گریویٹشنل ویوز کی دریافت، آئن سٹائن کا ہر اندازہ درست نکلا !

(نوٹ: یہ مضمون، گیارہ فروری ، 2016 کے روز لکھا گیاتھا، جس دن لائیگو نے گریوٹیشنل ویو کی دریافت کا اعلان کیا)

آج کا دن علوم انسانی کی تاریخ میں سب سے اہم ہے۔ آج لائیگو نے گریویٹیشنل ویو دریافت کرنے کا اعلان کردیا۔ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت گویا اپنی نوعیت میں ایسی دریافت ہے جیسے کائنات کا راز کھول دیا گیاہو۔ ایک سائنسدان نے آج اپنے بیان میں کہا،
’’دِس اِز فرسٹ ٹائم ایور دیٹ دہ یونیورس ہیز سپوکن ٹُو اَس‘‘
انسان نے ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہوموسیپیئنز یعنی موجودہ انسان سے پہلی انسان نما نسلوں کے افراد بھی اِس حد تک تو آسمان سے واقف تھے کہ جب وہ اپنی غذا تلاش کرنے اور پیٹ بھرنے کے عمل سے فارغ ہوجاتے تو پھر کسی پتھرسے سرٹکا کر آسمان کی طرف دیکھا کرتے اور اپنی سطح کی حدتک سوچاکرتے۔ رات ہوتی تو ستاروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ آسمان شروع دن سے ہی انسان کے لیے سب سے بڑی مِسٹری رہا ہے۔ پھر ماڈرن مَین (جدید انسان) جو آج سے لگ بھگ پچیس ہزار سال پہلے نمودار ہوا، نے تو باقاعدہ آسمان پر اتنا غور کیا کہ علوم کے دفترکے دفتر کھول ڈالے۔ ابتدائی کانسی کے دور کے انسانوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ آسمان کو ایک بڑا سا اُلٹا پیالہ یا کڑاہی تصور کرتے تھے جو زمین پر اس طرح رکھاہے کہ اُس نے زمین کو ڈھانپ دیا ہے۔ اس میں بہت سے سوراخ ہیں۔ ان سوراخوں سےرات کو روشنی اندر آتی ہےاور کبھی کبھار ان سوراخوں سے پانی اندر آتاہے جو کہ بارش ہے۔

تاریخ میں مصریوں کے علاوہ بابل وہ شہر ہے جہاں فلکیات پر بے پناہ غوروفکر ہوا۔ بابل میں ہرزیگورات کا مندر چارسوفٹ بلند تھا جہاں سے زہرہ جمال رقاصہ، بیدخت نے شاہ یوسیفر کی قباپہن اور ہارُوت مارُوت سے سیکھاہوا اسم ِ اعظم پڑھ کر پرواز کی اور دُور آسمانوں پر جاکر زہرہ ستارہ بن گئی۔ آج جو زہرہ ستارہ نظر آتاہے یہ وہی رقاصہ ہے۔
آسمان کا جادُو ہرانسان کو اُس کے بچپن سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ تب اُسے بچپن سے ہی طرح طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں جن کے مطابق چاند میں بیٹھی چرخہ کاتتی بڑھیا سے لے کر دُور ثریا سے آنے والی اُڑن طشتریوں تک کے قصے شامل ہیں۔ انسان کی یہ خواہش کہ وہ کائنات کو جانے، شاید آسمانوں کوجاننے میں چھُپی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آسمانوں کی طرف جانا چاہتاہے اوراپنے بارے میں نہ جانے کیوں یہی سمجھتاہے کہ وہ آسمانوں سے ہی آیا ہوا ہے۔

فزکس نے یہ ذمہ داری قبول کی اورہمارے طبیعات دانوں نے صرف دو صدیوں کے اندر اندر یہ ثابت کردیا کہ انسان نہ صرف کائنات کی حقیقت جاننے کا اہل ہے بلکہ کائنات کے کلیجے میں ہاتھ ڈال کر اس میں تبدیلیاں کرسکنے کا بھی اہل ہے۔

