سپرپوزیشن اور کوانٹم کمپیوٹرز

سُپر پوزیشن کا یہ بنیادی نکتہ کہ ایک سنگل آبجیکٹ (مثلاً الیکٹران) بیک وقت کئی جگہوں پر موجود ہوتاہے کوانٹم فزکس کا وہ مظہر ہے جس کا ٹھیک ٹھیک تصور قائم کرنا انسانی عقل سے خاصا بعید ہے۔ سپر پوزیشن کا یہ مظہر کائنات میں ہروقت، ہر کہیں، ہر آبجیکٹ کے ساتھ پیش آرہاہے۔ آج تک سائنس نے جتنی ترقی کی، اس میں قدیم ریاضی کا بے پناہ بلکہ نوّے سے زیادہ فیصد دخل رہا۔ لیکن سُپر پوزیشن کی ریاضی بالکل جدید ریاضی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنی ریاضی ہم انسانوں کو آتی ہے کائنات یا فطرت کو اِس سے لاکھوں گُنا زیادہ ریاضی آتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی پودے کے ایک پتے پر سُورج کی روشنی پڑتی ہے تو دیگر مظاہر کے ساتھ ساتھ وہ فوٹوسینتھسز کے عمل کا بھی موجب بنتی ہے۔ کیا ہمارےطاقتور سے طاقتور کمپیوٹرز بھی ایک پتے اور روشنی کے تعلق کی ریاضی کو کیلکُولیٹ کرسکتے ہیں؟ جبکہ کسی بھی پودے کا پتہ یہ جمع تفریق آسانی سے کرسکتاہے۔ کیونکہ روشنی کا ہرذرہ سپرپوزیشن پر ہے اور پتے میں موجود ہر ایٹم کے ذرّات بھی سپر پوزیشن پر ہیں۔ کون سا ذرّہ پتے کے کس ذرّے کے ساتھ جاملیگا یہ فیصلہ ہمارے کمپیوٹروں کے بس کا نہیں لیکن پتے اور روشنی کے درمیان موجود ایک نہایت مضبوط ریاضی کا حصہ ضرور ہے۔

فی زمانہ جو کوانٹم کمپیوٹرز بنائے جارہے ہیں وہ پتے اور روشنی کے درمیان موجود اِس ریاضی کی جمع تفریق کو ٹھیک ٹھیک اخذ کرسکینگے کیونکہ وہ کوانٹم کمپیوٹرز، کوانٹم میکانکس کے اِسی اُصول پر بنائے جارہے ہیں کہ ایک ذرّہ بیک کئی جگہ یعنی سُپر پوزیشن پر ہوسکتاہے۔

ہم اگر سپرپوزیشن کا علم حاصل کرلیں تو ہم جان سکتے ہیں کہ ایک مالیکول میں موجود دو یا دو سے زیادہ ایٹمز آپس میں کس طرح جُڑ کررہتے ہیں۔ ابھی تو ہم یہ جانتےہیں کہ ہائیڈروجن کے ایک مالیکیول میں جو دو ایٹمز موجود ہیں یہ ایک بانڈ کی مدد سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اُدھر سے ہائیڈروجن کا ایک آئن آیا اور اِدھر سے ہائیڈروجن کا ایک آئن گیا اور دونوں درمیان میں اس طرح ملے کہ ہائیڈروجن کے بیرونی مدار میں موجود الیکٹرانز ایک دوسرے کے نزدیک آگئے اور انہوں نے دونوں ایٹمز کو جوڑ دیا۔ لیکن حقیقت پوری طرح ایسے نہیں ہے۔ کیا ان دونوں الیکٹرانز نے دونوں ایٹمز کے درمیان کوئی پڑاؤ سا اختیار کرلیا اور وہاں رُک گئے؟ جسے ہم سِنگل کوویلنٹ بانڈ کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں؟

نہیں۔ دونوں الیکٹرانز سُپر پوزیشن پر ہونے کی وجہ سے دونوں ایٹمز کے چاروں طرف ہرجگہ موجود ہوگئے اور اس لیے مالیکیول ٹھہر گیا، استقرار اختیار کرگیا۔ گویا فی الاصل ہائیڈروجن کے ایٹموں کو آپس میں جوڑکررکھنے والی قوت سپرپوزیشن ہی ہے۔ چنانچہ اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اگر سپرپوزیشن نہ ہو تو ہمارے جسم یکلخت ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ یہ سپرپوزیشن ہی ہے جو ہمارے جسموں کو جسم بناتی ہے۔ کیونکہ ایک مالیکیول میں ایٹمز کا رشتہ الیکٹران کی جس قسم کی حرکت کی وجہ سے قائم رہتاہے وہ سپر پوزشن ہے۔

