاصا ممد ہے۔وہ اس طرح کہ اگر ہم سترھویں صدی سے پہلے کے کسی پاگل شخص کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو ہم اسے اپنے موجودہ ڈسکورس کی روشنی میں پاگل کہنے کے مجاز نہیں ہیں۔ہم نے بیانیہ خود بدلا ہے اور یوں گویا ہم نے پورا ڈسکورس ہی بدل دیا ہے۔

بہرحال جب ہم ڈسکورس کی تعریف کرنے نکلتے ہیں تو کم ازکم اِن تین خیالات کے ساتھ ہمیں ضرور واسطہ پڑتاہے۔یعنی،

۱۔ قفرے (جملے) سے باہر کچھ بھی

۲۔زیرِ استعمال زبان

۳۔سماجی سرگرمی کی وسیع حدود، بطور خاص جو غیرلسانی اور غیر مختص ہوں

اب چونکہ ڈسکورس کی تعریف ہمارے سامنے ہے اس لیے ہم ’’ڈسکورس اینالسس یعنی اِ ظہارِ خیال کے تجزیہ‘‘ کی تعریف بھی کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔ڈسکورس اینالسس دراصل ’’عملِ فکرکا جائزہ‘‘ اور اس کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب کا نام ہے۔مشہور امریکی ماہرِ نفسیاتی لسانیات ’’جِم جی‘‘ نے اپنی کتاب ’’انٹروڈکشن ٹو ڈسکورس اینالسس‘‘ میں کسی اظہارِ خیال کے تجزیے کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے،

۱۔ بیانیہ انداز

۲۔ تنقیدی انداز

پہلے انداز میں کسی اظہارِ خیال کا تجزیہ کرتے وقت ہم اس کی عام زبان، گرامر اور علامات وغیرہ پر غور کرتے ہیں جبکہ دوسرے انداز میں ہم کسی اظہارِ خیال کو تنقیدی نظر سے دیکھتے اور اس کی صداقت اور کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں۔

اسی طرح ’’ہاجز(Hodges) ‘‘ اور اس کے رفقأ نے 2008 کے آرٹیکل میں ’’ڈسکورس اینالسس‘‘ کو سمجھنے کے لیے تین انداز اختیار کیے ہیں،

۱۔ رسمی لسانی تجزیہ(Formal Linguistic Discourse Analysis)

اس میں لکھی ہوئی یا بولی ہوئی زبان کے نمونے لیے جاتے ہیں اوراُن کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جاتاہے جسے مائیکرو اینالسس کہتے ہیں۔یعنی ہرہرعلامت اور ہر ہر لفظ کے ٹھیک ٹھیک معانی تک رسائی کے لیے نہایت عرق ریزی سے کام لیاجاتاہے۔گویا رسمی لسانی تجزیہ بنیادی طور پر ’’فقرے سے باہر کیا ہے؟‘‘ کی سطح کے معیار پر تجزیہ کا قائل ہے۔

۲۔ تجربی تجزیہ (Empirical Discourse Analysis)

اس میں بھی لکھی ہوئی یا بولی ہوئی زبان کے نمونے لیے جاتے ہیں۔رسمی تجزیہ کے مقابلے میں تجربی تجزیہ کو ’’زیراستعمال زبان‘‘ کا طریقہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔لوگوں کے زیرِ استعمال زبان کیا ہے؟ وہ بات کرتے یا لکھتے وقت کس سماجی سرگرمی کا حصہ ہیں۔ ان کی بولی نے اپنے لیے کسی خاص وقت اور انفرادی گفتگو میں کس قسم کا لہجہ ترتیب دیاہے۔

۳۔ تنقیدی تجزیہ(Critical Discourse Analysis)

جبکہ تیسرا اور سب اہم تجزیہ تنقیدی تجزیہ ہے۔اس طریقہ میں بھی لکھی ہوئی یا بولی ہوئی زبان کے نمونے لیے جاتے ہیں۔لیکن اس میں عام زبان یا جملے کے اردگرد موجود اجزائے گفتگو کے علاوہ اُن خاص اداروں اور ماہرین کی آرا کا مطالعہ بھی کیا جاتاہے جو ایک خاص گفتگو کے لیے نت نئی زبان پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی گفتگو کا جائزہ لے رہے ہونگے جو کرکٹ میچ کے بارے میں ہے تو ہمیں بعض اصطلاحات اور معانی کے لیے ان لوگوں اور اداروں سے رجوع کرنا پڑےگا جو شب و روز کرکٹ کے ساتھ جڑے ہوئے بایں ہمہ فی الوقت کرکٹ پر اتھارٹی ہیں۔اس میں صرف مخصوص مقتدر ادارے یا لوگ جو زبان پیدا کررہے ہیں، انہی کو ہی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ وہ زبان جن کےلیے پیدا ہوئی ان کی بولی کو بھی شامل کیا جاتاہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم نفسیاتی بیماریوں کی اصطلاحات پر غور کرتے وقت ماہرین ِ نفسیات کی کتابیں پڑھیں گے تو اُن کی اصطلاحات جن کے لیے بنائی گئیں اُن مریضوں کی بولی اور زبان سے بھی استفادہ کرینگےتاکہ زیادہ سے زیادہ درست معنی تک پہنچ سکیں۔

سی ڈی اے کی جداگانہ اہمیت

کرٹکل ڈسکورس اینالسس جس کا مخفف ’’سی ڈی اے‘‘ ہے معنی کے اعتبار سے کسی ’’اظہارِ خیال کے تنقیدی تجزیہ‘‘کو کہتے ہیں۔کوئی سا بھی اظہارِ خیال۔ ایسا کوئی بھی اظہارِ خیال کسی فلسفی سے لے کر کسی عام آدمی تک، کسی بھی شخص کا ہوسکتاہے۔سی ڈی اے کی جداگانہ اہمیت اِس لیے ہے کہ ہم سی ڈی اے کے طریقۂ کار پر اُن سچائیوں سے بھی پردہ اُٹھا سکتے ہیں جنہیں بظاہر بہت کیموفلاج کرکے پیش کیا جاتاہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ، ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان، اپنا مافی الضمیر چھپانے کے لیے عطا کی ہے‘‘۔ اگرچہ وہ اذراہِ تفنن ایسا کہتے تھے لیکن سی ڈی اے یعنی کرٹکل ڈسکورس اینالسس کے طریقہ کار کا بنیادی مقصد ہی اِسی حقیقت کے گرد گھومناہے۔ سی ڈی اے کے مطابق کوئی بھی ’’بیان‘‘ یعنی اظہارِ خیال دراصل صرف اُس متن میں ہی موجود نہیں ہوتا بلکہ اس کا زیادہ تر حقیقی مواد اس متن کے اردگرد موجود ہوتاہے۔اردگرد سے مراد ہے کسی بھی فقرے کی ظاہری ساخت سے ہٹ کر اس کے مجموعی ماحول کی روشنی میں معنی تلاش کرنا۔