گزشتہ صدی میں آئن سٹائن (Einstein) کا وجود کسی معجزے کی طرح نمودار ہوا اور اس کے بے پناہ دماغ نے بارہا انسانوں کو اِس شک میں مبتلا کردیا  کہ آیا وہ خود انسان ہی تھا یا کسی اور دنیا سے آیا ہوا کوئی ایسا عالی دماغ دیوتا جو اہل ِ زمین کو کائنات کے راز بتانے آیا اور پھر واپس چلا گیا۔ آئن سٹائن نے 1905 میں سپیشل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی اور 1915 میں جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی پیش کی۔ یہ دونوں نظریہ ہائے اضافیت نہ صرف عجیب و غریب اور محیرالعقول ہیں بلکہ ان کے جاننے اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج پر قابو پانے کی صورت میں انسان اپنی موجودہ انسانی سطح سے یکلخت بلند ہوکر کسی اور نوع میں بدل جانے کی صلاحیت کا اہل بھی ہوسکتاہے۔

آج جن گریویٹیشنل ویوز یعنی کشش ثقل کی امواج کی دریافت کا اعلان ہوا ہے یہ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی میں بتائی گئی موجیں ہیں۔
حقیقی واقعہ یوں ہے کہ آئن سٹائن جو محض ایک پیٹنٹ کلرک تھا، ایک دن اپنی کھڑکی کھولے سامنے والی بلند عمارت کو حسبِ معمول یہ سوچتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ اگر کوئی شخص اس عمارت سے نیچے گرے تو وہ کیسا محسوس کریگا؟ بس اتنا سادہ سا سوال اس کے ذہن میں تھا۔
معاً اسے خیال آیا کہ وہ شخص اپنے آپ کو گرتاہوا محسوس نہیں کرےگا۔

آئن سٹائن کے ایسا سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اچانک اس گرتے ہوئے شخص کے گرد ایک بڑا سا کمرہ یا لفٹ نما باکس تصور کیا اور سوچا کہ اگر اس شخص کے پیر لفٹ کے فرش پر ہوں تو وہ کیونکر خود کو گرتاہوا محسوس کریگا؟ بس اتنی سوچ آنے کی دیر تھی کہ آئن سٹائن پر کائنات کی فیبرک کا راز کھل گیا۔ آئن سٹائن نے اعلان کیا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی۔ بلکہ ایک لحاظ سے چیزیں اپنی جگہ ہی رہتی ہیں اور زمین اوپر کو اُٹھ کر ان کی طرف لپکتی ہے یا یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ آسمان چیزوں کو زمین کی طرف نیچے کو دھکیلتاہے۔ اس کے بعد آئن سٹائن نے جنرل تھیوری جو بنیادی طور پر کشش ثقل یعنی گریوٹی کی ہی تھیوری ہے، پر کام شروع کردیا اور بالآخر دنیا کو ایک نہایت حیران کن نظریہ کا تحفہ دے کر انسانی علم کی عظمت کو امر کردیا۔

آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلٹوٹی سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح سورج زمین اور دیگر سیاروں کو اپنی طرف کھینچتاہے۔ اسی طرح ہر بڑا آبجیکٹ چھوٹے آبجیکٹس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اوراس کھینچا تانی میں سیارے ستاروں کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹوٹی نے اس خیال کو بالکل بدل دیا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بھاری اجسام، ہلکے اجسام کو اپنی طرف نہیں کھینچ رہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کائنات ایک خاص قسم کے ریشوں سے بُن کر بنائی گئی ہے۔ یہ خاص قسم کے ریشے ربربینڈ کی طرح لچکدار ہیں۔ انہیں کھینچا جائے تو لمبے ہوجاتے ہیں اور انہیں اندر کی طرف دھکیلا جائے تو سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ ربڑ کے ان دھاگوں سے کائنات کا فیبرک (کپڑا) بُنا گیا ہے۔ اِس فیبرک کی بُنائی میں وہ دھاگے جو اُفقی ہیں ، وہ سپیس(مکان) کے دھاگے ہیں اور وہ دھاگے جو عمودی ہیں وہ ٹائم(وقت) کے دھاگے ہیں۔ اسی وجہ سے اس فیبرک کا نام سپیس ٹائم فیبرک ہے۔ آپ اگر گوگل میں سپیس ٹائم فیبرک کے الفاظ ڈالیں تو آپ اِس فیبرک کی بے شمار تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ آئن سٹائن نے کہا کہ جب کوئی بھاری بھرکم جسم اس فیبرک میں سے گزرتاہے تو وہ جہاں جہاں سے گزرتاہے اُس جگہ کی فیبرک جو کہ اپنی ماہیت میں ربڑ کی طرح سے لچکدار ہے اور جس کے ریشے ربر بینڈکی طرح سے لچکدار ہیں اس بھاری آبجیکٹ کے آس پاس سے سُکڑ جاتی ہے اور اُس آبجیکٹ کے سانچے جیسی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ گُندھے ہوئے آٹے میں ایک گیند دبا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس آٹے میں گیند کے لیے سانچہ نما جگہ بن جاتی ہے۔ سپس ٹائم فیبرک میں بھی ایسی ہی سانچہ نما شکلیں بنتی ہیں، جب کوئی جسم اس میں سے گزرتاہے یا موجود ہوتاہے تو۔

