یاداشت کے معاملے میں فرائیڈ غلط تھا۔ ۔۔ادریس آزاد

16 جون2017  (یہ مضمون "دانش” پر شائع ہو چکا ہے، ادارہ دانش کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے)

نیوروسائنس نے خاطرخواہ تجربات کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ یاداشت کے معاملے میں سگھمنڈ فرائیڈ غلط تھا۔ فرائیڈ ہی نہیں نیوروسائنس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ یاداشت کے معاملے میں اب تک پائےجانے والے انسان کے تمام ترخیالات ہی غیر درست تھے۔ یاداشت کوئی محفوظ چیز نہیں ہے۔ یہ پل پل بدلتی رہتی ہے۔ جب کوئی واقعہ آپ کے ساتھ پیش آتاہے تو جب وہ گزرجاتاہے اور اس کے بعد پہلی مرتبہ آپ اسے یاد کرتے ہیں تو دراصل ایک اور خالص فزیکل واقعہ پیش آجاتا ہے۔ یعنی واقعے کو یاد کرنے کا واقعہ۔ یہ ایک فزیکل عمل ہے جس میں نیورانز کا ایٹامک مالیکولر سٹرکچر پہلے سے پھیل جاتاہے اور یاد کی نئی شاخ پیدا ہوجاتی ہے۔
اب آپ کی یاداشت دراصل ایک واقعے کی یاد ہے لیکن جب دوسری مرتبہ آپ اسے یاد کرتے ہیں تو پہلی یاداشت کی یاد کو یاد کرتےہیں اور یہ تیسرا واقعہ پیش آجاتا ہے جو پھر فزیکل سائنس ہے۔

ہریاداشت جتنی بار یاد کی جاتی ہے اُتنی ہی بار ایک نیا واقعہ پیش آگیا ہے اس لیے ایک نئی یاد بنتی ہے۔ ہر بار پہلی یاداشت میں فرد غیرارادی طور پر ایڈیٹنگ کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ حافظہ بنیادی طور پر جھوٹ کا پلندہ ہوتاہے۔ وہ بار بار ایڈیٹنگ کی وجہ سے ایک ایسی یاد میں بدل چکاہوتاہے جو اصل واقعہ کی بعینہ یاداشت تھی ہی نہیں۔ وہ ایڈیٹنگ کے بعد والا ورژن تھی۔ کسی پیارے کی وفات سے بڑھ کر کسی واقعہ کی تفصیل مع جزیات یاد رہ جانے کی مثال سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں لیکن اس یاداشت میں بھی ایڈیٹنگ ہوجاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں لوگوں کی ہمدری کی وجہ سے ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو واقعہ کے ایسے پہلوؤں کو نمایاں کرتی رہتی ہیں جن سے زیادہ ہمدردی موصول ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ نئی یاد لکھی جارہی ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایڈیٹنگ اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ اصل واقعہ کہیں کھو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شدید تری حادثہ کی جزیات سے متعلق بھی دو لوگوں کی ایک جیسی رائے مشکل سے مل پاتی ہے۔
چنانچہ وہ چیز جسے ہم حافظہ سمجھتے ہیں وہ ہماری اپنی ایڈیٹنگ ہے جو ہم نے اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام تر واقعات کی یاداشت میں بار بار کی اور یوں حافظہ ایک ایسی چیز بن کر رہ جاتاہے جس میں سچائی کا کہیں وجود نہیں ہوتا۔