چنانچہ ہمیں اس طرح سوچنا چاہیےِ کہ یہ کائنات، ساری کی ساری، ایک بہت بڑا کمپیوٹر ہے۔ جو ہمہ وقت پراسیس کررہاہے۔ تو یہ کہلائے گا کوانٹم کمپیوٹر۔ یہ کائنات ایک بہت بڑا کوانٹم کمپیوٹر ہے۔ کیونکہ کوانٹم کمپیوٹر بھی کائنات کے اِسی اُصول کو مدنظر رکھ کر بنایا جارہاہے کہ الیکڑانز جو ہر ایٹم کا لازمی حصہ ہیں سپر پوزیشن پر ہوتے ہیں یعنی بیک وقت کئی جگہ یا ہرجگہ ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے جو کمپیوٹرز بنائے ہیں وہ بائنری سسٹم پر چلتے ہیں۔ یعنی یا ایک یا صفر۔ لیکن کوانٹم کمپیوٹر سپر پوزیشن پر چلتاہے یعنی بیک وقت، ایک بھی اور صفر بھی۔ اس سے پہلے ہم نے جو کمپیوٹر بنائے وہ سادہ سی گنتی گن سکتےہیں اور ہمیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ایک مَکھی جو ایک جگہ سے اُڑی ہے اب دوسری جگہ کہاں جاکر بیٹھے گی؟ لیکن کوانٹم کمپیوٹرہمیں یہ بتاسکے گا۔ ایک کوانٹم کمپیوٹرہمیں یہ بتاسکے گا کہ کسی درخت کا کونسا پتہ روشنی کے کتنے فوٹانز کو اپنے کتنے الیکٹرانوں کے ساتھ کس کس طرح سے ملنے اور تعامل کرنے کی اجازت دیگا۔

کوانٹم کمپیوٹر کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے وہ کھیل دیکھاہواہے، جسے ’’بھول بھلیّاں کہا جاتاہے۔ ہمارے بچپن میں یہ کھیل جنگ اخبار کے سنڈے میگزین میں آیا کرتاتھا اور اس کا نام ہوتا تھا، ’’راستہ تلاش کریں‘‘۔ ایک ایسا بھول بھلیّاں والا کھیل تصور کریں جو بہت چھوٹی چھوٹی دیواروں سے بنایا گیاہو۔ نکلنے کا راستہ صرف ایک ہو لیکن الجھانے والے راستے بے شمار ہوں۔ ان ننھی دیواروں میں اگر ہم ایک چوہے کو چھوڑ دیں تو وہ کبھی اِدھر بھاگے گا اور کبھی اُدھر اور اپنے لیے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کریگا۔ ایک چوہا، صرف ایک چوہا ہوتاہے، اس لیے وہ ہمارے آنکھوں کے سامنے، ایک وقت میں صرف ایک طرف جاسکنے کا اہل ہوگا۔ لیکن الیکٹران چُوھا نہیں ہے۔ الیکٹران سپر پوزیشن پر ہوتاہے۔ اگر ہم تصور کریں کہ اُس بھول بھلیّاں میں ہم نے ایک الیکٹران چھوڑدیا ہے اور اُسے کہا ہے کہ اپنے لیے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرو تو الیکٹران کیا کرےگا؟ الیکٹران بیک وقت تمام راستوں پر چل پڑیگا کیونکہ الیکٹران سپر پوزیشن پر ہوتاہے۔ وہ ایک سے زیادہ الیکٹران جیسے رویے کا مظاہر کرتاہے۔ وہ یہ ثابت کرتاہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود ہوتے ہوئے بھی تعداد میں فقط ایک ہی رہ سکتاہے۔ چنانچہ ہمارے بھول بھلیاں والے کھیل میں ایک الیکٹران اُن تمام راستوں پر بیک وقت چل پڑیگا جو وہاں بنائے گئے ہیں اور آنِ واحد میں اُس راستے کو جان جائیگا جو اصل ہے اور باہر جانے کے لیے ہے۔ مزید زیادہ سادہ زبان میں بات کی جائے تو ہمارے موجودہ کمپیوٹرز، جنہیں بعد میں کلاسیکل کمپیوٹرز کہا جائیگا، بھول بھلیوں کا راستہ، گِنتی گن گن کر ڈھونڈتے ہیں لیکن کوانٹم کمپیوٹر سپرپوزیشن کو کام میں لاکر ، گنتی گننے کے عمل پر وقت صرف کیے بغیر اُسی ایک ہی لمحے میں بتادیگا کہ بھول بھلیاں سے نکلنے کا اصل راستہ کون سا ہے۔

کوانٹم کمپیوٹر کی فطرت کو سمجھنے کے لیے سب سے آسان مثال یہ ہوسکتی ہے۔ فرض کریں ہم حساب کی دو رقموں کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں آسانی کے ساتھ کسی بھی کیلکولیٹر میں جمع کرسکتے ہیں۔ فرض کریں وہ دو رقمیں اِس طرح ہیں،

6654323456

0765487655 +

…….