قارئین کو یاد ہوگا ہم بچپن میں کانچ کی گولی (بنٹے) کو کسی بڑے سے پیالے میں ڈال کر پیالے کو اس طرح گول گول حرکت دیا کرتے تھے کہ کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گول گول دائرے میں گھومنے لگتی تھی۔ یا دوسری مثال موت کے کنویں میں چلنے والے موٹرسائیکل کی ہے جو تیزرفتار کی وجہ سےگویا دیواروں کے ساتھ چپک جاتاہے اور اس لیے نیچے نہیں گرتا۔ آئن سٹائن نے بتایا کہ کائنات کی اس فیبرک میں جہاں جہاں بھی ستارے، سیارے یا سیارچے ہیں وہاں وہاں اس فیبرک میں ایک گڑھا سا پڑا ہوا ہے۔ جتنا بھاری کوئی آبجیکٹ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا گڑھا اس فیبرک میں پڑجاتاہے۔ یعنی ہمارا سورج جو ایک بہت بڑا اور بھاری آبجیکٹ ہے اس کے اردگرد کی سپیس ٹائم فیبرک نے بھی ویسی شکل اختیار کررکھی ہے جیسے آٹے میں دبائی ہوئی گیند کے اطراف میں آٹے کی شکل ہوجاتی ہے۔ سورج کی وجہ سے سپیس ٹائم فیبرک میں ایک بہت بڑا گڑھا پیدا ہوگیا ہے۔ اسے گریوٹی ویل (Gravity Well) یعنی کشش ثقل کا کنواں کہتے ہیں۔ ہماری زمین اور دیگر سیارے اُن کانچ کی گولیوں کی طرح ہیں جو پیالے کی دیواروں پر چڑھ کر گردش کرنے لگتی ہیں۔ یا موت کے کنویں کے ان موٹرسائیکلوں کی طرح ہیں جو موت کے کنویں کی دیواروں پر دوڑتے ہیں۔ سورج کے گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کے کنویں میں زمین ایسی ہی ہے۔ لیکن زمین کے اپنے اطراف میں بھی تو اِس فیبرک کے اندر ایسا ہی ایک گڑھا پیدا ہورہاہے۔ ہمارا چاند اُس گڑھے میں پھنسا ہوا ہے۔ اور بالکل ویسی ہی حرکت کررہا ہے جیسی کانچ کی گولی پیالے کی دیواروں پر گردش کے وقت کرتی ہے۔ چاند کے لیے ہماری زمین کا گریوٹی ویل ہی گردش کا باعث ہے۔