نیوروسائنس میں یہ بات تجربات سے ثابت کرلی گئی ہے کہ جب ایک یاد بنتی ہےتو نیوٹرانز کے پیٹرن میں بھی تھوڑی سی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ دراصل ’’ایم آراین اے‘‘ کے مالیکیول نئی شاخ پیدا کردیتے ہیں۔ نیورانز کی شکل سے ہم واقف ہیں۔ یہ ایک درخت اور اس کی شاخوں جیسا سیل ہے۔ ہِپوکیمپس میں لانگ ٹرم میموری محفوظ ہوتی ہے۔ یہیں یاداشت کے نیورانز ہیں۔ کوئی ایم آر این اے یعنی میسنجر آراین اے جب پیغام لے کر جاتاہے تواُسے اُصولاًایک نیوران سے دوسرے نیوران تک اطلاع لے کر جاناہوتاہے۔ لیکن جب ہم کسی یاداشت کو ایڈٹ کردیتے ہیں تو ایم آر این اے اپنا سفر اصل راستے پر نہیں کرسکتا بلکہ ایڈیٹڈ ورژن کی یاد کو ایک نیا واقعہ سمجھتے ہوئے نئی شاخ پیدا کردیتاہے۔
پھر اس یاد کو جب دوبارہ یاد کیا جاتاہے تو پھر ایک نیا پیٹرن پیدا ہوتاہے جبکہ پچھلا پیٹرن عرصہ دراز تک استعمال نہ ہونے کی وجہ سے خود بخود ختم ہوجاتاہے۔ چونکہ ہر بار یاد کرنے پر نیا پیٹرن بن جاتاہے اس لیے بار بار یاد کرنے سے اصل واقعہ کا بنیادی پیٹرن سرے سے بالکل ہی ختم ہوجاتاہے۔ غرض کوئی بھی یاداشت کبھی بھی قابلِ اعتماد نہیں ہوسکتی۔
فرائیڈ کے مطابق انسانی ذہن کے تین حصے ہیں۔ شعور، تحت الشعور اور لاشعور۔ تحت الشعور میں یادیں محفوظ ہیں۔ لاشعور میں ہریاد جزیات سمیت موجود تو ہے لیکن اسے کوئی وہاں سے نکال نہیں سکتا۔ ہمارے لاشعور میں تو اِس واقعہ کی یاد بھی موجود ہے کہ ہم نے سترہ نومبر دہزار پندرہ کے روز کون سے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے لیکن یہ بات ہم جان نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ لاشعور میں ہے اور لاشعور میں موجود یاداشتیں فقط خواب میں آسکتی ہیں یا آپ کو ہپناٹائز کرکے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ البتہ تحت الشعور میں موجود یاداشتیں وہ یادیں ہیں جنہیں ہم بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ اس لیے وہ لاشعور کے کنویں میں گرنے نہیں پاتیں۔ یہ ہے فرائیڈ کی تھیوری۔
فرائیڈ کی یہ ساری تھیوری جدید نیوروسائنس کے تجربات کے بعد قطعی طور غیر غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لیبارٹری کی سائنس یاداشت کے معاملے میں انوالو ہوگئی ہے۔ مثلاً اب ہم یہ جانتے ہیں کہ یاداشت کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً ہم کوئی ہنر سیکھتے ہیں تو اس کی یاداشت الگ مقام پر محفوظ ہوتی ہے۔ فرض کریں ہم انجن مکینک بن جاتے ہیں۔ پھر خدانخواستہ ہمارا حافظہ کھو جاتاہے۔ ہمیں ہربات بھول جاتی ہے۔ تو کیا ہمیں ہُنر بھی بھول جائیگا؟ یعنی کیا ہمیں انجن دیا جائے تو ہم اسے مرمت کرپائینگے؟
دراصل دماغ میں، مہارت کو یاد رکھنے کا مقام اور ہے جبکہ باقی باتوں کو یاد رکھنے کا مقام اور ہے اور ان مقامات کا پتہ لگا لیا گیاہے۔ کتنے ہی کامیاب تجربات کیے گئے ہیں کہ ایک شخص جو ہر روز یہ بھول جاتاہے کہ اس نے کل ڈرائینگ کی کلاس لی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈرائینگ سیکھتا جارہاہے۔ وہ شاٹ میموری لاس کا مریض ہے۔ وہ ہرروز بھول جاتاہے کہ کل اس نے یہی عمل کیا تھا؟ یہ کلاس کل بھی ہوئی تھی؟ اس نے ڈرائینگ سیکھی تھی۔ لیکن مسلسل کلاسز کے بعد اس کے ہاتھ مہارت سیکھتے رہے اور وہ بہترین ڈرائنگ کرنے لگ گیا۔