7419811111

ہمیں ایک عام سا کیلکولیٹر بھی ایک سیکنڈ کے اندر یہ رقمیں جمع کرکے دے سکتاہے۔ لیکن فرض کریں کہ ہم اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری رقم،

7419811111

کون کون سی دو رقموں کا حاصل جمع تھی؟ اس سوال کا جواب ناممکن کے قریب مشکل ہے۔ اگر ہم نارمل کمپیوٹر کو یہ ٹاسک سونپیں تو وہ سالہاسال میں بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اسے ہر ممکنہ کمبینیشن کو علی الترتیب، ایک بار دہرانا ہوگا۔ جبکہ کوانٹم کپیوٹر ، تمام کے تمام امکانات کو ایک ہی لمحے میں دیکھ پائے گا کیونکہ اس کےلیے اِس ’’آؤٹ پُٹ رقم‘‘ کے تمام تر ’’اِن پُٹ امکانات‘‘ یعنی وہ رقمیں جو اعداد میں برابر ہوں اور تعداد میں دو ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سپر پوزیشن پر ہیں۔ وہ پہلی نظر میں ہی سب کو ایک ساتھ دیکھ سکتاہے۔ سب کی سب، کُل کتنی ہوسکتی ہیں، جن سے یہ رقم حاصل ہوئی، کوانٹم کمپیوٹر کو اُس ترتیب کے ساتھ، جس سے عام کمپیوٹر ایسی چیزوں کو دیکھتاہے ، دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ۔ کوانٹم کمپیوٹر کے لیے سب امکانات کو سُپر پوزیشن کی وجہ سے ایک ساتھ دیکھنا ممکن ہے۔ چنانچہ اُن سب میں سے ایسی دو رقمیں چُن کر بتادینا کہ یہی وہ اصل رقمیں تھیں، جن سے حاصل شدہ بڑی رقم ہمیں موصول ہوئی، کوانٹم کمپیوٹر کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ صرف اتنی رقمیں ہی نہ دیکھے گا بلکہ اُسی پل میں دیگر کئی طرح کے امکانات پر بھی اُس کی نظر ہوگی۔

دنیا کی مختلف کمپنیوں اور کوانٹم کمپیوٹرز کے انجنئرز کا خیال ہے کہ وہ آنے والے دو عشروں میں کوانٹم کمپیوٹر بنانے کے قابل ہوجائینگے اور اُن کمپیوٹرز سے مندرجہ ذیل مقاصد حاصل کیے جاسکیں گے،

۱۔ ایسی الیکٹریکل کیبلز جن میں زیرو پرسینٹ انرجی ضائع ہوگی۔

۲۔ ادویات بنانے کے لیے یعنی کیمسٹری اور بائیوکیمسٹری کے تعاملات کنٹرول کرنے کے لیے

۳۔ الیکٹرانکس کے لیے

۴۔ اور توانائی کو محفوظ کرنے کے لیے

۵ میٹریلز اور اُن کے طرزِعمل سے متعلق پیشگوئیاں کرنے کے لیے

۶۔ روبورٹس کو آپٹمائز کرنے کے لیے

۷۔ ڈی این اے کی زبان کو سمجھنے اور کنٹرول کرنے کے لیے

۸۔ اور ہوائی جہازوں کے ڈیزائن بنانے کے لیے

غرض فطرت اپنا حساب کتاب رکھنے کے لیے ہمیشہ کوانٹم کمپیوٹر استعمال کرتی ہے جبکہ ہم انسان ابھی فقط ایک ایک کرکے گننے والی مشین یعنی کانسی کے دور کا کمپیوٹر استعمال کررہے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹر بنانے کا دوسرا اور صاف مطلب یہ ہے کہ ہم وہ کرنے جارہے ہیں جو اِس وقت نیچر کررہی ہے۔

ادریس آزاد

مذکورہ بالا مضموں مدیر: قاسم یادؔ نے شائع کیا۔

قاسم یاد گزشتہ بیس سال سے ادریس آزاد کے ساتھ مختلف علمی ادبی سرگرمیوں میں یوں موجود رہے ہیں جیسے درخت کےساتھ مالی۔انہوں نے ادریس آزاد کے قلم کی سیاہی کو کبھی خشک نہیں ہونے دیا۔ وہ خود ایک نہایت باذوق انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ویب ڈویلپر ہیں۔ ادریس آزاد کے بقول اُن کی تمام کُتب کی اوّلین کتابت قاسم یاد نے کی ہے ۔ یعنی ادریس آزاد نے اپنی کُتب خود نہیں لکھیں بلکہ اِملا کروائی ہیں۔ اصل نام قاسم شہزاد۔ قلمی نام قاسم یاد۔ قاسم یاد اب نہیں لکھتے، لیکن کبھی لکھا کرتے تھے۔ استفسار پر فرماتے ہیں، ’’میرے ابھی پڑھنے کے دن ہیں لکھنے کے نہیں‘‘۔ تحریر: محمد ریاض امین