آئن سٹائن نے سپیس ٹائم فیبرک کی جو تصویر فزکس کو دکھائی وہ بڑی عجیب و غریب تھی۔ کیونکہ ربربینڈ جیسی لچک ہونے اور پھر فیبرک میں افقی و عمودی ہر دو طرح کے ریشے ہونے کیوجہ سے پوری کی پوری کائنات کے زمان ومکاں کی ساخت ربڑ کی طرح لچکدار ہوجاتی ہے۔ صرف ربڑ کی طرح نہیں بلکہ کسی سیّال مادے کی طرح یا سمندر کی طرح۔ اس فیبرک میں اشیأ کے گرنے سے موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح سمندر میں بھنور پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح اِس فیبرک میں بھی بھنور پیدا ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ فیبرک سمندر سے بھی کہیں زیادہ لچکدار ہے کیونکہ اگر ہم چاہیں تو کسی طرح سپیس ٹائم فیبرک کے دو دُور دراز کے کناروں کو کھینچ کر ایک دوسرے کے نزدیک لائیں اور وہ لاکھوں نوری سال کےفاصلوں کو یکلخت پاٹ کر ایک دوسرے کے اس طرح قریب آجائینگے کہ گویا ایک سے چھلانگ لگا کر دوسرے کنارے پر سوار ہوا جاسکے گا۔ عام طور پر اس بات کو ایک مثال سے سمجھایا جاتاہے۔
آپ ایک بڑا سا کاغذ یا چارٹ ایک میز پر بچھائیں اور اس پر کافی فاصلوں پر دو دائرے لگائیں۔ فرض کریں آپ نے دو فٹ کے فاصلے پر یہ دائرے لگائے۔ تب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک دائرے سے دوسرے دائرے کا فاصلہ دو فٹ ہے۔ لیکن اگر آپ وہی چارٹ اُٹھا لیں اور اسے فولڈ کرلیں یعنی تہہ کرلیں اور اس طرح تہہ کریں کہ اُس پر لگائے گئے دائروں کے نشان ایک دوسرے کے بالکل سامنےآجائیں۔ تب آپ ان میں سوراخ کردیں تو آپ ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں فوراً داخل ہوسکتے ہیں۔ آپ نے کاغذ کو تہہ کردیا۔ اس لیے ان دو دائروں کافاصلہ اب ایک فٹ تو کیا ایک انچ بھی نہیں رہ گیا۔ اسی طرح سپیس ٹائم فیبرک بھی فولڈ ہوجاتی ہے۔اسے ’’سپیس ٹائم وَرپ‘‘ کہتے ہیں۔ یا ایک مثال یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ آپ سمندر میں ایک بڑی موج پر سکیٹنگ کررہے ہیں۔ یہ موج اُوپر کو اُٹھتی ہے اور بہت بلند ہوجاتی ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ اتنے ہی اوپر کو اُٹھتے اور بلند ہوجاتے ہیں۔فرض کریں کہ ایک اور بڑی موج دوسری طرف سے آئی ہے اور وہ بھی اتنی ہی بلند ہے اور آپ چھلانگ لگا کر دوسری موج پر سوار ہوجاتے ہیں۔ تو آپ بہت کم وقت میں سمندر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جمپ کرگئے ہیں۔

سپس ٹائم فیبرک میں موجیں پیدا ہوتی ہیں۔ سپیس ٹائم فیبرک میں بھنور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس فیبرک میں پیدا ہونے والے بھنور کو ماہرین ِ فزکس وارم ہول(S (WORM HOLE یعنی کینچوے یا کیڑے کا سوراخ کہتے ہیں۔ موجیں یا بھنور چونکہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک میں پیدا ہورہے ہیں اس لیے عجیب و غریب چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ یعنی اگر آپ ایک وارم ہول میں ایک طرف سے آج داخل ہوئے ہیں تو امکان ہے کہ آپ دوسری طرف سےنکلیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دور ہو۔ یا پھر اتنا بعید مستقبل ہو کہ آج سے پانچ ہزار سال بعد وغیرہ وغیرہ۔