دماغ میں یہ چیزیں کہاں کہاں ذخیرہ ہوتی ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے۔ ان میں سے کسی حصے کو نکال دینے سے اسی قسم کی یاداشت مستقل طور پر بھول جاتی ہے جو کسی قسم کے لاشعور میں محفوظ نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسا کوئی لاشعور وجود ہی نہیں رکھتا۔ نیورانز کا پرانا پیٹرن سرے سے ختم ہوجاتاہے۔ ہریاداشت کے ساتھ نئے پیٹرنز بنتے ہیں اور بار بار بنتے ہیں۔ تمام عمر بنتے ہیں اور مسلسل بنتے رہتے ہیں۔ جتنی پرانی یاداشت ہے اُتنی ہی ایڈِٹڈ شکل میں ہے اور اتنی ہی ناخالص ہے۔
میرا ارادہ ہے کہ کسی وقت مطالعہ کرکے آرٹیکل کے انداز میں مذکورہ بالا تمام باتیں دوبارہ سے لکھ دوں اور لکھونگا بھی۔ انشاللہ۔ لیکن سردست اس تحریر سے میرا کچھ اور مقصد ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اگر یہ مذکورہ بالا ساری بات جدید نیوروسائنس نے کہی اور درست بات ہے تو پھر ایک معاملہ طے ہے کہ،
’’کسی واقعے کا قلمبند کیا جانا ناممکن عمل ہے‘‘
بایں ہمہ تاریخ ایک خیالی قصہ ہے اور ماضی فقط مختلف فلموں کے مختلف مناظر ہیں جو کہ فقط جھوٹی کہانیاں ہیں۔ بلکہ میرا ایک شعر بھی ہے کہ،
کچھ ہوا ہی نہیں تھا ماضی میں
سارے قصّے فقط گھڑے ہوئے تھے
اس پر مستزاد ہمارے حواس ہمیں کسی واقعہ کی اطلاع دیر سے پہنچاتے ہیں۔ کانوں سے موصول ہونے والی خبر آنکھوں سے موصول ہونے والی خبر کے مقابلے میں کئی ملی سیکنڈ تیز ہوتی ہے۔ واقعہ ہونے سے کچھ دیر بعد ہمیں پتہ چلتاہے کہ فُلاں واقعہ پیش آیا۔ لمبے قد کا شخص چھوٹے قد کے شخص کے مقابلے میں کسی بھی واقعہ کی اطلاع دیر سے حاصل کرپاتاہے۔
الغرض اصل واقعہ سے ہم بہرحال بے خبر ہی رہتے ہیں۔ کچھ بھی جو پیش آرہاہوتاہے بس وہی وقت ہے جب وہ کسی حد تک قابلِ بھروسہ ہے، اس کے بعد وہ قابلِ بھروسہ نہیں ہے کیونکہ اب وہ مختلف یاداشتوں کا ایڈیٹڈ ورژن ہے اور وقت کے ساتھ بار بار ایڈٹ ہوتے ہوتے بالاخر بالکل ہی بدل جاتاہے۔ جتنا پرانا واقعہ ہوگا اتنا ہی زیادہ بدل چکاہوگا۔ اور یہ بات تاریخی واقعات پر بھی ویسی ہی منطبق ہوتی ہے۔
ہمارے بزرگ جو قصے سناتے ہیں ان میں سچائی سے زیادہ فینٹسی موجود ہوتی ہےیہی وجہ ہے کہ ہم ان واقعات سے اموشنل اثرات قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنی ہی بار بار بدلی اور خوب تراشی خراشی یاداشتوں کے سہارے اپنی جذباتی زندگی کو مرتب کرتے اور مختلف نظریات و افکار کے علاوہ مختلف رویّے اختیار کرلیتے ہیں۔
یادداشت کے بارے میں جدید سائنس کے تازہ نظریات کی موجودگی میں باسانی کہا جاسکتاہے کہ اب لسانیات کے بہت سے مسائل کو اِس تناظر میں دیکھا جانے لگے گا۔ بطور ِ خاص ’’معنی کہاں واقع ہے؟ کا قضیہ۔ کیونکہ جب یاداشت کے بغیر تحریروتقریر کا تصور ہی موجود نہیں تو پھر معنی کا تعلق صرف اور صرف حال اورلمحۂ موجود کے ساتھ باقی رہ جائے گا۔