شہوت اور خوف کی جبلت، اور مذہب کی ضرورت

مذہب کے مبدأ پر اکثر بات ہوتی رہتی ہے۔ روشن خیال تحقیق اس تھیسز کو لاجکل گراؤنڈز پر تسلیم کرتی ہے کہ یہ قبل از تاریخ کے توھم پرست دور کی یادگار ہے جو خوف اور شہوت کی جبلتوں کی بنیاد پر استوار ہوا ہے۔ ازرُوئے منطق مذہب کی ضرورت انسان کو اُس وقت تک رہیگی جب تک وہ اِن جبلتوں کے چنگل سے رہا نہیں ہوجاتا۔
جبکہ خوف اور شہوت اپنی کنہ میں ایک ہی خمیر سے پروان چڑھتے ہیں۔ شہوت کی شدت دراصل خوف کی شدت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حشرات الارض لاکھوں کی تعداد میں بچے پیدا کرتے ہیں تو سائنس کہتی ہے کہ وہ ایسا اس لیے (نیچرلی) کرتے ہیں تاکہ ان کی نوع باقی رہے، یعنی اگر وہ پامال ہوکر کثیر تعداد میں بھی مرجائیں تو بھی کبھی ختم نہ ہوں۔ یعنی جہدللبقأ۔ یہی خوف کہ ’’کہیں میں ختم نہ ہوجاؤں‘‘ کرۂ ارض پر حیات کے بقأ کا ہمیشہ ضامن رہا ہے۔
شہوت کی اطمینان بخش تسکین سے خوف کم ہوتاہے۔ شہوت کی مضطرب تسکین سے خوف، احساس جرم میں تبدیل ہوجاتاہے۔ شہوت کی تسکین سے محرومی خوف کی شدت کو آسمان پر پہنچا دیتی ہے۔ شہوت پر قابو پانے سے خوف خود بخود شعور کی گرفت میں آجاتا ہے۔ بقول اقبالؒ
’’جنسی ضبطِ نفس خودی کی تربیت کا اوّلین مرحلہ ہے‘‘
تاہم حد سے بڑھا ہوا ضبطِ نفس خلافِ فطرت ہونے کے ناطے شخصیت میں مہیب خلا کو جنم دیتاہے۔ راہبوں کی زندگیوں سے اِس کے مثالیں لی جاسکتی ہیں۔
اعصابی کمزوری کے ادوار یعنی بچپن اور بڑھاپا چونکہ خوف کے مسئلہ کا قدرتی حل (شہوت) نہیں جانتے سو اِن ادوار میں قوتِ متخیلہ کی فعالیت بڑھ جاتی ہے جو اگر مذہب کے ذریعے قابو نہ کی جائے تو توھم پرستی کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔البتہ شباب میں شہوت اِس مسئلے کا ایک حل ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب متخیلہ کی فعالیت کم ترجبکہ قوتِ متفکرہ کی فعالیت فزوں تر ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علوم اور تشکیک سے تجسس اور لگاؤ کا عہد، جوانی ہے۔
تصریحاتِ بالا سے واضح ہوتاہے کہ مذہب کی احتیاج بچوں اور بزرگوں کو زیادہ ہوتی ہے۔ اُن کی نسبت نوجوان مافوق الفطرت عقائد و تصورات سے فطرتاً نالاں ہونے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوان جو مذہب کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہوں یا زیادہ توھم پرست ہوں، عموماً شہوت کی تسکین سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں اور خود کو جنسی طور پر کمزور یا ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جس سےاُنکی قوتِ متخیلہ عالم ِ شباب میں ہی زیادہ فعال ہوجاتی ہے۔اور یوں وہ اپنے خوف سے نکلنے کے لیے Fantasies تخلیق کرتے اور توھمات کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ شباب وہ دور تھا جب اُن کی قوتِ متفکرہ کو فعال ہونا چاہیے تھا نہ کہ قوتِ متخیلہ کو۔ عہدِ شباب قوتِ مدرکہ اورقوتِ متفکرہ کی فعالیت کے عروج کا دور ہے۔
ان قضیات سے واضح ہوتا ہے کہ مذہب انسان کی ضرورت ہے اور ایسی ضرورت جو اس کی قدیم توھماتی جبلت کو اس کی شخصیت کی تعمیر کے لیے درست سمت مہیا کرتی ہے۔ بچپن میں بھی بڑھاپے میں بھی اور کسی حد تک جوانی میں بھی۔ بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ ہم بطور گوشت پوست کے انسان اُن ہیولوں سے بچ سکیں جن کا منبع صرف خوف ہوتاہے۔ اگر زیادہ تعلیم حاصل کرکے توھم پرستی سے بچا جاسکتا تو دنیا میں جدید طرز کے توھمات جو ناسٹیلجیا سے لے کر ہسٹیریا تک کئی اقسام کی بیماریوں کو جنم دیتے ہیں اور تقریباً ہرانسان کی شخصیت کی کمزوری ہوتے ہیں، نہ پائے جاتے۔
ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں نائب مدیر: سعد خان نے شائع کیا۔

سعد خان رشتے میں ادریس آزاد کے بھتیجے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ عربی صرف و نحو اور علومِ دینیہ کے طالب علم بھی ہیں۔حافظِ قران ہیں۔ گرافکس ڈیزائنر ہیں۔ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔ ادریس آزاد ڈاٹ کام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