آج دریافت ہونے والی موجوں کو اگرچہ گریوٹی کی موجیں کہا جاتاہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو گریوٹی نامی کسی شئے کا وجود نہیں ہے بلکہ یہ سپیس اور ٹائم کی فیبرک ہے جس کا وجود ہے اور جو مادے کے قریب اس کی شکل کا سانچہ سا بنا لیتی ہیں اور وہی سانچہ کبھی کبھی گریوٹی ویل یعنی کشش ثقل کا کنواں کہلاتاہے جہاں دیواروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے آبجیکٹس گردش کرتے رہتے ہیں، جسے ہم گریوٹی سجھتے ہیں۔ یہ موجیں چونکہ پوری کائنات میں ہیں اور ہروقت ، ہرطرح کی پیدا ہورہی ہیں اس لیے یہ جس بھی مادی آبجیکٹ کے پاس سے گزرتی ہیں وہ آبجیکٹ بھی کسی لچکدار ربڑ کی گیند کی طرح ان موجوں کے اثر میں تھوڑا سا سُکڑتا یا پھیلتا رہتاہے۔ سائنسدانوں نے آئن سٹائن کی بات مانتے ہوئے فرض کیا کہ زمین بھی ان موجوں کے اثر میں کبھی سُکڑ یا پھیل جاتی ہوگی۔ اسی طرح زمین پر موجود تمام اشیأ بشمول انسان ۔۔۔۔۔۔ ان موجوں کے اثر میں ضرور تھوڑے سے سُکڑ یا پھیل جاتے ہونگے۔ یہ بڑی مزیدار سچوئشن ہے۔ یعنی فرض کریں کسی دور دراز کے بلیک ہول سے ایک گریوٹی ویو آئی اور زمین سے ٹکرائی تو زمین کسی لچکدار گیند کی طرح تھوڑی سی سکڑ گئی اور اس پر موجود چیزیں بھی۔ فرض کریں آپ اس وقت تھوڑے سےلمبے اور پتلے ہوگئے۔لیکن آپ کو پتہ نہ چلا کیونکہ یہ تبدیلی بہت باریک ہوتی ہے۔

گریوٹی ویوز کو دریافت کیسے کیا گیا؟ یہ سوال دلچسپ ہے ۔ وہ سائنسی ادارہ جس نے اعلان کیا کہ گریوٹی ویوز کو دریافت کرلیا گیا ہے اس کانام لائیگو Ligo ہے۔ لائیگو کا طریقہ کار نہایت سادہ ہے جو کسی بھی انسان کو آسانی سے سمجھ آسکتاہے۔ لائگو لیبارٹری دراصل دو بڑے بلکہ لمبے پائپس Pipes پر مشتمل ہے۔ ان پائپس کو انگریزی کے حرف L کی شکل میں جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا دونوں پائپوں کا ایک ایک سرا آپس میں جڑا ہے جبکہ دوسرا سرا کھلا ہے اور ایل کی شکل بنا رہاہے۔ یہ دونوں پائپس لمبائی میں بالکل برابر ہیں۔ دنیا میں لائیگو جیسے برابر پائپ کے دو ٹکڑوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ لائگو کے پائپس کی لمبائی کو ایک ایٹم کے چھوٹے ذرے پروٹان سے بھی کہیں زیادہ باریک سطح پر ایک دوسرے سے لمبا یا چھوٹا نہیں رہنے دیاگیا۔ دونوں پائپس آخری حد تک ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ دونوں پائپس جہاں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں وہاں سے روشنی کی ایک شعاع فائر کی جاتی ہے۔ جو ایک ہی وقت میں بھاگتی ہوئی پائپ کے دوسرے سروں سے ٹکراتی اور پھر وہاں لگے اعلٰی درجے کے آئنوں سے منعکس ہوکر واپس آتی ہے اور پھر اُسی مقام ،جہاں سے چھوڑی گئی تھی پر ایک دوسرے کو کراس کرتی ہے۔ سائنس دانوں نے سوچا کہ اگر دونوں پائپس کو اس طرح برابر رکھا جائے کہ وہ شعاع جب واپس آئے تو دونوں طرف کی شعاعیں آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کینسل کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کامیابی سے جائزہ لیا جاتا رہا کہ وہ آپس میں انٹرفئرنس پیٹرن بنانے کی بجائے ایک دوسرے کو کیسنل کررہی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ وہ شعاعیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انٹرفئرنس پیٹرن بنالیتیں اور ایک دوسرے کو کینسل نہیں کرتیں بلکہ ایک نئی موج کی صورت باہر نصب ایک الگ آئنے پر اپنی موجودگی کا اظہا کرتیں۔ یہی بات اہم تھی۔ یہ سوال کہ جب دونوں پائپوں کی لمبائی کی پیمائش اتنی باریک حد تک ایک دوسرے کے برابر ہے تو پھر ایسا کیوں ہوجاتاہے کہ وہاں شعاعیں ایک دوسرے سےٹکرا کر ایک دوسرے کو کینسل کرنے کی بجائے مزید شعاعیں بنادیتی ہیں تو اندازہ لگایا گیا کہ ضرورکسی وجہ سے یہ دونوں پائپس یا تو اچانک لمبے ہوجاتے ہیں یا چھوٹے۔ سائنسدان جب کسی شئے کی پیمائش کرتے ہیں تو آخری حدتک احتیاط کرتے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسائل ریاضی سے حل کیے جائیں۔ چنانچہ پیمائشیں انتہائی احتیاط سے کرنے کے باوجود بھی جب ایسا ہوتا رہا کہ دونوں پائپوں کی شعاعیں کبھی کبھار انٹرفئرنس پیٹرن بناتیں تو فیصلہ کیا گیا یہ پائپ کسی وقت چھوٹے ہوجاتے ہیں یا لمبے اور ایسا اس لیے ہوتاہے کہ ان پر سے گریوٹی کی ویو گزر جاتی ہے۔

لائگو کا رزلٹ حتمی طور پر گریوٹیشنل ویو ہی ہے، اس بات کا ثبوت کیسے حاصل کیا جائے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے لائیگو کی ایک جڑواں لیبارٹری لگ بھگ نوے کلومیٹر کے فاصلے پر الگ بنائی گئی۔ اور طے پایا کہ اگر ایک ہی وقت میں ایک ہی طرز کی تبدیلی دونوں لیبارٹریوں نے نوٹ کی تو اس کا ایک ہی مطلب ہوگا کہ یہ کوئی بڑی گریویشنل ویو ہی تھی جس کی وجہ سے ایک ہی وقت میں نوے کلومیٹر کے فاصلے پر دو ایک جیسے پائپ مختصر وقت کے لیے ایک ساتھ چھوٹے یا لمبے ہوئے۔ گیارہ فروری 2016 وہ عظیم دن ہے جب واقعی ایسا ہوگیا۔ جب واقعی دونوں لیبارٹریز نے ہی ایک وقت میں ان پائپوں کی پیمائش میں ایک جیسی تبدیلی نوٹ کی۔ فوری طور پر خبر آئی،

On 11 February 2016, the LIGO collaboration announced the detection of gravitational waves, from a signal detected at 09.51 UTC on 14 September 2015 of two ~30 solar mass black holes merging together about 1.3 billion light-years from Earth

یہ گریوٹیشنل ویو دو بڑے بلیک ہولز کے آپس میں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہونے سے پیدا ہورہی ہے اور یہ موج کائنات کے فیبرک میں سفر کرتی ہوئی کسی پانی کی موج کی طرح زمین پر آرہی ہے۔ جسے ہم نے لائیگو میں ڈیٹیکٹ کرلیاہے۔گریوٹیشنل ویو کی دریافت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ تصور کریں کہ جب ہم نے روشنی کی شعاع دریافت کی تو آج تک اس سے کیا کچھ کرلیا؟ ہم آج کائنات کے بارے میں جتنا کچھ جانتے ہیں سب کا سب روشنی برقی مقناطیسی لہروں کی دریافت کا دیا ہوا قرض ہے۔ہم جانتےہیں کہ برقی مقناطیسی لہروں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کنورٹ کیا جاسکتاہے اور ان کےذریعے پیغام رسانی کی جاسکتی ہے۔ اگر کل کو گریوٹیشنل ویو کو بھی برقی مقناطیسی لہروں کے ساتھ کنورٹ کیا جانے لگا یا گریوٹیشنل ویوز کے ذریعے معلومات کی ترسیل یا دیگر ایجادات کا سلسلہ شروع ہوگیا تو کیا کیا امکانات ہیں؟

جونہی ان ویو کی دریافت کا اعلان ہوا مجھے جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ اب اگر ٹائم ٹریول ممکن نہیں بھی ہوسکتا تب بھی ماضی اور مستقبل میں دیکھنا ضرور ممکن ہوجائیگا۔ تصور کریں کہ آپ’’ ٹرائے ‘‘کی جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں تو برقی مقناطیسی لہروں کو گریوٹیشنل ویو کے ساتھ کنورٹ کرکے آپ اپنے ٹی وی کی سکرین پر براہِ راست اس جنگ کے اصلی مناظر دیکھ سکنے کے اہل ہونگے۔کیونکہ ایونٹ ہاریزن پر پیش آنے والا واقعہ گریویٹیشنل ویو کے ساتھ سفر کرتاہوا کائنات میں ماضی اور مستقبل کی کون(Cone)پر پھیلتاہے۔

ایک سوال کہ آئن سٹائن کو کسی بلند عمارت سے گرتے ہوئے شخص کا سوچ کر یہ خیال ہی کیوں آیا کہ کائنات ایک فیبرک ہےیعنی کسی کپڑے کی طرح سے بُنی ہوئی ہے اور اس کے ریشوں کا نام ہے سپیس اینڈ ٹائم؟

یہ سوال دلچسپ ہے اور اس کا جواب اگرچہ بہت سادہ تو نہیں لیکن میں کوشش کرتاہوں کہ سادہ الفاظ میں بیان کرسکوں۔جب آئن سٹائن نےمحسوس کرلیا کہ گرتے ہوئے آبجیکٹس دراصل گِر نہیں رہے بلکہ اُن کا فریم حالتِ اسراع میں یعنی ایکسیلیٹریٹڈ ہے تو اسے سپیس ٹائم فیبرک کا خیال فوراً نہ آگیا بلکہ سب سے پہلے اُسے ایکوئلنس پرنسپل کا خیال آیا۔اس بات کو ہم اس طرح سمجھتے ہیں۔

فرض کریں آپ ایک لفٹ میں ہیں ۔ لفٹ رکی ہوئی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک گیند ہے اور آپ اس گیند کو زمین پر پھینکتے ہیں تو وہ سیدھی لفٹ کے فرش پر آکر گرتی ہے۔اسے کہتے ہیں انرشیل فریم یا نان ایکسیلیریٹڈ فریم۔ اس کے برعکس فرض کریں کہ آپ کی لفٹ یا کمرہ دور خلا میں ہے جہاں آپ گریوٹی لیس ہیں، یعنی چیزیں زمین پر نہیں گرتیں بلکہ خلا میں معلق ہوجاتی ہیں۔ آپ گیند کو ہاتھ سے چھوڑتے ہیں تو وہ وہیں رُک جاتی ہے جہاں آپ نے اسے چھوڑا۔اب فرض کریں کہ آپ کا کمرہ ، باکس یا لفٹ اچانک اوپر کو اُٹھنا شروع ہوجاتی ہے تو کیا ہوگا؟ گیند تو جہاں رُکی ہوئی تھی، وہیں رُکی رہیگی جبکہ نیچے سے کمرہ اوپر کو اُٹھتاچلا آئے گا اور ایک وقت وہ آئے گا جب کمرے کا فرش گیند کو چھو لے گا اور یوں محسوس ہوگا جیسے گیند فرش پر گرگئی۔ اِس فریم کو نان انرشیل فریم یا ایکسیلیریٹڈ فریم آف ریفرنس کہتے ہیں۔ آئن سٹائن نے جب گرتے ہوئے شخص کے بارے میں سوچا تو زمین کی کشش ثقل کو بھی ایسے ہی ایکسیلیریٹڈ فریم آف ریفرنس جیسا تصور کیا۔ تب اُس نے اپنا ایکوئیلنس پرنسپل پیش کیا جس کے مطابق ایک ثقلی فریم یا گریٹویشنل فریم (جیسا کہ زمین کا ہے) اور ایک ایکسیلیریٹڈ فریم پر فزکس کے اصول برابر لاگوہوتے ہیں۔

جب آئن سٹائن نے اتنا سوچ لیا تو پھر اس نے فرض کیا کہ زمین کی کشش کا جنتا اسراع نیوٹن نے دریافت کیا اُسی اسراع کے ساتھ اگر خلا میں کمرہ سفر کررہاہو تو اس پر بھی زمین کے برابر کشش ثقل محسوس ہوگی اور گیند فرش پر 9.8 میٹر فی سیکنڈ کے مربع سے ہی گرے گی جو زمین پر ثقلی اسراع کی مقدار ہے۔ اس کے بعدآئن سٹائن نے اس تمام تر خیال کو روشنی کی شعاع پر فرض کرکے دیکھا۔ تب اُس نے ایک عجیب و غریب نتیجہ اخذ کیا۔ اگر کشش ثقل یہ نہیں ہے کہ زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ یہ ہے کہ چیزوں میں کوئی ثقلی اسراع نہیں ہوتا اور زمین کسی حرکت کرتے ہوئے باکس کی طرح اُن کی طرف خود لپکتی ہے تو پھر روشنی کے شعاع کے ساتھ بھی زمین کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔

اب ہم جانتے ہیں کہ بھاری چیزیں تو زمین پر گرتی ہیں لیکن ہلکی چیزیں ہوا میں ہی تیرتی رہتی ہیں، جیسے کسی کاغذ کا ہوا میں اُڑتے رہنا۔اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع کا وزن نہیں ہوتا تو پھر اُصولاً اُسے زمین پر نہیں گرنا چاہیے تھا۔ یہیں آئن سٹائن کا امتحان تھا۔ کیونکہ اگر زمین خود چیزوں کی طرف بڑھ رہی ہے تو روشنی کی شعاع کی طرف بھی زمین کو خود بڑھنا چاہیے۔ بالفاظ ِ دگر روشنی کی شعاع کو بھی زمین پر گرنا چاہیے۔ چونکہ آئن سٹائن کو یقین تھا کہ اس کا خیال درست ہے چنانچہ اس نے پیش گوئی کی کہ روشنی کی شعاع پر بھی کشش ِ ثقل کا اثر ہوتاہے اور وہ بھی زمین یا بھاری اجسام پر اُسی طرح گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس طرح دیگر اجسام گرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ آئن سٹائن کی اس پیش گوئی کو کہ روشنی کی شعاع بھی ستاروں اور سیاروں کی کشش ِ ثقل کے زیرا ثر گریوٹی ویل میں گرتی ہے، ثابت کرنے کے لیے دشمن ملک کا ایک سائنس دان ایڈنگٹن آگے بڑھا۔دشمن ملک کا سائنسدان اِس لیے کہ اُن دنوں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز تھا ۔ برطانیہ اور جرمنی ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔آئن سٹائن جرمن تھا اور ایڈنگٹن انگریز تھا۔ ایڈنگٹن کو آئن سٹائن کی تھیوری پر تجربہ کرنے کی اجازت تک ، برطانیہ کے سائنس دانوں کی جانب سے نہ مل رہی تھی۔ بڑی کوششوں کے بعد اس نے اجازت حاصل کی اور افریقہ جاکر ایک سورج گرہن کی اس طرح تصویریں لیں کہ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ روشنی کی شعاع فی الواقعہ گریوٹی ویل میں گرتی ہے۔ چنانچہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ روشنی کی شعاع بھی بالکل اسی رُخ پر مُڑ جاتی ہے جس رُخ پر گریوٹی ویل کا سانچہ مُڑ رہاہو تو یہ طے پایا کہ سپیس ٹائم فیبرک کا نظریہ درست ہے اور یہ کہ سپیس ٹائم خط مستقیم نہیں بلکہ کرویچر (Curvature)ہے۔

ایسے ہی بہت سی پیش گوئیوں میں آئن سٹائن نے گریوٹی ویو کی پیش گوئی کی تھی ۔ کیونکہ جب ایک بار سپیس ٹائم کو ایک لچکدار فیبرک سمجھ لیا گیا تو اس میں پیدا ہونے والے موجوں اور لہروں کا فرض کیا جانا بھی ضروری ہوگیا۔ گیارہ فروری کو آئن سٹائن کی گریوٹیشنل ویو والی پیش گوئی بھی طویل اور عرق ریز ریسرچ کے بعد سچ ثابت ہوگئی۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین